عمران بن حصین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عمران بن حصین
معلومات شخصیت
مقام پیدائش مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 673ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ محدث ،  شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عمران بن حصین آپ مشہور صحابی ہیں۔

نام و نسب[ترمیم]

عمران بن حصین کی کنیت ابو نجید ہے اوریہ قبیلہ بنو خزاعہ کی ایک شاخ بنو کعب کے خاندان سے ہیں اس لیے خزاعی اورکعبی کہلاتے ہیں۔ عمران بن حصین بن عبید بن خلف بن عبدنہم ابن خدیفہ بن جھمہ بن غاضرہ بن جیشہ بن کعب بن عمروالکبعی۔

اسلام[ترمیم]

عمران بن حصین میں جنگ خیبرکے سال ابوہریرہ کے ساتھ اسلام لائے مسلمان ہوئے۔ عمر فاروق نے اپنی خلافت کے دوران ان کو اہل بصرہ کی تعلیم کے لیے مقررفرمایا تھا۔ محمد بن سیرین محدث فرمایا کرتے تھے کہ بصرہ میں عمران بن حصین سے زیادہ پرانا اورافضل کوئی صحابی نہیں۔ ان کی پوری زندگی مذہبی رنگ میں رنگی ہوئی تھی طرح طرح کی عبادتوں میں بہت زیادہ محنت شاقہ فرماتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ساتھ اتنی والہانہ عقیدت تھی اورآپ کا اتنا احترام رکھتے تھے جس ہاتھ سے انھوں نے رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی تھی اس ہاتھ سے عمر بھر انھوں نے پیشا ب کا مقام نہیں چھوا۔ تیس برس تک مسلسل استسقاء(چلنے پھرنے سے معذور) کی بیماری میں صاحب فراش رہے اورشکم کا آپریشن بھی ہوا مگر صبر و شکر کا یہ حال تھا کہ ہر مزاج پرسی کرنے والے سے یہی فرمایا کرتے تھے کہ میرے خدا کو جو پسند ہے وہی مجھے بھی محبوب ہے ۔

غزوات[ترمیم]

گو عمران وطن میں رہتے تھے،لیکن ذوق جہاد میں غزوات کے موقع پر مدینہ پہنچ جاتے تھے؛چنانچہ فتح مکہ میں آنحضرتﷺ کے ہمرکاب تھے اوران کا قبیلہ کا علم ان ہی کے ہاتھ میں تھا [1] اس کے بعد حنین اور طائف کے غزوات میں شریک ہوئے،حضرت ابوبکرؓ کے سریہ میں بھی ہمراہ تھے۔ [2]آنحضرتﷺ کی زندگی بھر برابر مدینہ آتے جاتے رہے تھے،آپ کی وفات کا دل پر اتنا اثرہوا کہ مدینہ آنا چھوڑدیا اورگوشہ نشینی کی زندگی اختیار کرلی اور حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں کسی چیز میں حصہ نہیں لیا،حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب بصرہ آباد ہوا تو یہاں منتقل ہو گئے اورگھر بنا کر مستقل اقامت اختیار کرلی،حضرت عمرؓ نے فقہ کی تعلیم کی ذمہ داری ان کے سپرد کی۔ [3] حضرت عمرؓ کے بعد جب خانہ جنگی کا دروازہ کھلا تو بہت سے صحابی ا س میں مبتلا ہو گئے؛ لیکن عمران آخر تک اس سے محفوظ رہے۔ [4] بنی امیہ کے زمانہ تک زندہ رہے،زیاد نے خراسان کی گورنری پیش کی، عمران نے انکار کر دیا، دوستوں نے پوچھا اتنا بڑا عہدہ کیوں مسترد کر دیا، کہا مجھ کو یہ پسند نہیں کہ میں تو اس کی گرمی میں نماز پڑھوں اور تم لوگ اس کی ٹھنڈک میں، مجھ کو خوف ہے کہ جب میں دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہوں اس وقت زیاد کا کوئی ناواجب الطاعۃ فرمان پہنچے،ایسی حالت میں اگر اس کی تعمیل کروں تو ہلاک ہوجاؤں اور اگر لوٹ آؤں تو گردن ماری جائے۔ [5]

فرشتوں کا سلام[ترمیم]

آپ کو فرشتے سلام کرتے تھے،ایک دوست آپ کی حالت زار دیکھ کر رونے لگے،آپ نے فرمایا اگر تم کو میری اندرونی حالت کی خبر ہوتی تو تم مجھ پر خوشی حاصل کرتے مجھے فرشتے برملا سلام کرتے ہیں انھیں جواب دیتا ہوں،اس لذت میں مجھے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی،میری زندگی میں یہ بات کسی سے نہ کہنا۔[6]

علالت[ترمیم]

