آصفہ بھٹو زرداری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
آصفہ بھٹو زرداری
 

معلومات شخصیت
پیدائش (1993-02-03) 3 فروری 1993 (عمر 31 برس)
کراچی، سندھ، پاکستان
قومیت پاکستانی
جماعت پاکستان پیپلز پارٹی
والدین آصف علی زرداری
بے نظیر بھٹو
والدہ بینظیر بھٹو   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان زرداری خاندان
بھٹو خاندان
عملی زندگی
مادر علمی اوکسفرڈ بروکس یونیورسٹی
یونیورسٹی کالج لندن
پیشہ سیاسی اور سماجی کارکن
ویب سائٹ
ویب سائٹ [1]

آصفہ بھٹو زرداری پاکستان کی سب سے بڑی اورجمہوری پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کے سیاسی گھرانے کا حصہ ہیں۔ 3 فروری1993کو پیدا ہوئیں۔ وہ پاکستان کی سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں۔ آصفہ بھٹو ،بلاول بھٹو زرداری اور بختاور بھٹو زرداری کی چھوٹی بہن ہیں۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی شہید ذو الفقار علی بھٹو اور ایرانی نژاد نصرت بھٹو کی نواسی اور شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کی بھانجی ہیں۔ آصفہ بھٹو زرداری، حاکم علی زرداری کی پوتی اورپاکستان قومی اسمبلی کی رکن عذرا فضل پیچوہو اور فریال تالپور کی بھتیجی ہیں۔ ان کا نام ان کے والد آصف علی زرداری نے رکھا تھا جبکہ ان کی والدہ بینظیر بھٹو شہید اُن کا کوئی اور نام رکھنا چاہتی تھیں۔ وہ اپنے والد کے سب سے قریب رہیں ،آصف علی زرداری کے جیل کے دنوں میں اور عدالتوں میں پیشی کے وقت بھی آصف علی زرداری کی گود میں ہمیشہ وہی نظر آتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی آصفہ بھٹو زرداری اپنے بابا کی سب سے چہیتی اور لاڈلی بیٹی ہیں۔[1]

تعلیمی سفر[ترمیم]

آصفہ بھٹو زرداری نے آکسفورڈ بروکس یونی ورسٹی سے سیاسیات اور سوشیالوجی میں بیچلر کیا۔ جولائی 2016میں آصفہ بھٹو زرداری نے گلوبل ہیلتھ اینڈ ڈوپلمنٹ میں ماسٹرز کی ڈگری یونی ورسٹی کالج لندن سے حاصل کی۔ اس حوالے سے لندن کالج میں منعقد تقریب میں ان کے والد آصف علی زرداری، ان کے بھائی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ان کی بڑی بہن بختاور بھٹو زرداری نے شرکت کی۔

 طالب علمی کے دور سے ہی انھوں نے مختلف سیاسی، سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا، انھوں نے جانوروں کے حقوق سے متعلق سرگرمیوں میں حصہ لیا اورپاکستان کو پولیو سے نجات دلانے کے لیے سب سے کم عمر پولیو سے محفوظ پاکستان کی سفیر منتخب ہوئی۔[1]

آکسفورڈ بروکس یو نی ورسٹی[ترمیم]

 آکسفوڈ بروکس یونی ورسٹی[2] برطانیہ میں قائم ہے۔ جس کا شمار دنیا بھر کی 50معروف یونی ورسٹیز میں ہوتا ہے۔ یہ یونی ورسٹی 1865میں قائم ہوئی۔ آکسفورڈ اسکول آف آرٹ کے نام سے قائم کی گئی اس یونی ورسٹی کو 1992یونی ورسٹی کے سابق پرنسپل جان ہینری بروکس کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔ اس یونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والی شخصیات دنیا بھر میں اپنی منفرد شناخت رکھتی ہیں۔

یونی ورسٹی کالج لندن[ترمیم]

یہ لندن کی ایک پبلک ریسرچ یونی ورسٹی ہے۔ جو 1826میں قائم ہوئی۔ یہ یونی ورسٹی انگلینڈ کی تیسری قدیم یونی ورسٹی میں شمار ہوتی ہے۔ جہاں بہ یک وقت ہزاروں کی تعدا د میں طلبہ علم کی روشنی سمیٹنے میں مصروف ہیں۔ بھارت کے سیاسی اور روحانی رہنما اور آزادی کی تحریک کے اہم ترین کردارمہاتما گاندھی 1888میں قانون کی پڑھائی کرنے یونی ورسٹی کالج لندن گئے اور بیرسٹر کی ڈگری حاصل کی۔

