اسید بن حضیر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابو یحییٰ
اسید بن حضیر
اسید بن حضیر
معلومات شخصیت
مقام پیدائش مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 640ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام [1]  ویکی ڈیٹا پر (P140) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوہ احد ،  غزوہ خندق ،  غزوہ حنین   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ (وفات: 20ھ) ابتدائی اسلام قبول کرنے والے انصار صحابہ میں سے ہیں۔ اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ انصار کے قبیلہ اوس کی شاخ بنی عبد الاشہل سے خاندانی تعلق رکھتے ہیں ۔ مدینہ منورہ میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تبلیغ سے یہ اسلام میں داخل ہوئے ۔ اپنے قبیلہ بنی عبدالاشہل کے سردار اور مدینہ منورہ میں اپنی خوبیوں کی وجہ سے بہت ہی باوقار تھے ۔ یہ قرآن مجید بڑی ہی خوش الحانی کے ساتھ پڑھتے تھے ۔ امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی انکا بہت زیادہ اعزاز و اکرام کرتے تھے اور بارگاہ نبوت میں مقرب اور حاضر باش تھے ۔ جنگ بدر ،جنگ احد ، جنگ خندق وغیرہ تمام غزوات میں سربکف اور کفن بردوش کفار سے جنگ کرتے رہے ۔ زمانہ خلافت کے جہادوں میں بھی شرکت فرماتے رہے یہاں تک کہ فتح بیت المقدس میں امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہے۔ 20ھ میں حضرت امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے دوران مدینہ منورہ کے اند روصال فرمایا اور جنت البقیع میں دفن ہوئے ۔[2][3][4][5]

نام ونسب[ترمیم]

اسید نام، ابویحییٰ وابو عتیک کنیت، قبیلہ اوس کے خاندان اشہل سے ہیں نسب نامہ یہ ہے اسید بن حضیر بن سماک بن عتیک بن رافع بن امرء القیس بن زید بن عبد الاشہل بن حشم بن حارث بن خزرج بن عمرو بن مالک بن اوس، ماں کا نام ام اسید بنت اسکن تھا۔ اسیدکے والد (حضیر) قبیلہ اوس کے سردار تھے، ایام جاہلیت میں اوس وخزرج میں جو لڑائیاں ہوئیں وہ حضیری کے زیر قیادت ہوئیں، جنگ بعاث میں جو تمام لڑائیوں کا نچوڑ تھا سپہ سالاری کا علم انہی کے ہاتھ میں تھا۔اس میں انھوں نے نہایت ہوشیاری سے اپنا کام انجام دیا، خزرج کی ریاست عمرو ابن نعمان رحیلہ کے سپرد تھی وہ نہایت تدبر سے فوجوں کو لڑا رہا تھا اور اوسی شکست کھا رہے تھے یہ دیکھ کر حضیر خود مقابلہ کو آگے بڑھے اور عمرو مارا گیا اور اوس کو کامیابی نصیب ہوئی یہ ہجرت سے 5 سال قبل کا واقعہ ہے۔ [6]

قبول اسلام[ترمیم]

اس کے تین سال بعد بیعت عقبہ کے بعد مصعب بن عمیر مدینہ آئے اسعد بن زرارہ کے مکان میں قیام کیا تھا اور بنو ظفر کے قبیلہ میں بیٹھ کر تعلیم قرآن دیا کرتے تھے، بنو ظفر کے مکانات عبد الاشہل سے متصل واقع تھے، ایک روز باغ میں مسلمانوں کو تعلیم دے رہے تھے کہ سعد بن معاذ اوراسید بن حضیر کو خبر ہو گئی، سعد نے اسید سے کہا کہ ان کو جا کر منع کرو، ہمارے محلہ میں آیندہ نہ آئیں اگر اسعد بن زرارہ بیچ میں نہ ہوتے تو میں خود چلتا ان کے کہنے پر اسید نیزہ اٹھا کر باغ کی طرف اسلام کا قلع قمع کرنے روانہ ہوئے اسعدبن زرارہ نے ان کو آتا دیکھ کر داعی اسلام سے کہا کہ یہ اپنی قوم کے سردار ہیں اورآپ کے پاس آ رہے ہیں ان کو مسلمان بنا کر چھوڑئیے گا، اسید نے قریب پہنچ کر پوچھا، تم ہمارے کمزور لوگوں کو بیوقوف کیوں بناتے ہو، اگر اپنی خیریت چاہتے ہو تو ابھی یہاں سے چلے جاؤ، مصعب نے کہا: آپ بیٹھ کر پہلے میری بات سن لیں، اگر پسند ہو تو خیر ورنہ جو مزاج میں آئے کیجئے گا، اسید بیٹھ گئے اور مصعب نے اسلام کی حقیقت بیان کی، قرآن کی چند آیتیں پڑھیں جن کو سن کر ان پر خاص اثر طاری ہوا اور بے اختیار منہ سے نکلا اس دین میں کیسے داخل ہو سکتا ہوں؟ جواب دیا، پہلے نہانا ضروری ہے پھر کپڑے پاک کرنا، کلمہ پڑھنا اورنماز پڑھنا، اسید اٹھے اورنہا کر مسلمان ہو گئے چلتے وقت کہا میں جاتا ہوں اور دوسرے سردار کو بھیجتا ہوں ان کو بھی مسلمان کرنا اور وہاں سے لوٹ کر سعد بن معاذ کو روانہ کیا یہ عقبہ ثانیہ سے پہلے کا واقعہ ہے، بیعت عقبہ میں خود شریک ہوئے، آنحضرت نے ان کو عبد الاشہل کا نقیب تجویز کیا۔ [7]

