ابو موسیٰ اشعری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عبد اللہ بن قیس
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
ابو موسیٰ اشعری
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 602ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زبید  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 665ء (62–63 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ (632–661)
سلطنت امویہ (661–666)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد ابو بردہ بن ابی موسیٰ اشعری،  ابوبکر بن ابی موسیٰ اشعری  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
نمایاں شاگرد انس بن مالک  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ الٰہیات دان،  قاری  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوہ خیبر،  فتح مکہ،  غزوہ حنین،  غزوہ تبوک  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ(19ق.ھ / 44ھ) آپ کا نام عبد ﷲ ابن قیس ہے مکہ معظمہ میں ایمان لائے پھر حبشہ ہجرت کر گئے پھر کشتی والوں کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے راہ میں خیبر میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ملاقات ہو گئی، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آپ کو بیس ہجری میں بصرہ کا حاکم بنایا آپ نے اہواز کا علاقہ فتح کیا شروع خلافت عثمانیہ تک آپ بصرہ کے حاکم رہے،پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ کو معزول کرکے کوفہ کا حاکم بنادیا ، آپ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت تک کوفہ کے حاکم رہے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں اپنا ثالث مقرر کیا تھا،اس کے بعد آپ مکہ معظمہ چلے گئے وہاں ہی (52ھ) باون ہجری میں آپ کی وفات ہوئی۔[2]

نام و نسب و خاندان[ترمیم]

عبد اللہ نام، ابوموسیٰ کنیت ،والد کانام قیس اور والدہ کانام طیبہ تھا،سلسلہ نسب یہ ہے: عبد اللہ بن قیس بن سلیم بن حضار بن حرب بن عامر بن عنز بن بکر بن عامر بن عذر بن وائل بن ناجیہ بن الجماہر بن لاشعر بن اددبن زید بن یشجب۔ حضرت ابوموسیٰ ؓ یمن کے رہنے والے تھے، ان کا خاندان قبیلہ اشعر سے تعلق رکھتا تھا ، اسی کے انتساب سے وہ اشعری مشہور ہوئے اور ان کی والدہ طیبہ بنت وہب قبیلہ عک سے تعلق رکھتی تھیں، وہ اپنے صاحبزادہ کی ہدایت سے ایمان لائیں اور مدینہ پہنچ کر وفات پائی۔ [3] [4]

قبول اسلام[ترمیم]

ساقیِ توحید کے صلائے عام پر نزدیک والوں نے اپنے کان بند کر لیے تھے، لیکن حق کے متلاشی دور دراز ممالک سے دشوار گزار منزلیں طے کرکے آتے تھے اور اپنی پیاس بجھاتے تھے، حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ یمن سے چل کر مکہ مکرمہ آئے اور بادۂ اسلام کے ایک ہی جام میں سرشار ہو گئے ،وہ مکہ میں قبیلہ عبد شمس سے حلیفانہ تعلق پیدا کر کے پھر اپنے وطن آئے۔[5] کہ اپنے اعزہ اور احباب کو بھی یہ خوشخبری سنائیں۔ [6]

ہجرت[ترمیم]

حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ خاندان کے ایک ذی اثر رئیس تھے، اس لیے ان کی دعوتِ حق نے بہت جلد قبولیت عام حاصل کر لی اور وہ تقریبا ً 50 حلقہ بگوشان اسلام کی ایک جماعت لے کر بحری راستہ سے بارگاہِ نبوت کی طرف چل کھڑے ہوئے، لیکن طوفان و بادِ مخالف نے اس کشتی کو حجاز کی بجائے حبش پہنچا دیا، حضرت جعفر ؓ اور دوسرے ستم زدگانِ اسلام جو یہاں ہجرت کر کے آئے تھے اور اب تک موجود تھے، مدینہ منورہ کے قصد سے روانہ ہوئے تو حضرت ابو موسیٰ ؓ بھی اس قافلہ میں شریک ہو گئے اور عین اس وقت مدینہ پہنچے جب کہ مجاہدین اسلام خیبر فتح کر کے واپس آ رہے تھے، چنانچہ آنحضرت نے حضرت ابو موسیٰ ؓ اشعری اور ان کی تمام جماعت کو بھی خیبر کے مالِ غنیمت میں حصہ مرحمت فرمایا۔ [7] [8][9]

غزوات[ترمیم]

حضرت ابو موسی اشعری ؓ فتح مکہ اور غزوہ حنین میں شریک تھے، بنو ہوازن رزم گاہ حنین سے بھاگ کر وادی اوطاس میں پھر مجتمع ہونے لگے تو آنحضرت نے حضرت ابو عامرؓ کو ایک جمعیت کے ساتھ ان کے استیصالِ کامل پر مامور فرمایا، انھوں نے اوطاس پہنچ کر بنو ہوازن کے سردار ورید بن الصمہ کو قتل کیا اور خدا نے اس کے ساتھیوں کو شکست فاش دی ، لیکن اتفاقاً حشمی نام ایک مشرک کے تیر نے ان کو بھی زخمی کر دیا، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ اس مہم میں شریک تھے، فرماتے ہیں کہ میں نے بڑھ کر اُن سے پوچھا یا عم ! کس نے آپ کو زخمی کیا؟ انھوں نے اشارہ سے بتایا تو میں اس پر جھپٹ پڑا، وہ مجھ کو دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا؛ لیکن میں تعاقب کرتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کیا تجھے شرم نہیں آتی؟ کیا تو ثابت قدم نہ رہے گا؟ غرض وہ ان غیرت انگیز جملوں سے جوش میں آکر پلٹ پڑا اور تلوار کے دو دو ہاتھ چلنے لگے، یہاں تک کہ میں نے اس کو قتل کیا اور ابو عامر کو آکر بشارت دی کہ خدا نے آپ کے دشمن کو مار ڈالا۔

حضرت ابو عامرؓ کا زخم نہایت مہلک تھا، انھوں نے حالتِ نزع میں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓکو اپنا جانشین بنایا اور کہا، جانِ برادر! رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کرنا اور کہنا کہ میرے لیے دعائے مغفرت فرمائیں، اس وصیت کے تھوڑی دیر بعد روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی،ابوموسیٰ اشعری ؓ نے ان کو سپرد خاک کر کے فوج کو مراجعت کا حکم دیا اور بارگاہِ نبوت میں حاضر ہو کر میدانِ جنگ کی کیفیت اور حضرت ابو عامر اشعری ؓ کی وصیت بیان کی، سرورِ کائنات نے اسی وقت پانی مانگ کر وضو فرمایا، پھر دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی اے خدا! ابو عامرؓ کو بخش دے، اے خدا تو اس کو قیامت کے روز اپنی بہت سی مخلوق پر تفوق عطا فرما، حضرت ابو موسیٰ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے لیے بھی، فرمایا خدایا عبد اللہ ابن قیس کی خطائیں بخش دے اور قیامت کے دن اس کا باعزت داخلہ فرما۔ [10]

میں غزوہ تبوک کا اہتمام ہونا شروع ہوا تو حضرت ابو موسیٰ ؓ کو ان کے ساتھیوں نے بھیجا کہ دربارِ نبوت سے ان کے لیے سواریوں کا انتظام کریں، اتفاق سے آنحضرت اس وقت حالتِ غیظ میں تھے، لیکن حضرت ابو موسیٰ ؓ اس کا اندازہ نہ کر سکے اور عرض کیا یا رسول اللہ میرے ساتھیوں نے مجھ کو بھیجا ہے کہ حضور ان کو سواریاں مرحمت فرمائیں۔ آنحضرت غصہ میں بیٹھے ہی تھے برہم ہو کر فرمایا واللہ ! تمھیں کوئی سواری نہ دوں گا، حضرت ابو موسیٰ ؓ کچھ اپنی محرومی اور کچھ اس خوف سے کہ شاید رسول خدا ان سے ناراض ہیں نہایت غمزدہ واپس آکر اپنے ساتھیوں کو اس کی اطلاع دی، لیکن وہ ابھی اچھی طرح کھڑے بھی نہ ہونے پائے تھے کہ حضرت بلال ؓ پکارتے ہوئے آئے، عبد اللہ بن قیس کہاں ہو؟ چلو رسولِ خدا یاد فرماتے ہیں وہ ان کے ساتھ پھر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے تو آپ نے دو ساتھ بندھے ہوئے اونٹوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ان کو اپنے ساتھیوں کے پاس لے جاؤ، حضرت ابو موسیٰ ؓ ان کو لیے ہوئے اپنی قوم میں آئے اور کہا کہ رسول خدا نے یہ 2 اونٹ تمھاری سواری کے لیے مرحمت فرمائے ہیں، لیکن خدا کی قسم چند آدمیوں کو میرے ساتھ کسی ایسے شخص کے پاس چلنا ہوگا جس نے رسول اللہ کی گفتگو سنی تھی، تاکہ یہ نہ خیال کرو کہ میں نے پہلے جو کچھ کہا تھا وہ دل سے گھڑ کر کہا تھا، لوگوں نے کہا خدا کی قسم ہم آپ کو سچا سمجھتے ہیں، آیندہ جو آپ کی خوشی ہو، غرض انھوں نے چند آدمیوں کو ساتھ لے جا کر لوگوں سے تمام واقعہ کی تصدیق کرا دی۔ [11] [12] [13][14]

ولایت یمن[ترمیم]

