تخلیق انسان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

1859ء میں چارلس ڈارون نے نظریہ ارتقاء پیش کیا۔ اس نظریے کے مطابق [1]حیاتی اجسام اپنی بقا کے لیے خود کو ماحول کے مطابق تبدیل کر لیتے ہیں۔ ڈارون نے اپنے نظریے میں انسان کی بات نہیں کی تھی مگر بہرحال اُس کا نظریہ ہر جاندار شے پہ لاگو ہوتا ہے بشمول بنی نوع انسان کے۔ڈارون کے نزدیک تمام جاندار اپنی ہیت کو تبدیل کرتے رہتے ہیں اپنے اطراف کے ماحول میں زندہ رہنے کے لیے۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ بعض پانی کے جانور کروڑوں سال پہلے چرندے تھے مگر کسی وجہ سے اُن کو اپنی زندگی طویل عرصہ تک پانی میں گزارنی پڑی تو ان کے پاؤں غائب ہو گئے اور وہ مچھلی کی طرح کی شکل اختیار کر گئے۔ اسی طرح مچھلیوں کو جب زمین پر زندگی گزارنی پڑی تو ان کے پاؤں نکل آئے اور ان کی شکل پہلے مگرمچھ اور پھر بعد میں دیگر جانداروں کی سی ہو گئی۔یعنی اپنی بقاء کے لیے قدرت نے ان کی جون تبدیل کر دی۔ اسی طرح انسان کے بارے میں نظریہ ارتقا کے حامی کہتے ہیں کہ انسان بن مانس کی نسل سے تھا جو اپنے ماحول کی وجہ سے تبدیل ہو کر ویسا ہو گیا جیسا کہ آج ہے۔ چمپینزی جیسے چو پائے سے دو پیروں پر انسان اس لیے کھڑاہو گیا کہ وہ اُس زمانے میں اور اُس وقت کے ماحول کے مطابق اُس کی بقاء کے لیے ضروری تھا۔ سننے میں تو یہ نظریہ بڑا دلچسپ ہے اور اسی لیے اس پر سینکڑوں کہانیاں اور کتابیں لکھی جچا چکی ہیں اور متعدد فلمیں بن چکی ہیں۔ مگر حقیقت اس کے قطعی برعکس ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعلٰی نے انسان کو بالکل اسی حلیے میں بنایا ہے جس میں وہ آج موجود ہے۔ دہریوں کہ نظریے اور ایمان کے بیچ سائنس حائل ہے جو اپنے نت نئے انکشافات سے ایمان کی تائید کرتی ہے۔ نظریہ ارتقا کے حامی ابھی بھی اس بات کا جواب نہیں دے سکتے کے حیات کی ابتدا کیسے ہوئی؟ جب بگ بینگ سے کائنات وجود میں آئی تو اُس میں جاندار مادّہ تو کوئی تھا نہیں۔ تو پھر زندگی کی ابتدا کیونکر ہوئی؟ کچھ کہتے ہیں کہ کسی کیمیائی عمل سے ایسا ہوا۔ تو اگر کیمیا گری سے زندگی وجود میں آ سکتی تو سائنس اتنی ترقی کرنے کا بعد علم کیمیا سے کو ئی معمولی نوعیت کا جاندار یا کیڑا پیدا کر کے کیوں نہیں دکھا دیتی؟ بہرحال بات ڈارون کے مشہور زمانہ اور ساتھ ہی انتہائی متنازع نظریہ ارتقا کی ہو رہی ہے۔ جو صرف وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں زندگی پہلے سے ہی موجود تھی۔ تفصیلی بحث میں جائے بغیر ہم انسانوں کے ارتقا کی طرف آتے ہیں۔ یعنی بن مانس سے مانس بننے کا سفر۔ موجودہ دور کے انسان کو سائنس ہوموسیپینز (Homo Sapeins) کہتی ہے۔ اس سے پہلے کی نسل کو ہومو ایریکٹس (Homo Erectus) کہتے ہیں۔ علم الانسان یا بشریات کے ماہر یعنی اینتھروپولوجسٹ (Anthropologists) اپنی تما م تر کوشش کے بعد بھی ہوموسیپینزاور ہومو ایریکٹس کے درمیان کوئی جوڑ پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ آج تک دنیا بھر میں زمین کی کھدائی سے کوئی ایک بھی ہڈی ایسی نہیں ملی جو ہوموسیپینزاور ہومو ایرکٹس کے درمیان کے دور کو ثابت کرتی ہو۔ اس بات کو ہم مسِنگ لنکِ (Missing Link) کا نام دیتے ہیں۔ اِرتقاءکے مطابق ایک نوع کو دوسری نوع میں تبدیل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ایسا لمحہ آجائے جس میں اُن کی باہمی نسل اگے نہ بڑھ سکے۔ اگر بندر سے انسان کو الگ ہونا تھا توتاریخ میں کوئی ایسا وقت ضرور آیا ہوگا جب انسان نے اپنے جد امجد کو الوداع کہا ہوگا۔ وہ وقت کب آیا؟ کتنی خاموشی سے آیا؟ کسی کو آج تک خبر بھی نہ ہوئی؟ گمان ہے کہ بن مانس سے انسان کے الگ ہونے کا وقت آج سے 50 یا 70 لاکھ سال پہلے آیاہوگا۔ اس دور سے لے کر 15 لاکھ سال پہلے تک کئی قسم کے ادوار انسانی ارتقا کی کہانی سناتے ہیں اور پھر ہومو ایریکٹس (Homo Erectus) کا دور آیا جو 2 سے 3 لاکھ سال پہلے بڑے پرُاسرار انداز میں غائب ہو گیا۔ اور پھراچانک ہی 1.5 لاکھ سال پہلے کہیں سے ہوموسیپینز(Homo Sapeins) کا وجود آ گیا۔ ہومو ایریکٹس کے بارے میں قیاس ہے کے وہ تقریباً انسان تھے ہومو ایریکٹس اور ہوموسیپینز کے درمیان صرف 50 ہزار سال کا وقفہ ہے لیکن دونوں ں کا خاص اَختلاف یہ ہے کے دونوں کے دماغ کے حجم میں بہت بڑا فرق ہے (تقریباً ڈیڑھ گنا)۔ اس کے علاوہ دونوں بلکے جتنے بھی اعلیٰ حیوان (Primates) موجود ہیں ان کے تولیدی عمل میں بھی بہت ہی خاص اور نما یاں فرق پایا جاتاہے جو صرف اور صر ف انسانو ں کا خاصہ ہے۔ پھر ہوموسیپینز یا انسان کے جسم کے بالوں کو کیا ہوا؟ کہاں گئے؟ کیسے جھڑگئے؟ صرف دو وجہ ہو سکتی ہیں جسم کے بال گر جانے کی۔ انسان کی ارتقاءکافی زمانے تک پانی میں ہوئی یا پھر وہ عرصہ دراز تک کسی بہت ہی گرم جگہ رہتا رہا۔ لمبے عرصے تک پانی میں رہنے کی تو وجہ کچھ کچھ سمجھ میں آتی ہے کیونکہ انسان کا بچہ پیدائشی طور پر پانی میں سانس روک لینے اور کسی حد تک تیرنے کی قدرتی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن یہ شکم مادر میں پروان چڑھنے کانتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ مگر اس کے علاوہ: انسانی کھال کے نیچے چربی کی تہ کا ہونا۔ بال کا نہ ہونا۔ نرخرے اور زبان کی بناوٹ۔ نمکین پسینے کے غدود جلد کا نرم ہونا اس بات کی غمازی کرتے ہیں کے انسان کا پانی سے کوئی رشتہ کبھی ضرور رہا ہے۔ لیکن کب اور کہاں یہ دور گذرا اس کے بارے میں مکمل سکوت ہے۔ کیا اسی لیے ہومو ایریکٹس اور ہوموسیپینز کے درمیان کا جوڑ غائب ہے کیونکہ وہ کہیں پانی میں دبا ہوا ہے۔ (واللہ عالم) بہت سے جانور زمانہ قدیم سے اوزار استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں جیسا کہ مصری گدھ کا پتھر پھینک کہ شترمرغ کے انڈے توڑنا۔ بحر اوقے انوس کا اوُد بلاؤ بھی ایسا ہی کر تاہے۔ بعض ہدہد کانٹوں سے درختوں میں موجود کیڑوں کو کرید کرید کر کھاتے ہیں۔ کنگاروُ کا اتنا ہنر مند ہونا بھی سب کے علم میں ہے مگر وہ پھر بھی اوزاراستعمال نہیں کرتا۔ ایسی دیگر کئی مثالیں موجود ہیں بہت سے جانورں کے متعلق مگر انھوں نے اوزار کے استعمال سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ لاکھوں سال سے ایک ہی طرح اپنے اپنے اوزار استعمال کر رہے ہیں اور بس۔ ارتقا پسند خود یہ کہتے ہیں کے ارتقا کا عمل انتہائی سست رفتار ہوتا ہے کیونکہ قدرت جو جاندار کے لیے بہتر ہوتا ہے وہ بڑے آہستہ انداز میں پسند کرتی ہے اور پھر اُس تبدیلی کو نسل در نسل آگے بڑاہتی ہے۔ ایک لاکھ سال میں کچھ نیا بن جانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شے ء اچانک ہی ہو گئی ہو۔ تو پھر ہومو سیپینزاور ہومو ایریکٹس کے درمیان کے ایک لاکھ سے بھی کم عرصے میں انسان کا دماغ بن جانا، بال گر جانا، تولید کا عمل بدل جانا، انسان کا بولنا شروع کردینا (جبکہ وہ انتہائی خطرناک ہوتا ہے کھاتے وقت) اورکھانا چبا کے کھانا شروع کر دینا کیسے ہو گیا؟ اس کے علاوہ ارتقا پسند یہ بھی مانتے ہیں کے قدرت وہی کچھ دیتی ہے جس کی اُس ماحول میں ضرورت ہو تو پھر ہم کو قدرت نے (اللہ نے نہیں) اِتنا اعلیٰ دماغ کیوں دیا جو آج اتنی ترقی کے بعد بھی ہمارے استعمال سے کہیں زیادہ کارکردگی کا حامل ہے۔ اتنا زبردست دماغ بغیر کسی ضرورت کے دے دیا؟ دنیا کی ہر شے ءمیں ایک تناسب ہے۔ ہرن اور چیتے کی مثال لے لیں۔ چیتے کو خاص طور پر ہرن کے شکار کے لیے بنایا گیا ہے اور ساتھ ہی ہرن کو چیتے سے بچنے کی بھرپور صلاحیت دی گئی ہے۔ موت وزیست کا کھیل یہ دونوں ازل سے کھیلتے چلے آ رہے ہیں مگرپھربھی دونوں کی نسلیں پروان چڑھتی رہی۔ ہرن کو اگرچہ مرنا ہوتا ہے مگر اس کی پیدائش کا تناسب چیتے سے کہیں زیادہ ہے۔

سب سے بڑااور اہم سوال دہریوں کے لیے[ترمیم]

انسان کے بچے کی پیدائش کے وقت اس کا دماغ ایک بالغ دماغ کا چوتھائی ہوتا ہے۔ لیکن بڑے دماغ کی جگہ کے لیے بچے کی کھو پڑی تنا سب کے لحاظ سے اُس کے حجم سے کہیں زیادہ بڑی ہوتی ہے۔ اور یہ تناسب انسان میں سب پرائیمیٹس سے زیادہ ہے۔ تو جب قدرت نے (اللہ نے نہیں) ماحول کے مطابق یہ کھوُپڑی اتنی بڑی بنائی تو بقایا انسانی اعضاء اسی تناسب سے کیوں نہیں بنائے؟ اور بقایا جسمانی حصوں کا تناسب اگر کم رکھا تو دماغ کے حجم کو اتنا بڑا کیوں بنایا۔ آخر اس کی ضرورت کیا تھی؟ اس کھوپڑی کے حجم ہی کی وجہ سے کتنی مائیں لاکھوں سالوں سے اپنی جانوں پر کھیلتی چلی آ رہی ہیں۔ تو کیا واقعی قدرتی انتخاب نے نظریہ ضرورت کے تحت دع لاکھ سال پہلے انسان کو کروڑوں سال اگے کی چیز دے دی؟ قدرتی انتخاب سے اتنی بڑی اور خوبصورت غلطی کیسے ہو سکتی ہے؟ جواب بڑاسادہ سا ہے: اللہ تعلیٰ نے انسان کا دماغ بہت ہی اعلیٰ معیار کا بنایا ہے اور اُس نے جس طرح چاہا ویساہی بنایا ہے۔ اور اس کی ہر تخلیق کے پیچھے حکمت ہے۔ اُس کی دانائی ہماری ادنیٰ عقل سے ما ورا ہے۔ "تمھارا آقا اللہ ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو 6 دنوں میں بنایا پھر تخت پر بیٹھ گیا، وہ دن کو رات سے ڈھانپتا ہے جو اس کے پیچھے لپکی چلی آتی ہے اور سورج اور چاند اور ستارے اس کے حکم میں بندھے ہیں۔ سنو! بنانا اور حکم دینا اُسی کا کام ہے۔ کیا برکت والا ہے اللہ سارے جہاں کا آقا!" (اعراف: 45)

اور قرآن میں فرمایا گیا:تم توصرف اس شخص کو نصیحت کر سکتے ہوجو نصیحت کی پیروی کرے اورخدا سے غائبانہ ڈرے سو اس کومغفرت اور بڑے ثواب کی بشارت سنادو؛(یٰسین:11)

تخلیق آدم[ترمیم]

"اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہاکہ "میں زمین میں ایک فرمانروا بنانے والا ہوں" تو انھوں نے کہا "کیا تو وہاں اسے بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گا جبکہ ہم تیری تعریف میں لگے ہیں اور تیری پاکیزگی کو عیاں کرتے ہیں؟" اس نے کہا " میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے" (30) اور اس نے آدم کو سب (چیزوں کے ) نام سکھا دیے پھر انھیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا "مجھے ان کے نام بتاﺅ اگر تم سچے ہو" (31) وہ کہہ اٹھے " توُ پاک ہے! ہمیں کوئی علم نہیں سوائے اس کے جو تو نے ہمیں دیا ہے۔ توُ ہی علم والا، حکمت والا ہے"۔ (32) اس نے کہا " اے آدم! انھیں ان کے نام بتا "۔ پھر جب اس نے انھیں ان کے نام بتا دیے تو اللہ نے کہا " کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی باتیں جانتا ہوں اور جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے تھے" (بقرہ: 33) سورة بقرہ کی ان آیات سے یہ ثابت ہے کہ اللہ تعالٰیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور جو کچھ اللہ کے علم میں ہے وہ کسی اور کے نہیں ماسوائے اُس کے جس کو اُس نے بتا دیا۔ بے شک انسان کی تخلیق اللہ کے بے شمار معجزوں میں سے ایک معجزہ ہے۔ آدم عربی زبان میں انسان کے معنی رکھتا ہے۔ عبرانی میں' ا ' کے اضافہ سے یہ آدام ہے جس کے معنی مٹی کے ہیں۔ صحیح بخاری میں حدیث سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا "اللہ نے آدم علیہ السلام کو مٹھی بھر مٹّی سے بنایا جو مختلف زمینوں سے لی گئی تھی اور آدم علیہ اسلام کی اولاد اسی لیے مٹّی کی ترکیب کے مطابق ہے۔ اسی لیے ابنِ آدم سفید، سرخ، سیاہ اور زرد ہے۔" تخلیق اِنسان سے بہت پہلے اللہ تعالٰیٰ نے فرشتوں اور جنّات کو تخلیق فرمایا۔ آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد جب اللہ نے ان دونوں کو اشرف المخلوقات یعنی آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہونے کو کہا تو فرشتے تو حکم بجا لائے مگر جن نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ مٹی سے بنی اس مخلوق کو سجدہ نہیں کر سکتا۔ جن حالانکہ اپنے سے برتر مخلوق یعنی فرشتوں کو آدم علیه السلام کے سامنے سجدہ ریز دیکھ چکا تھا مگر وہ نہیں جانتا تھا وہ کچھ جو اُسکا رب جانتا تھا۔ جن یہ سمجھا کہ آگ مٹی سے برتر ہے۔ مگر جن اللہ کی طرف سے انسان کو ودیعت کی گئی اعلیٰ صفات سے کُلّی طور پر بے بہرہ تھا۔ لیکن اس نے اپنی کم علمی کی وجہ سے اپنے آپ کو برتر سمجھا اور اپنا ابدی نقصان کر بیٹھا۔ اس بات کا صاف مطلب ہے کہ علم ہی وہ شے ء ہے جو بنی آدم کو تمام مخلوق پر فوقیت دیتی ہے اور یقیناً جہالت بہت ہی بری شے ء ہے۔ یہاں اس بات کا بھی بالخصوص تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ جو علم اللہ نے آدم علیہ اسلام کو دیا وہ کائنات اور دنیا کا علم تھا۔ اور اس علم کی اتنی فضیلت تھی کہ فرشتوں کو بھی اقرار کرنا پڑا کے انسان ہی صحیح معنیٰ میں دنیا میں اللہ کا نائب ہے۔ اب آج ہم اگر اس بات کو سمجھ نہیں پا رہے تو اس میں کس کا قصور ہے؟ ہمارے علما دینی تعلیم کو ہی اصل علم قرار دیتے ہیں جو قطعی غلط نہیں مگر دنیا اور کائنات کا علم بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ علم طاقت ہے اور طاقت انسانی نسل اور بقاء کی ضامن۔ علم و ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والی اقوام اپنے دفاع کا سمجھوتہ طاقت اور علم والی اقوام سے کرتی ہیں اور پھر لادینئت کے شکنجہ میں کچھ یوں جکڑ جاتی ہیں کہ انھیں اپنے مذہب کو بھی گروی رکھنا پڑجاتاہے۔ پس یہ ثابت ہے کے علمِ دین اور دنیا اپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ کسی ایک کو یکسر چھوڑ دینا تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ آدم علیہ اسلام کے قصہ کی سمت واپس پلٹتے ہیں جس میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ فرشتوں کو اللہ نے اپنی مرضی سے کام کرنے کی صلاحیت نہیں دی ہے۔ فرشتے صرف اللہ کے احکامات کی بجا آوری کرتے ہیں۔ اپنی مرضی اور منشا سے کام کرنے کی صلاحیت صرف جن اور انسان کو حاصل ہے۔ جن نے اپنی اس صلاحیت کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے اور اپنے آگ سے بنے ہونے کہ غرور میں آکر اللہ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ اِسی حکم عدولی کی پاداش میں وہ راندہ درگاہ ٹھرا اور قیامت تک کے لیے ابلیس قرار پایا۔ اگر اللہ چاہتا تو جن کو اپنی مرضی سے جھکا سکتا تھا، بلکہ صفحہ ہستی سے مٹا سکتا تھا مگر اللہ نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے بر عکس شیطان کو اس بات کی بھی اجازت دے دی کے وہ بنی آدم کو گمراہ کرنے کی سعی کرتا رہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ نے اپنی بعض مخلوقات کو اپنی منشا سے کام کرنے کی آزادی دی ہے اور روز قیامت اُن سے اُن کی اِسی آزادی کی باز پرس ہوگی اور بل آخر جزا اور سزا دی جائے گی۔ آدم علیہ اسلام کو اللہ تعالٰی ٰ نے زمین پر اپنا نائب یعنی خلیفہ بنایا۔ سب سے پہلے فرشتوں نے آدم علیہ اسلام کا السلام وعلیکم کہہ کر خیر مقدم کیاتو اللہ تعالٰیٰ نے حضرت آدم علیہ اسلام سے کہا کہ اب سے یہی تم اور تمھاری اولاد کاسلام ہوگا۔ اللہ تعالٰیٰ نے پھر حضرت آدم علیہ اسلام کی زندگی کے خلاءکو ختم کرنے کے لیے ان کی پسلی کی ہڈی سے اُن کی ساتھی یعنی بی بی حوا کو پیدا کیا۔ پھر اس جوڑے کو جنت میں رہنے دیا۔ یہاں انھیں ہر کام کی آزادی دی ما سوا ئے ایک درخت کا پھل کھانے کے۔ شیطان نے یہیں سے اپنے کام کی ابتداءکی اور اس جوڑے کو بہکا دیا۔ اس جوڑے نے بھی انسان کی اولین بشری کمزوری یعنی بھول جانے کا عمل جسے نیساں کہتے ہیں اس کا اظہار کیا اور اللہ کا حکم بھلا دیا اور اس درخت کا پھل کھا لیا۔ گو کہ ان دونوں نے بعد میں اللہ سے اپنے کیے کی معافی مانگ لی مگر اپنی اس لغزش کی پاداش میں ان دونوں کوہی جنت چھوڑنا پڑی۔ اس جنت کے بارے میں مختلف قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں کہ آیا یہ جنت زمین کی اونچائی پہ کسی پر فضاءمقام پر تھی اور بعد میں اللہ تعالٰیٰ نے اسے ختم کر دیا یا پھر یہ وہ جنت ہے جس کا قرآن میں مومنوں سے وعدہ کیا گیا ہے یا پھر یہ جنت کوئی تیسری جنت تھی۔ میرے خیال میں یہ ایک بے معنی بحث ہے جس کا اس واقعہ کی روح سے قطعی کوئی تعلق نہیں۔ جنت چھوڑنے سے پہلے آدم علیہ اسلام اور حوّا کو اپنے برہنہ ہونے کا احساس نہ تھا مگرخلد بدری کے ساتھ ہی انہے ں اپنے برہنہ ہونے کا احساس ہوا اور انھوں نے فوراً ہی پتّوں سے ستر پوشی کی۔ ے ہاں مے ں اس بات کا بھی تذکرہ کرتا چلوں کہ اسرائیلے ات مے ں ان دونوں کے گناہ کی سزا اللہ تعالٰیٰ نے اس طرح دی کے تا ابد مرد کو روزگار کی مشقت اور عورت کو بچہ جننے کی صعوبت برداشت کرنی پڑے گی۔ ہمارے مذہب کی روشنی مے ں ے ہ بات قطعی غلط ہے۔

