بنو امیہ کا نظام حکومت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

اموی دور کا حکومتی اور انتظامی ڈھانچہ کچھ اس طرح سے تھا۔

مرکزی حکومت[ترمیم]

درالخلافہ شام میں واقع ہونے کے سبب خلیفہ ملک شام میں رہائش پزیر رہتا اور وہیں پر مرکزی حکومت کے تمام ادارے کام کیا کرتے تھے۔

خلیفہ[ترمیم]

بنو امیہ کے زمانے میں خلافت اسلامیہ کو ملوکیت میں تبدیل کیا جا چکا تھا۔ خلافت جمہوری ہونے کی بجائے خاندانی اور موروثی بن چکی تھی۔ ملک کا سب سے بڑا حاکم خلیفہ تھا جو خلفائے راشدین کی طرح اپنے آپ کو امیر المومنین کہلاتا تھا لیکن خلفائے راشدین اور خلفائے بنو امیہ میں بنیادی فرق یہ تھا کہ خلفاء راشدین عوامی مشورہ اور رائے سے خلیفہ بنائے جاتے تھے لیکن خلفائے بنو امیہ مسلمانوں کے آزادانہ اور کھلے مشورہ سے نہیں بلکہ اپنی طاقت اور قوت کے بل بوتے پر بر سر اقتدار آتے تھے۔ ان کی حیثیت ایک مطلق العنان بادشاہ کی سی تھی۔ تمام عمال حکومت قاضی، جج اور فوجی جرنیل خلیفہ کی طرف سے مقرر کیے جاتے اور وہ خلیفہ ہی کے سامنے جوابدہ تھے لیکن خود خلیفہ کسی کے شامنے جوابدہ نہیں تھا۔ مجلس شوریٰ کی حیثیت ختم کر دی گئی تھی۔ اب خلیفہ کے مشیر اور مصاحبین، امرائے دربار اور شاہی خاندان کے افراد تھے۔ عملی طور پر اگرچہ خلافت راشدہ کی بجائے ملوکیت کا آغاز ہو چکا تھا لیکن نظری اعتبار سے منصب خلافت کو جمہوری رکھا گیا اور خلفاء کے لیے بیعت حاصل کرنا لازمی قرار دیا گیا اگرچہ یہ بیعت اقتدار اور جبر ہی کا نتیجہ تھی اور اس میں دلی رضامندی کو دور دور کا بھی دخل نہ تھا۔

خلفائے بنو امیہ نے بظاہر وہ تمام رسوم برقرار رکھیں جن کا تعلق خلفائے راشدین سے تھا مثلاً جمعہ کا خطبہ دیتے نمازوں کی امامت کراتے اور اپنی دوسری مذہبی ذمہ داریاں بھی ادا کرتے لیکن ان کی اپنی زندگیاں قیصر و کسریٰ کے نمونہ پر ڈھل چکی تھی۔ یہ خلفاء محلوں اور اونچے اونچے ایوانوں میں رہتے۔ عیش و عشرت کی محفلیں منعقد کرتے۔ اپنے دروازوں پر دربان اور حاجب رکھتے اور اپنے خلاف اٹھائی جانے والی ہر آواز کو سختی سے دبا دیتے۔ ان خلفاء میں عمر بن عبد العزیز واحد خلیفہ تھے جن کی شخصیت اور جن کا عہد حکومت خلفائے راشدین سے تعلق رکھتا ہے۔ انھوں نے تمام ناجائز اور غصب شدہ جاگیریں اور املاک اپنے اصل مالکوں کو لوٹا کر اور دیگر اصلاحات نافذ کرکے خلافت راشدہ کی جمہوری روح بحال کرنے کی کوششیں کیں مگر ان کے بعد پھر وہی سا طرز عمل اختیار کر لیا گیا۔

بیت المال[ترمیم]

خلفائے راشدین کے زمانہ میں بیت المال کو قومی خزانہ سمجھا جاتا تھا۔ یہ ایک ایسی امانت تھی جسے خلیفہ اپنے من مانے طریقے سے خرچ کرنے کا مجاز نہیں تھا۔ وہ اپنے گزارے کے لیے بیت المال سے صرف اتنی تنخواہ لینے کاحقدار تھا جس سے ایک اوسط درجہ کے آدمی کا گذر اوقات ہو سکے۔