تبوک سے واپس آنے کے بعد ایک روز دو اشعری بزرگ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو اپنے ساتھ لے کر دربارِ نبوت میں حاضر ہوئے اور آنحضرت سے کسی عہدہ کی خواہش کی، آپ مسواک فرما رہے تھے، اس سوال پر دفعۃ مسواک رک گئی اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی طرف دیکھ کر فرمایا، ابوموسیٰ !ابوموسیٰ ؓ ! انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو دینِ حق کے ساتھ مبعوث فرمایا کہ میں ان کے دل کے حال سے آگاہ نہ تھا اور نہ یہ جانتا تھا کہ وہ کس عہدہ کی خواہش کریں گے، ارشاد ہوا کہ جو کوئی خود سے کسی عہدہ کی خواہش کرے گا اس کو ہرگز اس پر مامور نہ کروں گا، لیکن ابو موسیٰ تم یمن جاؤ میں نے تم کو وہاں کا عامل مقرر کیا۔ یمن دو حصوں پر منقسم تھا ،ایک اقصائے یمن جس میں جند اور عدن وغیرہ کے اضلاع شامل تھے اور دوسرا یمن ادنی یا زیریں یمن، اول الذکر پرحضرت معاذ بن جبل ؓ کا تقرر ہوا اور دوسرے پر حضرت ابو موسیٰ اشعری مامور ہوئے ،آنحضرت نے ان دونوں کو رخصت کرتے ہوئے حسب ذیل نصیحت فرمائی: یسراولاتعسرا وابشراولاتنفرواتطاوعا یعنی ملک والوں سے نرمی کے ساتھ پیش آنا سختی نہ کرنا، لوگوں کو خوش رکھنا، متنفر نہ کر دینا اور باہم میل جول سے رہنا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہمارے ملک میں جو سے ایک قسم کی شراب بنائی جاتی ہے اس کو "مزر" کہتے ہیں نیز شہد سے ایک طرح کی شراب ہوتی ہے جو "تبع" کے نام سے مشہور ہے، اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ ‘ہر وہ چیز جو نشہ لائے حرام ہے۔ [15] حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ چونکہ اپنے وطن میں گورنر ہو کر آئے تھے جہاں پہلے سے ان کا اثر موجود تھا، اس لیے قدرۃ انھوں نے اپنے خدمات نہایت کامیابی کے ساتھ انجام دیے، حضرت معاذ بن جبل ؓ سے دوستانہ تعلقات و مراسم کا سلسلہ بھی قائم تھا، بسا اوقات یہ دونوں بزرگ سرحد پر آ کر فروکش ہوتے اور باہم ملاقات کر کے تبادلۂ خیالات فرماتے تھے، ایک مرتبہ حضرت معاذ بن جبل ؓحضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی ملاقات کے لیے تشریف لائے تو دیکھا کہ ان کے پاس لوگوں کا ہجوم ہے اور ایک شخص کے دونوں ہاتھ گردن سے بندھے ہوئے ہیں، انھوں نے تعجب سے پوچھا کہ"عبد اللہ بن قیس ! یہ کون ہے؟ بولے"یہ مرتد ہو گیا ہے" انھوں نے اس کے قتل کا مشورہ دیا، حضرت ابو موسیٰ نے کہا کہ "یہ گرفتار ہوکر آیا ہے، آپ گھوڑے سے اتر آئیے بولے جب تک وہ قتل نہ ہوگا میں نہ اتروں گا" حضرت ابو موسیٰ ؓ نے اس کے قتل کا حکم دیا تو وہ اتر کر اندر آئے اور دیر تک دوستانہ صحبت قائم رہی، حضرت معاذ ؓ نے پوچھا کہ آپ قرآن کس طرح پڑھتے ہیں،بولے کہ رات دن میں جب موقع مل جاتا ہے تھوڑا تھوڑا کرکے پڑھ لیتا ہوں، پھر پوچھا کہ آپ کس طرح تلاوت کرتے ہیں؟ بولے کہ میں رات کو ایک نیند سوکر اُٹھ بیٹھتا ہوں اور اس وقت خدا کو جس قدر منظور ہوتا ہے پڑھ لیتا ہوں۔ [16] [17] .[13][18]

حجۃ الوداع میں شرکت[ترمیم]

10ھ میں آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری حج فرمایا، حضرت ابو موسی ؓ یمن سے شرکت کے لیے آئے، آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا، عبد اللہ بن قیس ! کیا تم حج کے ارادے سے آئے ہو ؟ عرض کیا ہاں ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔، فرمایا نیت کیا تھی؟ بولے میں نے کہا تھا کہ جو رسول اللہ کی نیت ہے وہی میری نیت ہے، ارشاد ہوا کہ قربانی اپنے ساتھ لائے ہو؟ عرض کیا ،نہیں ،حکم ہوا کہ تم طواف اور سعی کر کے احرام کھول دو ،یہ اس وجہ سے کہ حج قران کی صورت میں قربانی لانا ضروری تھا۔ [19] [8][20]

یمن میں فتنہ وفساد[ترمیم]

حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ حج سے فارغ ہو کر پھر یمن واپس آئے، لیکن یہاں اسود عنسی کے ادعائے نبوت نے بہت جلد تمام ملک میں شورش و بغاوت پھیلادی، یہاں تک کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے مرکز حکومت "مارب" چلے آنے پر مجبور ہوئے، لیکن یہ بھی زیادہ دنوں تک محفوظ نہ رہ سکا اور بالآخر ان دونوں کو حضر موت میں پناہ لینی پڑی۔ [21] گو ابن مکتوح مرادی کی تلوار نے بہت جلد اسود عنسی کا قصہ تمام کر دیا، تاہم آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے دفعۃ پھر ارتداد و سرکشی کی آگ بھڑک اٹھی، لیکن خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے ایک زبردست مہم بھیج کر از سر نو تسلط قائم کر دیا اور اس طرح یمن کے امرا اور حکام پھر اپنے اپنے عہدوں پر واپس آگئے، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ بھی حضر موت سے اپنے دار الحکومت "مارب" واپس آئے اور خلیفہ دوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ابتدائے خلافت تک نہایت تدبر و جانفشانی کے ساتھ گورنری کے فرائض انجام دیتے رہے۔ [8][22][23]

فتح نصیبین[ترمیم]

حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں جب بیرونی فتوحات کا زیادہ وسیع پیمانہ پر انتظام کیا گیا اور حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی زیر قیادت رزمگاہِ عراق کی طرف ایک بہت بڑی مہم روانہ ہوئی تو حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بھی شوقِ جہاد میں عہدہ امارت سے مستعفی ہوکر اس فوج کشی میں شریک ہوئے۔ عراق کا اکثر حصہ فتح کر لینے کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے 17ھ میں دریائے دجلہ اورفرات کے درمیانی علاقہ یعنی الجزیرہ پر ایک عام فوج کشی کا اہتمام کیا اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نصیبین کی فتح پر مامور کیا، انھوں نے نہایت کامیابی کے ساتھ یہ مہم سر انجام دی۔ [24] [8][13][25]

ولایتِ بصرہ[ترمیم]

اسی سال دربارِ خلافت راشدہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کو معزول کرکے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو بصرہ کا والی مقرر کیا اس موقع پر اہل بصرہ کے نام جو فرمان آیا تھا اس کے الفاظ یہ تھے۔ اما بعد فانی قد بعثت ابا موسیٰ امیرا علیکم لیاخذ لضعیفکم من قویکم ولیقاتل بکم عدوکم ولیدفع عن ذمتکم ولیحصی لکم فلیئکم ثم لیقسمہ بینکم ولینقی لکم طرقکم میں نے ابوموسیٰ کو تم پر امیر بناکر بھیجا ہے تاکہ قوی سے کمزور کا حق دلائیں، تمھارے دشمنوں سے لڑیں، ذمیوں کی حفاظت کریں، تمھاری آمدنی کا تم کو حساب دیں، پھر اس کو تم میں تقسیم کریں اور تمھارے راستوں کو تمھارے لیے صاف رکھیں۔ [26][27]

فتح خوزستان[ترمیم]

بصرہ کی سرحد خوزستان سے ملی ہوئی تھی اور وہ اب تک ایرانیوں کے قبضہ میں تھا، 16ھ میں حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے اس کو فتح کرنے کے خیال سے اہواز پر فوج کشی کی تو یہاں کے رئیس نے ایک قلیل سی رقم دے کر صلح کرلی اور حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ وہیں رک گئے، 17ھ میں ان کی جگہ پر حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ آئے، اس انقلاب میں اہواز کے رئیس نے سالانہ رقم بند کردی اور علانیہ بغاوت کا اظہار کیا،مجبوراً انھوں نے لشکر کشی کی اور اہواز کو فتح کرکے مناذر کا رخ کیا، یہ ایک نہایت مستحکم مقام تھا،حضرت مہاجر بن زیاد ؓ جو ایک معزز افسر تھے،یہاں ایک معرکہ میں شہید ہوئے اور قلعہ والوں نے ان کا سرکاٹ کر برج کے کنگرہ پر لٹکا دیا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری حضرت مہاجر بن زیاد ؓ کے بھائی ربیع کو اس کے محاصرہ پر چھوڑ کر سوس کی طرف بڑھے، ربیع نے مناذر کو سرکرلیا اور حضرت ابوموسیٰ ؓ نے سوس کا محاصرہ کرکے ہر طرف سے رسد بند کردی، قلعہ میں کھانے پینے کا سامان ختم ہو چکا تھا، مجبوراً رئیس شہر نے اس شرط پر صلح کی درخواست کی کہ اس کے خاندان کے سو آدمی چھوڑ دیے جائیں، حضرت ابوموسیٰ ؓ نے منظور کیا،رئیس نے ایک ایک کرکے سو آدمیوں کو پیش کیا اور وہ سب چھوڑ دیے گئے ،لیکن بد قسمتی سے اس نے شمار میں خود اپنا نام نہیں لیا، چنانچہ جب سو آدمیوں کی تعداد پوری ہو گئی تو انھوں نے رئیس کو جوشمارے سے باہر تھا قتل کرا دیا۔ سوس کے بعد رامہرمز کا محاصرہ ہوا اور آٹھ لاکھ درہم سالانہ پر صلح ہو گئی یزدگرد نوجوان شہنشاہِ ایران اس وقت قم میں مقیم تھا، اس کو حضرت ابوموسیٰ ؓ کی فتوحات کی خبریں پہنچیں تو اس نے اپنے ماموں ہرمزان کو خوزستان کی حفاظت کے لیے بھیجا، ہرمزان نے شوستر پہنچ کر اس کو مستحکم کیا اور تمام ملک میں جوش پیدا کرکے اپنے گرد ایک بہت بڑی فوج جمع کرلی،حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے ان حالات سے درباِ خلافت کو مطلع کیا اور مدد کی درخواست کی وہاں سے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے نام جو کوفہ کے گورنر تھے، حکم آیا کہ نعمان بن مقرن کو ایک ہزار سپاہیوں کے ساتھ مدد کو بھیجیں، لیکن غنیم کی کثرت اور سروسامان کے مقابلہ میں یہ معیت بیکار تھی، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے دوبارہ لکھا جس کے جواب میں حضرت عمار بن یاسر ؓ کوفہ سے ایک بڑی فوج لے کر آئے اور دوسری طرف جریز بجلی ایک جرار لے کر جلولاء پر حملہ آور ہوئے، غرض حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے اس سرو سامان سے شوستر کا رخ کیا اور شہر کے قریب پہنچ کر ڈیرے ڈالے،ہرمزان نے خود قلعہ سے باہر نکل کر مقابلہ کیا اور شکست کھا کر پھر قلعہ بند ہو گیا۔

