سالم بن عبد اللہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سالم بن عبد اللہ
معلومات شخصیت
مقام پیدائش مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 725ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد عبد اللہ بن عمر   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
نمایاں شاگرد عبد اللہ بن زيد جرمی بصری   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سالم بن عبد اللہ (وفات: ذوالحجہ 106ھ مطابق مئی 725ء) مدینہ کے ان تابعین میں تھے۔ جو علم و عمل کے امام تھے ۔

نام ونسب[ترمیم]

سالم نام، ابو عمر کنیت، عمر فاروق کے نامور فرزند عبد اللہ بن عمر کے خلف الصدق تھے۔دادھیال کی طرح ان کا نانہال بھی روشن وتاباں تھا، عمر رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں یزد گرد شاہنشاہ ایران کی جو لڑکیاں گرفتار ہوئی تھیں، ان میں سے ایک عبد اللہ بن عمر کو دی گئی تھی۔سالم اسی کے بطن سے تھے، اس طرح ان کی رگوں میں ایران کے شاہی خاندان کا خون بھی شامل تھا۔[1]

فضل وکمال[ترمیم]

سالم کے والد حضرت عبداللہ بن عمر ان بزرگوں میں تھے جو علم و عمل کا پیکر اور زہد و ورع کی تصویر تھے۔ان کی تعلیم و تربیت نے انھیں بھی اپنا مثنیٰ بنادیا تھا،ارباب سیر کا متفقہ بیان ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کی تمام اولادوں میں سب سے زیادہ ان سے مشابہ عبداللہ تھے اور عبد اللہ کی اولادوں میں اُن کے مشابہ سالم تھے [2] اس طرح سالم گویا عمر فاروق کا نقشِ ثانی تھے۔ ان کا شمار مدینہ کے ان تابعین میں تھا جو اقلیم و عمل دونوں کے فرماں روا تھے علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ سالم فقیہ، حجت اور ان مخصوص علما میں تھے، جن کی ذات علم وعمل دونوں کی جامع تھی [3] امام نووی لکھتے ہیں کہ سالم کی امامت ،جلالت، زہد وورع اور علوئے مرتبت پر سب کا اتفاق ہے۔ [4]

تفسیر[ترمیم]

تفسیر، حدیث، فقہ جملہ فنون میں ان کو یکساں درک تھا۔لیکن شدتِ احتیاط کی وجہ سے قرآن کی تفسیر نہ بیان کرتے تھے [5] اسی لیے مفسر کی حیثیت سے انھوں نے کوئی خاص شہرت نہیں حاصل کی۔

حدیث[ترمیم]

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ حدیث کے رکن اعظم تھے۔سالم نے زیادہ تر انہی کے خرمن سے خوشہ چینی کی تھی، ان کے علاوہ اکابر صحابہ میں ابو ہریرہؓ، ابو ایوبؓ انصاری اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وغیرہ سے بھی استفادہ کیا تھا [6] ان بزرگوں کے فیض سے ان کا دامنِ علم نہایت وسیع ہو گیا تھا۔علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ سالم ثقہ، کثیر الحدیث اور عالی مرتبہ لوگوں میں تھے۔ [7]

تلامذہ[ترمیم]

حدیث میں عمرو بن دینار ، امام زہری، موسیٰ بن عقبہ، حمید الطویل، صالح بن کیسان ، عبیداللہ بن عمرو بن دینار، امام زہری،موسیٰ بن عقبہ، حمید الطویل، صالح بن کیسان، عبیداللہ بن عمرو بن حفص، ابو واقد لیثی، عاصم بن عبد اللہ، عبداللہ بن ابی بکر اور ابو قلابہ جرمی جیسے اکابر محدثین ان کے تلامذہ میں تھے۔ [8]

فقہ[ترمیم]

