فہیم شناس کاظمی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
فہیم شناس کاظمی

معلومات شخصیت
پیدائش 11 مئی 1965ء (59 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ضلع نواب شاہ ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ سندھ
جامعہ کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد ایم اے ،  پی ایچ ڈی   ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  سندھی ،  پنجابی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت سندھ مسلم گورنمنٹ آرٹس اینڈ کامرس کالج کراچی ،  سینٹ پیٹرکس کالج کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی (پیدائش: 11 مئی، 1965ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو، سندھی، پنجابی اور سرائیکی کے شاعر، کالم نگار، مترجم اور کراچی کے مقامی کالج میں اردو کے پروفیسر ہیں۔

حالات زندگی و تعلیم[ترمیم]

فہیم شناس 11 مئی، 1965ء کو ضلع نوابشاہ، صوبہ سندھ، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید فہیم اقبال ہے لیکن ادبی دنیا میں فہیم شناس کے نام سے معروف ہیں۔ ان کا تعلق ضلع چکوال کے ایک صوفی بزرگ سید شاہ شرف کے خاندان سے ہے۔ انھوں نے سندھ یونیورسٹی جامشورو سے ایم اے (اردو) کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں سندھ مسلم گورنمنٹ آرٹس اینڈ کامرس کالج کراچی میں بطور لیکچرار وابستہ ہو گئے، جہاں وہ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اردو کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ مزید برآں انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے اردو کے مشہور شاعر عزیز حامد مدنی کی شخصیت و فن پر 2015ء میں ڈاکٹر شاداب احسانی کی نگرانی میں مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔[2]

فنی اسلوب[ترمیم]

فہیم شناس کاظمی جدید اردو نظم میں ایک اہم مقام اور انفرادیت کے حامل ہیں۔ ان کی شاعری میں فکری تنوع انھیں اپنے ہم عصر شعرا سے نہ صرف ممتاز کرتا ہے بلکہ ان کے وسیع فکری تناظر کی گواہی بھی دیتا ہے۔ ان کا فکری دائرہ صرف حال کی سیاسی و سماجی صورت حال تک محدود نہیں بلکہ اس نے ماضی میں اتر کر اپنے قومی سفر کی بازیافت کی ہے۔[3]

فہیم شناس کی شاعری میں لمحۂ موجود اپنی پوری توانائی کے ساتھ دھڑکتا ہے جس میں انسان اور انسانیت کے حوالے سے نت نئے دکھوں اور مسائل میں ہر آن بدلتی اور ٹوٹتی اقدار کی گونج سنائی دیتی ہے۔[2]

تصانیف[ترمیم]

شاعری[ترمیم]

ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی کے پہلے شعری مجموعے "سارا جہاں آئینہ ہے" کا سر ورق ہے
  • 1999ء - سارا جہاں آئینہ ہے (ناشر: فکشن ہاؤس لاہور)
  • 2009ء - خواب سے باہر (ناشر: فکشن ہاؤس لاہور)
  • 2013ء - راہداری میں گونجتی نظم (ناشر: دنیازاد پبلی کیشنز کراچی)

تراجم[ترمیم]

  • 2002ء - سندھ کی آواز (جی ایم سید کے عدالتی بیان کا ترجمہ، ناشر: فکشن ہاؤس لاہور)
  • 2012ء - سارتر کے بے مثال افسانے (ناشر: سٹی بک پوائنٹ کراچی)
  • 2012ء - سارتر کے مضامین (ناشر: سٹی بک پوائنٹ کراچی)

ترتیب و تدوین[ترمیم]

  • 2004ء - تیرے عشق نے مالامال کیا (صابر ظفر کی گیتوں اور غزلوں کا انتخاب)
  • 2010ء - بوئے گل نالۂ دل (جلد اول) شیخ ایاز (ناشر: محکمہ ثقافت و سیاحت سندھ)
  • 2010ء - حلقہ مری زنجیر کا (جلد دوم) شیخ ایاز (ناشر: محکمہ ثقافت و سیاحت سندھ)
  • 2016ء - ژاں پال سارتر کے انٹرویو (ناشر: فکشن ہاؤس لاہور)

صحافت[ترمیم]

اعزازات[ترمیم]

  • 2003ء - آہٹ ایوارڈ بہترین شاعر پاکستان کا پرچم
  • 2012ء - جناح ایوارڈ بہترین شاعر و نقاد پاکستان کا پرچم
  • 2015ء - نشان سپاس خانۂ فرہنگ ایران کراچی ایران کا پرچم

نمونۂ کلام[ترمیم]

