حفص بن غیاث

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت حفص بن غیاثؒ
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 735ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 810ء (74–75 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش بغداد
کوفہ   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ محدث ،  منصف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حفص بن غیاث: امام ابو حنیفہ کے تلامذۂ محدثین میں سے ہیں۔

نام ونسب[ترمیم]

حفص نام اورکنیت ابو عمر تھی،پورانسب نامہ یہ ہے،حفص بن غیاث بن طلق بن معاویہ بن مالک بن الحارث بن ثعلبہ بن عامر بن ربیعہ بن جثم بن ومبیل بن سعد بن مالک بن النخع [1]یمن کے مشہور قبیلہ مذحج کی نخع نامی ایک شاخ کوفہ میں آباد ہو گئی تھی،اسی خاندانی تعلق کی بناپر نخعی کہلاتے ہیں۔ [2] ولادت 117ھ 735ء:کوفہ میں ہوئی

پورا نام[ترمیم]

پورا نام حفص بن غياث بن طلق بن معاويہ النخعی الأزدی الكوفی ہے، کنیت ابو عمر تھی۔

پیدائش اوروطن[ترمیم]

ابو عمر کی ولادت 117ھ میں ہشام بن عبد الملک کے ایام خلافت میں ہوئی [3]خود ان ہی کی زبانی منقول ہے کہ "ولدت سنۃ سبع عشرۃ وماۃ "[4]کوفہ کی اس مردم خیز سرزمین کو ان کے وطن ہونے کا فخر حاصل ہے،جس کی خاک سے علما وفضلاء کی کئی نسلیں اٹھی تھیں۔

فضل وکمال[ترمیم]

علمی حیثیت سے ابو عمرکا مرتبہ نہایت بلند تھا،انھوں نے مشاہیرتابعین سے فیضِ صحبت حاصل کیا تھا، حدیث وفقہ میں پوری مہارت رکھنے کے ساتھ استغناء وبے نیازی ،حفظ واتقان اورسیرحشمی وفراخ دستی کا پیکر مجسم تھے یحییٰ بن سعید القطان کا قول ہے: اوثق اصحاب الاعمش حفص بن غیاث امام اعمش کے تلامذہ میں حفص بن غیاث سب سے زیادہ ثقہ تھے۔ ابن معین کا بیان ہے کان حفص بن غیاث صاحب حدیث لہ معرفۃ حفص بن غیاث محدث تھے اورانہیں اس میں پوری معرفت حاصل تھی۔ ابن القطان ہی کہتے ہیں کہ میں نے کوفہ میں ان تین کے مثل نہیں دیکھا یعنی حزام،حفص اورابن ابی زائدہ،یہ سب اصحاب حدیث تھے۔ [5]

حدیث[ترمیم]

ابو عمر حفص اکابر حفاظِ حدیث میں شمار کیے جاتے ہیں،ہزاروں روایات انھیں زبانی یاد تھیں،خطیب بغدادی رقمطراز ہیں: کان حفص کثیر الحدیث حافظاً لہ ثبتا فیہ وکان ایضاً مقدماً عند المشائخ،اللذین سمع منھم الحدیث [6] حفص بن غیاث کثیر الحدیث، حافظ اورثقہ تھے،یہاں تک کہ وہ اپنے شیوخ سے بھی بلند مرتبہ تھے۔ امام اعمش کے محبوب اور ارشد تلامذہ میں تھے ؛حتیٰ کہ ان کے حلقۂ درس میں سوائے حفص اورابو معاویہ کے کسی کو سوال کرنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ انھوں نے جن محدثین سے سماع حاصل کیا تھا ان میں امام اعمش کے علاوہ ہشام بن عروہ،یحییٰ بن سعید الانصاری،سفیان ثوری،عاصم الاحول،ابن جریج،اسماعیل بن ابی خالد، عبید اللہ بن عمر، مصعب بن سلیم،ابی مالک الاشجعی،جعفر الصادق ،ابو اسحاق الشیبانی،لیث بن ابی سلیم، مسعر بن کدام وغیرہ کے نام لائق ذکر ہیں۔ اسی تناسب سے ان کے تلامذہ کا دائرہ بھی کافی وسیع ہے، جن میں سے کچھ ممتاز یہ ہیں،عمر بن حفص،ابو نعیم،عفان بن مسلم، احمد بن حنبل،یحییٰ بن معین،علی بن المدینی،ابو خثیمہ،ازہیر بن حرب،حسن بن عرفہ،اسحاق بن راہویہ،یحییٰ بن معین، علی بن المدینی، ابو خثیمہ،زہیر بن حرب،حسن بن عرفہ،اسحاق بن راہویہ،یحییٰ بن یحییٰ النیساپوری،عمرو بن محمد الناقد،ان کے علاوہ کوفہ کے دوسرے تمام محدثین ان سے مستفید ہوئے۔