غزوات اور دیگر حالات[ترمیم]

محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم نے زید بن حارثہ کو جو مہاجر اورب ڑے رتبہ کے صحابی تھے ان کا اسلامی بھائی بنایا، غزوات میں سے بدر کی شرکت میں اختلاف ہے احد میں شریک تھے اور 7 زخم کھائے تھے لڑائی کی شدت کے وقت جب تمام مجمع دیگر حالات کے پاس سے ہٹ گیا اس وقت بھی یہ ثابت قدم رہے تھے۔ غزوہ خندق میں لڑائی ختم ہونے کے بعد بھی مسلمان 10 روز تک محصور رہے اور مشرکین شبخون کے ارادہ سے راتوں کو گشت لگاتے تھے اس وقت اسید نے 200 آدمی لے کر خندق کی حفاظت کی۔[8] جب غطفانیوں نے لوٹ مار میں زیادہ سرگرمی دکھائی تو آنحضرت نے ان کے سرداروں(عامر بن طفیل اور زیمہ) کو بلا بھیجا ان دونوں نے باتفاق کہا کہ مدینہ کے پھلوں میں حصہ دلوائیے تو اس کی تدبیر کی جا سکتی ہے، اسیدؓ بن حضیر کھڑے تھے نیزہ سے دونوں کے سر کو ٹھونکا دے کر کہا لومڑی جا بھاگ ،عامر کو یہ الفاظ ناگوار گذرے ،پوچھا تم کون ہو؟ کہا اسیدؓ بن حضیر، سوال کیا حضیر کتائب کے بیٹے،کہا ہاں بولا کہ تمھارے باپ تم سے اچھے تھے،جواب دیا کبھی نہیں میں تم سے اور اپنے باپ دونوں سے اچھا ہوں کیونکہ وہ کافر تھے۔ اس کے ایک سال بعد اور غزوہ حدیبیہ سے ایک سال قبلابو سفیان نے آنحضرت کو قتل کرنے کو ایک آدمی بھیجا تھا، اس نے چھوٹا سا خنجر کمر میں رکھا اور آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پوچھتا ہوا عبدالاشہل کی مسجد میں پہنچا، آپ ﷺ نے صورت دیکھتے ہی فرمایا یہ دھوکا دینے آیا ہے، وہ قتل کے ارادہ سے آپ کی طرف بڑھا ،حضرت اسیدؓ نے اس کی لنگی پکڑ کر کھینچ لی اور اس کا خنجر نیچے گرپڑا، وہ سمجھا کہ اب جان کی خیر نہیں،انھوں نے اس کا گریبان مضبوطی سے پکڑ لیا تھا کہ بھاگنے کا قصد نہ کرے۔ [9] خیبر میں سلمہ بنؓ اکوع کے چچا عامر نے ایک یہودی پر حملہ کیا تھا، مگر ان کی تلوار چٹ کر خود ان کو لگی گئی جس سے وہ جاں بحق تسلیم ہو گئے، حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ اور بعض بزرگوں کو خیال ہوا کہ چونکہ اپنے ہاتھ سے قتل ہوئے ہیں جو ایک طرح کی خودکشی ہے اس لیے ان کے اعمال رائیگاں گئے، سلمہ نے آنحضرت سے کہا، ارشاد ہوا کہنے والوں نے غلط کہا ان کو دوہرا ثواب ہے۔ [10]

