وکیع بن جراح

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
وکیع بن جراح
 

معلومات شخصیت
پیدائش 1 جنوری 746ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 812ء (65–66 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد جراح بن ملیح   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ سلیمان بن مہران الاعمش ،  عبد الرحمٰن اوزاعی ،  مالک بن انس ،  اسرائیل بن یونس ،  اسماعیل بن ابی خالد ،  حماد بن سلمہ ،  سفیان ثوری ،  سفیان بن عیینہ ،  عبد اللہ بن عون   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ الٰہیات دان ،  محدث ،  مفسر قرآن   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل علم حدیث ،  تفسیر قرآن   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

امام وکیع بن الجراح مشہور محدث اور فقیہ تھے۔ دوسری صدی ہجری میں جن ممتاز اتباع تابعین نے علم وعمل کے چراغ روشن کیے ان میں امام وکیع بن الجراح کو نمایاں حیثیت حاصل ہے،اگرچہ ان کی تصانیف کی عدم شہرت اور نایابی کی بنا پر ان کی شخصیت اہل قلم کی توجہات کا مرکز نہ بن سکی؛ لیکن علم و فضل ،زہد وورع،ذہانت وفطانت اورقوت حافظہ میں ان کی نظیر بہت کم ملتی ہے ،امام وکیع کے علوئے مرتبت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ابن مبارک،ابن معین اورابن مدینی اورامام شافعیؒ جیسے فضلاء روزگار ان ہی کے دامن تربیت کے پروردہ ہیں۔

نام ونسب[ترمیم]

وکیع نام اورابو عبد الرحمن الرواسی کنیت تھی [1] پورا سلسلہ نسب یہ ہے،وکیع بن الجراح بن ملیح بن عدی بن الفرس بن سفیان بن الحارث بن عمر بن عبید بن رواس بن کلاب بن ربیعہ بن عامر بن صعصعہ [2]قبیلہ قیس عیلان کی ایک شاخ رواس کی نسبت سے رواسی کہلاتے ہیں۔ [3] آپ کے بارے میں حافظ شمس الدین ذھبی م 748 لکھتے ہیں الامام الحافظ الثبت محدث العراق احد الائمة الاعلام [4] حافظ ذھبی کا آپ کے بارے میں یہ القابات آپ کے مکانہ پر بہت بڑی دلیل ہے۔

ولادت[ترمیم]

وکیع بن جراح کی ولادت 129ھ بمطابق 746ء میں ہوئی۔ خطیب بغدادی نے وکیع کا قول نقل کیا ہے کہ وہ کہتے تھے۔ ”میری ولادت 128ھ میں ہوئی۔“ اصل کے نیشاپور اور بقول بعض سندھ کے باشندہ تھے۔

نشو ونُما[ترمیم]

امام وکیع 149ھ میں بمقام کوفہ پیدا ہوئے [5] مگر بغدادی نے بسند امام وکیع کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جب ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ کی ولادت کب ہوئی؟ تو فرمایا: ولدت سنۃ ثمان وعشرین ومائۃ [6]میری ولادت 128 ھ میں ہوئی۔ اکثر محققین کی رائے ہے کہ آپ اصلاً کوفی تھے،مگر بعض کا خیال ہے کہ آپ کے مولد ہونے کا شرف نیشا پورکے استواء نامی ایک گاؤں کو حاصل ہے،پیشتر شواہد اور دلائل اول الذکر ہی کو مرجح قرار دیتے ہیں،ممکن ہے کوفہ میں ولادت کے بعد استواء منتقل ہو گئے ہوں۔کان ابی علیٰ بیت المال [7] میرے والدبیت المال کے نگران تھے۔

بطور محدث[ترمیم]

حدیث کے امام اور حافظ وثقہ، زاہد عابد، اکابر تبع تابعین میں سے امام شافعی و امام احمد کے شیخ تھے،فنِ حدیث کے ارکان میں شمار کیے جاتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل کو ان کی شاگردی پر فخر تھا۔ بخاری و مسلم میں اکثر ان کی روایت سے حدیثیں مذکور ہیں۔ فنِ حدیث و رجال کے متعلق ان کی روایتیں اور رائیں نہایت مستند خیال کی جاتی ہیں۔
فقہ کا علم امام ابو حنیفہ سے حاصل کیا اور حدیث کو امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف وزفر و ابن جریح و سفیان ثوری و سفیان بن عینیہ و اور زاعی و اعمش وغیر ہم سے سنااور آپ سے عبد اللہ بن مبارک ویحییٰ بن اکثم وامام احمد بن حنبل ویحییٰ بن معین وعلی بن مدینی و ابن راہویہ و احمد بن منبع اور آپ کے بیٹے سفیان وغیرہ محدثین نے سنا اور اصحاب صحاح ستہ نے آپ سے تخریج کی۔