علمی مقام[ترمیم]

بہت بڑے محدث تھے۔ صحاح ستہ کے راویوں میں شمار ہوتے ہیںخطیب بغدادی نے ان کو کثیر الحدیث لکھا ہے۔ اور علامہ ذہبی نے ان کو حفاظ حدیث میں شمار کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل، علی بن المدینی وغیرہ نے ان سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ یہ اس خصوصیت میں ممتاز تھے کہ جو کچھ روایت کر تے تھے زبانی کرتے تھے۔ کاغذ یا کتاب پاس نہیں رکھتے تھے۔ چنانچہ اس طرح جو حدیثیں روایت کی ان کی تعداد تین یا چار ہزار ہے۔

قاضی[ترمیم]

یہ امام ابو حنیفہ کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ امام صاحب کے شاگردوں میں چند بزرگ نہایت مقرب اور با اخلاص جن کی نسبت تھے وہ فرمایا کرتے تھے کہ "تم میرے دل کی تسکیں اور میرے غم کے مٹانے والے ہو۔" حفص کی نسبت بھی امام صاحب نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے ہیں۔ ہارون الرشید کے دور میں تیرہ برس کوفہ میں اور دو برس بغداد میں قاضی رہے ۔

منصبِ قضا[ترمیم]