بنو امیہ کے دور میں بیت المال کو خزانہ شاہی سمجھتے ہوئے خلیفہ اور اس کے خاندان کی ذاتی ملکیت قرار دیا گیا۔ اس کی آمد و خرچ کے بارے میں وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں تھا۔ بیت المال کی آمدنی کا کثیر حصہ خلفاء اور اس کے رشتہ داروں پر وظائف، انعامات اور جاگیروں اور املاک کی صورت میں صرف ہوتا۔ شاعروں اور گویوں کی سرپرستی کی گئی اور ضرورت مند اور نادار لوگوں کے وظائف کی تعداد میں کمی کر دی گئی۔ اخراجات کے علاوہ بیت المال کی آمدنی کے ضمن میں اب حلال و حرام کی تمیز اور تخصیص بھی ختم کر دی گئی۔ طرح طرح کے نئے ٹیکس لگائے گئے جن کی شرعی اور عوامی بہبود کے نقطۂ نظر سے کوئی حیثیت نہ تھی۔ نو مسلموں سے جزیہ تک وصول کیا جاتا تھا۔

دربار[ترمیم]

خلفائے راشدین کی زندگی سادگی کا مجسمہ تھی۔ خلیفہ کی حیثیت سے تمام اہم امور ملکی کا فیصلہ مسجد نبوی کے صحن میں بیٹھ کرکیا جاتا لیکن جب مسند اقتدار بنو امیہ کے ہاتھ میں آئی تو خلافت راشدہ کے زمانے کی سادگی اور پاکیزگی ترک کر دی گئی۔ امیر معاویہ نے اپنے بیٹھنے کے لیے تخت کی سی ایک نشست گاہ بنوائی۔ امیر معاویہ کے بعد اکثر و بیشتر خلفا نے سوائے عمر بن عبدالعزیز کے قیصر و کسریٰ کا سا طرز زندگی اختیار کر لیا اور اس طریقے کو چھوڑ دیا جس پر نبی اکرم اور چاروں خلفائے راشدین چلتے رہے۔

شان و شوکت، خدام و حشم اور شاہانہ وقار دربار خلافت کا امتیازی وصف تھا۔ خلیفہ کی موجودگی میں کسی کو بولنے کی جرءت اور اجازت نہ تھی۔ شاہی محلات کے دروازوں پر حاجب اور دربان مقرر تھے لوگ اب براہ راست ان کے پاس اپنی فریاد اور درخواست لے کر نہ جا سکتے تھے۔ عوام اور خلفاء کے درمیان تعلق ٹوٹ چکا تھا اور جو روابط باقی تھے وہ بھی حاجبوں اور دربانوں کے ذریعہ سے تھے۔ یہ سب روایات امیر معاویہ کے زمانہ میں قائم ہو چکی تھیں۔ خوارج کے قاتلانہ حملہ کے بعد خلیفہ کا حفاظتی دستہ بھی بنایا جا چکا تھا جسے الحرس کہتے تھے۔ امیر معاویہ کے جانشیوں کے ہاتھوں دربار داری کے لوازمات میں مزید اضافے ہوئے۔ اور شاعر، مسخرے، گویے اور موسیقار دربار کی زینت بنے مگر اموی دربار اور خلفائے بنو عباس کے دربار میں بنیادی فرق تھا۔ اموی دربار عربی روایات اور اقتدار کا علمبردار تھا لیکن عباسیوں پر عجمیوں کے اثرات بے حد گہرے تھے۔

مرکزی شعبہ جات[ترمیم]

مرکزی حکومت مندرجہ ذیل ذیلی شعبوں یا اداروں میں تقسیم کی گئی تھی۔

دیوان الجند[ترمیم]

اس کی حیثیت ایک ملٹری بورڈ کی سی تھی جس کے ذمہ فوج کا انتظام تھا۔ اس کی ابتدا جناب حضرت عمر کے زمانہ میں ہو چکی تھی۔ فوجیوں اور ملت اسلامیہ کے دیگر مستحق افراد میں وظائف د‎ئے جاتے۔ بنو امیہ نے اس میں تبدیلی کر دی اور اپنے آدمیوں کو اس سے فائدہ پہنچانا شروع کر دیا اور مخالفین کے وظائف بھی منسوخ کرنے شروع کر دیے۔ غیر عرب سپاہیوں کے نام تو اس رجسٹر سے سرے سے غائب کر دیے گئے۔ پہلے یہ وظائف فوجی معاوضہ کے طور پر دیے جاتے تھے۔ لیکن لوگ انھیں پینشن تصور کرنے لگے۔ ہشام نے اپنے عہد میں اس غلط مفروضے کا خاتمہ کیا اور وہ تمام لوگ جو فوجی خدمات سر انجام نہیں دے رہے تھے ان کے نام اس رجسٹر سے خارج کر دیے گئے۔

