حدیث کساء (اہلبیت ع کے مکتب میں)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

اُم المومنین اُم سلمہ کی روایت[ترمیم]

(الف) شہر بن حوشب:[ترمیم]

شہر بن حوشب بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں اُم المومنین اُم سلمہ رض کی خدمت میں سلام عرض کرنے حاضر ہوا تو ان سے پوچھا: اے اُم المومنین رض!آیۂ تطہیر اِنَّمَایُرِاللّٰہُ۔۔۔۔۔ کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ اُم المومنین رض نے فرمایا: اس روز میں خیبری چادر اوڑھے رسول اکرم ص کے پاس بستر پر بیٹھی ہوئی تھی کہ اتنے میں فاطمہ زہرا سلام اللّٰہ علیہا اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین کے ساتھ وہاں تشریف لائیں۔ رسول اکرم ص نے ان سے پوچھا: "فاطمہ سلام اللّٰہ علیہا تمھارے ابن عم کہاں ہیں؟" فاطمہ زہرا سلام اللّٰہ علیہا نے بتایا کہ وہ گھر پر ہیں۔ رسول اکرم ص نے ان سے کہا: جاؤ، انھیں بلا لاؤ۔ اُم المومنین اُم سلمہ رض نے کہا کہ جب فاطمہ، علی کو بلا لائیں تو رسول اکرم نے وہ خیبری چادر مجھ سے لے کر خود اوڑھ لی اور علی ، فاطمہ سلام اللّٰہ علیہ، حسن اور حسین کو اس چادر میں لے لیا اور دعا کی:

   اَللّٰھُمَّ ھٰؤُ لَاءِ اَھلُ بَیتِی فَاَذھِب عَنھُمُ الِرّجسَ وَ طَھِّر ھُم تطھِیرََا۔

(اے اللّہ! یہ میرے اہلبیت علیہم السلام) اُم المومنین سلمہ رض نے اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے کہا: میں رسول اکرم ص کے پیچھے بیٹھی ہوئی تھی۔ پس میں نے ان سے کہا: "یا رسول اللّٰہ میرے ماں باپ آپ پر فدا، ہو جائیں! میرے لیے کیا حکم ہے؟" آپ ص نے فرمایا: "تم یقیناََ نیکی کے راستے پر ہو۔" اس لیے میں صاف کہتی ہوں کہ آیت تطہیر رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ و آل وسلم، علی ، فاطمہ سلام اللّٰہ علیہ، حسن اور حسین کے لیے نازل ہوئی ہے۔ [1] آیۂ تطہیر رسول اکرم ص، علی ، حسن اور حسین کے لیے نازل ہونے کے بارے میں اُم المومنین سلمہ رض سے ایک اور حدیث بھی روایت کی گئی ہے۔ آپ فرماتی ہیں کہ آیت اِنَّمَایُرِیدُ اللّٰہُ ۔۔۔۔۔ میرے گھر میں نازل ہوئی تھی۔ ایک روز جبکہ رسول اکرم ص چادر اوڑھے ہوئے مصلے پر بیٹھے تھے۔ پھر میں نے دیکھا کہ آپ نے اپنے اہلبیت علیہم السلام کو چادر میں لے لیا اور فرمایا:

اے اللہ! یہ میرے اہلبیت ہیں۔ ان سے بُرائی کو اس طرح دور فرما جس طرح تو نے آل اسماعیل ، آل اسحاق اور آل یعقوب سے بُرائی کو دور فرمایا اور ان کو پاک و پاکیزہ رکھ جس طرح تو نے آل لوط ، آل عمران اور آل ہارون کو پاک و پاکیزہ رکھا۔

اُم المومنین اُمِ سلمہ رض فرماتی ہیں کہ اس وقت میں نے کہا: یا رسول اللہ ص کیا مجھے بھی آپ لوگوں کے ساتھ چادر کے اندر آنے کی اجازت ہے؟ رسول اکرم ص نے فرمایا: "بے شک تم نیکی پر ہو اور نبی ص کی ازواج میں سے ہو۔" اس پر راوی کی بیٹی نے کہا: اے اُم المومنین رض! ان اہلبیت کے نام بھی تو بتائیے۔ اُمِ سلمہ رض نے بتایا فاطمہ سلام اللہ علیہ، علی ، حسن اور حسین ۔[2]

(ب) ابو عبد اللّٰہ جدلی:[ترمیم]

ابو عبد اللہ جدلی بیان کرتے ہیں کہ: ایک دن میں اُم المومنین بی بی عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ آیت تطہیر اِنَّمَایُرِیدُاللّٰہُ ....... کہاں نازل ہوئی تھی؟ انھوں نے فرمایا: "اُم سلمہ رض کے گھر میں۔" اور یہ تو اُم سلمہ رض بھی کہتی ہیں کہ اگر تم عائشہ رض سے پوچھو تو وہ بھی تمھیں ضرور بتائیں گی کہ یہ آیت میرے ہی گھر میں اُتری ہے۔ ام سلمہ رض نے خود مجھے بتایا کہ ایک دن جبکہ رسول اللہ ص میرے گھر میں تھے۔ آپ نے پوچھا: "کوئی ہے جو علی ، فاطمہ سلام اللہ علیہا اور ان کے دو بیٹوں کو بلا لائے۔" پھر میں نے ردا اور جا کر اُن سب کو بلا لائی۔ علی رسول اکرم ص کے سامنے بیٹھ گئے۔ حسن اور حسین آپ کے دائیں بائیں بیٹھے اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا آپ کے پیچھے بیٹھیں۔ تب آپ نے ان چاروں کو آہنی خیبری چادر میں اوڑھ لیا۔ اور فرمایا:

الہٰی ہم تیری طرف آئے ہیں، آگ کی طرف نہیں۔ یہ میں اور میری عترت و اہلبیت ہیں۔ ان کا گوشت میرا گوشت ہے اور ان کا خون میرا خون ہے۔

میں نے عرض کی: یا رسول اللہ ص! مجھے بھی اپنے ساتھ شامل کر لیجئے۔ آنحضرت ص نے فرمایا: اے ام سلمہ! تمھارے لیے یہی کافی ہے کہ تم میری نیک بیویوں میں سے ہو۔ اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی: اِنَّمَایُرِیدُاللّٰہُ .....