تحصیلِ علم[ترمیم]

امام وکیعؒ نے اپنے وقت کے تقریباً سبھی علمی سرچشموں سے اپنی علمی تشنگی فرو کی،ان کے زمانہ تک علم سینہ بسینہ رائج تھا،اسی بنا پر تحصیل علم میں جو مشقت اورتکلیفیں علمائے سلف نے اٹھائیں وہ اہلِ نظر سے مخفی نہیں ان حالات میں جب ہم امام وکیعؒ کے اساتذہ کی طویل فہرست پر نظر ڈالتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے علم کی تحصیل کے لیے کتنی مشقت جھیلی ہوگی،مگر اسی سچی لگن اورجذبہ صادق نے انھیں علوئے مرتبت کے اس مقام پر فائز کیا کہ زبانِ خلق نے ان کو امام المسلمین احد ائمۃ الاسلام اورمحدث العراق کے خطابات سے نوازا۔ امام وکیعؒ کے فطری جوہر طالب علمی ہی کے زمانہ میں نمایاں ہونا شروع ہو گئے تھے؛چنانچہ جب وہ امام اعمش کے پاس کسب فیض کے لیے گئے ،تو انھوں نے نام دریافت کرنے کے بعد فرمایا: ما احسب الا سیکون لک نبأ [8] میرا خیال ہے کہ تمھارا مستقبل شاندار ہوگا۔ یحییٰ بن یمان امام وکیع کے عہدِ طالب علمی کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ: نظر سفیان الی عینی وکیع فقال ترون ھذا الرواسی لایموت حتیٰ یکون لہ نبأ [9] سفیان نے امام وکیع کی آنکھوں میں دیکھ کر فرمایا تم لوگ اس رواسی کودیکھ رہے ہو،موت سے پہلے اس کی بڑی منزلت ہوجائے گی۔ اپنے شاگرد کے بارے میں استاذ کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔

زہد ورع[ترمیم]

ابن اکتم کہتے ہیں کہ میں نے حضر و سفر میں آپ کی صحبت کی۔ آپ ہمیشہ روزہ رکھنے اور ہر رات قرآن کا ختم کرتے تھے اور جب تک تیسر ا حصہ قرآن کا نہ پڑھ لیتے نہ سوتے پھر اخیر رات کو اٹھ کھڑے ہوتے۔ یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ میں نے وکیع سے کوئی افضل نہیں دیکھا۔ اس پر لوگون نے کہا کہ کیا ابن مبارک کو بھی نہیں فرمایاکہ ابن مبارک کے بے شک فضل ہے لیکن میں نے وکیع سے کوئی افضل نہیں دیکھا۔ آپ کا دستو ر تھا کہ قبلہ کے سامنے بیٹھ کر حدیث کو یاد کرتے اور رات کو کھڑے ہوتے اور پے در پے حدیث کو لاتے اور امام ابو حنیفہ کے قول پر فتویٰ دیتے اور یحییٰ بن سعید قطان آپ کے قول پر فتویٰ دیتے تھے۔ امام احمد کہتے کہ میں نے علم کا دعویٰ کر نے والا زیادہ تر آپ سے کوئی نہیں دیکھا۔

اساتذہ[ترمیم]