فتح مکہ میں محمد صل للہ علیہ والہ وسلم، مہاجرین اور انصار کے ساتھ تھے جن کا دستہ تمام لشکر کے پیچھے تھا اس میں اسید کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ محمد صل للہ علیہ والہ وسلم ان کے اور ابوبکر صدیق کے درمیان میں تھے۔ غزوہ حنین میں قبیلہ اوس کا جھنڈا ان کے پاس تھا۔ محمد صل للہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد بیعت سقیفہ میں نمایاں حصہ لیا، قبیلہ اوس سے کہا کہ خزرج سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنا کر سیادت حاصل کرنا چاہتے ہیں اگروہ اس میں کامیاب ہو گئے تو تم پر ہمیشہ کے لیے تفوق حاصل کر لیں گے اور تم کو خلافت میں کبھی حصہ نہ دیں گے، میرے خیال میں ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیعت کر لینا بہتر ہے اور مشورہ دے کر سب کو حکم دیا کہ ابوبکر سے بیعت کر لیں اوس کی آمادگی کے بعد سعد بن عبادہ کی قوت ٹوٹ گئی۔[11] فتح بیت المقدس میں 16ھ کا واقعہ ہے عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مدینہ سے شام گئے۔ [12]

وفات[ترمیم]

حضرت عمرؓ بن خطاب سے وصیت کی تھی کہ وہ جائداد اپنے ہاتھ میں لے کر قرض ادا کریں آسان صورت یہی تھی کہ جائداد فروخت کرکے قرض ادا کر دیا جاتا ؛لیکن حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا نہیں کیا ، قرض خواہوں کو بلاکر 1000 درہم سالانہ پر راضی کیا اس طرح 4 برس پھل فروخت کرکے ان کا کل قرض ادا کر دیا اور جائداد سالم بچ گئی فرماتے تھے کہ میں اپنے بھائی کے بچوں کو محتاج نہیں دیکھنا چاہتا۔ [13]

اہل و عیال[ترمیم]

بیوی نے عہد نبوت میں انتقال کیا تھا ؛چنانچہ حضرت عائشہؓ صدیقہ سے منقول ہے کہ حج یا عمرہ سے لوگ واپس ہو رہے تھے کہ ذوالحلیفہ میں چند انصار کے لڑکوں نے اسیدؓ ابن حضیر کو ان کی بیوی کے مرنے کی خبر سنائی، انھوں نے منہ پر کپڑا ڈال کر رونا شروع کیا، حضرت عائشہؓ نے کہا خدا آپ کی مغفرت کرے آپ ایک جلیل القدر صحابی ہوکر ایک عورت کے لیے روتے ہیں،انھوں نے کپڑا ہٹالیا اورکہا آپ سچ کہتی ہیں ہم کو صرف سعد بن معاذؓ پر رونا چاہیے، آنحضرت ان باتوں کو سنتے رہے۔ [14] لڑکا غالباً ایک ہی تھا اوراس کا نام یحییٰ تھا،صحیح بخاری" باب نزول السکینہ والملئکۃ عند قرأۃ القرآن "میں ان کا تذکرہ آیا ہے۔ [15] [13][16]

فضل و کمال[ترمیم]

دوسرے اکابر صحابہ کی طرح قرآن و حدیث کی نشر و اشاعت میں ان کا حصہ بھی ہے ،انھوں نے براہ راست آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہے ،حضرت عائشہؓ صدیقہ، حضرت ابو سعید خدریؓ ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ، حضرت ابو ملیل انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جیسے جلیل المنزلت صحابہ ان کے راویان حدیث کے سلسلہ میں داخل ہیں۔ [17]

اخلاق و عادات[ترمیم]

