کفیل خان (ڈاکٹر)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

کفیل خان بھارت کے ڈاکٹر ہیں۔ وہ اگست 2017ء میں اس وقت سرخیوں کا حصہ بنے جب انھوں نے اتر پریش کے بی آر ڈی میڈیکل کالج کے سرکاری اسپتال میں بچوں کے وارڈ میں آکسیجن سیلینڈروں کی کمی کے وقت اپنی جیب سے پیسہ خرچ کرتے ہوئے کئی بچوں کی جان بچانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ تاہم اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اتر پردیش کے وزیر اعلٰی یوگی آدتیاناتھ کے احکام پر اسی سال 2 ستمبر کو انھیں گرفتار کر لیا گیا اور ایک خاطی کے طور پر ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ یہ معاملہ بھارت کے سبھی اہم ٹیلی ویژن چینلوں اور اہم اخبارات میں چھپتا رہا ہے۔ تب سے ہر ضمانت کے لیے پیش کردہ ان کی درخواست پر ریاستی حکومت نے سخت احتجاج کیا۔ بالآخر اپریل 2018ء میں وہ قید سے اس لیے باہر آنے میں کامیاب ہوئے کیوں کہ انھیں خاطی قرار دینے کے لیے کوئی ثبوت موجود نہیں تھا۔

واقعہ[ترمیم]

اترپردیش کے بابا راگھو داس (بی آر ڈی) کالج، گورکھپور میں اگست 2017ء میں 290 بچے فوت ہوئے تھے۔ ان میں سے 213 نیو نیٹل آئی سی یو (نو زائیدہ بچوں کی ہنگامی نگہداشت) اور 77 اینسیفیلائٹیس وارڈ میں فوت ہوئے۔[1]

اسپتال کئی مالی اور وسائل کے مشکلات کا شکار تھا اور ان میں ایک اہم مسئلہ آکسیجن سیلینڈروں کی کمی بھی تھی۔ ایک رات آکسیجن سیلینڈروں کی کمی کی وجہ سے 30 بچے فوت ہو گئے تھے۔ ایسے میں کفیل خان نے اپنے خرچ پر کئی آکسیجن سیلینڈروں کو فراہم کیا اور کئی بچوں کی جانیں بچائی۔[2]

الزامات[ترمیم]

کفیل پر جو الزامات عائد ہوئے ان میں آکسیجن فراہم کرنے والی کمپنوں کے ٹینڈر، پشپا سیلز کمپنی سے ساز باز کا الزام جو اسپتال میں آکسیجن فراہم کر رہی تھی اور غقلت جس سے آکسیجن کی کمی واقع ہوئی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ رشوت ستانی اور نجی پریکٹیس کا کے بھی الزامات تھے جو بعد میں ہٹا دیے گئے۔[2]

قید و بند کا سلسلہ[ترمیم]

کفیل کی ضمانت کی کئی کوششیں ستمبر 2017ء سے مارچ 2018ء تک یوں ہی ناکام ہوتی رہیں۔ تاہم اپریل میں سپریم کورٹ نے منیش بھنڈاری کی ضمانت منظور کی جو آکسیجن کی قلت کا کلیدی ملزم تھا۔ تب کفیل کو لگا کہ اب عام کوششوں سے کچھ زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کفیل کے بھائی عدیل اور ان کی بھابی شبستہ دار الحکومت روانہ ہوئے۔ یہاں ان لوگوں نے نے ایک صحافتی کانفرنس کی تاکہ کفیل کی کہانی کو ملک کے میڈیا میں عام کیا جا سکے۔ ان لوگوں نے کفیل کا ایک کھلا 10 صفحات پر مبنی خط بھی جاری کیا جس کا عنوان تھا ‘کیا میں واقعی قصوروار ہوں؟‘ (‘Am I really guilty؟’)۔ اس میں کفیل یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اسے بلی کا بکرا بنا دیا جا رہا ہے۔ اس صحافتی کانفرنس کے محض 4 دنوں کے بعد کفیل کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت مل گئی۔ اس کے ایک ہفتے سے کچھ آگے کفیل کو جیل سے مصیبت سے نجات ملی۔[2]

رہائی پر عوام کا پر جوش خیر مقدم[ترمیم]

بلا لحاظ مذہب و ملت لوگوں نے کفیل کا قید سے باہر خیر مقدم کیا۔ آٹھ مہینے کی قید و بند کے بعد اس کا بیان تھا کہ وہ دماغی طور پر تھکا ہوا، جسمانی طور بیمار اور جذباتی طور پر ٹوٹا ہوا تھا۔ مستقبل کے بارے میں کفیل کا خیال تھا کہ اگر اترپردیش حکومت اسے سابقہ عہدے پر بحال کرے گی تو وہ حسب سابق خدمات انجام دے گا۔ بہ صورت دیگر وہ اپنا خود کا کلینیک شروع کرے گا جہاں اینسیفلائٹیس کے بچوں کا علاج کیا جائے گا۔[2]

نیپاہ وائرس سے عوام کو بچانے کا جذبہ[ترمیم]

ڈاکٹر کفیل نے نیپاہ وائرس سے متاثر مریضوں کا علاج کرنے کے مقصد سے 2018ء میں کیرلا روانہ ہونے والے کا ارادہ کیا۔ انھوں نے کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پینارائی وجین سے مریضوں کے لیے تعاون کرنے کی اپیل کی تھی جسے وزیر اعلیٰ نے قبول کر لیا تھا اورانہوں نے ڈاکٹر کفیل کی تعریف اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر بھی کی کہ ایسے موقع پر ان کی پیش قدمی لائق ستائش ہے۔[3]

بھائی پر حملہ[ترمیم]

جون 2018ء میں ڈاکٹر کفیل کے بھائی کاشف جمیل پر حملہ نامعلوم افراد نے کیا گیا اور تین گولیاں چلائیں۔ اس کے بعد اتر دیش کی پولیس پہلے تو مقام واردات سے یہ کہ کر کہ علاج سرکاری اسپتال میں ہوگا، نجی اسپتال لے جانے سے روکتی رہی۔ پھر جب اہل خانہ نجی اسپتال لے کر گئے، تب بھی پولیس آپریشن کرنے سے روک رہی تھی۔ تاہم آپریشن ہوا اور وہ کامیاب بھی رہا۔ ایک نجی ڈاکٹر جے اسلم باشا نے اس موقع پر ایک ٹویٹ میں یوں کہا:[4]

ڈاکٹر کفیل خان کے بھائی کاشف جمیل کو گورکھپور میں تین گولیوں سے نشانہ بناتے ہوئے شدید زخمی کر دیا گیا۔ پولیس سیاسی دباؤ کی وجہ سے آپریشن نہیں کر دینا چاہتی ہے۔ وہ لوگ اسے دوسرے اسپتال میں منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ یوگی حکومت کو شرم آنی چاہیے کہ وہ اس خاندان کو بار بار ہراساں کر رہے ہیں۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]