(ج) عبد اللّٰہ بن معین:[ترمیم]

ام سلمہ کے آزاد کردہ غلام عبد اللہ بن معین سے مروی ہے کہ ام سلمہ نے فرمایا: آیت تطہیر میرے گھر میں نازل ہوئی تھی۔ آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے مجھے حکم دیا کہ کسی کے ذریعے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو بُلا بھیجو۔ چنانچہ جب وہ سب آنحضرت ص کے پاس آگئے تو آپ ص نے علی کو اپنے دائیں طرف اور حسن کو بائیں طرف جبکہ حسین کع اپنے پیٹ پر اور فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اپنے پیروں کے پاس بیٹھایا۔ پھر آپ ص نے تین دفعہ فرمایا:

 اَللّٰھُمَّ ھٰؤُ لَاءِ اَھلُ بَیتِی فَاَذھِب عَنھُمُ الِرّجسَ وَ طَھِّر ھُم تطھِیرََا۔

ام المومنین ام سلمہ رض فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! کیا میں بھی ان میں سے ہوں۔ آنحضرت ص نے فرمایا: بیشک تم نیکی کے راستے پر ہو۔ انشاء اللہ۔

امام حسین کی روایت[ترمیم]

زید بن علی اپنے والد امام زین العابدین سے اور وہ اپنے والد امام حسین سے روایت کرتے ہیں کہ ایک روز رسول خدا ﷺ، ام المومنین ام سلمہ کے گھر میں تشریف رکھتے تھے۔ ام المومنین نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حلوہ پیش کیا تو آنحضرت ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو وہاں بلوایا اور ان سب نے مل کر حلوہ کھایا۔ بعد میں آنحضرت ﷺ نے ان چاروں کو ایک خیبری چادر میں لے لیا اور فرمایا: اِنَّمَایُرِیدُاللّٰہُ ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ام المومنین ام سلمہ نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: "تم نیکی کے راستے پر ہو"

امام علی[ترمیم]

امام صادق اپنے والد محترم کی سند سے بیان کرتے ہیں کہ امام علی نے فرمایا: بلاشبہ اللہّٰ تعالیٰ نے ہم اہلبیت کو فضیلت عطا کی اور ایسا کیونکر نہ ہو جبکہ اللّہ تعالیٰ نے ہمیں ظاہری و باطنی ہر قسم کی برائی سے پاک رکھا ہے۔ لہٰذا ہم ہی راہ حق پر ہیں۔

امام حسن[ترمیم]

امام حسن نے آیت تطہیر کو دوبارہ بطور حجت پیش کیا۔ امیر المومنین امام علی کی شہادت کے بعد جب لوگوں نے امام حسن کی بیعت کی تع آپ نے ایک خطبے میں فرمایا: اے لوگوں! جو مجھے پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہے اور جو نہیں پہچانتا وہ پہچان لے کہ میں حسن بن علی ہوں میں اس مقدس ہستی کا فرزند ہوں جو لوگوں کو بشارت دینے والے، ڈرانے والے، ان کو خدا کے حکم سے اس کی طرف بلانے والے اور سراج منیر ہیں ان اہلبیت میں سے ہوں جن کے گھر جبرئیل آتے جاتے تھے۔ میں ان اہلبیت میں سے ہوں جن سے اللہ تعالیٰ نے ہر برائی کو دور رکھا اور ان کو پاک و پاکیزہ رکھا۔

امام حسن نے معاویہ سے صلح کی تو اس وقت معاویہ کی تقریر کے بعد آپ نے خطبہ دیا اور فرمایا : اے لوگو! میری بات غور سے سنو۔ اپنے دل اور کان کھلے ہم اہلبیت رسول ﷺ ہیں۔ اللہّٰ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے ہماری عزت و افزائی کی۔ ہمیں برگزیدہ کیا۔ ہمیں منتخب کیا، ہمیں چُن لیا، ہمیں مقبول کیا اور ہر قسم کی رحبس سے دور رکھا اور پاک و پاکیزہ رکھا

زید بن علی بن حسین[ترمیم]

ابو جارود کا کہنا ہے کہ زید بن علی بن حسین نے فرمایا: جاہل لوگ گمان کرتے ہیں کہ اس آیت میں اللہّٰ تعالیٰ نے ازواج النبی سے خطاب کیا ہے۔ بلاشبہ یہ لوگ جھوٹے اور گنہگار ہیں۔ بخدا اس سے مراد ازواج النبی ہوتیں تو اللہّٰ تعالیٰ یوں فرماتا: لِیُذھِبَ عَنکُنَّ الِرّجسَ وَ طَھِّر ھُم تطھِیرََا۔ یعنی مؤنث کا صیغہ استعمال کیا جاتا

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تفسیر فرات ص ١2١، تفسیر مجمع البیان ج 8 ص ٣٥٦، بحار الانوار ج ٣٥ ص2١٣۔
  2. تفسیر فرات ص ١2٦۔ بحارالانوار ج ٣٥ ص 2١٥۔

مزید دیکھیے[ترمیم]