ان کی کتابِ زندگی کا سب سے زرین صفحہ قضاوافتاء کے سلسلہ میں ان کی خدمات ہیں،کوفہ وبغداد میں وہ سالہا سال تک اس منصب کی زینت بنے رہے،بغداد کے مشرقی ومغربی حصوں میں ہمیشہ علاحدہ علاحدہ دو قاضیوں کا تقرر ہواکرتا تھا،سب سے پہلے 177 ھ میں خلیفہ ہارون الرشید نے انھیں شرقِ بغداد کے منصب قضا پر فائز کیا تھا،اس وقت قاضی حفص کی عمر 60 سال تھی، دوسال تک وہ بہت شوکت ودبدبہ کے ساتھ بغداد کے قاضی رہے،خلیفہ ان کی بڑی عزت وتکیرم کرتا تھا اوران کے عدالتی فیصلوں کو بہت قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھتا تھا، اسی اثناء میں قاضی حفص نے ایک قرضدار مجوسی سردار کے مقدمہ میں دلائل وشواہد کی بنیاد پر اس کے خلاف فیصلہ دے دیا، 29 ہزار کے اس قرض کا کچھ تعلق امام جعفر سے بھی تھا؛چنانچہ اس نے خلیفہ پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ وہ قاضی حفص کو معزول کر دیں،لیکن ہارون الرشید اس کے لیے کسی طرح تیار نہ ہوا؛بلکہ وہ اس بے لاگ فیصلہ سے اس قدر مسرور ہوا کہ اس نے حفص بن غیاث کو تیس ہزار درہم دئے جانے کا حکم دیا۔ لیکن پھر جب ان کی معزولی کے لیے امام جعفر کا دباؤ حدسے زیادہ ہوا تو ہارون نے ان کو کوفہ کا قاضی مقرر کر دیا،جہاں انھوں نے پوری شان سے 13 سال تک اس منصب کی عزت بڑھائے رکھی۔ قاضی حفص نے کوفہ وبغداد کو ملاکر تقریباً 15 سال تک اس فرض کو انجام دیا، اس طویل مدت میں انھوں نے کبھی بھی اس اعلیٰ عہدہ کی شان سے فروتر کوئی بات نہیں کی، جرأت ، غیر جانبداری،حق گوئی اوربے باکی سے وہ زیر بحث قضایا میں اپنی رائے اور فیصلہ صادر فرمایا کرتے تھے،اس میں نہ تو کسی صاحب اقتداء کی پروا کرتے اورنہ ارباب ثروت کو خاطر میں لاتے ؛بلکہ کتاب وسنت اوردلائل ونظائر کی روشنی میں جوبات قرینِ حق وانصاف معلوم ہوتی اسے بے باکانہ طور پر ظاہر کردیتے تھے۔ ہشام الرفاعی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حفص بن غیاث مسندِ قضا پر بیٹھے ،اپنے کام میں منہمک تھے کہ خلیفہ کا قاصد ان کی طلبی کا پروانہ لے کر حاضر ہوا،قاضی حفص نے اس سے کہا کہ مقدمات سے فارغ ہوکر آؤنگا؛کیونکہ میں عوام کا خادم ہوں ؛چنانچہ وہ اس وقت تک اپنی جگہ سے نہ اٹھے جب تک کہ تمام مقدمات کو فیصل کرکے فارغ نہ ہو گئے۔ اس منصب کی کڑی آزمائشوں سے وہ ہمہ وقت لرزاں رہا کرتے تھے، اوراکثر بلک بلک کر رویا کرتے کہ ایسا گرانبارفریضہ میرے ناتواں کاندھوں پر لاددیا گیا ہے،نہ معلوم اس سے کماحقہ،عہدہ برآہو رہا ہوں یا نہیں،انہی کا قول ہے۔ لان یدخل الرجل اصبعہ فی عینہ فیقتہ لعھا فیری بھا خیرلہ من ان یکون قاضیاً [7] آدمی اپنی انگلی آنکھوں میں ڈال کر اسے نکال پھینکے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ قضا کا کام کرے۔ لیکن یہ حقیقت مسلم ہے کہ انھوں نے عہدٔ قضا کے تمام تقاضوں کو باحسنِ وجوہ پورا کیا، دوسرے قضاۃ میں ان کی نظیر بہت کم ملتی ہے، یہی وجہ ہے کہ محققین نے ان کی اس حیثیت کو بہت نمایاں طور پر اجاگر کیا ہے،امام وکیع سے جب بھی کوئی مسئلہ دریافت کیا جاتا تو فرماتے اذھبوا الیٰ قاضیا فاسئلوہ،ولید بن ابن ابی بدر کہتے ہیں کہ جب قاضی حفص منصب قضا سے سبکدوش ہوئے تو امام وکیع نے فرمایا ذھبت القضاہ بعد حفص ،سجادہ کا بیان ہے کہ حفص پر قضات کا خاتمہ ہو گیا۔

حفظ واتقان[ترمیم]