عمران کی صحت نہایت خراب تھی، آخر میں استسقاء کا مرض ہو گیا تھا،لوگوں نے مشورہ دیا کہ داغنے سے فائدہ ہوگا، لیکن وہ آنحضرتﷺ سے داغنے کی ممانعت سن چکے تھے، اس لیے رضا مند نہ ہوئے،مرض برابر بڑھتا گیا،آخر میں یہاں تک نوبت پہنچ گئی کہ پیٹ میں شگاف ہو گیا،لیکن اس حالت میں بھی وہ فرمانِ رسول کے خلاف عمل کرنے پر آمادہ نہ ہوئے، احباب نے کہا تمھاری حالت دیکھی نہیں جاتی تمھارے پاس کس طرح آئیں،فرمایا نہ آؤ؛ لیکن جو چیز خدا کے نزدیک نا پسندیدہ ہے،اس کو میں کسی طرح پسند نہیں کرسکتا [7]آخر میں جب تکلیف ناقابل برداشت حد تک پہنچ گئی تو ابن زیاد کے اصرار سے راضی ہو گئے ؛لیکن سخت نادم وشرمسار تھے۔ [8] جب زندگی سے مایوس ہو گئے تو تجہیز وتکفین کے متعلق یہ ہدایت دی کہ جنازہ جلدی جلدی لے چلنا،یہود کی طرح آہستہ آہستہ نہ لے چلنا،جنازہ کے پیچھے آگ نہ جلانا،نالہ وشیوں نہ کرنا ،قبر مربع چار بالشت اونچی رکھنا، دفن کرکے واپس ہوکر کھانا کھانا،نالہ وشیون کے روکنے میں اتنی سختی برتی کہ اپنے متروکہ مال میں بعض اعزہ کو وصیت کی تھی اس وصیت میں یہ شرط کردی تھی کہ جو عورت نالہ وشیوں کرے گی، اس کے متعلق وصیت منسوخ ہوجائے گی۔ [9]

وفات[ترمیم]

52ھ میں بمقام بصرہ آپ کا وصال ہوا۔[10]

اولاد[ترمیم]

لڑکوں میں محمد خلف الصدق تھے،باپ کے بعد یہ بصرہ کی مسند قضا پر بیٹھے۔ [11]

فضل وکمال[ترمیم]

عمران فضل وکمال کے لحاظ سے ممتاز ترین صحابہ میں تھے،علامہ ابن عبد البر لکھتے ہیں،کان من فضلاء الصحابۃ وفقہا ئھم عمران فضلاء اورفقہائے صحابہ میں تھے[12]بصری اصحاب کی جماعت میں کوئی صحابی ان کا ہمسر نہ تھا، محمد بن منکدر بیان کرتے ہیں کہ بصری صحابیوں میں کوئی عمران سے بلند نہ تھا [13] مشہور صاحب علم تابعی حضرت حسن بصری فرماتے تھے کہ عمران بن حصین سے بہتر آدمی ہمارے یہاں نہیں آیا۔ عمران مشرف باسلام ہونے کے بعد اپنے وطن لوٹ گئے تھے،لیکن وقتاً فوقتاً مدینہ جایا کرتے تھے، اس لیے احادیث نبوی کے سننے کے مواقع برابر ملتے رہے، اس لیے ان کے حافظہ میں اتنی حدیثیں محفوظ تھیں کہ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر میں چاہوں تو دودنوں تک مسلسل حدیثیں بیان کرتا رہوں اوران میں ایک بھی مکرر نہ ہو [14]لیکن اس علم کے باوجود ان کی مرویات کی تعداد (130) حدیثوں سے زیادہ نہیں ہے [15] اس کا سبب یہ ہے کہ روایتِ حدیث میں وہ حد درجہ محتاط تھے،عام طور پر حدیث بیان کرنے سے گریز کرتے تھے اورجب بدرجہ مجبوری اس کی نوبت آتی تو بہت سنبھل کر بیان کرتے،کہا کرتے تھے کہ میں حدیث کم بیان کرتا ہوں کہ میں نے بہت سے رسول اللہ کے ایسے اصحاب کو دیکھا ہے،جنھوں نے میری طرح آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضری دی اور میرے ہی برابر حدیثیں سنیں،لیکن جب وہ کوئی حدیث بیان کرتے ہیں،تو الفاظ میں کچھ نہ کچھ رد وبدل ضرور ہوجاتا ہے،اگرچہ وہ اچھی نیت سے بیان کرتے ہیں اس لیے مجھے خوف معلوم ہوتا ہے کہ ان ہی کی طرح مجھے بھی دھوکا نہ ہو [16]جس درجہ میں حدیث حفظ ہوتی اس کا بھی اظہار کردیتے ،جس میں حافظہ پر کامل اعتماد نہ ہوتا تو کہتے کہ جہاں تک میرا خیال ہے میں نے صحیح بیان کی اور اگر پورا یقین ہوتا تو کہتے یہ حدیث آنحضرتﷺ کو اس طرح بیان فرماتے ہوئے سنا ہے ان کے تلامذہ میں نجید بن عمران، ابوالاسود، ابورجاء العطاروی،ربعی ابن خروش، مطرف یزید،حکم بن اعرج،زہدم جرمی، صفوان بن محرز،عبد اللہ بن رباح، الصاری وغیرہ لایق ذکر ہیں۔ [17]

حلقہ درس[ترمیم]