شوستر نہایت مستحکم مقام تھا، اس کی تسخیر کے متعلق حضرت ابوموسیٰ ؓ کی تمام کوششیں بے نتیجہ رہیں، لیکن خدانے غیب سے سامان پیدا کر دیا، ایک دن شہر کا ایک آدمی چھپ کر ان کے پاس آیا اور کہا کہ اگر میری جان و مال کو امن دیا جائے تو میں شہر پر قبضہ کرادوں، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے منظور کیا،اس نے ایک عرب کو جس کا نام اشرس تھا،ساتھ لیا،اور نہروجیل سے گذر کر ایک تہ خانہ کی راہ لی خاص شہر میں داخل ہوا، اشرس کے منہ پر چادر ڈال دی اور کہا کہ نوکر کی طرح میرے پیچھے چلے آؤ؛ چنانچہ شہر کے گلی کوچوں سے گذرتا ہوا خاص ہرمزان کے محل میں آیا، شہری نے ان کو تمام عمارات کی سیر کرائی اور موقع کے نشیب وفراز دیکھا کر،حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا،ا شرس نے تفصیل کے ساتھ تمام کیفیت بیان کی اور کہا کہ دو سوجانباز میرے ساتھ ہوں تو شہر فوراً فتح ہوجائے ،حضرت ابوموسیٰ ؓ نے فوج کی طرف دیکھا دوسو بہادروں نے بڑھ کر کہا خدا کی راہ میں ہماری جان حاضر ہے،اشرس ان کو لے کر اسی تہ خانہ کی راہ شہر میں داخل ہوئے اور پہرہ والوں کو تہ تیغ کرکے اندر کی طرف سے دروازے کھول دیے ادھر حضرت ابوموسیٰ اشعر تمام فوج کے ساتھ موقع پر موجود تھے،دروازہ کھلنے کے ساتھ تمام لشکر ٹوٹ پڑا اورشہر میں ہلچل پڑ گئی، ہرمزان نے بھاگ کر قلعہ میں پناہ لی ،مسلمان قلعہ کے نیچے پہنچے تو اس نے برج پر چڑھ کر کہا میرے ترکش میں اب تک سو تیر ہیں اور جب تک اتنی ہی لاشیں یہاں نہ ڈھیر ہوجائیں میں گرفتار نہیں ہو سکتا،تاہم میں اس شرط پر اترآتا ہوں کہ تم مجھ کو مدینہ پہنچا دو اورجو کچھ فیصلہ ہو عمرؓ کے ہاتھ سے ہو، حضرت ابوموسی اشعری ؓ نے منظور کیا اور اس کو حضرت انس ؓ کے ساتھ مدینہ بھیج دیا۔ [28]

شوستر کے بعد جندی سابور پر حملہ ہوا اس کا کئی دن تک محاصرہ رہا، ایک دن شہر والوں نے خود شہر کے دروازے کھول دیے اور نہایت اطمینان کے ساتھ تمام لوگ اپنے کاروبار میں مصروف ہوئے، مسلمانوں کو ان کے اطمینان پر تعجب ہوا،سبب دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ تم ہم کو جزیہ کی شرط پر امن دے چکے اب کیا جھگڑا رہا، سب کو حیرت ہوئی کہ امن کس نے دیا؟ تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایک غلام نے لوگوں سے چھپا کر امن کا رقعہ لکھ دیا ہے، حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ایک غلام کی خودرائی حجت نہیں ہو سکتی، شہر والے کہتے تھے کہ ہم آزاد اور غلام نہیں جانتے،بالآخر دربارخلافت سے استصواب کیا گیا تو حکم ہوا کہ مسلمانوں کا غلام بھی مسلمان ہے اور جس کو اس نے امان دے دی تمام مسلمان امان دے چکے،[29] اس شہر کی فتح نے تمام خوزستان میں اسلام کا سکہ بٹھادیا اور اس طرح نہ صرف فتوحات کی فہرست میں ایک نئے ملک کا اضافہ ہوا، بلکہ بصرہ جہاں حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ عہدہِ امارت پر سرفراز ہوئے تھے، دشمنوں سے بالکل محفوظ ہو گیا۔ [30]

معرکہ ٔنہاوند[ترمیم]

خوزستان کی شکست سے متاثر ہوکر 21ھ میں ایرانیوں نے نہاوند میں ایک آخری اور فیصلہ کن جنگ کی تیاریاں کیں، حضرت عمرؓ نے نعمان بن مقرن کو ایک بڑی جمعیت کے ساتھ ان کے مقابلہ کے لیے روانہ فرمایا اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھا کہ بصرہ سے ان کو مدد پہنچائیں ،چنانچہ وہ ایک بڑی جماعت کے ساتھ خود کمک لے کر گئے اور نہاوند فتح کرکے واپس آئے۔ [31] [32] [33]

تبادلہ[ترمیم]

بصرہ کی کثرتِ آبادی کے لحاظ سے اس صوبہ کا رقبہ نہایت مختصر تھا،اس بنا پر اہلِ بصرہ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کی وساطت سے دربارِ خلافت میں یہ درخواست پیش کی کہ خوزستان کے مفتوحہ علاقہ میں سے رامہرمز،ابذح اور ماہ یا ماسپند ان کے اضلاع بصرہ سے ملحق کر دیے جائیں؛ لیکن اہل کوفہ اس علاقہ کی فتح میں برابر کے شریک تھے، انھوں نے اس پر صدائے احتجاج بلند کی اور حضرت عمار بن یاسر ؓ والی کوفہ سے درخواست کی کہ وہ اس علاقہ کو کوفہ میں شامل کرنے کی کوشش کریں،لیکن حضرت عمارؓ بن یاسر نے اس معاملہ میں بالکل غیر جانب داری اختیار کرلی اور فرمایا کہ مجھے ان جھگڑوں میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ غرض حضرت ابوموسیٰ ؓ کی تحریک پر یہ اضلاع بصرہ سے ملحق کر دیے گئے اوراہل کوفہ نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ناخوش ہوکر مسلسل شکایتوں کے بعد ان کو معزول کرا دیا، حضرت عمرؓ بن خطاب نے کوفہ والوں سے پوچھا کہ تم کس کو اپنا والی بنانا چاہتے ہو؟ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے جس خوش اسلوبی کے ساتھ بصرہ والوں کی حمایت کی تھی ،اس کے لحاظ سے انھوں نے حضرت ابوموسیٰ ؓ کا نام لیا، چنانچہ وہ ان کی درخواست پر 22ھ میں بصرہ سے کوفہ تبدیل کر دیے گئے، لیکن ایک ہی سال کے بعد یعنی 23ھ میں پھر بصرہ منتقل کیے گئے۔ [34]

الزام[ترمیم]

اسی سال ضبہ نامی ایک شخص نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے خلاف دربارِ خلافت میں حسب ذیل شکایتیں پیش کیں۔
(1)ابوموسیٰ اشعری ؓ نے اسیرانِ جنگ میں سے ساٹھ رئیس زادے چھانٹ کر اپنے لیے رکھے ہیں۔
(2)انھوں نے عنانِ حکومت زیاد بن سمیہ کو سپرد کردی ہے اوروہی سیاہ سپید کا مالک ہے۔
(3)انھوں نے حطیہ شاعر کو ایک ہزار انعام دیا ہے۔
(4)عقیلہ نامی ان کی ایک لونڈی ہے جس کو دونوں وقت نہایت عمدہ غذائیں بہم پہنچائی جاتی ہیں،حالانکہ اس قسم کی غذا عام مسلمانوں کو میسر نہیں۔ حضرت عمرؓ بن خطاب نے ان شکایتوں کو اپنے ہاتھ سے قلمبند کیا اور حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو دار الخلافہ طلب کرکے باضابطہ تحقیقات کی،چنانچہ پہلا الزام غلط ثابت ہوا،دوسرے الزام کا انھوں نے یہ جواب دیا کہ زیاد صاحبِ تدبیر و سیاست ہے، اس لیے میں نے اس کو اپنا مشیر کار بنایا ہے،حضرت عمرؓ نے زیاد کو بلاکر کے امتحان لیا تو حقیقت میں قابل آدمی تھا،اس لیے انھوں نے خود حکام بصرہ کو ہدایت کی کہ زیاد کو مشیر کاربنائیں، تیسرے الزام کے جواب میں حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہاکہ حطیہ کو میں نے اپنے جیب خاص سے انعام دیا ہے کہ وہ ہجو نہ کہے،لیکن چوتھے الزام کا وہ کوئی جواب نہ دے سکے، حضرت عمرؓ نے معمولی فہمائش کے بعد ان کو رخصت کر دیا۔ [35]
[36][37][38]

فتح اصفہان[ترمیم]

حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی سال یعنی 23ھ میں اصفہان پر فوج کشی کی اوراس کو فتح کرکے اسلامی ممالک محروسہ میں داخل کر دیا۔ [39] اصفہان فتح کرکے واپس آئے تو حضرت عمرؓ بن خطاب نے ان کو اسی سال بصرہ سے کوفہ کی گورنری پر منتقل کر دیا، لیکن کچھ دنوں کے بعد ہی وہ پھر بصرہ تبدیل ہوکر آگئے۔

تعمیر نہر ابی موسیٰ[ترمیم]

بصرہ میں لوگوں کو پانی کی سخت تکلیف تھی، دربارخلافت میں اس کی شکایت پہنچی تو حکم آیا کہ دریائے دجلہ سے نہر کاٹ کر لائی جائے ،وہ شہر سے تقریباً دس میل دور تھا، لیکن اس کی ایک شاخ صرف چھ میل پر واقع تھی ، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے خود مستعد ہوکر اس شاخ سے شہر بصرہ تک ایک نہر بنوائی جو اب تک "نہر ابی موسیٰ" کے نام شے مشہور ہے۔ اخیر ذوا الحجہ23ھ میں خلیفہ دوم نے شہادت پائی اور حضرت عثمان ذوالنورین ؓ نے مسند خلافت پر قدم رکھا، اس انقلاب میں عہدِ فاروقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اکثر عمال وحکام ایک ہی سال کے بعد سبکدوش ہو گئے ، لیکن حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ 29ھ تک بصرہ میں عہدہ امارت کے فرائض انجام دیتے رہے بیان کیا جاتا ہے کہ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو چارسال تک برقرار رکھنے کی وصیت فرمائی تھی۔ [40]

معزولی[ترمیم]

29ھ میں کردوں نے بغاوت کر دی، ابوموسیٰ ؓ نے مسجد میں ان کے خلاف جہاد کا وعظ کہا اورراہِ خدا میں پیادہ پا چلنے کے فضائل بیان کیے اس کا اثر یہ ہوا کہ بہت سے مجاہدین جن کے پاس گھوڑے موجود تھے،وہ بھی پیادہ پا چلنے پر تیار ہو گئے، لیکن حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے چند مخالفین نے کہا کہ ہم کو جلدی نہ کرنا چاہیے ،دیکھیں ہمارا والی کس شان سے چلتا ہے،غرض صبح کے وقت دارالامارت کے قریب مجاہدین کا مجمع ہوا،حضرت ابوموسیٰ ؓ گھوڑے پر سوار ہوکر برآمد ہوئے ،لوگوں نے بڑھ کر گھوڑے کی باگ پکڑلی اور اس پر اعتراض کیا۔ ظاہر ہے کہ حضرت ابو موسیٰ ؓ کا مقصد یہ نہ تھا کہ جن کے پاس گھوڑے موجود ہوں وہ راہ خدا میں ان سے کام نہ لیں، لیکن درحقیقت خلیفہ سوم ؓ کے عہدِ خلافت کا نصف اخیر فتنہ اور سازش کا دور تھا ،مفسدہ پردازوں نے اسی وقت دار الخلافہ کی راہ لی اور دربارِ خلافت سے ان کی معزولی کا مطالبہ کیا،چنانچہ حضرت عثمان بن ؓعفان نے ان کو معزول کرکے ایک کمسن نوجوان عبد اللہ بن عامر کو اس منصب پر مامور فرمایا۔ [41]

امارت کوفہ[ترمیم]