قاضی حفص کا حافظہ بھی نہایت قوی تھا، ہزاروں حدیثیں مع اسناد ان کے نہاں خانہ دماغ میں محفوظ تھیں، جنہیں اپنے تلامذہ کے سامنے بغیر کتاب روایت کیا کرتے تھے،ابنِ معین کا بیان ہے کہ: جمیع ماحدث بہ حفص یبغداد والکوفۃ انما ھو من حفظہ لم یخرج کتاباً کتبوا عنہ ثلاث الان اور اربعۃ الاف حدیث من حفظہ [8] بغداد اورکوفہ میں حفص نے جتنی بھی حدیثیں روایت کیں سب صرف اپنے حافظہ سے بغیر کتاب کے بیان کیں،لوگوں نے اس طرح ان سے تین یا چار ہزار حدیثیں لکھیں۔ لیکن بعض علما کا خیال ہے کہ قاضی ہوجانے کے بعد ان کے قوتِ حافظہ میں خلل پیدا ہو گیا تھا؛چنانچہ ابو زرعہ کا قول ہے۔ ساء حفئلہ بعدما استقضی فمن کتب عنہ من کتابہ فھو صالح [9] قاضی بن جانے کے بعد وہ سو حافظہ کا شکار ہو گئے تھے اس لیے جوان کی کتاب سے روایت کرلے وہ قابلِ قبول ہے۔

ثقاہت[ترمیم]

حفص بن غیاث کی عدالت وثقاہت پر اکثر علما کا اتفاق ہے؛بلکہ ان کے مرتبہ تثبت واتقان کو بعض نے دوسرے کبار محدثین سے ارفع واعلیٰ قرار دیا ہے، ابو حاتم کا قول ہے "حفص اتقن واحفظ من ابی خالد الاحمر"ابن معین کہتے ہیں "حفص اثبت من عبد الواحد بن زیاد"اس کے علاوہ ابن خراش ،یعقوب بن شیبہ اور عجلی وغیرہ نے بھی بصراحت ان کی توثیق کی ہے، ابن حبان نے بھی کتاب الثقات میں ان کا ذکر کیاہے۔ [10] آخر عمر میں کبر سنی کی بنا پر نسیان کا غلبہ ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے کبھی روایات میں فرق ہوجاتا تھا اوربعض اوقات تدلیس کا شبہ ہوجاتا تھا،ابن سعد رقمطراز ہیں: کان ثقۃ ماموناً کثیرالحدیث الاانہ کان یدلس [11] وہ ثقہ مامون اورکثیر الحدیث تھے مگر وہ تدلیس بھی کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ نسیان سے پہلے حفص بن غیاث کی ثقاہت مسلم تھی۔

کثرتِ احتیاط[ترمیم]

کسبِ حلال میں فرطِ احتیاط کا یہ عالم تھا کہ اپنے عہدۂ قضا کے دوران ایک مرتبہ پندرہ روز تک علالت کی بنا پر فرائض منصبی انجام نہ دے سکے؛چنانچہ صحتیاب ہونے کے بعد سودرہم یہ کہہ کر عامل کو واپس بھجوادئے کہ: ھذہ رزق خمسۃ عشرۃ یوماً لم احکم فیھا بین المسلمین لاحظ لی فیھا [12] یہ ان پندرہ روز کا خرچ ہے جس میں میں نے مسلمانوں کا کوئی فیصلہ نہیں کیا،اس لیے اس رقم کو لینے کا مجھے کوئی حق نہیں۔

استغناء[ترمیم]

قاضی حفص بغداد وکوفہ کے (چیف جسٹس )تھے،جو حکومت کا بلند ترین عہدہ ہے دنیا اوراس کے الوان ونعم ان کے قدموں میں ڈھیر تھے،لیکن ان کی بے نیازی اوراستغنا بھی اس مرتبہ ومقام کی نسبت سے ارفع تھی، سرکاری خزانہ سے انھیں تین سو درہم ماہانہ وظیفہ ملتا تھا، لیکن وہ اس میں سے اپنے جملہ مصارف کے لیے صرف سو درہم رکھ کر باقی مستحقین میں تقسیم کردیتے تھے۔ [13]

سیر چشمی[ترمیم]