دیوان الخراج[ترمیم]

یہ حکومت کا محکمہ مالیات تھے۔ یہ زرخیز صوبوں کا خراج وصول کرتا تھا تمام مملکت کے مالیات اور حکومت کی آمدنی اور خرچ کا حساب رکھنا اس محکمہ کے فرائض میں تھا

دیوان الرسائل[ترمیم]

اس کی حیثیت سکرٹریٹ کی سی تھی۔ ہر قسم کی کتابت، فرمان شاہی جاری کرنا اور اس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھنا اس محکمہ کی ذمہ داری تھی۔ اس کے علاوہ ملک کے تمام محکموں میں یگانگت اور ہم آہنگی پیدا کرنا بھی اسی محکمہ کا کام تھا

دیوان البرید[ترمیم]

دیوان البرید یا محکمہ ڈاک کا آغاز بھی امیر معاویہ نے کیا۔ ابتدا میں اس محکمہ کا کام سرکاری ڈاک وغیرہ لے کر ملک کے ایک حصہ سے دوسرے حصہ تک پہنچانا تھا لیکن آہستہ آہستہ یہ محکمہ عوامی حیثیت اختیار کر گیا۔ ملک کے طول وعرض میں ڈاک چوکیاں قائم کی گئیں۔ جہاں برق رفتار گھوڑے ہر وقت موجود رہتے جو ایک چوکی کی ڈاک دوسری چوکی تک پہنچاتے۔ عبد الملک نے اپنے زمانے میں اس میں مزید ترقی دی۔ اس محکمہ کے ذریعہ سراغ رسانی کا کام بھی تھا۔ ملک کے طول و عرض میں ہونے والے واقعات اور اہم خبریں اس محکمہ کے ذریعہ خلیفہ تک پہنچائی جاتیں۔

دیوان الخاتم[ترمیم]

دیوان الخاتم کی ابتدا بھی امیرمعاویہ کے زمانہ ہی سے ہوئی۔ ایک بار امیر معاویہ نے عمر بن زبیر کو زیاد بن ابی سفیان کے نام ایک فرمان میں عراق کے علاقہ سے ایک لاکھ درہم وصول کرنے کا اختیار دیا۔ عمر بن زبیر نے اس رقم کو ایک لاکھ کی بجائے دو لکاھ میں تبدیل کرکے خزانہ سے فاضل رقم حاصل کر لی۔ بعد میں جب پڑتال کے دوران اس جعلسازی کا انکشاف ہوا تو امیر معاویہ نے جعلسازی کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے دیوان الخاتم قائم کیا جو فرمان شاہی جاری ہوتا۔ اس کی دستخط شدہ نقل اسی محکمہ کے پاس بطور ریکارڈ رہتی اور دار الخلافہ سے باہر جانے والے فرامین کو سربمہر کرکے روانہ کیا جاتا اور اس کی کاپی اس محکمہ کے ریکارڈ میں محفوظ رکھی جاتی۔ عبد الملک بن مروان نے اس میں مزید ترقی دی۔

دیوان الاحداث[ترمیم]

محکمہ پولیس یا دیوان الاحداث کی ابتدا اگرچہ خلافت راشدہ کے زمانہ میں ہو چکی تھی لیکن اموی دور میں اس کی تنظیم کی گئی۔ ملک میں اکثر شورشیں برپا ہوتی رہتی تھیں اس لیے امن و امان کے قیام کی ذمہ داری اسی محکمہ کے سپرد تھی۔ صرف کوفہ میں زیاد بن ابی سفیان کے پاس پولیس کے چالیس ہزار سپاہی تھے۔ امن و امان کے علاوہ لوگوں کے مال اور املاک کی حفاظت بھی اسی محکمہ کے ذمہ تھی افراد اعلیٰ کو صاحب الاحداث کہا جاتا تھا۔