34ھ میں اہل کوفہ کی درخواست پر ابو موسیٰ اشعری ؓ پھر سعید بن العاص ؓ کی جگہ کوفہ کے والی مقررکیے گئے، لیکن یہ وہ زمانہ تھا کہ تمام دنیائے اسلام پر آشوب تھی اورملک میں ہر طرف سازش وفتنہ پردازی کا بازار گرم تھا، چونکہ حضرت ابو موسیٰ ؓ کو رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشین گوئی یاد تھی،اس لیے ان کو یقین تھا کہ عنقریب ہولناک خانہ جنگیوں کا سلسلہ شروع ہوگا، وہ عموماً اپنے وعظ میں اہل کوفہ کو رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشین گوئی سناتے اوراس آنے والے دورِ فتنہ سے کنارہ کش رہنے کی ہدایت فرماتے تھے، چنانچہ 35ھ میں حضرت عثمان ؓ کی شہادت اور حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی مسند نشین کے بعد وہ خطرہ بالکل سرپر آگیا۔

خانہ جنگی سے اجتناب[ترمیم]

حضرت عائشہ ؓ، حضرت طلحہ ؓ اورحضرت زبیر ؓ نے خلیفہ ثالث ؓ کے قصاص اور مطالبۂ اصلاح کا علم بلند کرکے بصرہ کا رخ کیا،حضرت علی ؓ ان کے مقابلہ کے لیے مدینہ سے چل کر مقام ذی قار میں آئے اور حضرت امام حسن ؓ کو حضرت عمار بن یاسر ؓ کے ساتھ کوفہ بھیجا کہ وہاں لوگوں کو خلافت کی اعانت پر آمادہ کریں، حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفہ پہنچے تو اس وقت حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ مسجد میں ایک عظیم الشان مجمع کے سامنے تقریر کر رہے تھے کہ سرورکائنات نے جس فتنہ کا خوف دلایا تھا وہ اب سرپر ہے اس لیے اسلحہ بیکار کردو اورعزلت نشین ہوکر بیٹھ جاؤ،رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ فتنہ وفساد کے زمانہ میں سونے والا بیٹھنے والے سے اور بیٹھنے والا چلنے والے سے بہتر ہے۔[42] اسی اثناء میں حضرت امام حسن ؓ داخلِ مسجد ہوئے اور حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے مخاطب ہوکر کہا،آپ ابھی ہماری مسجد سے نکل جائیے وہ نہایت سکون وخاموشی کے ساتھ منبر سے اترآئے،اور ملک شام کے ایک غیر معروف گاؤں میں جاکر گوشہ نشین ہو گئے۔ حضرت ابو موسی اشعری ؓ نے اہل کوفہ کو بارہا جس خطرہ سے آگا ہ کیا تھا، اس کو انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا،جنگ جمل میں عرب کے ہزاروں گھر بے چراغ ہو گئے اور میدانِ صفین میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور امیر معاویہ ؓ کی باہمی آویزش نے بیشمار مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہادیا۔

حکم مقرر ہونا[ترمیم]

معرکۂ صفین میں جب امیر معاویہ ؓ کے حامیوں نے حریف کا پلہ بھاری دیکھا ، تو اپنے نیزوں پر دمشق کا مصحف اعظم بلند کر کے عجیب و غریب طریقہ پر مصالحت کی دعوت دی، گو جناب امیر ؓ اس پر راضی نہ تھے،تاہم قرآن کی دعوت کا رد کرنا آسان نہ تھا،خود آپ کی فوج میں پھوٹ پڑ گئی، انجام کار تمام مابہ النزاع امور کا فیصلہ طرفین کے دو ثالث پر محول ہوا، امیر معاویہ ؓ نے اپنی طرف سے حضرت عمرو بن العاص ؓ کو حکم مانا اور حضرت علی ؓ کی طرف سے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کا انتخاب ہوا، دومۃ الجندل مقامِ اجلاس قرار پایا اور دونوں حکم ایک مقرر تاریخ پر مجمتع ہوئے، حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ ایک نہایت نکتہ رس اور معاملہ فہم بزرگ تھے،انھوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ اور عمرو بن العاص ؓ سے علاحدہ علاحدہ گفتگو کرکے ان کی رائے کا اندازہ کیا، تو ان کو یقین ہو گیا کہ یہ دونوں کسی امر پر متفق نہیں ہو سکتے،کیونکہ اگر ایک طرف کمال غیر جانبداری وبے لوثی ہے تو دوسری طرف شدید خود غرضی و پاسداری۔ غرض دونوں حکم باہم مشورہ کے لیے گوشہ خلوت میں مجتمع ہوئے، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے محض بے لوثی کے ساتھ صرف مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے خیال سے اس عہدہ کو قبول کیا تھا،ان کی رائے تھی کہ عنانِ خلافت کسی غیر جانبدار کے ہاتھ میں دے دی جائے تو اس خانہ جنگی کا دروازہ خود بخود بند ہو جائے گا، چنانچہ دونوں میں حسب ذیل گفتگو ہوئی: ابو موسی ؓ :عمرو تم ایک ایسی رائے کے متعلق کیا خیال رکھتے ہو جس سے خدا کی خوشنودی اور قوم کی بہبودی دونوں میسر آئے؟ عمرو بن العاص ؓ :وہ کیا ہے؟ ابوموسیٰ ؓ :عبد اللہ بن عمر کو منصبِ خلافت پر متمکن کرنا چاہیے، کیونکہ انھوں نے ان خانہ جنگیوں میں کسی طرح حصہ نہیں لیا ہے عمرو بن العاص ؓ :معاویہ ؓ میں کیا خرابی ہے؟ آپ جانتے ہیں کہ عثمان ؓ مظلوم شہید ہوئے ،امیر معاویہ ؓ ان کے قصاص کے دعویدار ہیں، ام المومنین ام حبیبہ ؓ ان کی بہن ہیں اور خود ان کو رسول اللہ کی مصاحبت کا شرف حاصل ہے۔ ابوموسیٰ ؓ : امیر معاویہ ؓ کے جن فضائل کا تم نے تذکرہ کیا، وہ استحقاقِ خلافت کے لیے کافی نہیں، اگر فضل و شرف ہی پر معیار ہو تو علی ؓ سے بڑھ کر کون ہے، رہا قصاص کا دعویٰ تو اس کے لیے امیر معاویہ ؓ کو خلافت کے معاملہ میں مہاجرین اولین پر ترجیح نہیں دی جا سکتی،ہاں اگر تم مجھ سے اتفاق کرو،تو فاروقِ اعظم ؓ کا عہد لوٹ آئے اور فاضل و عالم عبد اللہ اپنے باپ کی یاد پھر تازہ کر دے۔ عمرو بن العاص ؓ : میرے لڑکے عبد اللہ پر آپ کی نظرِ انتخاب کیوں نہیں پڑتی؟ فضل و منقبت میں تو وہ بھی کچھ کم نہیں۔ ابوموسی اشعری ؓ : بیشک وہ صاحبِِ فضل ومنقبت ہیں؛ لیکن ان خانہ جنگیوں میں شریک کرکے تم نے ان کے دامن کو بھی داغدار کر دیا ہے، برخلاف اس کے طیب بن الطیب عمرؓ کے بیٹے عبد اللہ کا لباس تقویٰ تمام دھبوں سے محفوظ ہے۔ عمروبن العاص ؓ : ابوموسیٰ اس منصب کی صلاحیت صرف اسی میں ہو سکتی ہے جس کے دو داڑھ ہوں ،ایک سے کھائے اور دوسرے سے کھلائے۔ ابو موسیٰ ؓ : عمرو تمھارا بُرا ہو، شدید کشت وخون کے بعد مسلمانوں نے ہمارادامن پکڑا ہے،اب ہم ان کو پھر فتنہ وفساد میں مبتلا نہیں کریں گے۔ عمروبن العاص ؓ : پھر آپ کی کیا رائے ہے؟ ابوموسیٰ ؓ : ہمارا خیال ہے کہ علی المرتضیٰ ؓ اور امیر معاویہ ؓ دونوں بر طرف کیے جائیں اور مسلمانوں کی مجلسِ شوریٰ کو پھر نئے سرے سے اختیار دیا جائے کہ وہ جس کو چاہے منتخب کرے۔ حضرت عمرو بن العاص ؓ : مجھے بھی اس سے اتفاق ہے۔ اس قرارداد کے بعد دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوئے،حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے پاس آکر کہا"خدا کی قسم مجھے یقین ہے کہ عمرو ؓ نے آپ کو دھوکا دیا ہوگا،اگر کسی رائے پر اتفاق ہوا ہو تو آپ ہر گز اعلان میں سبقت نہ کیجئے گا، کیا عجب ہے کہ وہ آپ کی مخالفت کر بیٹھیں، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نہایت نیک طینت بزرگ تھے،انھیں دنیا کی فریب کاریوں کی کیا خبر تھی، بولے ہم دونوں ایک ایسی رائے پر متفق ہوئے ہیں کہ اس میں اختلاف کی گنجائش ہی نہیں، غرض! دوسرے روز مسجد میں مسلمانوں کا مجمع ہوا، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے عمرو بن العاص ؓ سے فرمایا کہ منبر پر چڑھ کر فیصلہ سنادو، بولے میں آپ پر سبقت نہیں کرسکتا ،آپ فضل و منقبت اورسن وسال میں مجھ سے افضل اوربڑے ہیں حضرت ابوموسیٰ ؓ پر ان کا یہ افسوں چل گیا،وہ بغیر سوچے سمجھے کھڑے ہو گئے اورحمد وثناء کے بعد فرمایا: "صاحبو! ہم نے علی ؓ اور معاویہ ؓ دونوں کو معزول کیا اور پھر نئے سرے سے مجلس شوریٰ کو انتخاب کا حق دیا، وہ جس کو چاہے اپنا امیر بنائے" ابو موسیٰ ؓ اپنا فیصلہ سنا کر اتر آئے تو عمرو بن العاص ؓ نے کھڑے ہوکر کہا: "صاحبو!علی ؓ کو ابوموسیٰ ؓ کی طرح میں بھی معزول کرتا ہوں؛ لیکن معاویہ ؓ کو اس منصب پر برقرار رکھتا ہوں؛کیونکہ وہ امیر المومنین عثمان ؓ کے ولی اورخلافت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں" حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نہایت متقی ،پرہیز گار اور نیک نفس بزرگ تھے، اس خلاف بیانی پر ششد رہ گئے،چلا کر کہنے لگے،یہ کیا غداری ہے؟ یہ کیا بے ایمانی ہے؟ سچ یہ ہے کہ تمھاری حالت بالکل اس کتے کی طرح ہے جس پر بوجھ لادو جب بھی ہانپتا ہے اور چھوڑ دو جب بھی ہانتپا ہے ‘ وانما مثلک کمثل الکلب ان تحمل علیہ یلھث اوتترکہ یلھث، الایۃ’ عمرو بن العاص ؓ نے جواب دیا اور آپ پر" چار پائے بروکتابے چند" کی مثل صادق آتی ہے، مثلک کمثل الحماریحمل اسفارا۔

وفات[ترمیم]

حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے فریب کھاجانے پر اس قدر ندامت ہوئی کہ وہ اسی وقت مکہ معظمہ روانہ ہو گئے اور پھر کسی چیز میں حصہ نہ لیا، وفات کے سن اور مقام میں مختلف روایتیں ہیں، بعض لوگ ان کی وفات کا مقام مکہ بتاتے ہیں اور بعض کوفہ، لیکن راجح مکہ کی روایت ہے،بہرحال باختلاف روایت 42ھ ، 44ھ ، 52ھ میں بیمار پڑے اور بروایت صحیحہ ذالحجہ 44ھ میں وفات پائی،[43] آخری وقت تک احکام نبوی کا لحاظ رہا جب حالت زیادہ نازک ہوئی اور غشی طاری ہو گئی،تو جس عورت کی گود میں سر تھا، اس نے گریا وزاری شروع کردی، اس وقت بولنے کی طاقت نہ تھی، ہوش آیا تو کہا جس چیز سے رسول اللہ نے برأت کی ہے، اس سے میں بھی بری ہوں، جیب وگریبان پھاڑنے والی ،نوحہ و بکا کرنے والی اور کپڑے پھاڑ نے والی عورتوں سے آپ نے برأت ظاہر کی ہے۔ [44] اس کے بعد کفن ودفن وغیرہ کے متعلق ضروری وصیتیں کیں کہ جنازہ تیز چال سے لے چلنا، جنازہ کے ساتھ انگیٹھی نہ لے چلنا، لحد اورمیری میت کے درمیان کوئی مٹی روکنے والی چیز نہ رکھنا، قبر پر کوئی عمارت نہ بنانا اور میں نوحہ وبین کرنے والی،جیب وگریبان چاک کرنے والی اور سر نوچنے والی عورتوں سے بری ہوں،[45]وصیت سے فراغت ہوئی کہ طائر روح قفسِ عنصری سے پرواز کرکے اپنے اصلی نشیمن میں پہنچ گیا، وفات کے وقت 61 سال کی عمر تھی۔ [26][27] .[30]

حلیہ[ترمیم]

حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حلیہ مبارک یہ تھا ۔ پستہ قد اور لاغر اندام تھے۔

اولاد[ترمیم]

وفات کے بعد متعدد نسلی یادگاریں چھوڑیں، نام یہ ہیں، ابراہیم، ابوبکر، ابوبردہ، موسیٰ۔ [46]

ذریعہ ٔمعاش[ترمیم]

ابتدا میں تنگ دستی کی زندگی تھی ، لیکن پھر فارغ البالی کا دورآیا، متعدد مہمیں ان کی افسری میں سر ہوئیں، مدتوں تک مختلف ممالک کے گورنر رہے ، حضرت عمرؓ بن خطاب نے اپنے زمانہ میں دوسرے مہاجرین کے ساتھ ان کا وظیفہ بھی مقرر کیا، غرض اطمینان اور فارغ البالی کی زندگی بسر کرتے تھے۔

فضل و کمال[ترمیم]

حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ ان مخصوص صحابہ ؓ میں تھے،جن کو بارگاہِ رسالت میں خاص تقرب اور شرف پزیرائی حاصل تھا،اس لیے وہ نبوت کے چشمہ فیض سے پوری طرح سیراب تھے، وہ ان چھ آدمیوں میں سے ایک تھے،جن کو خود عہدِ رسالت میں مسائل کے جواب اورفتویٰ دینے کی اجازت تھی۔ [47] اسود تابعی کا بیان ہے کہ میں نے کوفہ میں حضرت علی المرتضیٰ ؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے زیادہ کسی کو صاحب علم نہیں دیکھا،حضرت علی ؓ فرماتے تھے کہ: "ابوموسیٰ ؓ سرتا پا علم کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ [48] اہل علم سے اکثر ان کی علمی صحبتیں اور علمی بحثیں رہتی تھیں، جس نے ان کے علم کو اور چمکا دیا تھا، یوں تو ان کے علمی احباب کا حلقہ بہت وسیع تھا،مگر ان میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ، معاذ بن جبل ؓ سے خاص طور سے وہ علمی گفتگو کرتے تھے اور کبھی کبھی یہ گفتگو نیک نیتی کے ساتھ بحث ومناظرہ تک پہنچ جاتی اور جب تک مسئلہ کی پوری تنقیح نہ ہوجاتی برابر جاری رہتی۔ ایک مجلس میں تیمم کا مسئلہ چھڑا، حضرت ابو موسیٰ ؓ نے عبد اللہ بن مسعود ؓ سے پوچھا اگر کسی کو نہانے کی ضرورت پیش آجائے اوراس کو ایک مہینہ تک پانی نہ ملے، تو کیا تیمم کرکے نماز پڑھ لے؟ حضرت عبد اللہ ؓ نے کہا نہیں، خواہ ایک مہینہ تک پانی نہ ملے جب بھی تیمم نہ کرے، حضرت ابو موسیٰ ؓ نے کہا تو پھر سورۂ مائدہ کی اس آیت کے متعلق کیا کہتے ہو؟ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو۔ حضرت عبد اللہ نے کہا، اگر لوگوں کو تیمم کی اجازت دے دی جائے تو سردیوں کے موسم میں جب پانی ٹھنڈا ملتا ہے لوگ تیمم ہی پر اکتفا ء کرنے لگیں گے، اس پر شقیق (راوی) بولے کیا صرف اس خطرہ سے آپ تیمم کو بُرا سمجھتے ہیں،حضرت عبد اللہ ؓ نے کہا ہاں، حضرت ابوموسیٰ ؓ نے کہا تم نے عمار کا وہ واقعہ جس کو انھوں نے حضرت عمرؓ سے بیان کیا تھا نہیں سنا کہ ان کو آنحضرت نے کسی کام کے لیے بھیجا تھا، اتفاق سے ان کو راہ میں غسل کی ضرورت پیش آئی اور پانی نہ ملا تو انھوں نے جانور کی طرح زمین پر لوٹ کر تیمم کیا اور واپس آکر آنحضرت سے یہ واقعہ بیان کیا، آپ نے ان کو تیمم کا طریقہ بتاکر فرمایا کہ اس قدر کافی تھا، اس پر عبد اللہ ؓ نے کہا مگر شاید آپ کو یہ نہیں معلوم کہ حضرت عمرؓ نے اس واقعہ کو کافی نہ سمجھا۔ [49] ایک مرتبہ دونوں میں حدیث کا مذاکرہ ہورہا تھا، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہا" آنحضرت نے فرمایا ہے کہ قیامت کے قریب علم اُٹھ جائے گا، جہالت کا دور دورہ ہوگا اور قتل وغارت کی گرم بازاری ہوگی۔ [50]

اشاعتِ علم[ترمیم]

علم کی اشاعت اور اس سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی وہ پوری کوشش کرتے تھے ان کا اصول یہ تھا کہ جو کچھ کسی کو معلوم ہواس سے دوسروں کو فائدہ پہنچانا اس کا فرض ہے ،ایک مرتبہ خطبہ میں لوگوں سے خطاب کرکے کہا جس شخص کو خدا علم دے،اس کو چاہیے کہ اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی اس کی تعلیم دے،اسی کے ساتھ جو اس کو معلوم نہ ہو، اس کے متعلق ہرگز ایک لفظ بھی وہ اپنی زبان سے نہ نکالے۔ [51] ان کے درس کے طریقے مختلف تھے، مستقل حلقہ درس کے علاوہ کبھی کبھی وہ لوگوں کو جمع کرکے خطبہ دیتے،ایک مرتبہ خطبہ دیا: "لوگو!شرک سے بچنے کی کوشش کروکہ یہ چیونٹی کی چال سے زیادہ غیر محسوس ہے" [52] جہاں کہیں چند آدمی ایک جگہ ان کو اکٹھا مل جاتے ،ان کے کانوں تک وہ کوئی نہ کوئی حدیث ضرور پہنچا دیتے، ایک دفعہ بنو ثعلبہ کے چند آدمی کہیں جا رہے تھے، ان کو راہ میں ایک حدیث سنادی۔ [53] اصفہان کی مہم سے واپس ہوتے وقت ایک جگہ پڑاؤ کیا ،کافی مجمع تھا کہا میں تم لوگوں کو ایک حدیث سنانا چاہتا ہوں جو ہم لوگوں کو آنحضرت نے سنائی تھی، لوگوں نے کہا خدا ٓپ پر رحم کرے ضرور سنائیے بولے آنحضرت نے فرمایا ہے کہ: قیامت کے قرب میں "ہرج" زیادہ ہوگا، لوگوں نے پوچھا" ہرج"کیا؟ کہا قتل اور جھوٹ، لوگوں نے کہا کی اس سے بھی زیادہ قتل ہوگا، جتنا ہم لوگ کرتے ہیں؟ فرمایا اس سے مقصد کفار کا قتل نہیں ہے،بلکہ باہمی خونریزی ہے، حتیٰ کہ پڑوسی پڑوسی کو،بھائی بھائی کو،بھتیجا چچا کو اور چچا بھتیجے کو قتل کرے گا لوگوں نے کہا سبحان اللہ عقل و ہوش رکھتے ہوئے؟ کہا عقل و ہوش کہاں عقل و ہوش تو اس زمانہ میں باقی نہ رہے گا، حتیٰ کہ آدمی خیال کرے گا کہ وہ کسی (حق) بات پر ہے، لیکن درحقیقت وہ کسی(حق) بات پر نہ ہوگا۔ یہ حدیث سن کر بولے کہ ہم میں سے تم میں سے کوئی بھی اس پیشین گوئی سے نہ نکل سکے گا، اس سے نکلنے کی صرف یہ صورت ہے کہ ہم بلاکچھ کیے ہوئے اس طریقہ سے پاک وصاف نکل جائیں جس طرح اس میں شریک ہوئے تھے۔ [54] حضرت ابو موسیٰ ؓ کے تعلیم دینے کا طریقہ نہایت نرم تھا، اگر کبھی کوئی شخص نادانی سے بھی کوئی اعتراض کرتا، تو خفا ہونے کی بجائے نہایت نرمی سے اس کو سمجھا دیتے ،عبد اللہ الرقاشی روایت کرتے ہیں کہ: "میں ایک مرتبہ ابو موسیٰ ؓ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا،وہ قعدہ میں تھے کہ کسی نے زور سے ایک فقرہ کہا جو مسنون دعاؤں میں سے نہ تھا،ابوموسیٰ ؓ نماز ختم کر چکے، تو پوچھا یہ کس نے کہا تھا، لوگ خاموش رہے،پھر پوچھا فلاں بات کس نے کہی تھی ،لوگ پھر چپ رہے، تو بولے حطان شاید تم نے کہا ہوگا، انھوں نے کہا میں نے نہیں کہا، مجھ کو پہلے ہی خطرہ تھا کہ آپ مجھ پر ہی ڈانٹ ڈپٹ کریں گے،اتنے میں ایک شخص نے اقرار کیا کہ میں نے کہا اوراس سے میرا مقصد بدنیتی نہ تھی،بلکہ بھلائی تھی، ابوموسیٰ ؓ نے کسی قسم کی ترش روئی کے بغیر مسنون نماز کا پورا طریقہ بتا دیا۔ [55]