حافظ ذھبی لکھتے ہیں آپ کے استاذہ میں ھشام بن عروہ امام اعمش امام جعفر بن برقان امام اسماعیل بن ابی خالد حضرت سفیان اسی طرح امام اوزاعی بھی شامل ہیں۔[10] خادم الحدیث نوید بن مقبول۔یہ امام ابو حنیفہ کے شاگردِ خاص تھے اور ان سے بہت سی حدیثیں سنی تھیں۔ خطیب بغدادی نے لکھا ہے کہ اکثر امام صاحب کے قول کے موافق فتوی دیتے تھے۔ علامہ ذہبی نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔ وکیع نے ابو حنیفہ سے اختلاف بھی کیا جسے ترمذی اپنی سنن میں لکھے ہیں: "میں نے یوسف بن عیسیٰ کو یہ حدیث وکیع کے حوالے سے روایت کرتے ہوئے سنا، انھوں نے فرمایا کہ اس مسئلے میں اہل رائے کا قول نہ دیکھو اس لیے کہ نشان لگانا (یعنی اشعار) سنت ہے اور اہل رائے کا قول بدعت ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ میں نے ابوسائب سے سنا وہ کہتے ہیں ہم وکیع کے پاس تھے کہ انھوں نے اہل رائے میں سے ایک شخص سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشعار کیا (یعنی نشان لگایا) اور امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ یہ مثلہ ہے، اس پر وکیع غصے میں آگئے اور فرمایا میں تم سے کہتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور تم کہتے ہو کہ ابراہیم نخعی نے یوں کہا، تم اس قابل ہو کہ تمھیں قید کر دیا جائے یہاں تک کہ تم اپنے اس قول سے رجوع کرلو۔"[11]امام وکیع نے مختلف ملکوں کے نامور فضلاء سے فیض حاصل کیا ان میں سے نمایاں اساتذہ کے نام یہ ہیں: اسماعیل بن ابی خالد،ہشام بن عروہ،سلیمان الاعمش ،عبد اللہ بن عون، ابن جریج،اوزاعی،سفیان ثوری،ایمن بن نابل، عکرمہ بن عمار، ثوبہ بن ابی صدقہ،جریر بن حازم خالد بن دینار، سلمہ بن نبیط ،عیسیٰ بن طہمان،مصعب بن سلیم، مسعربن حبیب،اُسامہ بن زید اللیثی،مسطر، حنظلہ بن ابی سفیان، علی بن صالح بن حی، زکریا بن اسحاق،زکریا بن ابی زائدہ ،سعید بن عبید، طلحہ بن یحییٰ ،عبد الحمید بن جعفر،عذرہ بن ثابت، علی بن المبارک،مالک بن مغول،ابن ابی ذئب،ابن ابی لیلیٰ، محمد بن قیس الاسدی،الوراق ،ہشام الدستوائی، ہشام بن سعد، حماد بن سلمہ، سعید بن عبد العزیز التنوخی،سلیمان بن المغیرہ، صالح بن ابی خضرہ ، عبد اللہ بن عمر العمری ،عبد العزیز بن ابی رواد،فضیل بن مرزوق، قرۃ بن خالد، مبارک بن فضالہ ،موسیٰ بن عبیدہ الربذی،ہمام بن یحییٰ،یونس بن ابی اسحاق، ابی بلال الراسبی، یزید بن زیاد۔[12] ایک روایت کے مطابق امام وکیع نے امام اعظم ابو حنیفہ اوران کے ارشد تلامذہ اما م ابو یوسف اورامام ابوزفر سے بھی سماعتِ حدیث کی تھی (الفوائد البیعہ:12،کے تاریخ بغداد:13/471)بغدادی نے بھی لکھا ہے کہ وکیع نے امام ابو حنیفہؒ سے سما ع کیا تھا ‘وکان قد سمع منہ شیئا کثیراً" انھوں نے امام ابو حنیفہ اور ابو یوسف سے بھی حدیث کی سماعت کی تھی۔ اور بغدادی نے ان کا شمار امام ابو حنیفہ کے تلامذہ میں کیا ہے۔ عبد الرحمن اوزاعی اور سفیان ثوری بھی ان کے استاذ تھے۔[13] ضمیری نے بھی ان کا شمار امام اعظمؒ کے تلامذہ کے ساتھ کیا ہے۔ [14]

تلامذہ[ترمیم]

