ولید ابن الولید

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ولید ابن الولید
 

معلومات شخصیت
والد ولید بن مغیرہ   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی

ولید بن ولید خالد بن ولید کے بھائی تھے۔

نام ونسب[ترمیم]

ولید نام ، سلسلہ نسب یہ ہے، ولید بن ولید بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم القرشی، مشہور صحابی خالدبن ولید اور آپ ایک ہی ماں کے بطن سے تھے۔[1]

بدر کی شرکت اور گرفتاری[ترمیم]

غزوہ بدر میں مسلمانوں کے مخالف مشرکین کے ساتھ لڑنے نکلے اور شکست کھا کر عبد اللہ بن جحش کے ہاتھوں گرفتار ہوئے،دونوں بھائی خالد بن ولید اور ہشام بن ولید چھڑانے کے لیے آئے،عبد اللہ بن جحش نے چار ہزار زرفدیہ طلب کیا، خالد کو اتنی بڑی رقم دینے میں تردد ہوا، ہشام نے کہا تم کو کیا لاگ ہوگی، تم تو ان کے بھائی ہو نہیں، اگر عبد اللہ اس سے بھی زیادہ مانگیں تو بھی چھڑانا ہے،دوسری روایت یہ ہے کہ آنحضرت نے رہائی کے معاوضہ میں نقد کی بجائے ان کے والد کی زرہ، تلوار اور خود طلب کی، مجبوراً یہ قیمت بھی ادا کی اور گلو خلاصی کے بعد بھائیوں کے ساتھ گھر روانہ ہو گئے۔ذوالحلیفہ پہنچ کر بھاگ آئے اور آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف باسلام ہو گئے،دوبارہ جب بھائی سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا،جب تم کوا سلام ہی لانا تھا تو پھر فدیہ کے قبل کیوں نہ مسلمان ہو گئے، خواہ مخواہ والد کی نشانیاں بھی ضائع ہوئیں اور کوئی نتیجہ نہ نکلا، کہا اس وقت اس لیے اسلام نہیں لایا کہ میں بھی اپنے قبیلہ کے لوگوں کی طرح فدیہ دے کر آزاد ہونا چاہتا تھا، تاکہ قریش کو یہ طعنہ دینے کا موقع نہ ملے کہ ولید فدیہ کے ڈر سے مسلمان ہو گیا۔

قبول اسلام[ترمیم]

جب ولید ذوالحلیفہ پہنچے تو بھاگ کر واپس آئے اور آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف باسلام ہو گئے ، دوبارہ جب بھائی سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا،جب تم کوا سلام ہی لانا تھا تو پھر فدیہ کے قبل کیوں نہ مسلمان ہو گئے، خواہ مخواہ والد کی نشانیاں بھی ضائع ہوئیں اور کوئی نتیجہ نہ نکلا، کہا اس وقت اس لیے اسلام نہیں لایا کہ میں بھی اپنے قبیلہ کے لوگوں کی طرح فدیہ دے کر آزاد ہونا چاہتا تھا، تاکہ قریش کو یہ طعنہ دینے کا موقع نہ ملے کہ ولید فدیہ کے ڈر سے مسلمان ہو گیا۔ [2]

قید و سختیاں[ترمیم]

اسلام لانے کے بعد مکہ لوٹ گئے ،براستہ میں بھائیوں نے تو کوئی تعرض نہ کیا مگر مکہ پہنچ کر دوسرے مسلمانوں کی طرح ان کو بھی قید کر دیا اور عیاش بن ابی ربیعہ اور سلمہ بن ہشام کے ساتھ طوق و سلاسل کی نگرانی میں دن کاٹنے لگے، بدر کے قبل آنحضرت عیاش اور سلمہ کے لیے دعا فرماتے تھے، غزوہ بدر کے بعد جب ولید قید ہوئے تو ان کے لیے بھی دعافرمانے لگے۔

قید سے فرار[ترمیم]

عرصہ تک قید و بند کی مصیبتیں جھیلتے رہے، ایک دن موقع پاکر نکل بھاگے اور سیدھے مدینہ پہنچے، آنحضرت نے عیاش اور سلمہ کا حال پوچھا ،عرض کیا ان پر بہت سختیاں ہو رہی ہیں، ایک بیڑی میں دونوں کے پیر ڈال دیے گئے ہیں، فرمایا تم واپس جاؤ، وہاں کا لوہار اسلام قبول کرچکا ہے،اس کے یہاں ٹھہرو اورقریش کی آنکھ بچا کر خفیہ عیاش اورسلمہ کے پاس پہنچو اوران سے کہو کہ میں رسول اللہ کا فرستادہ ہوں میرے ساتھ نکل چلو۔