تزکیہ باطن نے تمام حجابات اٹھا دیے تھے، ایک روز رات کو کلام پاک کی تلاوت کر رہے تھے،گھوڑا قریب بندھا تھا وہ بدکا، انھوں نے پڑھنا بند کیا تو وہ تھم گیا، دوبارہ پڑھنا شروع کیا تو پھر بد کا ان کو ڈر ہوا کہ بچہ پاس لیٹا ہے کہیں کچل نہ جائے تیسری مرتبہ باہر نکل کر دیکھا تو ایک سایہ بان نظر آیا جس میں چراغ کیطرح روشنی تھی، قرأت ختم ہو چکی تھی اس لیے وہ اوپر چڑھتا ہوا نظر سے غائب ہو گیا، صبح اٹھ کر آنحضرت سے عرض کیا، ارشاد ہوا کہ فرشتے قرأت سننے آتے ہیں، اگر تم صبح تک پڑہتے رہتے تو لوگ ان کو روز روشن میں دیکھ سکتے تھے۔[18] ایک رات آنحضرت کے پاس سے اٹھے تو سخت اندھیرا تھا، چھڑی ہاتھ میں تھی ایک صحابی اور ہمراہ تھے،آگے ایک روشنی ساتھ ساتھ چلتی تھی، راستہ میں الگ الگ ہوئے تو روشنی بھی دونوں کے ساتھ جدا جدا ہو گئی۔[19] اس واقعہ کو لوگوں نے کرامات صحابہ میں داخل کیا ہے۔

نہایت صاف گو تھے اوراس لیے سینہ کینہ سے پاک تھا، جوبات ہو منہ پر کہہ دیتے تھے ،حضرت عمرؓ اس فضیلت کی وجہ سے ان کو تمام انصار پر فضیلت دیتے تھے، نہایت معزز اورذی اثر بزرگ تھے۔ حضرت سعد بن معاذؓ کے بعد قبیلہ اوس تمام تر ان کا تابع فرمان تھا، ان کے اثرواقتدار کا واقعہ اوپر گذر چکا ہے کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں جہاں پیشتر سے تمام انصار سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلیفہ بنانے پر اتفاق کرکے آئے تھے۔ ان کی ایک جنبش لب نے انصار کی تمام سوچی سمجھی ہوئی اسکیم درہم برہم کر دی تھی۔ انھیں عظیم الشان خدمات کے سبب آنحضرت نے فرمایا تھا نعیم الرجل اسیدؓ بن حضیر حضرت عائشہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ وہ صحابہ کے بہترین اور برگزیدہ افراد میں داخل تھے۔ [13][20]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. https://al-maktaba.org/book/1110/349
  2. (اکمال ،ص585واسدالغابہ ، ج1،ص92)
  3. "ص385 - السنن الكبرى للنسائي - ذكر خير دور الأنصار رضي الله عنهم - المكتبة الشاملة"۔ المكتبة الشاملة۔ 19 سبتمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 ستمبر 2021 
  4. سانچہ:استشهاد بويكي بيانات
  5. ابن عساكر (1995)۔ تاريخ دمشق۔ 9۔ دار الفكر۔ صفحہ: 73 
  6. "ص49 - كتاب مواقف الصحابة رضي الله عنهم في الدعوة إلى الله تعالى - المبحث السادس موقف ضمام بن ثعلبة مع قبيلة بني سعد - المكتبة الشاملة"۔ المكتبة الشاملة۔ 19 سبتمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 ستمبر 2021 
  7. طبقات :49، حصہ مغازی
  8. (طبقات:68)
  9. (مسلم:2/96)
  10. تاریخ طبری:6/1043
  11. "ص48 - كتاب مواقف الصحابة رضي الله عنهم في الدعوة إلى الله تعالى - المبحث الخامس مواقف مصعب بن عمير رضي الله عنه - المكتبة الشاملة"۔ المكتبة الشاملة۔ 5 أكتوبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 ستمبر 2021 
  12. ^ ا ب پ "ص339 - كتاب رجال حول الرسول - أسيد بن خضير بطل يوم السقيفة - المكتبة الشاملة"۔ المكتبة الشاملة۔ 21 سبتمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 ستمبر 2021 
  13. (مسند:2/352)
  14. (بخاری:2/750)
  15. *"ص105 - كرامات الأولياء للالكائي من شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة للالكائي - سياق ما شوهد في أيام النبي صلى الله عليه وسلم من أصحابه من كرامات أسيد بن حضير وعباد بن بشر - المكتبة الشاملة"۔ المكتبة الشاملة۔ 21 دسمبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 ستمبر 2021 
  16. *"ص263 - المسند الموضوعي الجامع للكتب العشرة - فضل الصحابة مطلقا - المكتبة الشاملة"۔ المكتبة الشاملة۔ 18 دسمبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 ستمبر 2021 
  17. (بخاری:2/750)
  18. (بخاری:1/537)
  19. *"ص33 - صحيح البخاري - باب قول النبي صلى الله عليه وسلم للأنصار اصبروا حتى تلقوني على الحوض - المكتبة الشاملة"۔ المكتبة الشاملة۔ 18 دسمبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 ستمبر 2021