امام و کیعؒ کے تلامذہ کی فہرست بھی بہت طویل ہے،مشہور تلامذہ کے نام یہ ہیں: احمد بن حنبلؒ،ابن المدینی،یحییٰ بن آدم،قتیبہ بن سعید،یحییٰ بن معین، ابو خثیمہ ،زہیر بن حرب، ابوبکر بن ابی شیبہ،احمد بن جعفر الوکیعی،عباس بن غالب الوراق،یعقوب الدورتی [15]عبید اللہ بن ہاشم،ابراہیم بن عبد اللہ القصار [16] احمد بن منیع،حسن بن عروہ [17] اسحاق الحنظلی،محمد بن نمیر، عبد اللہ الحمیدی،محمد بن سلام، یحییٰ بن جعفر ،یحییٰ بن موسیٰ، محمد بن مقاتل، ابو سعید اشبح، نصر بن علی، سعید بن ازہر، ابن ابی عمر ،علی بن حشرم (کتاب الجمع بین رجال الصحیحیں:2/546)یحییٰ بن یحیی نیشا پوری، محمد بن صلاح الدولابی،ابراہیم بن سعد، الجوہری۔[18] حافظ ابن حجرؒ نے ابراہیم بن عبد اللہ القصار کو امام وکیعؒ کا آخری شاگرد بتایا ہے مذکورہ بالا تلامذہ کے علاوہ امام وکیعؒ سے بعض ان مشاہیر ائمہ نے بھی روایت کی ہے جو وکیعؒ کے استاد ہیں یا شیوخ کی صف کے بزرگ ہیں جیسے امام سفیان بن عیینہ اورعبد الرحمن بن مہدی۔

درسِ حدیث[ترمیم]

ان جلیل القدر اساتذہ کے فیض نے ان کو آسمانِ علم کا نیر تاباں بنادیا اور ان کے فضل وکمال کی شہرت دور دور تک پھیل گئی اورمختلف ملکوں کے طلبہ اس منبع علم سے فیضیاب ہونے کے لیے امڈ پڑے،امام وکیع کے حلقۂ درس سے جو فضلاء نکلے ان میں یحییٰ بن آدم،ابن معین اورابن مدینی جیسی یگانہ وقت ہستیاں شامل ہیں اور عبد اللہ بن مبارک جیسے جلیل القدر بزرگ ،جنھوں نے امام ابو حنیفہؒ،امام مالکؒ اورحمید الطویل جیسے ائمہ سے فیض حاصل کیا تھا وہ بھی وکیع سے فخریہ روایت کرتے تھے۔ امام وکیع نے اپنے شیخ سفیان ثوریؒ کی رحلت کے بعد مسند درس کو زینت دی [19] مشہور امام جرح و تعدیل عبد الرحمن بن مہدیؒ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے 35 سال کی عمر میں درس دینا شروع کر دیا تھا، لیکن ابراہیم حربی کا بیان ہے کہ:"حدث وکیع وھو ابن ثلاث وثلاثین سنۃ" یعنی وکیعؒ نے 33 سال کی عمر میں درس کا آغاز کیا تھا۔ وہ جہاں بھی جاتے ان کا حلقہ درس مرجع خلائق بن جاتا اوردوسرے تمام حلقہ ہائے درس ویران نظر آنے لگتے،ابو ہشام رفاعیؒ کہتے ہیں: دخلت المسجد الحرام فاذا عبیداللہ بن موسیٰ یحدث والناس حولہ کثیر فطفت اسبوعاً ثم جئت فاذا عبیداللہ قاعد وحدہ فقلت ماھذا فقال قدم التنین فاخذ ہم یعنی وکیعاً [20] ایک مرتبہ میں مسجد حرام میں گیا تو عبید اللہ بن موسیٰ کو حدیث کا درس دیتے دیکھا ان کے ارد گرد طلبہ کا ہجوم تھا،پھر ایک ہفتہ طواف کے بعد جو آکر دیکھا تو عبید اللہ تن تنہا بیٹھے ہوئے ہیں میں نے پوچھا یہ کیا ہوا انھوں نے کہا ایک اژدہا آگیا ہے جو پورے حلقہ کو نگل گیا،ان کی مراد امام وکیع سے تھی ۔ خطیب نے بھی اس واقعہ کو مزید تفصیل سے لکھا ہے [21]اس کے علاوہ بھی مسجد حرام کے کئی حلقہائے درس،امام وکیعؒ کے مکہ آجانے کے بعد ویران ہو گئے، جن کی تفصیل خطیب نے بیان کی ہے۔

فضل وکمال[ترمیم]