ابتدائی دور[ترمیم]

آصفہ بھٹو زرداری ایک سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے کے ساتھ ملک میں درپیش جمہوری دشمنوں کے بے تحاشہ ظلم ستم کی ستائی ہوئی تھیں، بچپن ہی سے سیاسی مخالفین کی جانب سے اُن کی والدہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف کیے جانے والے جھوٹے ہتھکنڈوں نے ان کے بچپن کو متاثر کیا۔ وہ نوعمری کے دور میں عدالتوں اور جیل کی کال کوٹھریوں اور احتجاج میں اپنی والدہ کے ساتھ شریک رہیں۔ پے در پے رکاوٹوں اور سیاسی انتقام کے باعث ان کا بچپن کب جوانی میں مبتلا ہوا وقت نے سمجھنے ہی نہیں دیا۔[1]

بے نظیر بھٹو کی آصفہ سے محبت[ترمیم]

بے نظیر بھٹو، آصفہ سے بہت پیار کرتی تھیں وہ اکثر و بیشتر اپنے انٹرویوز کے دوران میں بچوں کو اپنے ساتھ رکھا کرتیں تھیں۔ ایک انٹرویو کے دوران میں بی بی سے سوال پوچھا گیا ،مگر جواب ننھی آصفہ کی جانب سے آیا جس پر سب ہنس پڑے۔ بے نظیر بھٹو اکثر کہتی تھیں کہ ’’آصفہ بھٹو باتونی اور سمجھ دار ہے‘‘بلاول اور بختاور جب کبھی کھیل میں مصروف ہوتے تو آصفہ اپنی والدہ کے اردگرد رہتیں اورسیاست کے موضوع پر ہونے والی گفتگو بہت غور سے سنتیں۔ بے نظیر بھٹو بچوں کے لیے اسپیشل کھانا بھی تیار کیا کرتی تھیں جو آصفہ کو بہت پسند تھا۔ بقول آصفہ ،بی بی اکثر سوچتی تھیں کہ جلاوطنی سے بچوں کو ٹائم دینے کا موقع مل گیا ہے۔ آصفہ کی بچپن میں اپنی والدہ سے قربت ہی آج ان کے سیاسی شعور کے پختہ ہونے کی دلیل ثابت ہوئی ہے۔[3]

بے نظیر بھٹو کی وفات[ترمیم]

آصفہ بھٹو زرداری 14برس کی تھیں کہ ان کی والدہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان سے جدا ہوگئیں۔ دسمبر2007ءکو محترمہ بے نظیر بھٹو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ کر کے واپس جا رہی تھیں کہ اُن پر قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ شہید ہوگئیں۔ آصفہ کے مطابق ’’بی بی شہید کے خون نے ملک میں جمہوریت کی آبیاری کی ہے ‘‘ انھیں علم تھا کہ پاکستان میں اُن کی جان کو خطرہ ہے مگر انھوں نے ہمیں دبئی بھیجا اور خود عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے پاکستان پہنچ گئیں حالاں کہ انھیں آگاہ کیا گیا تھا وہ ملک واپس نہ جائیں لیکن انھوں نے پروا نہ کی اور ملک واپس آئیں تاکہ اپنی سیاسی جدوجہد کا نئے سرے سے آغاز کر سکیں۔ یہاں تک کہ انھوں نے اپنا خون وطن پر نچھاور کر دیا۔ دنیا کی سیاسی تاریخ میں ایسی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ وہ بھٹو شہید کے مشن کو جاری رکھنا چاہتی تھیں اور آج ہمارا یہ عہد ہے کہ ہم اپنے خاندان کی کسی قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔[3]

عملی سیاست کا آغاز[ترمیم]

آصفہ بھٹو زرداری دورانِ تعلیم ہی سیاست کے میدان میں سرگرم رہی۔ وہ جس ماحول میں پلی پڑھیں وہ ہر طرف سے سیاست دانوں اورحکومتی عمائدین سے گھرا رہتا تھا۔ بلا شبہ بھٹو خاندان نے اِس ملک کی سیاست میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ آصفہ ،سیاست کو زندگی سے نہیں نکال سکتیں،اُن کی سوچ ہے کہ وہ جب خود کو عوام کی خدمت کے قابل سمجھیں گی تو عملی طور پر سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیں گی۔ اِن دنوں اُن کی توجہ مسائل سے دوچار جن شعبوں کی طرف ہے اُن میں صحت اور انسانی حقوق کے شعبے اہم ہیں۔[3]