سالم کا خاص اور امتیازی فن فقہ تھا۔ اس میں وہ امامت کا درجہ رکھتے تھے۔ بعض ائمہ جن میں ایک عبداللہ ابن مبارک بھی ہیں ان کو مدینہ کے مشہور سات فقہا میں شمار کرتے تھے۔[9] گو ساتویں فقیہ کی تعین میں اختلاف ہے ، مختلف اشخاص نے اپنی اپنی نظر و بصیرت کے مطابق مختلف نام لیے ہیں، لیکن بہرحال اس زمرہ میں سالم کا نام بھی لیا جاتا ہے،ان کے فقہی کمالات کی سب سے بڑی سند یہ ہے کہ مدینہ کی صاحب افتاء جماعت کے وہ ممتاز رکن تھے۔ [10]

زہد وتقویٰ[ترمیم]

سالم علم کے ساتھ عمل کے بھی اسی درجہ پر تھے۔ امام مالک فرماتے تھے کہ سالم کے زمانہ میں ان سے زیادہ زہد و ورع میں سلف صالحین سے مشابہ کوئی نہ تھا [11] امام نووی اور حافظ ذہبی وغیرہ جملہ ارباب سیران کے زہد و ورع پر متفق البیان ہیں۔

صحت عقیدہ[ترمیم]

عقائد میں وہ سلف صالحین کے سادہ اور بے آمیز عقیدہ کے پابند تھے اور بعد میں جونکتہ آفرینیاں ہوئیں انھیں سخت ناپسند کرتے تھے؛چنانچہ قدریوں پر جو قدر کی بنا پر خیر و شرکا عقیدہ رکھتے ہیں لعنت بھیجتے تھے۔ [12]

شدت احتیاط[ترمیم]

وہ ہرچیز میں انتہائی احتیاط برتتے تھے۔جس بات میں جھوٹ کا خفیف سا شائبہ بھی نکلتا اسے پسند نہ کرتے تھے،اس زمانہ میں ایک کپڑا ست گزا مشہور تھا۔ جو سات گز سے کچھ کم ہوتا تھا، لیکن عرف عام میں وہ ست گزا ہی کہلاتا تھا۔ مروان بن جبیر بزاز کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ سالم کپڑا خریدنے کے لیے آئے میں نے ان کے سامنے ست گزا پھیلا دیا،وہ سات گز سے کچھ کم تھا،فرمایا تم نے تو سات گز کہا تھا۔میں نے کہا ہم لوگ اسی کو ست گزا کہتے ہیں فرمایا جھوٹ ایسا ہی ہوتا ہے۔ [13]

خون مسلم کی حرمت[ترمیم]

آپ کے نزدیک مسلمان کا خون اتنا محترم تھا کہ مجرم مسلمان پر بھی ہاتھ نہ اٹھاتے تھے، ایک مرتبہ حجاج نے آپ کو ایک ایسے شخص کے قتل کا حکم دیا،جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کے معاونین میں تھا۔آپ تلوار لے کر مجرم کی طرف بڑھے اور پاس جاکر اس سے پوچھا تم مسلمان ہو،اس نے کہا ہاں، مسلمان ہوں،لیکن آپ کو جو حکم دیا گیا ہے،اسے پورا کیجئے،آپ نے پوچھا تم نے آج صبح کی نماز پڑھی ہے اس نے کہا ہاں پڑھی ہے،یہ سن کر سالم لوٹ گئے اورحجاج کے سامنے تلوار پھینک کر کہا یہ شخص مسلمان ہے،آج صبح تک اس نے نماز پڑھی ہے،اوررسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے جس شخص نے صبح کی نماز پڑھ لی وہ خدا کے حفظ وامان میں آگیا، حجاج نے کہا ہم اس کو صبح کی نماز کے لیے تھوڑے ہی قتل کرتے ہیں ؛بلکہ اس لیے قتل کرتے ہیں کہ وہ قاتلین عثمان کے معاونوں میں ہے، فرمایا اس کے لیے اور لوگ موجود ہیں جو عثمان کے خون کا انتقام لینے کے ہم سے زیادہ حق دار ہیں،سالم کے والد حضرت عبداللہ کو یہ واقعہ معلوم ہوا تو انھوں نے فرمایا سالم نے سمجھ داری کا کام کیا۔ [14]

امرا کی دولت سے بے نیازی[ترمیم]