امام وکیعؒ کا فضل وکمال ان کے دور کے علما میں مسلم تھا اور وہ سب ان کے کمالات کے معترف تھے۔ امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ: مارأیت رجلا قط مثل وکیع فی العلم والحفظ والاسناد والا بواب مع خشوع وورع [22]میں نے علم،حفظ،اسناد اورساتھ ہی ساتھ ورع وتقویٰ میں امام وکیع بن جراح کا مثل کسی کو نہیں دیکھا۔ انہی کا دوسرا قول ہے: مارأیت عینی مثلہ قط یحفظ الحدیث جیداً ویذاکر بالفقہ فیحسن مع ورع واجتھاد [23] میری آنکھوں نے امام وکیع کا مثل نہیں دیکھا،وہ حدیث کے بڑے اچھے حافظ تھے، فقہ بھی بہترین پڑھاتے تھے،تقوی اوراجتہاد میں مختار تھے۔ابن عمار کہتے ہیں: ماکان بالکوفۃ فی زمان وکیع افقہ ولا اعلم بالحدیث کان وکیع جھبذاً [24] وکیع کے زمانہ میں کوفہ میں ان سے بڑے فقیہ اورحدیث کو ان سے زیادہ جاننے والا کوئی نہیں تھا،امام وکیع عبقری وقت تھے۔ یحییٰ بن معینؒ فرماتے ہیں: کان وکیع فی زمانہ کا الاوزاعی فی زمانہ [25] امام وکیع کی ان کے زمانہ میں وہی حیثیت تھی جو امام اوزاعی کی ان کے وقت میں تھی۔ ابن ناصرالدین کا قول ہے: ابو سفیان (وکیع)محدث العواق ثقۃ متفق ورع امام ابو سفیان وکیع محدث عراق ثقہ اورمتقی تھے۔ ابن سعد نے انھیں ثقہ،بلند مرتبہ عالم،مامون،کثیر الحدیث اورحجۃ لکھا ہے [26] ان کمالات کی بنا پر وہ امام کوفہ اورمحدثِ عراق کے خطاب سے یاد کیے جاتے ہیں۔

ذہانت اورقوتِ حافظہ[ترمیم]

مبداء فیاض نے امام صاحب کو غیر معمولی قوتِ حافظہ سے نوازا تھا،ان کی ذکاوت وفطانت کے جوہر صغر سنی ہی میں کھلنے لگے تھے،طالب علمی کے زمانہ میں انھوں نے جو حدیث کسی شیخ سے سنی تھی وہ عمر بھر ان کے حافظہ میں محفوظ رہی،ان کی اس خصوصیت پر ائمہ وقت رشک کرتے تھے،قاسم حربی بیان کرتے ہیں کہ سفیان ثوری امام وکیع کو بلا کر پوچھتے کہ رواسی سے تم نے کونسی حدیث سنی ہے، وہ پوری سند کے ساتھ اس کو بیان کردیتے کہ مجھ سے فلاں شخص نے اس طرح حدیث روایت کی ہے،راوی کا بیان ہے کہ سفیان ثوری اپنے شاگرد کی اس حاضر دماغی کو دیکھ کر مسکراتے اورتعجب وحیرت کا اظہار کرتے۔ [27] اپنی قوتِ حافظہ کے بارے میں خود وکیع کا بیان ہے مانظرت فی کتاب منذ خمس عشرۃ سنۃ الا فی ضیفۃ یوماً فنظرت فی طرف منہ ثم اعدتہ علیٰ مکانہ [28] میں نے گذشتہ پندرہ سال کے عرصہ میں سوائے ایک دن کے کبھی کتاب کھول کر نہیں دیکھی اوراس مرتبہ میں بھی بہت سرسری طور سے دیکھا اورکتاب کو پھر اس کی جگہ رکھ دیا۔ اسی قوتِ حافظہ کا نتیجہ تھا کہ درس کے وقت کتاب سامنے نہیں رکھتے تھے؛بلکہ زبانی حدیث کا درس دیتے اور طلبہ اس کو اثنائے درس میں یا اس کے بعد قلمبند کرتے تھے، طالب علمی کے زمانہ میں بھی انھوں نے کبھی حدیثوں کو قلمبند نہیں کیا ؛بلکہ درس کے بعد آکر لکھتے تھے۔ ماکتبت عن سفیان الثوری حدیثاً قط کنت احفظہ فاذا رجعت الی المنزل کتبتہ [29] میں نے سفیان ثوری کے درس کے وقت کبھی حدیث نہیں لکھی ؛بلکہ اس کو دماغ میں محفوظ کرلیتا پھر گھر واپس آکر لکھتا تھا۔ اسحاق بن راہویہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں کا حافظہ تو بتکلف ہے اورامام وکیع فطری حافظ تھے [30]امام وکیع کے لڑکے کا بیان ہے کہ میں نے اپنے والد کے ہاتھ میں کبھی کوئی کتاب اورکاغذ کا ٹکڑا نہیں دیکھا۔ [31] امام موصوف کے نزدیک قوتِ حافظہ کا سب سے بڑا نسخہ معاصی سے اجتناب ہے،اللہ تعالیٰ ہر انسان کو حفظ وفہم کی دولت سے نواز تا ہے،مگر خبائث اورمعاصی کی کثرت اس کو کند کردیتی ہے علی بن خشرم کہتے ہیں کہ میں نے امام وکیع کے ہاتھ میں کبھی کوئی کتاب نہیں دیکھی وہ صرف اپنے حافظہ سے درس دیتے تھے، ان کی حیرت انگیز قوتِ حافظہ دیکھ کر میں نے ان سے کوئی ایسی دوا پوچھی،جس سے حافظہ اچھا ہوجائے،امام صاحب نے فرمایا: ترک المعاصی ماجربت مثلہ للحفظ [32] معاصی سے اجتناب سے بڑھ کر قوت حافظہ کے لیے کوئی چیز میرے تجربہ میں نہیں آئی۔ ایک دفعہ کسی شخص نے سوء حافظہ کی شکایت کی،امام وکیعؒ نے اس کو معاصی سے اجتناب کا مشورہ دیا اورفرمایا : علم خداوند قدوس کا نور ہے،وہ کسی گنہگار اورعاصی کو عطا نہیں کیا جاتا ،درجِ ذیل اشعار میں اسی واقعہ کا ذکر ہے۔ شکوت الی وکیع سوء حفظی فاوصانی الی ترک المعاصی وعللہ بان العلم فضل و فضل اللہ لا یؤتی لعاصی [33]