قرآن پاک[ترمیم]

قرآن پاک اسلام کے تمام علوم و معارف کا سر چشمہ ہے، اس کے ساتھ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو غیر معمولی شغف و انہماک تھا ، فرصت کا سارا وقت قرآن پاک کی تلاوت اور اس کی تعلیم میں صرف ہوتا ،یمن کی گورنری کے زمانہ میں معاذ بن جبل ؓ اکثر ان سے ملنے آتے اور دیر تک علمی صحبت رہتی، ایک مرتبہ انھوں نے پوچھا ،آپ قرآن کس طرح تلاوت کرتے ہیں، بولے رات دن میں جب موقع مل جاتا ہے تھوڑا تھوڑا کرکے پڑھ لیتا ہوں۔ [56] قرآن نہایت خوش الحانی سے پڑھتے تھے،یہ اس قدر خوش گلو اورشیریں آواز تھے کہ آنحضرت فرماتے تھے کہ: "ان کو لحن واؤدی سے حصہ ملا ہے" [57] آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کا قرآن پڑھنا بہت پسند تھا، جہاں ان کو قرأت کرتے ہوئے سنتے کھڑے ہو جاتے، ایک مرتبہ حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ کہیں تشریف لے جا رہے تھے، ابوموسیٰ اشعری ؓ کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا،وہیں کھڑے ہو گئے اور سنکر آگے بڑھے، صبح کو جب ابو موسیٰ ؓ حاضر ہوئے،تو فرمایا کہ ابوموسیٰ ؓ کل تم قرآن پڑھ رہے تھے،ہم نے تمھاری قرأت سنی تھی،عرض کیا اے خدا کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر مجھ کو حضور کی موجودگی کا علم ہوتا، تو میں آواز میں اور دلکشی پیدا کرتا۔ [58] ایک مرتبہ مسجد نبوی ﷺ میں بلند آواز سے عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے، آواز سن کر ازواج مطہرات اپنے اپنے حجروں میں پردوں کے پاس آکر کھڑی ہوکر سننے لگیں،صبح کو جب ان کو اطلاع ہوئی تو کہا اگر مجھ کو اس وقت معلوم ہو جاتا تو میں ان کو قرآن کا اس سے بھی زیادہ مشتاق بنادیتا۔ [59] ابو عثمان نہدی بیان کرتے تھے کہ ابوموسیٰ ؓ ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے، ان کی آواز اتنی سریلی اور دلکش ہوتی تھی کہ جنگ وبربط میں بھی وہ دلکش نہیں۔ [60] کبھی کبھی حضرت عمرؓ بن خطاب فرمائش کرتے کہ ابوموسیٰ ؓ خدا کی یاد دلاؤ، یہ قرآن پڑھ کر سناتے ،ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ ؓ نے انس بن مالک ؓ کو حضرت عمرؓ بن خطاب کے پاس بھیجا، انھوں نے پوچھا، ابوموسیٰ اشعری ؓ کا کیا حال ہے،کہا لوگوں کو قرآن پڑھاتے ہیں،فرمایا وہ بلند مرتبہ آدمی ہیں،مگر اس کو ان کے سامنے نہ کہنا۔ [61] ان کی غیر معمولی قرأت دانی کی وجہ سے آنحضرت نے مشہور عالمِ قرآن حضرت معاذ بن جبل ؓ کے ساتھ ان کو بھی نو مسلموں کی تعلیم قرآن کے لیے یمن بھیجا تھا۔ [62] [27]

حدیث[ترمیم]

قرآن مجید کے ساتھ ان کو حدیث کے علم سے بھی وافر حصہ ملا تھا، حفظِ حدیث کے اعتبار سے وہ اپنے معاصروں میں امتیازی پایہ رکھتے تھے، کوفہ میں مستقل حلقہ درس تھا جس سے بڑے بڑے ارباب کمال پیدا ہوئے، ان کے نام آیندہ آئیں گے، ان کی تعداد مرویات 360 تک پہنچتی ہے،ان میں 50 متفق علیہ ہیں، ان کے علاوہ 4 بخاری اور 25 مسلم میں ہیں۔ [63] ان میں سے اکثر روایات خود صاحبِ حدیث کی زبان مبارک سے سنی ہوئی ہیں، ان کے بعد پھر حضرت ابوبکر ؓ ،حضرت عمرؓ، حضرت علی ؓ، ابن عباس ؓ، ابی بن کعب ؓ، عمار بن یاسر ؓ، معاذ بن جبل ؓ سے روایتیں کی ہیں، تلامذہ کی تعداد بھی کافی ہے، مختصر فہرست یہ ہے۔ ابراہیم، ابوبکر، ابوبردہ، موسی، انس بن مالک ؓ، ابوسعید خدری ؓ، طارق بن شہاب ، ابو عبد الرحمن سلمی، زر بن جیش، زید بن وہب، عبید بن عمیر، ابوالاحوص ، عوف بن مالک ،ابو الاسود دئلی، سعید بن مسیب ،ابو عثمان نہدی، قیس بن ابی حازم، ابورافع صائغ، ابو عبیدہ بن عبد اللہ بن مسعود، مسروق بن اوس حنظلی، ہزیل بن شرجیل، مرہ بن شرجیل، اسود بن یزید، عبد الرحمن بن یزید، حطان بن عبد اللہ رقاشی، ربعی بن خراش، زہدم بن مضرب، ابووائل ،شقیق ،ابن سلمہ، صفوان بن محرز وغیرہم اس فضل وکمال کے باوجود ان کو اپنی غلطی اور دوسروں کے کمال کے اعتراف میں بخل نہ تھا، ایک مرتبہ کسی نے لڑکی،پوتی اور بہن کی وراثت کے متعلق فتویٰ پوچھا، انھوں نے جواب دیا: لڑکی اور بہن کو نصف نصف ملے گا،مستفتی نے جاکر یہ جواب حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کو سنایا اوران سے بھی فتویٰ دریافت کیا، انھوں نے کہا،اگر میں اس کی تائید کروں تو گمراہ ہوں، میں اس مسئلہ میں وہی فیصلہ کروں گا جو آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا ہے،لڑکی کو آدھا ملے گا، پوتی کو دو تہائی پورا کرنے کے لیے چھٹا حصہ ملے گا، باقی جو بچے گا وہ بہن کا حصہ ہے مستفتی نے یہ جواب جاکر ابوموسیٰ اشعری ؓ کو سنایا، انھوں نے کہا جب تک یہ عالم تم میں موجود ہے،اس وقت تک مجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ [64] [13][65]

اخلاق و عادات[ترمیم]

خشیت الہی اور رقتِ قلب مذہب کی روح ہے، حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ میں یہ دونوں وصف موجود تھے، خود بھی روتے اور دوسروں کو بھی رلا تے،بصرہ کے قیام کے زمانہ میں ایک مرتبہ خطبہ دیاکہ: "لوگو! خوب روؤ اگر نہ روسکتے ہو تو کم ازکم رونی صورت بناؤ کیونکہ دوزخی (جنھوں نے دنیا ہنس کر گزاری) اس قدر روئیں گے کہ آنسو خشک ہو جائیں گے پھر خون کے آنسو روئیں گے،آنسووں کی فراوانی کا یہ حال ہوگا کہ اگر اس میں کشتیاں چلائی جائیں تو بہہ نکلیں۔ [66] [6][67]

اتباعِ سنت[ترمیم]

ابوموسیٰ ؓ کی پوری زندگی حیات نبوی کا آئینہ تھی، وہ کوشش کرتے تھے کہ ان کی نقل وحرکت ،قول وفعل ؛بلکہ ہرہر ادا ذاتِ نبوی کا نمونہ بن جائے، ایک موقع پر انھوں نے اپنی حرص کا ان الفاظ میں ذکر کیا ہے: "ابو مجلز راوی ہیں کہ ایک مرتبہ ابو موسیٰ ؓ مکہ سے مدینہ آ رہے ت ہے، راستہ میں عشاء کی نماز کا وقت آیا تو دورکعت نماز پڑھی،پھر کھڑے ہوکر سورۂ نساء کی 100 آیتیں ایک رکعت میں پڑھیں، لوگوں نے اس پر اعتراض کیا، انھوں نے کہا میری،ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ جہاں آنحضرت نے قدم مبارک رکھا ہے وہیں میں بھی قدم رکھوں، اورجو کام آپ نے کیا ہے،وہی میں بھی کروں۔ [68] رمضان کے روزوں کے علاوہ نوافل کے روزے محض اس لیے رکھتے تھے کہ آنحضرت رکھا کرتے تھے،عاشورہ کا روزہ آنحضرت برابر رکھا کرتے تھے،یہ لوگوں کو ہدایت کرتے کہ عاشورہ کا روزہ رکھو۔ سنت سے لے کر مستحبات تک کی خود پابندی کرتے اوراپنے اہل و عیال سے پابندی کراتے ،قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا مسنون ہے، حضرت ابوموسیٰ لڑکیوں تک کو حکم دیتے تھے کہ وہ اپنے ہاتھ سے ذبح کریں۔ [69] احکام نبوی کا لحاظ ہر آن وہر لمحہ رہتا تھا، کسی موقع پر فروگذاشت نہ ہونے پاتی، آنحضرت کا حکم تھا کہ جب کوئی شخص کسی کے یہاں جائے تو اجازت لے کر گھر میں داخل ہو اگر تین مرتبہ اجازت مانگنے پر بھی اجازت نہ دے تو لوٹ جائے، حضرت ابو موسیٰ ؓ اس فرمان نبوی پر سختی سے عامل تھے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے پاس آئے اوراندر آنے کی اجازت چاہی،آپ ؓغالباً کسی کام میں مشغول تھے، اس لیے کوئی توجہ نہ کی، انھوں نے 3 مرتبہ اجازت مانگی، پھر لوٹ آئے،دوسرے وقت حضرت عمرؓ نے کہا تم کیوں واپس ہو گئے تھے، کہا میں نے تین مرتبہ اجازت مانگی،جب نہ ملی تو لوٹ گیا، کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر تم کو 3 مرتبہ اجازت مانگنے کے بعد بھی اجازت نہ ملے تو لوٹ جانا چاہیے،حضرت عمرؓ نے فرمایا" شاہد لاؤ تمھارے علاوہ کسی دوسرے نے بھی اس حکم کو سنا ہے"یہ گھبرائے ہوئے انصاری اصحاب کی مجلس میں آئے،ابی بن کعب ؓ کو یہ حکم معلوم تھا، انھوں نے جاکر شہادت دی۔ [70] یہی پاس و لحاظ زندگی کے آخری لمحہ تک رہا۔ مرض الموت میں اپنے گھر کی کسی عورت کی گود میں سر رکھے ہوئے تھے، اسی حالت میں غشی طاری ہو گئی،عورت نے گریہ وزاری شروع کردی، اس وقت تو بولنے کی طاقت نہ تھی،ہوش آیا تو کہا جس چیز سے آنحضرت نے برأت ظاہر کی ہے،اس سے میں بھی بری ہوں، جیب و گریبان پھاڑ نے والی ،نوحہ بکا کرنے والی،سر نوچنے والی اور کپڑے پھاڑنے والی عورتوں سے آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برأت کی ہے۔ [71] موت سے پہلے کفن ودفن وغیرہ کی وصیتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی وصیت کی کہ کوئی میری موت پر نوحہ اور بین نہ کرے،جیب اور گریبان چاک نہ کرے،سر کو نہ نوچے، ان سب سے میں بری ہوں۔ [72] [13]