حضرت آدم علیہ اسلام کے بعد کی دنیا[ترمیم]

حضرت آدم علیہ اسلام کے بعد ان کی اولاد سے دنیا آباد ہونی شروع ہوئی اور اللہ نے انسانوں کی نسل پروان چڑھائی جو دنیا میں چہار سوُ پھیل گئی۔ حضرت آدم علیہ اسلام کے بیٹوں ہابیل و قابیل میں سے قابیل نے ہابیل کو قتل کر دیا تھا ( یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ قران میں یہ دونوں نام یعنی ہابیل یا قابیل درج نہیں ہیں۔ قران میں صرف آدم کے بیٹوں کہا گیا ہے)۔یہ توراة سے اخذکردہ معلومات ہے ، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مرُدے کو زمین میں دفن کرنا قابیل نے ایک کوّے سے سیکھااس کا تذکرہ قرآن کریم میں بھی ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے فَبَعَثَ اللّٰہ غُرَبًا یَبحَثُُ فی الارض...الآیۃ (سورہ مائدۃ آیت: 31) ۔ ۔ ایک صحیح حدیث کے مطابق اُس وقت سے دنیا میں جتنے بھی قتل ہوئے ہیں ان کے گناہ کا ایک حصہ حضرت آدم کی پہلی اولا د کے کھاتے میں بھی جا تا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کے انسان کو اپنی زندگی میں گناہوں سے تو بچنا چاہیے مگر خاص طور پر ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہیے جو ایجاد کے زمرے میں آتا ہو اور اُسکا گناہ جاریہ بن جائے اور روز قیامت اپنے گناہوں کے بار کے علاوہ ایسے شخص کو دوسروں کا کیا بھی بھگتنا پڑے۔ کہا جا تا ہے کہ قتل کا یہ واقع دمشق میں ہوا تھا مگر اس کی صحت کے بارے میں کوئی تاریخی یا اسلامی ثبوت نہیں ملتا۔ اللہ تعالٰیٰ نے آدم علیہ اسلام کی اولاد کو دنیا میں ہر سمت پھیلا دیا اور ان کو قبیلوں اور گروہوں میں بانٹ دیا۔ اللہ تعالٰیٰ نے شروع سے ہی انسان کو زندگی گزارنے کا طریقہ بتا دیا اور جتا دیا کہ کائنات میں اللہ ہی کی ذات وہ ہستی ہے جو عبادت کے لائق ہے۔ اس کی خدائی میں کوئی شریک نہیں۔ اللہ کے احسانوں کے مقابلے میں اتنی معمولی سی بات بھی انسان یا نہ رکھ سکا۔ تاریخ شاہد ہے کہ بنی آدم کو اللہ کی یہ بات کبھی بھی زیادہ عرصہ یاد نہیں رہی۔ انسان نے ہمیشہ ہی سے شیطان کے بہکاوے میں آ کر یا تو غیر اللہ کو پوجنا شروع کر دیا یا پھر اللہ کی پاک ذات سے کسی نہ کسی کا کوئی رشتہ جوڑ دیا۔ شرک اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ ہے جس کی معافی اس کے حضور عنقا ہے۔ مشرک کو ہر حال میں ابد تک دوزخ کی آگ کا ایندھن بننا ہے۔ اللہ پاک قرآنِ پاک میں فرماتے ہیں؛اور( اس وقت کو یاد کرو)جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا خدا کے ساتھ شرک نہ کرنا-شرک تو بڑا(بھاری) ظلم ہے؛؛(لقمٰن:13)

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "AMPS.EDU.PK"۔ نظریہ ارتقا اردو لیکچر۔ 12 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