اسی کے ساتھ وہ بہت ہی سیر چشم اورسخی واقع ہوئے تھے، ابھی مذکور ہواکہ اپنی تنخواہ میں سے وہ صرف سودرہم رکھتے اوران کو بڑی فراخ دستی کے ساتھ خرچ کرڈالتے تھے،ان کا دسترخوان بڑا وسیع ہوتا تھا، جس میں ان کے تلامذہ کے علاوہ بہت سے مقامی وبیرونی لوگ بھی شریک رہتے تھے،مزید برآں گاہ بگاہ پوری بستی کی دعوت بھی کرتے تھے،امام وکیع کا قول ہے "وکان سخیاً عفیفاً مسلماً" [14]ابو جعفر المسندی کہتے ہیں۔ کان حفص بن غیاث من اسخی العرب وکان یقول من لم یاکل من طعامی لااحد ثہ ،واذا کان یوم ضیافتہ لایبقی راس من الرواسیین حفص بن غیاث عرب کے سب سے زیادہ سخی آدمی تھے،وہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص میرا کھانا نہیں کھائے گا اس سے میں حدیث بیان نہیں کروں گا،جب ان کا یہاں دعوت کا دن ہوتا تو رواس کا کوئی شخص اس میں شرکت سے باقی نہیں رہتا تھا۔ اسی فراخ دستی کا نتیجہ تھا کہ وہ عمر بھر عسرت کا شکار رہے اوررحلت کے وقت نہ صرف یہ کہ ان کے پاس ایک درہم بھی نہ تھا؛بلکہ نوسو درہم کے مقروض نکلے جو ان کے پسماندگان نے ادا کیا۔ [15]

حلیہ[ترمیم]

قاضی حفص کے تفصیل حلیہ کا تو ذکر نہیں ملتا،لیکن ابوبکر بن غیاث کے اس قول سے کچھ روشنی ملتی ہے کہ جتنے نوجوان ہمارے پاس آتے ہیں ان میں حسنِ صورت کے اعتبار سے حفص بن غیاث کا کوئی ہمسر نہیں۔ [16]

وفات[ترمیم]

حفص بن غیاث نے194ھ- 810ء میں وفات پائی۔[17][18] تاحیات ان کی یہ دلی تمنا رہی کہ وفات کے وقت قضاۃ کی زنجیروں سے آزادر ہوں،خداوند قدوس نے ان کی یہ آرزو پوری فرمائی اور وفات کے دو سال قبل عہدۂ قضا سے ان کی علیحدگی کے سامان فراہم کردئے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد فالج کے شکار ہو گئے اور بالآخر امین کے عہدِ خلافت میں 10 ذی الحجہ 194ھ کو ان کی شمع حیات گل ہوئی [19] امیر کوفہ فضل بن عباس نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ [20]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (طبقات ابن سعد:6/272)
  2. (کتاب الانساب:557)
  3. (تذکرۃ الحفاظ:1/272،وابن سعد:6/272)
  4. (تاریخ بغداد:8/200)
  5. (تاریخ بغداد:8/197،198)
  6. (ایضاً:194)
  7. (اخبار القضاۃ:3/184)
  8. (تذکرۃ الحفاظ:1/272،ومیزان الاعتدال:1/266)
  9. (خلاصہ تذہیب تہذیب الکما:80)
  10. (تہذیب التہذیب:3/417)
  11. (طبقات ابن سعد:6/272)
  12. (تاریخ بغداد:8/191)
  13. (اخبار القضاۃ:3/184)
  14. (تاریخ بغداد:8/194)
  15. (تذکرۃ الحفاظ:1/272)
  16. (تہذیب التہذیب:2/417)
  17. الطبقات الكبرى مؤلف: ابو عبد الله محمد بن سعد المعروف بابن سعد ،ناشر: دار صادر - بيروت
  18. سير اعلام النبلاء مؤلف : شمس الدين ابو عبد الله محمد بن احمد بن عثمان بن قَايْماز الذہبی
  19. (طبقات ابن سعد:6/272)
  20. (تاریخ بغداد:8/200)