آپ غیر خدا کے سامنے کسی حاجت کو پیش کرنا پسند نہ کرتے اور امرا کی دولت اوراُن کی داد ودہش سے اتنے بے نیاز تھے؛کہ ان کی درخواست پر بھی کبھی خواہش کا اظہار نہ کرتے تھے۔ہشام بن عبدالملک آپ کو بہت مانتا تھا اور اتنا احترام کرتا تھا کہ آپ نہایت معمولی اور موٹے جھوٹے لباس میں بے محابا اس کے دربار میں چلے جاتے تھے اور وہ اسی لباس میں آپ کو تخت شاہی پر ساتھ بٹھا تا تھا [15] ایک مرتبہ وہ حج کے لیے آیا خانہ کعبہ میں دونوں کی ملاقات ہوئی۔ہشام نے آپ سے درخواست کی آپ کی جو ضروریات ہوں انھیں بیان کیجئے، آپ نے فرمایا خدا کے گھر میں کسی غیر سے نہ مانگوں گا۔ [16] یلو موننی فی سالم والو مھم وجلدۃ بین العین والانف سالم لوگ مجھے سالم کے معاملہ میں ملامت کرتے ہیں اورمیں ان کو ملامت کرتا ہوں سالم آنکھ اورناک کے درمیانی چمڑے کی طرح عزیز ہیں۔

وفات[ترمیم]

ذوالحجہ 106ھ مطابق مئی 725ء میں مدینہ میں وفات پائی۔ہشام بن عبد الملک نے جو حج سے فراغت کے بعد مدینہ آیا ہوا تھا،نماز جنازہ پڑھائی، جنازہ میں خلقت کا اتنا ہجوم تھا کہ بقیع کے میدان میں نماز پڑھائی گئی۔ [17]

حلیہ ولباس وغیرہ[ترمیم]

سالم کی زندگی نہایت سادہ تھی، اس میں تکلف وتصنع کا گذر نہ تھا ،حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ ان کی زندگی نہایت خشک اور سادہ تھی،صوف کا لباس پہنتے تھے۔پورے لباس کی قیمت دو درہم سے زیادہ نہ ہوتی تھی ، غذا میں صرف روٹی اور روغن زیتون ہوتا تھا[18] فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی زندگی بھی یہی تھی۔گوشت بہت کم کھاتے تھے اور لوگوں کو منع کرتے تھے کہ گوشت کم کھایا کرو اس میں شراب کی جیسی تیز ی ہوتی ہے۔ [19] لیکن اس غذا کے باوجود جسم سر سبز وشاداب تھا۔ایک مرتبہ ہشام نے حج کے موقع پر جبکہ لباس میں صرف احرام ہوتا ہے،ان کے جسم کی تازگی دیکھ کرپوچھا ابو عمیر کیا کھاتے ہو۔ انھوں نے کہا روٹی اور روغن زیتون ،اس نے کہا یہ غذا کیسے کھائی جاتی ہے۔ فرمایا اسے ڈھک کر رکھ دیتا ہوں،جب بھوک معلوم ہوتی ہے،اس وقت کھا لیتا ہوں۔ [20]

اولاد[ترمیم]

اپنے بعد کئی اولادیں یادگار چھوڑیں عمر، ابوبکر، عبد اللہ، عاصم، جعفر ، عبد العزیز، فاطمہ اور حفصہ۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تہذیب التہذیب:3/438
  2. (ابن سعد:5/145)
  3. (تذکرہ الحفاظ:1/77)
  4. (تہذیب الاسماء،جلد اول،ق اول،ص27)
  5. (ابن سعد:5/148)
  6. (تہذیب التہذیب:3/437)
  7. (ابن سعد:5/148)
  8. (تہذیب التہذیب:3/437)
  9. (تہذیب الاسماء،جلد اول ،ق اول،ص:208)
  10. (اعلام الموقعین :1/25)
  11. (تذکرہ الحفاظ:1/77)
  12. (ابن سعد:5/147)
  13. (ابن سعد:5/147)
  14. (ایضاً:145)
  15. (تذکرۃ الحفاظ:1/77)
  16. (ابن خلکان:1/198)
  17. ابن سعد:5/148
  18. ( تذکرۃ الحفاظ:1/77)
  19. (ابن خلکان:1/198)
  20. (ابن سعد: 147)