تقویٰ[ترمیم]

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دامنِ عفاف کبھی معصیت کی آلودگیوں سے داغدار نہ ہوا، وہ اس درجہ محتاط تھے کہ غیر عورتوں کی ہواتک لگنا گوارانہ کرتے تھے،کہا کرتے تھے کہ عورتوں کی لپٹ سے مجھو کو سڑے ہوئے مردار کی عفونت زیادہ خوش آیند ہے۔ [73] طہارت اور صفائی کے خیال سے ہمیشہ شیشی میں پیشاب کرتے تھے کہ کوئی چھینٹ نہ پڑنے پائے، دوسرے صحابہ ؓ اس غیر ضروری شدت کو محسوس کرتے اور اس کا اظہار بھی کر دیتے تھے،حذیفہ ؓ نے لوگوں سے کہا کہ کاش تمھارے ساتھی اتنا تشدد نہ کرتے۔ [74] [13][75]

توکل[ترمیم]

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو خدا کی ذات پر پورا اعتماد اور قضاء قدرت پر پورا یقین تھا ، چنانچہ وبائی مقامات سے الگ نہ ہوتے تھے ایک مرتبہ طاعون کی وبا پھیلی ،ابوبردہ ؓ نے کہا یہاں سے ہٹ کر وابق چلے چلئے کہا میں خدا کے پاس جاؤں گا، وابق نہ جاؤں گا۔ [76]

شرم و حیا[ترمیم]

الحیاء شعبۃ من الایمان حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ میں ایمان کا یہ عنصر بہت غالب تھا ، رات کو سوتے وقت خاص قسم کا کپڑا پہن لیتے تھے کہ نیند کی غفلت میں ستر نہ کھل جائے ،ایک مرتبہ کچھ اشخاص کو دیکھا وہ پانی کے اندر ننگے نہا رہے ہیں،تو بولے مجھ کو بار بار مرکر زندہ ہونا نہیں ہے۔ [77]

سادگی[ترمیم]

حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی کے مختلف دور تھے، ابتدائی دور نہایت عسرت کا تھا،مگر جیسے جیسے اسلام کر فروغ ہوتا گیا،ان کی عسرت میں کمی آتی گئی،متعدد مہمیں ان کی ماتحتی میں سرہوئیں، برسوں تک مختلف صوبوں کے حاکم رہے ، لیکن ان دونوں حالتوں میں ان کی ظاہری زندگی میں کوئی فرق نہ آیا، نہ مال و دولت جمع کیا ،نہ نخوت و رعونت پیدا ہوئی ، گورنری کے بعد ایک مرتبہ مشہور آدمی،حضرت ابوذر غفاری ؓ سے ملاقات ہوئی، ابوذر غفاری ؓ فقیر منش آدمی تھے دنیا سے ان کو کوئی تعلق نہ تھا،حضرت ابوموسیٰ ؓ بھائی بھائی کہتے ہوئے دوڑ کر لپٹ گئے؛ لیکن ابو ذر غفاری بار بار یہ کہہ کر ہٹاتے تھے،اب تم میرے بھائی نہیں ہو اس منصب سے پہلے بھائی تھے، دوبارہ جب پھر ملاقات ہوئی تو پہلے کی طرح لپکے،انھوں نے کہا ابھی ہٹے رہو پہلے میرے سوالات کے جوابات دے دو، پھر پوچھا تم نے لوگوں پر حکومت کی ہے؟ ابوموسیٰ ؓ نے کہا ہاں، کہا عمارتیں تو نہیں بنوائیں،زراعت تو نہیں کی، جانور تو نہیں پالے؟ انھوں نے سب کی نفی کی تو پھر ان سے دل کھول کر ملے۔ [78] اسی خاکساری اور تواضع کی وجہ سے وہ اپنی مذہبی خدمات کا اظہار براسمجھتے تھے،ابوبردہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ابوموسیٰؓ کہتے تھے کہ ایک مرتبہ ہم 6 آدمی آنحضرت کے ساتھ ایک غزوہ میں نکلے، ان چھ میں صرف ایک اونٹ تھا، اسی پر سب باری باری سوار ہوتے تھے، پیادہ پا چلنے کی مشقت سے ہمارے پاؤں پھٹ پھٹ گئے اور ناخن گر گرگئے، تو ہم لوگوں نے چیتھڑے لپیٹ لیے،اس لیے اس غزوۂ کو ذات الرقاع، چیتھڑ ے والا،کہتے ہیں راوی کا بیان ہے کہ ابوموسیٰ اشعری ؓ اس واقعہ کو بیان تو کیے مگر بعد میں اتنے واقعہ کا اظہار بھی بُرا سمجھا۔ [79] [13][80][75][81][82]

امتِ مسلمہ کی خیر خواہی[ترمیم]

امتِ مسلمہ کی خیر خواہی اور اس کا مفاد ہر وقت پیش نظر رہتا تھا،اس کے مقابلہ وہ بڑی سے بڑی منفعت کو ٹھکرا دیتے تھے، جب حضرت علی المرتضیٰ اور امیر معاویہ ؓ کے درمیان کشمکش شروع ہوئی تو امیر معاویہ ؓ نے ان کے پاس لکھ بھیجا کہ عمرو بن العاص ؓ نے میر بیعت کرلی ہے،اگر تم بھی بیعت کرلوتو میں حلفیہ وعدہ کرتا ہوں کہ تمھارے ایک لڑکے کو بصرہ اوردوسرے کو کوفہ کی امارت پر سرفراز کروں گا اور تمھاری ضروریات کے لیے میرا دروازہ ہر وقت کھلا رہے گا، میں اپنے خاص قلم سے یہ خط لکھ رہا ہوں، امید ہے کہ تم بھی اپنے دست وقلم سے اس کا جواب دو گے، اس خط کو پڑھ کر انھوں نے یہ جواب لکھا: "تم نے امت محمدی کے بہت اہم اور نازک معاملہ کی بابت لکھا ہے، جو چیز تم نے میرے سامنے پیش کی ہے، اس کی مجھ کو حاجت نہیں ہے۔ [83] جنگ جمل اور جنگِ صفین دونوں میں غیر جانبدار رہے اور دوسروں کو بھی اس کی شرکت سے روکتے تھے، جب حضرت علی ؓ نے عمار بن یاسر ؓ کو کوفہ بھیجا کہ وہ کوفہ والوں کو حضرت علی ؓ کے ساتھ جنگ کی شرکت پر آمادہ کریں، تو حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ اور ابومسعود ؓ نے ان سے جاکر کہا کہ: "جب سے تم اسلام لائے ہو آج تک ہمارے نزدیک اس جنگ کی شرکت سے زیادہ تم نے کوئی ناپسندیدہ کام نہیں کیا"۔ [84] ان کے بھائی ابورہم بہت ہنگامہ پسند تھے اورشورشوں اور ہنگاموں میں نہایت ذوق و شوق سے شریک ہوتے تھے اور ابوموسیٰ اشعری فتنہ وفساد سے سخت متنفر تھے، وہ ان کو برابر سمجھا تے تھے کہ آنحضرت نے فرمایا ہے جب دو مسلمان ایک دوسرے کے خلاف تلوار اٹھائیں گے اورایک دوسرے کو قتل کریں گے تو دونوں جہنم میں جائیں گے۔ [85] ان کی اس بے لوثی اورغیر جانبداری کی بنا پر جنگِ صفین میں حضرت علی المرتضیٰ ؓ نے ان کو ثالث مقرر کیا، اس وقت رفعِ فساد کے خیال سے ان کو مجبوراً گوشہ عزلت سے نکلنا پڑا اور نہایت نیک نیتی سے مصالح امت کا خیال رکھتے ہوئے حضرت علی ؓ اور معاویہ ؓ دونوں کو معزول کرکے کسی تیسرے کو خلیفہ منتخب کرنے کا مشورہ دیا،مگر افسوس ہے کہ عمر بن العاص ؓ کی چالاکی نے نیک نیتی کے مشورہ کا بیکار کر دیا۔ امت کے اس تفرقہ کے خیال سے بسا اوقات وہ اپنا فتویٰ مسترد کر دیتے ،وہ آنحضرت کے ساتھ حج میں شریک ہو چکے تھے، آپ نے بیت اللہ کا طواف اور صفاء اور مروہ کی سعی کے بعد احرام کھلوا دیا تھا، آپ کے بعد بھی اسی پر عمل رہا، ابو موسیٰ ؓ بھی یہی فتویٰ دیتے تھے، حضرت عمرؓ بن خطاب اپنے زمانہ میں حج تمام ہونے کے بعد احرام کھلوانے لگے، ایک مرتبہ حج کے موقع پر لوگوں نے ابوموسیٰ ؓ سے کہا کہ آپ فتوی دینے میں اتنی عجلت نہ کیجئے، امیرالمومنین نے اس میں ترمیم کردی ہے،اگرچہ ابو موسیٰ اشعری ؓ اس فتویٰ میں حق بجانب تھے،مگر اختلاف کے خیال سے فوراً علان کر دیا، لوگو جس جس کو میں نے فتویٰ دیا ہو اس کو ابھی ٹھہر جانا چاہیے، امیرالمومنین آتے ہیں ان کی اقتدا کرنی چاہیے۔ [86] [87]

مخصوص فضائل[ترمیم]

