حکیم ترمذی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمد بن علی ترمذی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 820ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ترمذ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 905ء (84–85 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ترمذ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش خراسان
مذہب اہل سنت
عملی زندگی
دور ؟؟ - 320 هـ
پیشہ الٰہیات دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [2]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل تصوف ،  حنفی   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر ابو عبد الله بن جلاء
احمد بن خضرویہ
متاثر ابو علی جوزجانی

سید محمد المعروف سید ناصر حکیم ترمذی حکیم ترمذی ،عارف ربانی امام الشریعت نظام الحقیقت نصیرالطریقت محدث مفسر متکلم و سلسلہ حکیمیہ کے بانی اور مشہور صوفی بزرگ ، محدث ہیں۔ آپ کی ولادت باسعادت 15 ذیقعدہ 205ھ بمطابق 24 ستمبر 820ء بروز پیر کو ترمذ شہر میں ہوئی۔[3]


سیرت وخصائص

مشائخ و اولیاء میں آپ بہت بلند مقام پر فائز تھے ان کا شمار اکابرین صوفیاں ہوتا ہے اور وہ شیخ عیار اسرار باطنی کا خزانہ تھے وہ بارگاہ الھی کے مستوں میں تھے اور قرب خدا وندی کا شرف حاصل تھا یعنی عارف ربانی امام الشریعت نظام الحقیقت نصیر الطریقت امام اولیاء اور صوفی اوقاد ار بعہ میں سے ایک ہے فن طریقت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا اور ان کے احوال لوگوں سے پوشیدہ تھے حالانکہ ان کی دلیلیں ظاہر نشانیاں واضع اور صحبت میں ان کا حال دیدار سے بھی بہتر تھا صاحب تصنیف بزرگ تھے۔ حدیث پر عبور تھا۔اور محدث مفسر صوفی دانشمند شخص تھے امام ابوحنیفہ کی صحبت کے فیض یافتہ تھے خضرعلیہ السلام سے ملاقات تھی آپ کی تصانیف میں سے ختم الاولیاء ، ’نوادر الاصول من احادیث الرسول‘‘ اور ’’ الریاضۃ و ادب النفس‘ تو یادگار زمانہ کتابیں ہیں۔ آپ نے قرآن پاک کی تفسیر بھی لکھنا شروع کی مگر مکمل نہ کرسکے ؟ ابتدائی زمانہ میں ایک ساتھی طالب علم کے ساتھ طلب علم میں روانہ ہوئے اپنی والدہ ع عا ئشہ سے اجازت حاصل کی، والدہ رو پڑیں اور کہنے لگیں مجھے کس کے حوالے کرتے جا رہے ہو؟ یہ بات آپ کے دل پر اثر انداز ہوئی، سفر کا ارادہ ترک کر دیا، آپ کے ساتھی روانہ ہو گئے پانچ ماہ گذر گئے مگر طلب علم اور حکم والدہ کی کشمکش باقی تھی۔ ایک دن قبرستان میں بیٹھے تھے کہ زار زار رو رہے تھے اور افسوس کر رہے تھے کہ میں نے اپنا قیمتی وقت ضائع کر دیا ہے۔ میرے دوست عالم فاضل بن کر واپس آئیں گے میں ان کے سامنے جاہل اور شرمسار رہوں گا ناگاہ ایک نورانی شکل نمودار ہوئی اور فرمانے لگے علم کے حصول کے لیے یہ بے قراری واقعی قابلِ قدر ہے۔ میں ہر روز یہاں آیا کروں گا اور تمھاری علمی تشنگی دور کرتا رہوں گا تم اپنے ساتھیوں سے پیچھے نہیں رہو گے۔ آپ نے کہا یہ تو آپ کی عنایت ہوگی۔ چنانچہ اس بزرگ نے آپ کو لگاتار تین سال تک پڑھایا۔ یہ ساری محنت اور عنایت ان کے شوقِ علم اور خدمتِ والدہ کے صلے میں تھی۔ حقیقت میں یہ استاد بزرگ حضرت خضر تھے ،تعلیم مکمل ہونے کے بعد حضرت خضر ہفتہ وار تشریف لاتے اور اپنے شاگرد کی مجلس کو تازہ فرماتے۔ ؟ [حوالہ درکار]

تاریخِ وصال

آپ کا سنہ وفات 22 ربیع اول 292ھ مطابق 5 اپریل 905ء بروز بدھ کو مقام جوزجان بلخ افغانستان میں اور تدفین ترمز میں ہوئی ہے۔[4][5] [6]

تصاویر مزار

دو شخصیات

بعض لوگ امام ترمذی اور حکیم ترمذی کو بھی ایک ہی سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ یہ بھی دو شخصیات ہیں امام ترمذی مشہور امام حدیث ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ السلمی الترمذی ( ولادت 209ھ وفات 279ھ) ہیں جو جامع الترمذی اور الشمائل النبویہ کے جامع اور مرتب ہیں-[7]

حوالہ جات

  1. http://www.ibnarabisociety.org/articles/hakimtirmidhi.html
  2. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb124598267 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. Radtke, Bernd, and John O'kane. The Concept of Sainthood in Early Islamic Mysticism: Two Works by Al-Ḥakīm Al-Tirmidhī; an Annotated Translation with Introduction. Psychology Press, 1996. p.15
  4. Karen G. Ruffle (2011)۔ Gender, Sainthood, & Everyday Practice in South Asian Shiʿism۔ Chapel Hill: The University of North Carolina Press۔ صفحہ: 40۔ ISBN 9780807834756۔ In the ninth century, preceding Ibn al-ʿArabi, al-Hakim al-Tirmidhi, a Persian Sufi, developed the first theoretical articulation of the concept of walāyah. 
  5. Shaul Shaked (August 20, 1999)۔ "Quests and Visionary Journeys in Sasanian Iran"۔ $1 میں Jan Assmann، Guy Stroumsa۔ Transformations of the Inner Self in Ancient Religions۔ BRILL۔ صفحہ: 71۔ ISBN 978-90-04-11356-5۔ Another towering Persian Muslim mystic of an earlier generation, al-Hakim al-Tirmidhī (9th century C.E.), wrote an autobiography which is much less schematic and more personal. A unique feature of that autobiography is the fact that it makes ample use of dreams, and what is more unusual: most of the dreams recounted are those of his wife. Still earlier, in the short sayings of another great Muslim mystic of Persian origin, Abū Yazīd al-Bistāmī, written down from oral transmission, we have several examples of a similar schematic movement of life. 
  6. طبقات الشافعیۃ الکبریٰ ۔سفینۃ الاولیاء نوائے حق اردو ہفت روزہ بحوالہ مرات الاولیاء
  7. الاعلام مؤلف: خير الدين زركلی الدمشقی

مزیس دیکھیے