صوبائی حکومت[ترمیم]

اموی سلطنت مندرجہ ذیل چھ بڑے صوبوں پر مشتمل تھی۔ ان صوبوں کو اقالیم عرب کہا جاتا تھا۔

پہلا صوبہ شام براہ راست مرکزی حکومت کے کنٹرول میں تھا اور اس کے لیے الگ گورنر مقرر نہیں کیا جاتا تھا۔ حجاز کے صوبے میں یمن اور نجد کے علاقے بھی شامل تھے

عراق کا صوبہ عراق عرب، عراق عجم، عمان، بحرین، امان، سیستان، کابل، خراسان، ماورالنہر اور سندھ کے علاقوں پر مشتمل تھا۔ صوبہ عراق کے والی کی حیثیت بہت اہم تھی۔ اسے عموماً خلیفہ کا نائب سمجھا جاتا تھا۔ بعض اوقات اس صوبہ کے مختلف حصوں کو الگ ولایت قرار دے کر عراق کے والی کے تحت نائب گورنروں کے سپرد کر دیا گیا

آرمینیہ کا صوبہ خود آرمینیہ، آزربائجان، جزیرہ اور اشیائے کوچک کے علاقوں پر مشتمل تھا

افریقہ کے صوبے میں شمالی افریقہ، سپین، جنوبی فرانس اور جزائر بحیرہ روم شامل تھے۔ افریقہ کے والی کی حیثیت بھی عراق کے گورنر کی طرح بہت اہم شمار کی جاتی تھی

مصر کے صوبے میں زیریں اور بالائی مصر دونوں حصے شامل تھے۔

ان تمام صوبوں کے انتظامی حدود بعض اوقات تبدیل ہوتی تھیں۔ جہاں تک اختیارات کا تعلق ہے صوبائی حکومتیں داخلی معاملات میں کافی حد تک خود مختار تھیں۔

صوبائی حکام[ترمیم]

صوبائی نظم و نسق کی مشینری مندرجہ ذیل حکام پر مبنی تھی

والی یا امیر[ترمیم]

صوبائی حکام میں سب سے اہم گورنر تھا جسے والی یا امیر کہتے تھے۔ اسے خود خلیفہ مقرر کرتا اور خلیفہ کے ماتحت کے حیثیت سے تقریباً وہی فرائض سر انجام دینے پڑتے جو مرکز میں خود خلیفہ کے ذمہ تھے۔ اپنے ماتحت افسر چننے میں اسے پوری آزادی حاصل تھی۔ یہ بیک وقت صوبے کا انتظامی اور فوجی سربراہ تصور کیا جاتا تھا۔ ان کے اختیارات بے پایاں تھے۔ حجاج بن یوسف اور زیاد کی شخصیتیں لامحدود اختیارات کی حامل تھیں۔ صوبائی معاملات میں انھیں بہت زیادہ آزادی حاصل تھی اس کی ایک وجہ ذرائع نقل و حمل میں دشواری تھی کیونکہ عراق اور افریقہ وغیرہ جیسے اہم صوبوں کے لیے بار بار قصر خلافت سے اجازت اور منظوری لینا ناممکن العمل تھا لٰہذا خلیفہ کی ماتحتی میں والی صوبہ حالات کے مطابق بڑے بڑے اقدامات اٹھاتے اور انھیں اپنے خلفاء کی پوری سرپرستی حاصل ہوتی۔ بغاوتوں اور شورشوں کا خاتمہ، امن و امان کا قیام، محاصل کا جمع کیا جانا۔ سڑکوں، نہروں اور پلوں وغیرہ کی تعمیرات کا فریضہ ان کے ذمے تھا۔

عامل[ترمیم]

اس کے علاوہ دوسرے عہدے داروں میں والی کے بعد سب سے اہم شخصیت عامل کی تھی یہ صوبائی مالی امور اور بیت المال کا انچارج ہوتا۔ چونکہ اپنے شعبہ میں اسے مکمل اختیارات حاصل تھے اس لیے بعض اوقات والی بھی اس کا محتاج ہوتا یہ براہ راست خلیفہ کے سامنے جوابدہ ہوتا اور تمام حساب کتاب خلیفہ کے سامنے پیش کرتا

صاحب الخراج[ترمیم]