کچھ دنوں پہلے یہ خبر بھی گردش کر رہی تھی کہ آصفہ بھٹو زرداری نے سیاسی میدان میں قدم رکھ دیا، سندھ کے معاملات دیکھنا شروع کردیے، آیندہ انتخابی مہم میں وہ سندھ کا محاذ سنبھالیں گی۔ بلاول بھٹو زرداری سے خورشید جونیجو کی ملاقات میں وہ بھی موجو د تھیں جس کو سامنے رکھتے ہوئے یہ قیاس کیا گیا۔[4]

ایک مشکل دور کی یاد[ترمیم]

آصف علی زرداری جب صدر پاکستان تھے تو وہ ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والی تمام اہم سرگرمیوں میں آصفہ بھٹو کو شریک کیا کرتے تھے۔ آصفہ بھٹو کے لیے وہ بہت ہی خوفناک وقت تھا،جب وہ تین سال کی تھیں تو اُن کے والد جیل میں تھے اور جب وہ گیارہ سال کی ہوئیں تو والد کو جیل سے رہائی ملی‘یہ سارا وقت اُن کے لیے بہت صبر آزما تھا۔[3]

بختاور اور بلاول کا ساتھ[ترمیم]

آصفہ، بلاول اور بختاور بھٹو کا سیاسی نکتہ نظر ہمیشہ یکساں رہا ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ ان کے نانا شہید ذو الفقار علی بھٹو نے جس مقصد کے لیے اپنی جان کی قربانی دی، وہ بہت عظیم مقصد ہے اور آصفہ اسی حصول کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ اکثر سیاسی میٹنگز میں آصفہ کی موجودگی اس بات کا ثبوت بھی ہے۔[3]

عورتوں کے خلاف جرائم میں اضافہ[ترمیم]

آصفہ بھٹو زرداری، مُلک میں ہونے والے عورتوں کے خلاف جرائم میں اضافے کے باعث بھی اکثر پریشان رہتی ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر بھی خواتین پر ہونے والے مظالم کی بھرپور مذمت کرتی ہیں۔[3]

پولیو مہم کا آغاز[ترمیم]

آصفہ بھٹو زرداری سیاسی گھرانے پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے کے ساتھ ساتھ ہر پلیٹ فارم پر پاکستان کی نمائندگی کرتی نظر آتی ہیں، انٹر نیشنل ہیومن رائٹس فارم ہو یا انٹرنیشنل ہیلتھ پروگرام، وہ پاکستان اور عوام بالخصوص آنے والی نسل کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتی ہیں۔ جب ملک میں پولیو کے مرض کی خطرے کی گھنٹی بجی تو اُس کے خلاف محترمہ بینظیر بھٹو نے اِسی آصفہ بھٹو زرداری کو سب سے پہلے پولیو ویکسین کے قطرے پلائے اور جب یہ بچی ماں کی آغوش سے نکل کر جوانی میں داخل ہوئی تو اقوام متحدہ نے اِسی بچی آصفہ بھٹو زرداری کو پولیو کے خلاف جنگ میں اپنا سفیر تعینات کیا۔

 آصفہ بھٹو نے2007میں پاکستان میں پولیو مہم کی ذمے داری نبھاتے ہوئے ملک میں 70فیصد پولیو ویکسینیشن کاکام اپنی زیر نگرانی مکمل کروایا اور آج تک اس مشن کی طرف گامزن ہوتے ہوئے پاکستان کو پولیو فری ملک بنانے کی خواہش میں مصروف عمل ہے۔2010میں پاکستان میں آنے والے سب سے بڑے سیلاب میں متاثرین کی مدد اور ان کی بحالی کے لیے دن رات آصفہ بھٹو زرداری سمیت اس وقت کے صدر آصف علی زرداری،چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سیلاب زد گان کے ساتھ رہے اور ان کی بحالی اور غذائی اجناس کی کمی کو جلد از جلد مکمل کر کے ان کے نقصان کو پورا کر کے ان کو باعزت جینے کا حق فراہم کیا۔ آصفہ بھٹو زرداری کا طرز سیاست اپنی ماں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی عکاسی کرتا ہے وہ ملک پاکستان کی خواتین اور خاص طور پر بچوں کی نگداشت کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتی ہیں۔ اس سلسلے میں سندھ کے اسپتالوں کا دورہ ہو یا شہر میں صفائی ستھرائی کاکام یا تعلیم اور صحت کی سرگرمیاں وہ ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔[1]

