قاضی طلا پشاوری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

قاضی طلا محمدالمعروف طلاؔ پشاوری

ولادت[ترمیم]

قاضی طلا پشاوری کی ولادت 1227ھ 1812ء میں پشاور میں ہوئی

نام و نسب[ترمیم]

آپ کا اسم گرامی قاضی طلا محمد صاحب اور طلاؔ تخلص فرماتے۔ والد کا اسم گرامی قاضی محمد حسن اور اور ـ’’ خان علما‘‘ لقب تھا۔

خاندان[ترمیم]

خاندان:-آپ کا مورث اعلیٰ آخوند ترکمان بن تاج خان مغلیہ بادشاہ اورنگ زیب عالم گیر کے عہد سلطنت میں جنوب مشرقی قندھار کے غوڑہ مرغہ مقام سے پشاور کے علاقہ یوسف زئی میں بمقام امازئی آکر آباد ہوئے۔ چونکہ یہ ایک عالمانہ گھرانہ تھا۔ اس لیے اس علاقہ میں بھی اسی صفت کی وجہ سے اس خاندان کو عزت و تکریم کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ’’ خان علما ‘‘ نے اپنا سارا وقت شاہ شجاع کے ساتھ لدھیانہ، سندھ پشاور اور قندھار میں گزارا۔ بحیثیت، پیش امام، سفیر اور مدار المہام کے رہا۔ قاضی طلا محمد صاحب طلاؔ ’’ خان علما ‘‘ کے تیسرے فرزند تھے۔ انھوں نے اپنی ساری زندگی پشاور میں ہی بالکل سیاست سے الگ و تھلگ رہ کر بسرکی، حکمرانوں کی قربت سے پرہیز کیا۔

اخلاق و عادت[ترمیم]

آپ صاحب اخلاق حمیدہ اور مالک فضائل شریفہ تھے۔ اپنے تمام ہمعصر علما کے ساتھ آپ کے بہت ہی پسندیدہ تعلقات تھے۔ پشاور شہر کے علما کی تاریخ ہائے وفات آپ نے لکھیں، باوجود آزاد مسلک ہونے کے مشائخ پشاور اور سوات کے ساتھ آپ کو عقیدت، محبت اور اخلاص تھا۔ اور مشائخان سوات کے سلسلہ ہائے طریقہ کو نظم کیا۔

علمی خدمات[ترمیم]

آپ نے اپنی تمام عمر علم و ادب کی خدمت میں گزاری، علم حدیث فقہہ، منطق اور ادب کی کتابوں کو مع حواشی مفیدہ کے چھپواتے جو اس وقت ایک نہایت ہی اہم دینی خدمت تھی۔ آپ کی تعریف و توصیف آقا عبد الحی حبیبی ان الفاظ میں کرتا ہے علوم عربی، عربی فارسی ادب، بہتر ین خط و انشاء اور شعر میں (عربی فارسی ) ہر دوزبانوں میں حجت تھے۔ ’’ قاضی صاحب مسلکاً آزاد خیال اہل حدیث تھے۔ سردار ان کابل اور خصوصاً سردار غلام محمد خان صاحب طرزی افغان کے ساتھ آپ کی عالمانہ اور ادبیانہ خط کتابت رہتی ۔

شاعری[ترمیم]

قاضی طلا محمد کا شمار ہندوستان کے مشہور شعرا میں ہوتا ہے۔ پشاور کے ایک معزز و متمول گھرانے میں ان کی ولادت ہوئی۔ سن شعور میں پہنچے تو حصولِ علم کے لیے طویل سفر اختیار کیے۔ عربی شاعری میں خاص مقام حاصل کیا۔ ان کا کلام ’دیوان القاضی طلا محمد البشاوری‘ کے نام سے لاہور سے شائع ہوا ہے جس پر تحقیق و تقدیم پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد اظہر نے کی ہے۔[1]

تصنیفات[ترمیم]

آپ کی یادگار آٹھ کتابیں ہیں۔

  • (1)دیوان فارسی
  • (2) دیوان عربی
  • (3)جواہر النظر
  • (4) صلوٰۃ التقریر فی ترجمۃ التحریر
  • (5) نفحۃ المسک
  • (6) تسلیۃ العقوق فی تحطتئۃ الففول
  • (7)صلواۃ الکیئب لمن لا یحضرہ الحبیب
  • (8) قصیدہ بائیہ عربی در عمل باالحدیث۔ چند قصائد اور منظوم شجرہ ہائے طریقت پر مشتمل ہے۔

وفات[ترمیم]

آپ کی وفات 1310ھ / 1893ء میں واقع ہوئی۔[2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرۃ المشاہیر،ڈاکٹر عبد الغفور راشد
  2. تذکرہ علما و مشائخ سرحد جلد اوّل، صفحہ 158 تا 164،محمد امیر شاہ قادری ،مکتبہ الحسن کوچہ آقا پیر جان یکہ توت پشاور