اخلاقی فضائل[ترمیم]

علمی کمالات کے ساتھ اخلاقی فضائل سے بھی آراستہ تھے،دنیاوی دولت اوروجاہت کی آپ کی نگاہ میں کوئی وقعت نہ تھی اورہمیشہ اس سے دامن بچاتے رہے، خلیفہ ہارون الرشید نے آپ کے سامنے منصب قضاء کی پیشکش کی ،آپ نے اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ [34] ایک مرتبہ محمد بن عامر مصیصی نے امام احمدؒ سے دریافت کیا کہ آپ وکیع سے زیادہ محبت رکھتے ہیں یا یحییٰ بن سعید سے ؟ امام احمدؒ نے جواب دیا میں وکیع کو یحییٰ سے افضل سمجھتا ہوں،کیونکہ انھوں نے حفص بن غیاث کی طرح عہدہ قضا کو قبول کرنے سے گریز کیا تھا، اوریحییٰ نے معاذ بن جبل کی طرح اپنے آپ کو اس منصب کی آزمائشوں میں مبتلا کیا۔ [35] ان کی والدہ نے انتقال کے وقت ایک لاکھ نقد یا اتنی قیمت کی جائداد وراثت میں چھوڑی تھی،وکیع نے کبھی اپنے حصہ کا مطالبہ نہیں کیا،گھر میں جو کھانا اورکپڑا مل جاتا اسی پر قانع وشاکر رہتے،نہ مزید کے لیے مطالبہ کرتے اورنہ اس بارے میں کوئی گفتگو ہی کرتے۔ [36] ایک مرتبہ ایک شخص آپ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ امام اعمش کے حلقہ درس میں آپ نے میری دوات سے روشنائی استعمال کی تھی،اس کی قیمت ادا کیجئے!راوی کا بیان ہے کہ امام موصوف نے بغیر کسی تحقیق اوربحث کے دینار کی ایک تھیلی لاکر اس شخص کو دے دی اور فرمایا کہ مجھے افسوس ہے کہ اس وقت میرے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ [37] خوف وخشیت کا یہ عالم تھا کہ ابن معین کا بیان ہے کہ میں نے وکیع کو اکثر یہ کہتے سُنا"ای یوم لنا من الموت" ہماری موت کس دن ہوگی؟ داؤد بن یحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ عالم رؤیا میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ولی کون لوگ ہوتے ہیں؟ارشاد فرمایاجو لوگ اپنے ہاتھ سے کسی کوضرر نہیں پہنچاتے اوربلاشبہ وکیع انہی میں سے ایک ہیں۔ دولت مند ہونے کے باوجود نہایت سادہ اور معمولی زندگی بسر کرتے تھے،پھر بھی اس خوف سے لرزاں رہتے کہ کہیں خداوندِ قدوس کے یہاں اس "تعیش"کی باز پرس نہ ہو،ان کی جسمانی تروتازگی کی وجہ سے بعض لوگوں کو غلط فہمی تھی کہ وہ عیش وتنعم کی زندگی بسر کرتے ہیں،ایک مرتبہ جب وہ مکہ گئے،تو حضرت فضیل بن عیاض نے جو مشہو زاہد ہیں،انھیں دیکھ کر کہا کہ آپ تو عراق کے راہب ہیں، یہ موٹا پاکیسا؟ فرمایا "ھذا فرحی بالاسلام" یعنی یہ چیز درحقیقت نعمتِ اسلام سے بہرہ ور ہونے کی خوشی اور مسرت کا نتیجہ ہے۔ [38]

