حباب بن منذر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حباب بن منذر
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 591ء (عمر 1432–1433 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حباب بن منذر رضی اللہ عنہ(وفات: 20ھ) ایک بہادر صحابی صاحب مشورہ اور شاعر تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت مدینہ سے قبل مشرف باسلام ہوئے ۔ غزوہ بدر سمیت دیگر تمام غزوات میں شریک ہوئے ۔ 20ھ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں وفات پائی ۔

نام ونسب[ترمیم]

حباب نام، ابو عمر کنیت،قبیلہ بنو خزرج سے ہیں، نسب نامہ یہ ہے حباب بن منذر بن جموع بن زید بن حرام بن کعب بن غنم بن کعب بن سلمہ۔ [1]

اسلام[ترمیم]

حضرت حباب بن منذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت سے قبل مسلمان ہوئے.

غزوات میں شرکت[ترمیم]

تمام غزوات میں شرکت کی،غزوۂ بدر میں قبیلہ خزرج کا علم ان کے پاس تھا، بدر کے قریب پہنچ کر آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ڈیرا ڈالا تو حباب بن منذر نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر اترنے کے لیے حکم خداوندی ہے یا آپ کی ذاتی رائے ہے،فرمایا میری رائے ہے،عرض کیا تو یہ موقع ٹھیک نہیں ہم کو پانی کے پاس اترنا چاہیے اور تمام کنوؤں پر قبضہ کرکے ایک حوض تیار کرنا چاہیے؛ تاکہ ہمارے لشکر میں پانی کی قلت نہ ہو اور دشمن شدت تشنگی سے پریشان ہو جائے، آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حباب صحیح کہتے ہیں؛چنانچہ تمام لشکر کو لے کر چاہ بدر پر نزول اجلال ہوا ۔

  • غزوہ احد میں قریش اس سروسامان سے نکلے تھے کہ مدینہ ہل گیا تھا ،ذوالحلیفہ پہنچے تو آنحضرت نے دو جاسوس بھیجے اوران کے بعد حباب کو روانہ فرمایا انھوں نے تمام لشکر میں گھوم کر مختلف خبریں بہم پہنچائیں اور دشمن کی تعداد کا صحیح اندازہ کر کے حضور کو خبردی۔
  • اس غزوہ میں بھی قبیلہ بنو خزرج کا علم ان کے پاس تھا، بعض کا خیال ہے کہ سعد بن عبادہ علمبردار تھے ،غزوہ خیبر میں ایک حصہ کا اور حنین میں تمام خزرج کا علم انہی کو تفویض ہوا تھا ، سقیفہ ساعدہ میں وہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے سرگرم حامی تھے اور ان کے خلیفہ بنانے پر مصر تھے ،اثنائے خطبہ میں ایک یہ فقرہ کہا تھا:
  • انا جذیلھا الملک وعذبقبھا المرجب
  • یعنی میں قوم کا معتمد ہوں اور لوگ میری رائے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
  • اس کے بعد یہ رائے پیش کی کہ دو امیر ہوں،ایک انصاری اور ایک مہاجری عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے برجستہ کہا،یہ ناممکن ہے ایک میان میں دو تلواریں ہوں۔

[2]

وفات[ترمیم]

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانۂ خلافت 20ھ 640ء میں فوت ہوئے، عمر مبارک 50 سال سے متجاوز تھی ،غزوہ بدر میں 33 برس کاسن تھا۔ [3]

حباب کی شاعری[ترمیم]

  • حباب شعر کہتے تھے،یہ شعر انہی کی طرف منسوب ہیں۔
  • الم تعلما اللہ دراببکما وما الناس الا اکمہ وبصیر
  • کیا تمھیں خبر نہیں تمھارے باپ کی بھلائی خدا کے لیے ہو کہ وہ لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں قدرتی نابینا اور ارباب بصر
  • بان واعد النبی محمد اسود لھا نی العالمین زئیر
  • چنانچہ ہم اور آنحضرت کے دشمن دونوں شیر ہیں جن کی گرج سے تمام عالم گونج اٹھا ہے
  • نصرنا اوینا النبی ومالہ سواومن اھراالتین نصیر
  • لیکن ہم کو یہ شرف ہے کہ ہم نے پیغمبر کو پناہ دی اور مدد کی اور ہمارے سوا آپ کا کوئی مددگار نہیں ہے۔[4][5]

فضل و کمال[ترمیم]

حدیث میں ابو الطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے شاگرد ہیں۔ شاعری عرب کا فطری جوہر ہے،حضرت حبابؓ بھی شعر کہتے تھے،یہ شعرانہی کی طرف منسوب ہیں۔ الم تعلما اللہ دراببکما وما الناس الا اکمہ وبصیر کیا تمھیں خبر نہیں تمھارے باپ کی بھلائی خدا کے لیے ہو کہ وہ لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں قدرتی نابینا اور ارباب بصر بان واعد النبی محمد اسود لھا نی العالمین زئیر چنانچہ ہم اور آنحضرت کے دشمن دونوں شیر ہیں جن کی گرج سے تمام عالم گونج اٹھا ہے۔

نصرنا اوینا النبی ومالہ سواومن اھراالتین نصیر لیکن ہم کو یہ شرف ہے کہ ہم نے پیغمبر کو پناہ دی اور مدد کی اور ہمارے سوا آپ کا کوئی مددگار نہیں ہے خطبہ اچھا دیتے تھے اور اس میں فصاحت و بلاغت کے درے جوہر دیکھا تے تھے ،سقیفہ ساعدہ میں انھوں نے دو خطے دیے تھے جن سے قوتِ تقریر اور زور بیان کا صحیح اندازہ ہو سکتا ہے،اس مفہوم کو کہ انصار چاہیں تو خلاف کو نقصان پہنچا سکتے ہیں کسی بلیغ پیرایہ میں ادا کیا ہے۔ اما واللہ لئن شئتم لنعید نھا جذعۃ خلافت کو اونٹ سے تعبیر کرکے کہتے ہیں،کہ تم چاہو تو میں اس کو پانچ برس کا ایک بچہ بنا سکتا ہوں۔ اسی طرح اپنی حیثیت اور ذاتی وجاہت کو اس طرح بیان کرتے ہیں: انا جذیلھا الھلک وعذیقما المرجب! میں انصار کے خارشتی اونٹ کے بدن رگڑنے کا ستون اوران کے تناور درخت کا سدروئین ہوں۔ عرب میں جس اونٹ کے خارش نکلتی تھی صحتیابی کے لیے اس کو ایک لکڑی یا ستون سے باندھ دیتے تھے، جس سے وہ اپنا بدن رگڑ رگڑ کر اچھا ہوتا تھا، اسی طرح کھجور کے بہت بڑے درخت کے نیچے جس کے جھکنے کا خوف ہوتا تھا،ایک دیوار بنادیتے یا لکڑی گاڑ دیتے تھے،تو درخت سیدھا رہتا تھا۔ حضرت حبابؓ بن منذر نے اپنی ذمہ داری کو اسی لکڑی اور دیوار سے تشبیہ دی ہے۔ [6]

حوالہ جات[ترمیم]