عروۃ الوثقیٰ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تفسیر عروۃ الوثقیٰ عبدالکریم اثری کی تفسیر ہے۔

تفسیر کا تعارف[ترمیم]

تفسیر عروۃ الوثقیٰ کے بارے میں خود عبد الکریم اثری ابتدائیہ میں رقمطراز ہیں:
’’میرے وطن عزیز میں مختلف مکاتب ہائے فکر کے علما کثرت سے موجود ہیں لیکن ان کا کام اپنے اپنے مکتب فکر کی ترجمانی ہے اور ان کے قائدین اسلام کی پروا کیے بغیر اپنی اپنی قیادت کو قائم رکھنے کی لائن پر رواں دواں ہیں۔ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے مجھے اس مذہبی گروہ بندی سے بالکل آزاد رکھا اور صحابہ کرام تابعین عظام و سلف صالحین سے لے کر آج تک جتنے علمائے اسلام ہوئے ہر ایک عالم با عمل کی قدرو قیمت میرے دل میں پختہ کردی۔ ایک طرف میرے دل میں پھول چننے کا شوق پیدا کیا تو دوسری طرف میرے لیے زمین کو باغ و بہار کر دیا اور مجھے ہر طرف پھول ہی پھول نظر آنے لگے۔ الحمد للہ کہ اس نے مجھے کانٹوں سے بچ بچا کر پھولوں سے دامن بھرنے کی توفیق دی اور جو کچھ میں چن پایا اس کا ایک حصہ آپ کے سامنے رکھ دیا کس کو کس پھول سے پیار ہے اور کس سے نہیں یہ اپنے اپنے ذوق کی بات ہے۔ جن جن جگہوں سے یہ پھول چنے گئے ان کا تذکرہ میں نے مصادر و مراجع کے عنوان میں کر دیا ہے کہیں سے زیادہ اور کہیں سے کم حسب خیال جس قدر چاہا حاصل کیا۔ ترجمہ جس کو دراصل مفہوم کے نام سے یاد کرنا زیادہ موزوں ہے مولانا ابوالکلام آزاد سے مستعار لیا لیکن بعض مقامات پر دوسرے علمائے کرام اور مترجمین حضرات سے بھی استفادہ کیا گیا اسی لیے مکمل نسبت علامہ آزاد کی طرف کرنا مناسب خیال نہ سمجھا‘‘۔

مصادر کی تعداد[ترمیم]

عبد الکریم اثری نے مصادر و مراجع میں جن کتب کے نام درج کیے ہیں ان کی تعداد 90 ہے۔ یعنی کتب کے ایک بڑے ذخیرہ سے استفادہ کے بعد یہ تفسیر لکھی گئی ہے۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تفسیر عروۃ الوثقیٰ عبد الکریم اثری