عبادت[ترمیم]

ان کی عبادت کی کثرت،رقتِ قلب اورگریہ پر معاصر ائمہ واخیارِ وقت بھی رشک اوراس کی تمنا کرتے تھے،ابراہیم بن شماس کہتے ہیں کہ اگر میں کوئی آرزو کرتا تو وکیع کی عبادت اوررقت کی تمنا کرتا۔ [39] قاضی یحییٰ بن اکثم اورامام وکیع کا سفر و حضر میں بارہا ساتھ رہا ہے،ان کا بیان ہے کہ وکیع ہر شب میں قرآن ختم کرتے تھے [40]ایک دوسرے معاصر یحییٰ بن ایوب بیان کرتے ہیں کہ وہ رات میں ثلث قرآن پڑھنے سے قبل نہیں سوتے تھے اورپھر رات کے آخری حصہ میں بیدار ہوجاتے تھے۔ [41] ان کے شب بیداری اورعبادت گزاری کا رنگ پورے گھر پر چڑھا ہوا تھا اور گھر کا ہر فرد حتیٰ کہ ملازم تک تہجد کے پابند تھے،ابراہیم بن وکیع فرماتے ہیں: کان ابی یصلی اللیل فلا یبقی فی دارنا احد الا صلی حتی ان جاریۃ لنا سوداء لتصلی [42] میرے والد جب رات میں نماز پڑھتے تھے تو ہمارے گھر میں کوئی شخص ایسا نہیں باقی رہتا تھا،جو نماز نہ پڑھتا ہو،حتیٰ کہ ہماری سیاہ فام لونڈی بھی نماز پڑھتی تھی۔

معمولات[ترمیم]

سفیان بن وکیع اپنے والد کے شب وروز کے معمولات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: "میرے والد صائم الدھر تھے،صبح سویرے بیدار ہوجاتے،فجر کی نماز کے بعد مجلس درس شروع ہوجاتی،دن نکلنے تک اس میں مشغول رہتے پھر گھر جاکر ظہر کی نماز تک قیلولہ فرماتے اس کے بعد ظہر کی نماز ادا کرتے پھر عصر تک طلبہ کو قرآن کا درس دیتے اور پھر مسجد آکر عصر کی نماز پڑھتے اوراس سے فارغ ہوکر پھر درس قرآن شروع ہوجاتا اورشام تک مذاکرہ میں منہمک رہتے، پھر مکان تشریف لاکر افطار فرماتے،اس سے فارغ ہوکر نماز پڑھتے تھے۔ [43]

تصنیفات[ترمیم]

متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام وکیع نے درس وتدریس کے ساتھ تالیف وتصنیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا تھا،امام احمد فرماتے ہیں علیکم بمصنفات وکیع [44] امام ابن جوزی کا بیان ہے صنف التصانیف الکثیرۃ [45] انھوں نے بکثرت کتابیں تصنیف کی ہیں۔ وکیع بن جراح کی تصانیف کے سلسلہ میں ارباب سیر اورتذکرہ نگاروں نے خاموشی اختیار کی ہے، چند ایک نام حسب ذیل ہیں: لیکن ان تصنیفات کی کوئی تصریح نہیں ملتی ہے،خیرالدین زر کلی نے لکھا ہے کہ:لہ مصنف فی الفقہ والسنن [46]لیکن صراحت کے ساتھ صرف دو کتابوں کے نام ملتے ہیں۔ (1)مصنف ابی سفیان [47] (وکیع بن الجراح) (2)کتاب السنن۔ [48] مگر آج ان کی کسی تصنیف کی موجودگی کا پتہ نہیں چلتا،یہی وجہ ہے کہ خلیفہ چلپی اورصاحب المعجم نے امام وکیع کی کسی تصنیف کا ذکر نہیں کیا ہے۔