غزل

تمہارے بعد جو بکھرے تو کُو بہ کُو ہوئے ہم پھر اس کے بعد کہیں اپنے روبرو ہوئے ہم
تمام عمر ہوا کی طرح گزاری ہےاگر ہوئے بھی کہیں تو کبھُو کبھُو ہوئے ہم
یوں گردِ راہ بنے عشق میں سمٹ نہ سکے پھر آسمان ہوئے اور چارسُو ہوئے ہم
رہی ہمیشہ دریدہ قبائے جسم تمام کبھی نہ دستِ ہُنر مند سے رفو ہوئے ہم
خود اپنے ہونے کا ہر اک نشاں مٹا ڈالا شناسؔ پھر کہیں موضوعِ گفتگو ہوئے ہم[4]

غزل

خامشی اتنی رہی ہے مجھ میںگفتگو ڈوب گئی ہے مجھ میں
دُور تک دنیا نظر آنے لگیایسی دیوار گری ہے مجھ میں
میں مہکتا ہوں تری خوشبو سےخود کو تُو بھول گئی ہے مجھ میں
کتنا شفاف تھا منظر میراکس قدر دُھول اُڑی ہے مجھ میں
زندگی رقص کبھی کرتی تھیاب تو چُپ چاپ پڑی ہے مجھ میں
میری تکمیل تو ہو جائے شناسایک منظر کی کمی ہے مجھ میں ​

غزل

بدن کو خاک کیا اور لہو کو آب کیا پھر اس کے بعد مرتب نیا نصاب کیا
پھر اس کے بعد ترے عشق کو لگایا گلےہر ایک سانس کو اپنے لیے عذاب کیا
اگر وجود میں آ کر اسے نہ ملنا تھاہمیں کیوں بھیج کے اس دہر میں خراب کیا
اسی نے چاند کے پہلو میں اک چراغ رکھااسی نے دشت کے ذروں کو آفتاب کیا[5]

بھول جاتا ہوں میں

خواب لکھتے ہوئے
ہجر کی رات کو
درد کے ساتھ کو
وصل لکھتے ہوئے
بھول جاتا ہوں میں
کاسنی شام کو
اپنے ہر کام کو
اپنے انجام کو[6]

ناقدین کی رائے[ترمیم]

فہیم شناس کاظمی کی شاعری کا فکری کینوس بہت وسیع ہے اور ماضی سے حال تک کا سفر طے کرنا۔۔۔۔مسلم زوال کے کئی موڑوں کی نشان دہی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ان کی نظموں کا مواد برصغیر میں مسلم زوال کی تاریخ کے ساتھ اپنی ادبی روایات خصوصاً داستان کی پُرتحیر دنیا سے جنم لیتا ہے۔ ڈاکٹر رشید امجد[7]
فہیم شناس کے ہاں کہیں کہیں قنوطیت بھی ہے اور رجائیت بھی۔ موت کا تصور بھی ہے اور زندگی کا بوجھل پن بھی۔ جبر و قدر کی نمائندہ نظم بھی ہے اور وجودیت کو چھوتی ہوئی عارفیت اور تنہائی میں ڈوبی ہوئی نظم بھی۔ تاریخ کے نوحے بھی ہیں اور آج کا سانحہ بھی۔ حالات کی سفاکی بھی ہے اور خیالات کی جنت بھی۔ وہ بعض ایسے امیج خلق کرتا ہے جو جمالیاتی مسرت سے ہم آغوش کرتے ہیں۔ رؤف نیازی[8]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. https://www.rekhta.org/authors/faheem-shanas-kazmi
  2. ^ ا ب "فہیم شناس کاظمی، پاکستانی کنیکشنز، برمنگھم برطانیہ"۔ 23 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مارچ 2017 
  3. فہیم شناس کاظمی: راہداری میں گونجتی نظم، دنیازاد پبلی کیشنز کراچی 2013ء، مضمون: زمانوں میں سفر کرتی شاعری، ڈاکٹر رشید امجد، ص 11
  4. غزلیات، اخبار اردو، شمارہ مارچ-اپریل 2013ء،ادارہ فروغ قومی زبان،اسلام آباد
  5. بدن کو خاک کیا اور لہو کو آب کیا (غزل)، فہیم شناس کاظمیریختہ ویب، بھارت
  6. فہیم شناس کاظمی: راہداری میں گونجتی نظم، دنیازاد پبلی کیشنز کراچی 2013ء، ص 156
  7. فہیم شناس کاظمی: راہداری میں گونجتی نظم، دنیازاد پبلی کیشنز کراچی 2013ء، مضمون: زمانوں میں سفر کرتی شاعری، ڈاکٹر رشید امجد، ص 12
  8. فہیم شناس کاظمی: راہداری میں گونجتی نظم، دنیازاد پبلی کیشنز کراچی 2013ء، مضمون: من ہستم ۔۔۔۔۔ پسِ ہستم، رؤف نیازی، ص 40