ان مذکورہ فضائل کے علاوہ بعض مخصوص فضائل ایسے تھے جو ان کے لیے طغرائے امتیاز ہیں، ایک بدوی نے آنحضرت کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ دینے کا وعدہ کیا تھا،اس کو پورا کرو، آپ نے فرمایا، بشر یعنی بشارت ہو،اس نے کہا "بشارت ہو چکی" کچھ دلواؤ، اس جاہلانہ جواب سے چہرۂ مبارک پر برہمی کے آثار نمایاں ہو گئے،پھر حضرت بلال ؓ اور ابوموسیٰ ؓ سے کہا کہ اس نے بشارت سے انکار کر دیا، تم دونوں قبول کرو، عرض کیا ز ہے نصیب ،پھر ایک برتن میں پانی منگا کر اس میں ہاتھ منہ دھویا اور کلی کرکے ان دونوں کی طرف بڑھایا کہ اس کو پیؤ اورسینہ اور چہرہ پر ملو، انھوں نے اس آب حیات کو پیا اور سینہ اورچہرہ پر ملا، حضرت ام سلمہ ؓ پردہ کی آڑ سے دیکھ رہی تھیں، آوازدی ،تھوڑا میرے لیے بھی چنانچہ اس شراب طہور کے چند جرعے ان کو بھی ملے،[88] بظاہر یہ واقعہ نہایت معمولی ہے،مگر یہ بشارت کیاتھی؟ اوراس شرابِ طہور میں کیا نشہ تھا؟ اس کا جواب عشق ومحبت کی زبان سے سننا چاہیے۔ غزوۂ حنین کے بعد آنحضرت نے ابوعامر کو ایک دستہ کے ساتھ اوطاس روانہ کیا؟ ابوموسیٰ ؓ کو بھی ان کی مشایعت کا حکم ملا،اوطاس میں مشرکین کا مقابلہ ہوا، ابو عامر سخت زخمی ہوئے،ابوموسیٰ ؓ نے قاتل کا تعاقب کرکے اس کو قتل کیا، پھر لوٹ کر ابا عامر کے گھٹنے سے تیر نکالا، زخم سے خون جاری ہو گیا، زخم کاری تھا،بچنے کی امید نہ تھی ، ابوموسیٰ ؓ سے کہا میری طرف سے حضور انور کی خدمت میں سلام کے بعد دعائے مغفرت کی درخواست کرنا یہ کہہ کر ابو عامر واصل بحق ہو گئے، حضرت ابوموسی ؓ نے لوٹ کر آنحضرت کی خدمت میں ان کا پیام پہنچا دیا،آپ نے وضو کرکے ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی، حضرت ابوموسی ؓ نے عرض کیا، حضور میرے لیے بھی دعا فرمائیں، آپ نے دعا فرمائی، خدایا عبد اللہ بن قیس (ابوموسیٰ ؓ) کے گناہوں کو بخش دے اور قیامت کے دن ان کا معزز اور شریفانہ داخلہ فرما۔ [89] [13][23][90]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.google.fr/books/edition/Histoire_de_la_philosophie_en_Islam/I0ANAAAAIAAJ?hl=fr&gbpv=0&kptab=overview — عنوان : Histoire de la philosophie en Islam — جلد: 60 — صفحہ: 263
  2. مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح مفتی احمد یار خان نعیمی جلد 1 صفحہ29نعیمی کتب خانہ گجرات
  3. (اسد الغابہ:2/245)
  4. الطبقات الكبرى لابن سعد - ترجمة أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ (1) آرکائیو شدہ 2017-08-22 بذریعہ وے بیک مشین
  5. (ایضاً)
  6. ^ ا ب تاريخ دمشق لابن عساكر - ترجمة عبد الله بن قيس بن سليم (1) آرکائیو شدہ 2017-08-15 بذریعہ وے بیک مشین
  7. (بخاری:2/608)
  8. ^ ا ب پ ت أسد الغابة في معرفة الصحابة لابن الأثير الجزري - ترجمة عبد الله بن قيس الأشعري آرکائیو شدہ 2017-08-13 بذریعہ وے بیک مشین
  9. الطبقات الكبرى لابن سعد - ترجمة أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ (2) آرکائیو شدہ 2017-08-22 بذریعہ وے بیک مشین
  10. (بخاری :2/699)
  11. (بخاری :2/633)
  12. تاريخ دمشق لابن عساكر - ترجمة عبد الله بن قيس بن سليم (4) آرکائیو شدہ 2017-08-15 بذریعہ وے بیک مشین
  13. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ سير أعلام النبلاء » الصحابة رضوان الله عليهم » أبو موسى الأشعري (1) آرکائیو شدہ 2016-09-14 بذریعہ وے بیک مشین
  14. تاريخ دمشق لابن عساكر - ترجمة عبد الله بن قيس بن سليم (9) آرکائیو شدہ 2017-08-15 بذریعہ وے بیک مشین
  15. (بخاری کتاب المغازی)
  16. (بخاری باب بعث ابی موسیٰ ومعاذ الی الیمن)
  17. ref name="سعد7">الطبقات الكبرى لابن سعد - ترجمة أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ (7) آرکائیو شدہ 2017-08-22 بذریعہ وے بیک مشین
  18. الطبقات الكبرى لابن سعد - ترجمة أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ (4) آرکائیو شدہ 2017-08-22 بذریعہ وے بیک مشین
  19. (بخاری:2/624)
  20. «» تاريخ دمشق لابن عساكر - ترجمة عبد الله بن قيس بن سليم (2) آرکائیو شدہ 2017-08-15 بذریعہ وے بیک مشین
  21. (تاریخ طبری :1854)
  22. الطبقات الكبرى لابن سعد - ترجمة أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ (5) آرکائیو شدہ 2017-08-22 بذریعہ وے بیک مشین
  23. ^ ا ب تاريخ دمشق لابن عساكر - ترجمة عبد الله بن قيس بن سليم (7) آرکائیو شدہ 2017-08-15 بذریعہ وے بیک مشین
  24. (طبری :2506)
  25. تاريخ دمشق لابن عساكر - ترجمة عبد الله بن قيس بن سليم (3) آرکائیو شدہ 2017-08-15 بذریعہ وے بیک مشین
  26. ^ ا ب غاية النهاية في طبقات القراء لابن الجزري - ترجمة عبد الله بن قيس بن سليم بن حاضر أبو موسى الأشعري اليماني (2) آرکائیو شدہ 2017-02-26 بذریعہ وے بیک مشین
  27. ^ ا ب پ سير أعلام النبلاء » الصحابة رضوان الله عليهم » أبو موسى الأشعري (2) آرکائیو شدہ 2016-09-14 بذریعہ وے بیک مشین
  28. (طبری:2555)
  29. (طبری: 2568)
  30. ^ ا ب تاريخ دمشق لابن عساكر - ترجمة عبد الله بن قيس بن سليم (5) آرکائیو شدہ 2017-08-15 بذریعہ وے بیک مشین
  31. (طبری:2601)
  32. تاريخ دمشق لابن عساكر - ترجمة عبد الله بن قيس بن سليم (8) آرکائیو شدہ 2017-08-15 بذریعہ وے بیک مشین
  33. معنى ثطط في معاجم اللغة العربية آرکائیو شدہ 2019-12-16 بذریعہ وے بیک مشین
  34. (تاریخ طبری:2678)
  35. (تاریخ طبری:2711)
  36. "»الإجابة على الأسئلة العقائدية »مركز الأبحاث العقائدية"۔ www.aqaed.com۔ 23 يوليو 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2021 
  37. "كتابات في الميزان / أبو موسى الأشعري : محمد زكي ابراهيم"۔ www.kitabat.info۔ 11 يناير 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2021 
  38. "موسوعة عبد الله بن عبّاس ـ ج 04 »محمد مهدي الخرسان »مكتبة »مركز"۔ www.aqaed.com۔ 11 يناير 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2021 
  39. (تاریخ طبری:2713)
  40. (تہذیب التہذیب :5/363)
  41. (تاریخ طبری:2828)
  42. (بخاری کتاب الفتن)
  43. (تذکرۃ الحفاظ:1/121)
  44. (مسلم کتاب الایمان باب تحریم ضرب الخدود وشق الجیوب)
  45. (مسند احمد بن حنبل :4/397)
  46. (تہذیب التہذیب :5/362)
  47. (تذکرۃ الحفاظ :1/21)
  48. (تذکرۃ الحفاظ :1/20)
  49. (بخاری کتاب التیمم باب التیمم ضربۃ)
  50. (مسند احمد بن حنبل :1/392)
  51. (ابن سعد جزو 4 قسم اول صفحہ 18)
  52. (مسند احمد بن حنبل :4/403)
  53. (مسند احمد بن حنبل :4/417)
  54. (مسند احمد ابن:4/406)
  55. (مسلم کتاب الصلوٰۃ باب التشہد فی الصلوٰۃ)
  56. (بخاری)
  57. (ابن سعد جزو 4 قسم اول صفحہ 80)
  58. (مستدرک حاکم :3/466)
  59. (طبقات ابن سعد قسم اول جز 4 صفحہ 80)
  60. (طبقات ابن سعد قسم اول جز 4 صفحہ 80)
  61. (طبقات ابن سعد قسم اول جز 4 صفحہ 80)
  62. (مسند احمد بن حنبل :4/397)
  63. (تہذیب الکمال)
  64. (بخاری کتاب الفرائض باب میرث اتبہ ابن مع انبتہ)
  65. الطبقات الكبرى لابن سعد - ترجمة أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ (6) آرکائیو شدہ 2017-08-22 بذریعہ وے بیک مشین
  66. (ابن سعد قسم اول جزو 4 صفحہ 81)
  67. تهذيب التهذيب لابن حجر العسقلاني - ترجمة عبد الله بن قيس بن سليم الأشعري (1) آرکائیو شدہ 2017-07-29 بذریعہ وے بیک مشین
  68. (مسند احمد ابن حنبل :4/419)
  69. (بخاری کتاب الاضاحی باب من ذبح ذبیحتہ)
  70. (بخاری کتاب الاستیذان باب التسلیم والا ستیذان ثلثا)
  71. (مسلم کتاب الایمان تحریم ضرب الخدودوشق اجیوب)
  72. (مسند احمد ابن حنبل :4/397)
  73. (ابن سعد جزو4 قسم اول صفحہ 84)
  74. (مسلم کتاب الطہارت باب المسیح علی الخفین)
  75. ^ ا ب غاية النهاية في طبقات القراء لابن الجزري - ترجمة عبد الله بن قيس بن سليم بن حاضر أبو موسى الأشعري اليماني (1) آرکائیو شدہ 2017-02-26 بذریعہ وے بیک مشین
  76. (ابن سعد قسم اول جزو 4 صفحہ 82)
  77. (طبقات ابن سعد قسم اول جزو 4 صفحہ 82)
  78. (طبقات ابن سعد قسم اول جزو4 صفحہ 169)
  79. (مسلم کتاب الجہادوالسیرباب غزوۂ ذات الرقاع)
  80. تهذيب التهذيب لابن حجر العسقلاني - ترجمة عبد الله بن قيس بن سليم الأشعري (2) آرکائیو شدہ 2017-07-29 بذریعہ وے بیک مشین
  81. الطبقات الكبرى لابن سعد - ترجمة أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ (3) آرکائیو شدہ 2017-08-22 بذریعہ وے بیک مشین
  82. تاريخ دمشق لابن عساكر - ترجمة عبد الله بن قيس بن سليم (6) آرکائیو شدہ 2017-08-15 بذریعہ وے بیک مشین
  83. (طبقات ابن سعد جلد 4 قسم اول صفحہ 83)
  84. (بخاری کتاب الفتن باب الفتنۃ ماتی تموج کموج البحر)
  85. (مسند احمد بن حنبل:4/403)
  86. (مسلم کتاب الحج باب فی نسخ التحمل من الاحرام ولامرباتمام)
  87. التاريخ الكبير للبخاري - ترجمة عَبْد اللَّه بْن قيس أَبُو مُوسَى الأشعري(2) آرکائیو شدہ 2017-07-31 بذریعہ وے بیک مشین
  88. (مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل ابی موسیٰ ؓ)
  89. (بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ اوطاس)
  90. التاريخ الكبير للبخاري - ترجمة عَبْد اللَّه بْن قيس أَبُو مُوسَى الأشعري(1) آرکائیو شدہ 2017-07-31 بذریعہ وے بیک مشین