  • تفسیر القرآن
  • السنن
  • المعرفۃ والتاریخ
  • الزہد

وفات[ترمیم]

آپ نے ستر سال کی عمر میں 197ھ بمطابق 812ء میں وفات پائی۔[49]196ھ کے اواخر میں زیارت حرمین کے لیے تشریف لے گئے،حج سے فراغت کے بعد اسہال کی شکایت ہو گئی، اس لیے وطن کا قصد کیا لیکن مرض شدت اختیار کرتا گیا اور کوفہ ومکہ کے درمیانِ مقام فید میں پہنچے تھے کہ پیام اجل آگیا اور علم و فضل کا یہ پیکر اپنے پروردگار کے حضور میں حاضر ہو گیا [50]اس وقت 68سال کی عمر تھی۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (الطبقات الکبیر لابن سعد:6/275)
  2. (الطبقات الکبیر لا بن سعد:6/275)
  3. (الاعلام :3/136 والمستظرفہ:35:وتذکرۃ الحفاظ:1/280)
  4. تذکرۃ الحفاظ ج 1 ص 224.
  5. (صفوۃ الصفوہ:3/104 والانساب للسمعانی:6/1 (جدید اڈیشن حیدرآباد))
  6. (تاریخ بغداد:13/462)
  7. (کتاب الانساب للسمعانی:6/182)
  8. (الانشاب للسمعانی:6/1 (طبع جدید)
  9. (تاریخ بغداد:13/169)
  10. تذکرۃ الحفاظ ج 1 ص 224.
  11. سنن الترمذی 906
  12. (تہذیب التہذیب:11/24،132)
  13. (تاریخ بغداد:13/471)
  14. (الجواہر المضیئہ:2/209)
  15. (الانساب السمعانی:6/181، وتاریخ بغداد:13/467)
  16. (تذکرۃ الحفاظ:1/280)
  17. (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:1/415)
  18. (تہذیب :11/125)
  19. (صفوۃ الصفوۃ:3/104،وتاریخ بغداد:13/468)
  20. (تہذیب التہذیب:11/129)
  21. (تاریخ بغداد:13/479)
  22. (تاریخ بغداد:13/474)
  23. (شذرات الذہب :1/350،وکتاب الانساب للسمعانی:461)
  24. (ایضاً)
  25. (صفوۃ الصفوۃ:3/102)
  26. (طبقات ابن سعد:6/275)
  27. (تہذیب التہذیب:11/128)
  28. (تاریخ بغداد:13/47)
  29. (تاریخ بغداد:13/475)
  30. (کتاب الانساب للسمعانی:261)
  31. (تاریخ بغداد:13/479)
  32. (تہذیب التہذیب:1/129)
  33. (مرأۃ الجنان للیافعی:1/458)
  34. (تاریخ بغداد:13/462 والاعلام:3/1136)
  35. (تہذیب التہذیب:11/125)
  36. (تاریخ بغداد:13/469)
  37. (ایضاً)
  38. (تذکرۃ الحفاظ:1/281،وتہذیب التہذیب:11/130)
  39. (تہذیب التہذیب:1/281،شذرات الذہب:1/350)
  40. (ایضاً)
  41. (سمعانی:1/266وصفوۃ الصفوۃ:3/102)
  42. (تاریخ بغداد:13/471)
  43. (تاریخ بغداد:13/471)
  44. (تذکرۃ الحفاظ:1/218وتہذیب التہذیب:11/126وتاریخ بغداد:13/476)
  45. (صفوۃ الصفوۃ:2/164)
  46. (الاعلام :3/1136)
  47. (المستطرف:35)
  48. (الفہرست:317)
  49. موسوعہ فقہیہ ،جلد3 صفحہ 496، وزارت اوقاف کویت، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
  50. (العبر فی خبر من غبر:1/245)