سید امجد حسین رضوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مرجع تقلید فاضل جلیل عالم ربانی عارف کامل سید السالیکن، حضرت آیت اللہ العظمی تقدس مآب سید امجد حسین رضوی قدس سره، ہندوستان کے ایک شیعہ عالم دین اور مجتہد مرجع صاحب رسالہ تھے، موضع رسول پور سونی کراری شہر الہ آباد (کوشامبی) کے رہنے والے تھے ـ

آپ کے والد جلیل القدر عالم حافظ نہج البلاغہ مولوی سید منور علی رضوی ,

آپ کے دادا انتہائی فرشتہ خصال عالم دین ،متقی و پرہیز گار صاحب دستار اور جید عالم دین تھے جن کا نام سید محمود علی رضوی تھا

ولادت[ترمیم]

آپ کی ولادت سنہ 1280ھ (1864AD)میں بمقام سونی ضلع کوشامبی میں ہوئی ـ

تعلیم[ترمیم]

ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی ـ اس کے بعد لکھنؤ روانہ ہو گئے ـ لکھنؤ میں آپ نے مندرجہ ذیل اساتذہ سے کسب فیض کیا :

دس سال لکھنؤ میں تعلیم حاصل کرنے اور مجتہدین ہندوستان سے اپنی عظمتوں کا لوہا یعنی اجازہ اجتہاد حاصل کرنے کے بعد اپنے وطن یعنی الہ آباد واپس آ گئے اور وہاں ہی امام جمعہ و جماعت ہو گئے نیز تدریس اور تالیف میں مشغول ہو گئے ـ آپ شہر الہ آباد کے پہلے امام جمعہ تھے۔آج الہ آباد میں جو دینداری نظر آرہی ہے وہ سرکارمرحوم کی ہی محنتوں کا نتیجہ ہے نوابین شہر، زمیندار ،صاحبان ثروت ہمیشہ ہاتھ باندھے کھڑے رہتے کہ حضور کچھ کہیں مگر یہ مرد خدا کبھی کسی صاحب دولت سے مرعوب ہی نہ ہوا

سفر عراق[ترمیم]

ایک عرصہ کے بعد آپ نے اعلیٰ تعلیم کے لیے عراق کا رخ کیا، ـ چنانچہ دس سال اور چند ماہ نجف میں رہ کر علمی مدارج کو طے کیا ـ

نجف اشرف میں آپ کے مشہور اساتذہ یہ ہیں :

اس مدت میں آپ نے وہاں رہ کر اجتہاد کا ملکہ اس طرح حاصل کر لیا کہ بروایت 25 سے زائد مراجع و فقہا سے اجازہ و اجتہاد حاصل کیے آپ کے استاد خاص طور سے آقائ آخوند خراسانی ،آقایی رشتی اور صاحب عروہ آپ کا بے حد احترام کرتے تھے اور ہمشہ سید جلیل کہہ کے خطاب کیا کرتے تھے ـ آپ مجتہدین نجف اشرف میں کئی صفحات پر مشتمل اجازت اجتہاد عنایت فرمائے سنہ 1319ھ میں آپ ہندوستان واپس آئے ـ اور شہر الہ آباد میں آکر اپنے دینی فرائض میں مشغول ہو گئے ـ

علمی حیثیت[ترمیم]

”عالم جلیل مروج للشرعیۃ فی بلدۃ اللہ آباد، مرجع لاھلھا، من تلامذۃ المفتی السید محمد عباس فی العربیۃ و الادب ،

و قرا الفقہ و الاصول فی مشاھد العراق ،

وھو معروف بالتقوی و الورع و کثرۃ الاحتیاط سمعنا اسمه ولم نوّفق لزيارته.“. [2]

(1)ذكره الشيخ الطهراني في (الذريعة) مرتين، الأولى باسم: (ترجمة عماد الإسلام)، والثانية باسم:(ترجمة مقدمات عماد الإسلام)، وفيها: أنّه للسيد آقا حسين بن السيد كلب عابد وهو من سبقالقلم. (ينظر الذريعة:( ١٣٨ رقم ٦٦٩ ، ١١٨/٤ رقم ٥٦٥,