شروع میں صرف مالیہ زمین کی وصولی اور نگرانی اس کے ذمہ تھی۔ جب بعد کے ادوار میں عامل اور صاحب الخراج دونوں عہدوں کو ملا کر ایک کر دیا گیا تو صاحب الخراج کی حیثیت مالی شعبہ میں بہت بڑھ گئی اور تمام امور کا انچارج قرار دیا گیا

کاتب[ترمیم]

ہر صوبائی دیوان (محکمہ) کا افسر اعلیٰ کاتب کہلاتا۔ اس کی حیثیت موجودہ زمانہ کے سیکرٹری کی سی تھی۔ اس کا تقرر صوبائی گورنر خود کرتا

صاحب البرید[ترمیم]

صوبائی محکمہ ڈاک کا بڑا افسر صاحب البرید کہلاتا۔ خط و کتاب کی ترسیل کے انتظامات کے علاوہ خلیفہ کو خفیہ طور پر تمام ملکی حالات اور اہم واقعات سے باخبر رکھنا بھی اس کے فرائض میں شامل تھا

صاحب الشرطہ[ترمیم]

ملک کے اہم حصوں میں جہاں جہاں پولیس فورس قائم تھی اس کے افسر اعلیٰ کو صاحب الشرط کہتے تھے۔ ان کافرض ملک کے اندر امن و امان کا قیام تھا۔ صرف کوفہ میں زیاد بن ابی سفیان کے ماتحت چالیس ہزار ملٹری پولیس قیام امن کے لیے موجود تھی جو مشکوک لوگوں کی کڑی نگرانی کرتی اور بے امنی کو سختی سے کچل دیتی۔

قاضی[ترمیم]

لوگوں کی داد رسی اورعدل و انصاف کے قیام کے لیے تمام صوبائی اضلاع میں قاضی مقرر کیے جاتے تھے۔

مرکز کی طرح صوبوں میں بھی دیوان الجند، دیوان الرسائل، دیوان المستغلات (مالی امور ) جہاں آمد و خرچ کا حساب رکھا جاتا تھا، دیوان البرید اور دیوان الاحدث قائم تھے۔ ان کے اختیارات اور فرائض تقریباً وہی تھے جو ان مرکزی محکموں کے تھے۔

ذرائع آمدنی[ترمیم]

بنو امیہ کی حکومت کے ذرائع آمدنی تقریباً وہی تھے جو اس سے پہلے عہد رسالت اور خلفائے راشدین میں تھے۔ پہلے ذرائع آمدنی تو بدستور قائم رہے لیکن اس کے علاوہ اس دور میں کچھ ایسے ذرائع بھی اختیار کیے گئے جو اسلامی نقطہ نظر سے درست نہ تھے

زکواۃ[ترمیم]

ہر مسلمان کے لیے مذہبی طور پر فرض تھا کہ اپنے مال اور املاک پر .ڈھائی فیصد کے حساب سے زکواۃ ادا کرے۔ تاکہ اسے مستحق لوگوں میں تقسیم کیا جائے۔ زکواۃ کی وصولی اسلامی حکومت کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اسلامی قانون اور مالی امور میں زکواۃ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے

خراج[ترمیم]

مفتوحہ علاقوں کی زمین پر جو مالیہ وصول کیا جاتا اسے خراج کہتے تھے۔ خراج کی شرح میں یکسانی نہ تھی بلکہ مفتوحہ علاقے سے اسی شرح سے خراج وصول کیا جاتا تھا جو فتح کے وقت معاہدہ میں طے کی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ مالیہ بھی وصول کیا جاتا تھااس کی شرح مختلف زمانوں میں مختلف تھی اور ہر خلیفہ حسب منشا اس میں کمی و بیشی کر سکتا تھا۔

جزیہ[ترمیم]

فوجی امداد کے عوضانہ کے طور پر غیر مسلموں سے معمولی قسم کا ٹیکس وصول کیاجاتا تھا۔ اس میں بھی عورتوں، بوڑھوں، بچوں اور ناداروں، غریبوں اور بعض مذہبی حلقوں کے لیے معاف تھی۔ حجاج کے زمانہ میں موالیوں یعنی نو مسلموں سے خزانہ کی کمی کو دور کرنے کے لیے بدستور جزیہ وصول کیا جاتا رہا جسے انھوں نے پسند نہ کیا اور اس کے خلاف بطور رد عمل کئی ایک بغاوتیں کیں

