معجزہ (اسلام)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

معجزہ وہ حیرت انگیز بات جو صرف نبی سے ہی ظاہر ہو، یاخرق عادت جو نبی سے صادر ہو۔[1]

معجزہ کی تعریف[ترمیم]

معجزہ“ کا مطلب عاجز کر دینا یعنی مجبور کردیناسے ہے، عقل کو حیران کر دینا، کسی کام کی کوئی سائنسی توجیہ سمجھ میں نہ آنا، اسباب کے بغیر کسی کام کا ہوجانا، وغیرہ معجزہ کہلاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ”خرق عادت“ کام کو معجزہ کہتے ہیں۔ بعض خلاف عادت باتیں اللہ پاک اپنے رسولوں اور نبیوں کے ہاتھ سے ظاہر کرا دیتا ہے، جن کے کرنے سے دنیا کے لوگ عاجز ہوتے ہیں، تاکہ لوگ ان باتوں کو دیکھ کر اسی نبی کی نبوت کو سمجھ لیں، نبیوں اور رسولوں کی ایسی خلاف عادت باتوں کو معجزہ کہتے ہیں،[2]

نبوت کی دلیل[ترمیم]

نبی کے دعوی نبوّت میں سچے ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ نبی اپنے صدق کا علانیہ دعویٰ فرماکر محالاتِ عادیہ کے ظاہر کرنے کا ذمّہ لیتا اور منکروں کو اُس کے مثل کی طرف بلاتا ہے، اﷲ عزوجل اُس کے دعویٰ کے مطابق امرِ محالِ عادی ظاہر فرما دیتا ہے اور منکرین سب عاجز رہتے ہیں اسی کو معجزہ کہتے ہیں، جیسے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی، موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا سانپ ہو جانااور عیسیٰ علیہ السلام کا مُردوں کو جِلا دینا اور مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دینا اور محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے معجزے تو بہت ہیں۔[3] کفارِ قریش نے محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم) سے معجزہ طلب کیااور کہنے لگے اگر تم سچے نبی ہوتو چاند کے دو ٹکڑے کردوحضور(صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم) نے چاند کی جانب اشارہ فرمایاوہ دو ٹکڑے ہو گیا۔[4] اج کل لوگ کچھ خارق العادہ چیزوں کو معجزہ سمجھ لیتے ہیں جبکہ وہ کرامت یا شعبدہ بازیاں ہوتی ہیں اہل اللہ سے صادر ہونے والے تمام کام کرامت ہوتے ہیں معجزہ اور کرامت میں یہی فرق ہے کہ کرامت اولیاء خدا سے صادر ہوتی ہے مگر اس کا مقصد حفظ دین یا ترویج دین ہوتا ہے اثبات نبوت نہیں

معجزہ اور کرامت[ترمیم]

معجزہ اور کرامت دونوں کی حقیقت ایک ہی ہے۔ بس دونوں میں فرق صرف اس قد رہے کہ خلافِ عادت وتعجب خیز چیزیں اگر کسی نبی کی طرف سے ظہور پذیرہوں تو یہ معجزہ کہلائیں گی اوراگر ان چیزوں کا ظہور کسی ولی کی جانب سے ہو توان کو کرامتکہا جائے گا۔ چنانچہ امام یافعی نے اپنی کتاب نشرالمحاسن الغالیہمیں تحریر فرمایا ہے کہ امام الحرمین و ابوبکر باقلانی وابوبکر بن فورک وحجۃ الاسلام امام غزالی وامام فخر الدین رازی وناصر الدین بیضاوی ومحمد بن عبد الملک سلمی وناصرالدین طوسی وحافظ الدین نسفی و ابو القاسم قشیری ان تمام اکابرعلماء اہل سنت ومحققین ملت نے متفقہ طور پر یہی تحریرفرمایا کہ معجزہ اور کرامت میں یہی فرق ہے کہ خوارقِ عادات کا صدوروظہور کسی نبی کی طرف سے ہوتواس کو معجزہ کہا جائے گااوراگرکسی ولی کی طرف سے ہوتو اس کو کرامت کے نام سے یاد کیا جائے گا امام یافعی نے ان دس اماموں کے نام اوران کی کتابوں کی عبارتیں نقل فرمانے کے بعد یہ ارشادفرمایا کہ ان اماموں کے علاوہ دوسرے بزرگان ملت نے بھی یہی فرمایا ہے، لیکن علم و فضل اورتحقیق وتدقیق کے ان پہاڑوں کے نام ذکر کردینے کے بعد مزید محققین کے ناموں کے ذکر کی کوئی ضرورت نہیں۔[5]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "اردو_لغت"۔ 12 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جولا‎ئی 2015 
  2. زبدۃ الفقہ صفحہ 34سید زوار حسین زوار اکیڈمی پبلیکیشنز کراچی
  3. (بہارِ شریعت ،جلد1، حصہ1، ص56
  4. مدارج النبوۃ،باب ششم ،ص181
  5. حجۃ اللہ علی العالمین، الخاتمۃ فی اثبات کرامات الاولیاء