(2)وهي رسالة عملية بلغة الاردو، وقد ذكرها الشيخ الطهراني في (الذريع ة) مرتين، الأولى باسم: (الرسالة العملية)، والثانية باسم: (هداية العوام). (ينظر: الذريعة:( ١٨٥ رقم ١٧٥ /٢٥ ، ٢١٤/١١ رقم ١٢٨٦ /

(3)ينظر: نقباء البشر:٤٢٨

(4)ينظر ترجمة السيد أقا حسن: نقباء البشر:٤٢٨رقم ٨٤٩ معجم المؤلّفين: ٣٢٣/٣ وفيه: حسن بن عابدين و الظاهر هو من التصحيف، موسوعة طبقات الفقهاء:٩٣٨/١٤ رقم ٧٧

(5) لم نعثر على ترجمته في المصادر المتوافرة بين أيدينا.

(6) وقد توفي قبل أشهر في هذه السنة وهي سنة ١٣٥٠(منه عفي عنه)

للفقه والأصول في مشاهد العراق ، وهو معروف بالورع والقدس وكثرة

الاحتياط، سمعنا اسمه ولم نوّفق لزيارته. [2]

(حوالہ,حضرت ایتہ اللہ العظمی السید علی نقی نقن صاحب قبلہ,تراجم مشاہیر علما ھند ص 302)

تالیفات[ترمیم]

آپ کی مشہور تالیفات مندرجہ ذیل ہیں :

1: وسیلة النجاۃ (اردو زبان میں نماز کے احکام پر مشتمل)

2: خلاصة الطاعات (اردو زبان میں نماز جمعہ اور نماز جماعت کے احکام پر مشتمل)

3: زبدۃ المعارف (اصول دین کے بارے میں)

4: صفائح الابریز في شرح الوجیز (علامہ شیخ بہائی کی علم درایت کے موضوع پر لکھی ہوئی کتاب الوجیزہ کی شرح)

5: الحاشیة الرضیة علی البھجة المرضیة ( علامہ جلال الدین سیوطی کی علم نحو پر مشتمل کتاب پر حاشیہ)[3]

6: اردو فارسی رسالہ عملیہ

7: تزکرتہ المعاد (عربی)

8: حواشی علی الروضتہ البہیہ(عربی) تعلیقہ علی شرح اللمعتہ - اصلاح (کھجوا) جلد 30، نمبر 1 كے مطابق یہ تعلیقہ كتاب الطہارتہ سے کتاب الدیات تک مکمل ہے اور اس کے اخر میں مجتہدین عراق كے وہ اجازات بھی نقل كے ہیں جو ان حضرات نے مولانا ممدوح كو عطا فرماے تھے -

9: فلاح عقباء

وفات حسرت آیات[ترمیم]

آپ کی وفات 23 ربیع الاول سنہ 1350ھ مطابق 8 اگست 1931 عیسوی میں واقع ہوئی ـ [4]

اسی سال آپ نے اپنے مقبرہ کی تعمیر خود فرمای تھی جس میں ہر شب تلاوت کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہمیں اسی سال کوچ کرنا ہے

آپ کی خبر انتقال جب نشر ہوئی تو دور دراز سے علما و ذاکرین و فضلاء و عوام جوک در جوک تشریف لانے لگے شہر اجتہاد لکھنؤ سے سرکار ناصر الملت، سرکار نجم العلماء، آپ کے شاگرد خاص سرکار سعیدالملت ،علامہ ابن حسن نونہروی ، ودیگر مجتہدین تشریف لائے نمازجنازہ سرکار ناصر الملت و الدین آیت اللہ العظمی سید ناصر حسین موسوی لکھنوی قدس سرہ نے پڑھائی مجلس چہلم کو نادرتہ الزمن سید المتکلمین آیت اللہ علامہ سید ابن حسن نونہروی نے خطاب فرمایا

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. نقباء البشر فی القرن الرابع عشر، ج: 1، ص: 177
  2. ^ ا ب اعیان الشیعۃ، ج: 3، ص: 474
  3. الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ (آقا بزرگ تہرانی)
  4. موسوعۃ طبقات الفقھاء (جعفر سبحانی)، ج: 14، ص: 128

5. تراجم مشاہعر علما ھند، ص 302