اس کے علاوہ کسٹم ڈیوٹی بھی موجود تھی جو غیر ممالک درآمد شدہ مال پر لگائی جاتی تھی۔ خمس مال غنیمت کا پانچواں حصہ تھا جو سرکاری خزانے میں داخل کیا جاتا تھا۔ اور خلیفہ کی ذاتی جاگیر کی آمدنی بھی براہ راست بیت المل میں جمع کی جاتی تھی۔

فوجی نظام[ترمیم]

بنو امیہ کی عظمت اور طاقت کا سرچشمہ ان کی فوج تھی۔ ان کی کامیابیوں اور عظیم الشان فتوحات کا سبب ان کی زبردست فوجی قوت تھی۔ زمانہ جاہلیت میں بھی قریش کی طرف سے فوجی تنظیم کے ذمہ دار بنو امیہ والے ہی تھے۔ سپہ سالار عموماً ان ہی میں سے ہوا کرتا تھا چنانچہ فوجی امور میں بنو امیہ کو خاصی مہارت حاصل تھی۔ خلفائے راشدین کے بعد امیر معاویہ نے خلافت بزور شمشیر حاصل کی اور جب تک ان کی فوج تنظیم میں کوئی صعف اور کمزوری پیدا نہ ہوئی حکومت ان کے ہاتھ رہی۔ بنو امیہ نے اپنے عہد میں عظیم الشان کارنامے اور فتوحات سر انجام دیں۔ یہ تمام کامرانیاں ان کی اعلیٰ فوجی تنظیم کی بدولت تھیں۔

تنظیم[ترمیم]

اقتدار حاصل کرنے کے بعد بنو امیہ نے فوجی نظام میں کئی تبدیلیاں کیں۔ بازنطینی حکومتوں کے ساتھ معرکہ آرائیوں کے دوران ان کے جنگی قواعد اور حربی تنظیم کا اچھی طرح مشاہدہ کر کیا۔ چنانچہ انھوں نے اپنی فوج تنظیم کو ان تجربات کی روشنی میں منظم کیا۔ پیش قدمی کے دوران جب فوجیں قیام کرتیں تو ان کے کیمپ بازنطینی طریقے کے مطابق ترتیب دیے جاتے۔ ان کی حفاظت کے لیے اردگرد خندقیں وغیرہ کھودی جاتیں۔ گرمائی اور سرمائی فوج الگ الگ ہوتی تھی۔ لڑائی کے وقت فوج کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاتا جو مرکز (قلب) دائیں بازو (میمنا) بائیں بازو (میسرہ) ہراول دستے (مقدمہ) اور حفاظتی دستے اور عقب پر مشتمل ہوتا۔ میدان جنگ میں فوجوں کی صف بندی کی جاتی اور دو دو یا ایک ایک لائن میں دشمن کے خلاف پیش قدمی کی جاتی۔ آخری خلیفہ مروان ثانی کے زمانہ میں صف بندی کے اس قدیم طریقہ کی بجائے فوج کو چھوٹے دستوں میں تقسیم کرکے نئے طریقے کی ابتدا کی گئی۔ فوجی تنظیم اور مراتب میں اعشاری نظام قائم تھا۔ اس نظام کے مطابق دس سپاہیوں پر ایک افسر مقرر تھا۔ جسے عارف یا امیر العشرہ کہتے تھے۔ دس عارف ( یا سو سپاہی) ایک نائب کے ماتحت ہوتے تھے اور دس نائبوں پر ایک قائد ہوتا تھا۔ ایک ایک امیر کے ماتحت دس قائد یعنی دس ہزار سپاہی ہوتے تھے۔ اس کے بعد سب سے بڑا افسر سالار کہلاتا تھا جس کے تحت بہت سے امیر ہوا کرتے تھے۔ ان فوجی عہدے داروں کے علاوہ فوج کے علاوہ فوج میں دیگر افسر بھی تھے۔ مثلاً قاضی، ترجمان، خزانچی، پرچہ نویس وغیرہ۔ صوبائی فوج گورنر کے ماتحت تھی۔ صوبائی فوج کی تنظیم کے لیے مرکز سے الگ ہر صوبہ میں دیوان الجند کا محکمہ باقاعدہ قائم تھا جس کے ذمہ فوج کی تنظیم تھی۔