آصفہ کی شادی کی خبر[ترمیم]

 آصفہ بھٹو زرداری کی شادی کے حوالے سے یہ خبر بہت سے اخبارات کی زینت بنی کہ دختر مشرق محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور سابق صدر آصف علی زرداری کی بیٹی آصفہ بھٹو زردار ی کا راولا کوٹ سے تعلق رکھنے والے سابق اعلیٰ افسر سردار الطاف کے بیٹے سے رشتہ طے پا رہا ہے اور وہ دونوں برطانیہ میں ایک ساتھ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ دونوں کی خواہش کو سامنے رکھتے ہوئے خاندان کے بڑوں نے اصولی طور پر رشتہ طے کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے،لیکن یہ خبر پانی کا بلبلہ ثابت ہوئی اور صرف اخبارات کی زینت ہی بن کر رہ گئی۔[5]

آصفہ کا ووٹ رجسٹرڈ[ترمیم]

2013 میں آصفہ بھٹو زرداری کا ووٹ سندھ کے ضلع ٹنڈوالہیار میں رجسٹرڈ کیا گیا۔ قومی اسمبلی کے حلقے این اے 223کی یونین کونسل جھنڈو مری میں یہ ووٹ رجسٹرڈ کیا گیا، اس موقع پر ان کی پھوپی فریال تالپور اور صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن بھی آصفہ بھٹو کے ہمراہ تھے۔ آصفہ بھٹو زرداری ٹنڈوا لہیار کو اپنا دوسرا گھر سمجھتی ہیں، اسی حلقے سے ان کی والدہ دو بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئی تھیں۔[6]

آصفہ کی انوکھی سالگرہ[ترمیم]

3 فروری2009کو آصفہ بھٹو زرداری کی سالگرہ کے موقع پر سندھ اسمبلی میں باقاعدہ قرارداد منظور کی گئی۔ صوبائی وزیر اطلاعات شازیہ مری نے صدر پاکستان آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کی چھوٹی بیٹی آصفہ بھٹو زرداری کی سالگرہ کے حوالے سے مبارکباد کی قرارداد ایوان میں پیش کی جس کو ایوان نے متفقہ طور پر منظور کر لیا اور یوں جب جب سندھ اسمبلی کی کارروائی کی تاریخ پڑھی جائے گی۔ آصفہ بھٹو زرداری کا نام بھی جگمگاتا دکھائی دے گا۔[7]

آصفہ بھٹو کی کامیابیاں[ترمیم]

آصفہ بھٹو زرداری پاکستان میں صحت کے حوالے سے خاصی سرگرم رہی ہیں۔ روٹری کی سفیر اور پولیو کی روک تھام کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سفیر بھی رہی ہیں۔

وہ پہلی کم عمر پاکستانی ہیں جنھوں نے پولیو کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے، ان کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1994میں بڑے پیمانے پر بچوں میں حفاظتی ٹیکوں کے حوالے سے کام کیا تھا۔

 2013ءمیں آصفہ نے فلپائن میں سمندری طوفان کے متاثرین کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی غرض سے 13ہزار فٹ کی بلندی سے پیراشوٹنگ بھی کی۔

سیاسی سرگرمیاں[ترمیم]

وہ سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان کی سیاست سے باخبر رہتی ہیں اور سیاست پر تبصرہ بھی کرتی ہیں۔

اپنی مدد اور رہنمائی سے پاکستان میں صحت کے شعبے کو بہتر بنانا ان کا خواب ہے۔ اور وہ اس حوالے سے پاکستان کے مختلف صحت کے شعبوں کا دورہ بھی کرتی رہتی ہیں۔

صفائی ستھرائی کے حوالے سے انھوں نے گذشتہ سال کراچی کے علاقے لیار ی میں مہم کا آغاز کیا۔

حوالہ جات[ترمیم]