ایک کارنامہ[ترمیم]

اس فرمان کے مطابق یہ مکہ پہنچے اور عیاش وسلمہ سے مل کر ان کو آنحضرت کا پیام سنادیا،یہ دونوں نکل کر ساتھ ہو گئے، قریش کو خبر ہوئی تو خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ لوگوں کو لے کر تعاقب کیا، مگر ناکام رہے اور یہ مختصر قافلہ بخیر و خوبی مدینہ پہنچ گیا۔[3]

عمرۃ القضا اور خالد کا اسلام[ترمیم]

عمرۃ القضا میں آنحضرت کے ہمرکاب تھے خالد اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے،اس لیے کہیں روپوش ہو گئے تھے؛کہ آنحضرت اور صحابہؓ کا سامنا نہ ہو، آپ نے ولیدؓ سے فرمایا اگر خالد میرے پاس آئے تو میں ان کا اعزاز واکرام کرتا، مجھ کو سخت تعجب ہے کہ ان کے ایسے زیرک ودانا شخص کے دل میں ابھی تک اسلام کا اثر نہیں ہوا؛چنانچہ ولید نے خالدؓ کو خط لکھا، اس خط سے انکا دل اسلام کی طرف مائل ہو گیا اوریہ میلان آئندہ چل کر اسلام کی شکل میں ظاہر ہوا۔[4]

وفات[ترمیم]

وفات کے متعلق دو روایتیں ہیں،ایک یہ کہ جب سلمہ اور ہشام کو چھڑاکر واپس ہو رہے تھے تو مدینہ سے کچھ فاصلہ پر اس قسم کے صدمات پہنچے کہ مدینہ آتے آتے انتقال کر گئے ؛لیکن ارباب سیر کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ عمرۃ القضا میں موجود تھے،علامہ ابن عبد البر لکھتے ہیں۔ والصحیح انہ شھد مع رسول اللہ عمرۃ القضاۃ اور عمرۃ القضا 5ھ کے آخر میں ہوا اور اس روایت کی رو سے ان کا انتقال عمرۃ القضا سے دو سال پہلے میں ماننا پڑے گا ؛کیونکہ کے آخر میں ایمان لائے اور اسلام کے بعد ہی بھائیوں نے قید کر دیا، جس کی مدت زیادہ سے زیادہ دوسال ہوگی،رہائی کے بعد فوراً سلمہ اور ہشام کو چھڑانے گئے یہ کل مدت سے آگے نہیں بڑھتی ،دو سال حالت کفر کے ،ڈیڑھ سال قید کے اور زیادہ سے زیادہ دوچار مہینہ سلمہ اور ہشام کے چھڑانے وغیرہ میں صرف ہوئے ہوں گے،ان سب کی مجموعی مدت 5ھ سے آگے نہیں بڑہتی، اس لیے یہ روایت قطعا غلط ہے؛البتہ عمرۃ القضا کے بعد زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہے اوریہ مسلم ہے کہ کے اندر ہی آپ کا انتقال ہو گیا تھا۔[5]

ماں کی بیقراری[ترمیم]

آپ کے انتقال کے وقت آپ کی ماں زندہ تھیں، ان کے دل پر قیامت گذر گئی ،یہ دل دوز صدمہ ان کے لیے ناقابل برداشت تھا، اس لیے آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم نے ان کو ماتم کرنے کی مخصوص اجازت دیدی تھی اور وہ نہایت دل دوز لہجہ میں یہ مرثیہ پڑہتی تھیں جس کا ایک شعریہ ہے۔ یا عین فابکی للولید بن الولید بن الغیرہ کان الولید بن الوالید فتی العشیرۃ اے آنکھو!اس ولید کی یاد پر اشکبار ہو، جوشجاعت اوربہادری میں اپنے باپ کے مثل خاندان کا ہیروتھا۔ آنحضرت نے سنا تو فرمایا یہ نہ کہو ؛بلکہ قرآن کی یہ آیت تلاوت کرو۔ وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذَلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيدُ [6] اورموت کی بیہوشی ضرور آکر رہے گی اس وقت کہا جائے گا کہ یہ وہ ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. استیعاب:2/619
  2. "شبكة منهاج السنة"۔ www.alserdaab.org۔ 7 أبريل 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2020 
  3. (ابن سعد جزء4،ق1،:97،واستیعاب ترجمہ ولید بن ولید
  4. اسد الغابہ:5/93
  5. ابن سعد جزء4،ق1،:97
  6. (ق:19)