جہاں تک فوج کی بھرتی کا تعلق تھا اس میں عرب اور غیر عرب سب شامل تھے۔ شامیوں عراقیوں اور بربریوں کی کثیر تعداد اموی فوج کا جزو تھی۔ امیر معاویہ کے زمانہ میں بھرتی کی رفتار تیز تر کر دی گئی تھی اور تقریباً ایک لاکھ اسی ہزار مستقل فوج موجود تھی جس میں سے ساٹھ ہزار سپاہی مستقل فوج سے تعلق رکھتے تھے جن میں شامیوں کی اکثریت تھی۔ دار الخلافہ دمشق میں مرکزی فوج ہروقت موجود رہتی تھی۔ مرکز میں ایک الگ محکمہ فوج (دیوان الجند) قائم تھا جو براہ راست خلیفہ کی نگرانی میں کام کرتا تھا۔ اموی فوج میں عربی عنصر کو بنیادی حیثیت حاصل تھی اور وہی تمام بڑے بڑے عہدوں پرفائز تھے۔ فوجیوں کو بیت المال سے وظائف اور خاص تنخواہیں بھی دی جاتی تھیں۔ امیر معاویہ کے زمانہ میں ایک سپاہی کی تنخواہ ایک ہزار درہم سالانہ تھی۔ ولید ثانی کے زمانے میں اس شرح میں معمولی سا اضافہ کیا گیا لیکن مالی مشکلات کی بنا پر یزید ثالث کے زمانہ میں اس میں کچھ کمی کر دی گئی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مروان ثانی کے زمانہ میں بنو امیہ کا دور انحطاط شمار کیا جاتا ہے۔ اموی مستقل فوج کی تعداد تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار تھی۔ اس غیر اور مستقل فوج کے علاوہ بنو امیہ کی سپاہ میں رضاکار بھی شامل تھے۔ اگرچہ انھیں تنخواہ تو نہ دی جاتی لیکن مال غنیمت میں انھیں حصہ دیا جاتا۔ ڈاکٹر حسینی کے بقول یہ رضاکار بالعموم اپن ساتھ اسلحہ اور وردی لاتے اور جنگ کے تمام اخراجات خود برداشت کرتے۔ بعض اوقات عورتیں بھی فوج کے ساتھ شامل ہوتیں تاکہ وہ زخمی فوجیوں کی خدمت کر سکیں۔ کئی مواقع پر ان عورتوں نے بھاگتے ہوئے مسلمان سپاہیوں کو غیرت دلا کر پھر میدان جنگ میں دھکیل دیا۔

فوجی چھاؤنیاں[ترمیم]

بنو امیہ کے عہد حکومت میں دمشق، بصرہ، واسط اور قیروان اہم فوجی چھاؤنیاں اور بھرتی کے مراکز تھے۔ ان فوج چھاؤنیوں میں ہر وقت تازہ دم فوج تیار رہتی۔ ان کی حفاظت کے لیے اردگرد محفوظ فصلیں تعمیر کی جاتی تھیں۔ سرحدوں پر جابجا پختہ قلعے بنائے جاتے جن میں حفاظتی دستے مقیم رہتے تاکہ بیرونی حملہ کی صورت میں فوج بروقت کارروائی کر سکے۔

اسلحہ[ترمیم]

اس زمانہ کے رواج کے مطابق اسلحہ میں نیزے، بھالے، تیر کمان، تلواریں ز رہیں، ڈھالیں، کلہاڑے وغیرہ بکثرت استعمال ہوتے تھے۔ قلعوں کی فصیلوں کو توڑنے کے لیے قلعہ شکن آلات کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ منجنیق سے قلعے کی فصلیوں پر بڑے بڑے پتھروں کی بارش کی جاتی تھی لیکن کبشن کا آلہ ٹکریں مار مار کر قلعہ کی دیوار توڑ دیتا تھا۔ اس کے علاوہ آگ لگانے والے آتش گیر مادے کا بھی رواج تھا

بحری فوج[ترمیم]

