دعثور بن حارث

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

دعثور بن حارث غطفانی غزوہ انمار میں رسول اللہ ﷺ پر تلوار سونتنے والا بعد میں مسلمان ہو گیا۔[1]

واقعہ[ترمیم]

  • ایک جماعت کا خیال ہے کہ یہ غزوہ ذات الرقاع میں واقعہ ہوا جب اس اعرابی (دعثور بن حارث) نے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تلوار سونت لی تھی اور کہا تھا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تجھے مجھ سے کون بچائے گا؟
  • بخاری میں ہے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو بلایا وہ جمع ہوئے جب کہ وہ شخص نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے کوئی سزا نہ دی،
  • واقدی اور ابن ابی حاتم نے ذکر کیا ہے کہ اس نے اسلام قبول کیا تھا، ایک قوم نے ذکر کیا ہے کہ اس نے اپنا سردرخت کے تنے پر مارا حتی کہ مر گیا،
  • بخاری نے غزوہ ذات الرقاع میں اس کا نام غورث بن حارث ذکر کیا ہے ابو حاتم محمد بن ادریس رازی، ابو عبد اللہ محمد بن عمر واقدی نے ذکر کیا ہے کہ اس کا نام دعثور بن حارث تھا اور اس نے اسلام قبول کر لیا تھا،
  • محمد بن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ اس شخص کا نام عمرو بن جحاش تھا یہ بنی نضیر سے تھا بعض نے ذکر کیا ہے کہ عمرو بن جحاش کا واقعہ اس واقعہ کے علاوہ ہے۔[2]

وضاحت[ترمیم]

بعض مورخین نے اس تلوار کھینچنے والے واقعہ کو غزوهٔ ذات الرقاع کے موقع پر بتایا ہے مگر حق یہ ہے کہ تاریخ نبوی میں اس قسم کے دو واقعات ہوئے ہیں۔ غزوهٔ غطفان کے موقع پر حضور کے سر انور کے اوپر تلوار اٹھانے والا دعثور بن حارث محاربی تھا جو مسلمان ہو کر اپنی قوم کے اسلام کا باعث بنا اور غزوہ ذات الرقاع میں جس شخص نے حضور اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم پر تلوار اٹھائی تھی اس کا نام غورث بن حارث تھا۔ اس نے اسلام قبول نہیں کیا بلکہ مرتے وقت تک اپنے کفر پر اڑا رہا۔ ہاں البتہ اس نے یہ معاہدہ کر لیا تھا کہ وہ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے کبھی جنگ نہیں کرے گا۔[3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. طبقات ابن سعد، جلد 1 صفحہ 249، ناشر : دار الاشاعت اردو بازار کراچی پاکستان
  2. تفسیر قرطبی۔ ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ابوبکر قرطبی، سورہ المائدہ آیت 11
  3. المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ غطفان، ج 2، ص 382