گو حضرت عمرانؓ حدیثوں کے بیان کرنے میں بہت محتاط تھے،لیکن ان کی اشاعت بھی ضروری فرض تھا،اس لیے احتیاط کے ساتھ اس فرض کو بھی انجام دیتے تھے، اوربصرہ کی مسجد میں مستقل حلقۂ درس تھا، بلال بن سیاف بیان کرتے ہیں کہ مجھ کو بصرہ جانے کا اتفاق ہوا مسجد میں دیکھا کہ لوگ ایک سپید موبزرگ کے گرد حلقہ باندھے ہوئے ہیں، اوروہ ٹیک لگائے ہوئے،ان لوگوں کو حدیثیں سنا رہے ہیں،دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ عمران بن حصین صحابی ہیں۔ [18] ان کی ذات مرجع خلائق تھی اور بڑے بڑے صحابہ ان کے تفقہ کے قائل تھے، ایک مرتبہ کسی نے آکر پوچھا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیں، ایسی صورت میں وہ مطلقہ ہوئی یا نہیں، جواب دیا طلاق دینے والا گنہگار ہوا،لیکن عورت مطلقہ ہو گئی ،مستفتی مزید تصدیق کے لیے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کے پاس گیا اوران کو عمران کا جواب سنایا انھوں نے کہا خدا ہماری جماعت میں ابو نجید کے جیسے بہت سے آدمی پیدا کر دے [19]جس راستہ سے گذرتے لوگ مسائل دریافت کرتے،ابو نفرہ کو نماز سفر کے متعلق کچھ پوچھنے کی ضرورت پیش آئی، اتفاق سے عمران نے مفصل جواب بتایا۔ [20]

احترام رسول[ترمیم]

آنحضرتﷺ کے ساتھ اتنی گہری عقیدت اورآپ کا اتنا احترام تھا جس ہاتھ سے آنحضرتﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کی اس سے عمر بھر پیشاب کا مقام نہیں مس کیا۔

پابندی اسوۂ رسول[ترمیم]

عمل میں اسوۂ رسول پیش نظر رہتا تھا، ابن زیاد نے محصل خراج کا عہدہ پیش کیا اس عہدہ کو تو قبول کر لیا، لیکن جب خراج وصول کرکے واپس ہوئے ،تو ایک درہم بھی ساتھ نہیں لائے،پوچھا گیا،خراج کی رقم کیا کی،جواب دیا جس طرح رسول اللہ کے زمانہ میں وصول ہوتا تھا اس طریقہ سے وصول کیا اورجن مصرفوں میں خرچ ہوتا تھا ان میں صرف کر دیا۔ اوپر گذر چکا ہے کہ زیاد نے خراسان کی گورنری پیش کی تھی،لیکن آپ نے محض اس لیے اس کے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ زیاد کا ہر واجب وناواجب حکم ماننا پڑے گا،ان کے انکار پر حکم بن عمرو غفاری نے قبول کر لیا،عمران کو معلوم ہوا تو ان کو بلاکر کہا کہ مسلمانوں کی بہت بڑی ذمہ داری تمھارے سپرد کی گئی ہے ،پھر انھیں مفید پند و نصائح کیے اور آوامر ونواہی پر کار بند ہونے کی ہدایت کرکے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث سنائی کہ خدا کی معصیت میں کسی بندہ کی فرماں برداری نہ کرنی چاہیے [21] یعنی زیاد کی اطاعت میں خدا اور رسول کے خلاف عمل نہ کرنا۔ عام طور پر لباس بہت سادہ استعمال کرتے تھے،لیکن کبھی کبھی تحدیثِ نعمت اور اظہار تشکر کے لیے بیش قیمت کپڑا بھی زیب تن کرلیتے تھے،ایک مرتبہ خلافِ معمول خز کی چادر اوڑھ کرنکلے،اورکہنے لگے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب خدا کسی بندہ پر احسان وانعام کرتا ہے تو اس کا ظاہری اثر بھی اس پر ہونا چاہیے۔ [22]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (اصابہ:5/27)
  2. (مسند احمد بن حنبل:4/430)
  3. (ابن سعد،جزو7،ق1،ص5)
  4. (اصابہ:5/27)
  5. (مسند احمد بن حنبل:5/66)
  6. اشعۃ اللمعات
  7. (ابن سعد،جلد7،ق اول،تذکرہ عمران ،شگاف کا تذکرہ اسد الغابہ کی روایت میں ہے، جلد4:138)
  8. (اصابہ:5/27)
  9. (اسد الغابہ:4/138)
  10. اسدالغابہ،ج4،ص137
  11. (ابن سعد،جلد7،قاول،تذکرہ عمران)
  12. (استیعاب:2/468)
  13. (مستدرک:3/471)
  14. (مسند احمد بن حنبل:4/433)
  15. (تہذیب الکمال:295)
  16. (مسند احمد بن حنبل:4/433)
  17. (تہذیب التہذیب:8/116)
  18. (ابن سعد،جلد7،ق اول،ص:5)
  19. (مستدرک حاکم:3/472)
  20. (مسند احمد بن حنبل:4/440)
  21. (مسند احمد بن حنبل:5/66)
  22. (ابن سعد،7،ق1:5)