امیر معاویہ کے زمانہ میں بحری فوج کا قیام ایک زبردست کارنامہ ہے۔ خلفائے راشدین کے زمانہ میں جب آپ شام کے گورنر تھے تو آپ نے بحری فوج کی تنظیم کی طرف توجہ مبذول کی تھی۔ خلیفہ بننے کے بعد آپ نے طاقتور بحریہ کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا کیونکہ رومی اکثر شام کے ساحلی علاقوں پر یلغار کرتے رہتے تھے۔ 49ھ (669ء) تک عربوں کے پاس مصر میں بحری جہاز تیار کرنے کا ایک کارخانہ تھا۔ ایک ایسے ہی کارخانہ کی شام میں بھی ضرورت محسوس کی گئی۔ چنانچہ ساحل شام پر جہاز سازی کے کارخانہ کو قائم کرکے فن جہاز سازی کی ضرورت محسوس کی گئی۔ چنانچہ ساحل شام پر جہاز سازی کے کارخانہ کو قائم کرکے فن جہاز سازی کی ترقی کے لیے زبردست اقدامات کیے گئے۔ عکہ کی بندرگاہ کو بحری سرگرمیوں کے لیے مرکز بنا کر امیر معاویہ نے رومیوں کے حملوں کی روک تھام اور ان کے خلاف جنگی کارروائیوں کے لیے کئی اقدامات کیے۔ امیر معاویہ کی وفات کے وقت اسلامی بحریہ کے پاس تقریباً سترہ ہزار بحری جہاز موجود تھے۔ شام کے علاوہ مصر میں بھی کئی کارخانے بحری جہاز بنانے میں مصروف تھے۔

عدلیہ[ترمیم]

مسلمانوں کی حکومت میں عدلیہ ہمیشہ بہت اہم شعبہ رہا ہے۔ بنو امیہ نے بھی اس اہمیت کے پیش نظر اس شعبہ کے لیے صالح ترین افراد منتخب کیے۔ زیاد والی بصرہ نے سیاسی معمولات میں جو کردار ادا کیا ہو عدلیہ کے لیے اس نے حضرت انس بن مالک، حضرت عبد الرحمن بن سمرو جیسے صحابہ کا انتخاب کیا۔ بنو امیہ کو اس کا احساس تھا کہ ایماندار اور ذمہ دار عدلیہ عوام کا اعتماد بحال رکھنے میں کیا حصہ ادا کرتی ہے۔

عدلیہ کی تنظیم بالعموم خلافت راشدہ کے طرز پر ہی قائم رکھی گئی۔ ہر ضلع میں قاضی مقرر کیا جاتا تھا اور صوبہ میں ایک بڑا قاضی مقرر ہوتا تھا۔ قاضی کو بعض اوقات اوقاف وغیرہ کی نگرانی کے فرائض بھی سونپ دیے جاتے تھے البتہ اموی دور میں قاضیوں کا تقرر صوبائی گورنر ہی کی طرف سے ہوتا تھا جو اسے معزول کرنے کا اختیار بھی رکھتا تھا۔ خلافت راشدہ کی طرف سے خلیفہ کو قاضی کی عدالت مں طلب نہیں کیا جا سکتا تھا۔ خلیفہ کا رعب و جلال اس حد تک ہوتا تھا کہ کوئی شخص خلیفہ سے جھگڑا کرنے یا اس کے خلاف استغاثہ دائر کرنے کی ہمت ہی اپنے اندر نہ رکھتا تھا۔ صوبائی گورنر بھی قاضی کے سامنے جوابدہ نہ ہوتے۔ گویا عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی مکمل نہیں رہی تھی بلکہ عدلیہ پر انتظامیہ کی ایک گونہ برتری قائم ہو گئی تھی تاہم جہاں عوام کا تعلق ہے ان کے فیصلے بدستور نہایت دیانتداری سے اور اسلامی قانون کے تحت ہی ہوت تھے۔ اور ذمیوں کے فیصلے ان کے ذاتی قانون PERSONAL LAW کے تحت ہوتے تھے۔

بنو امیہ نے گورنروں اور بااثر لوگوں کے مظآلم کے انسداد کے لیے دیوان مظالم کے نام سے ایک الگ عدالت بھی قائم کی تھی جس کی صدارت بالعموم خلیفہ خود کرتا۔ کبھی کبھار قاضی القضاہ بھی اس کی صدارت کرتا تھا۔ اس عدالت کی موجودگی کی وجہ سے اموی اعمال مظالم کرنے سے ہچکچاتے ضرورت تھے لیکن خلیفہ کے معتمد علیہ ہونے کی صورت میں یہ عدالت ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتی تھی۔