نیل کاشت تحریک

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
1867 میں بنگال میں نیل کا ایک کارخانہ
تاریخ ہندوستان
سانچی پہاڑی پر بابِ تورن
سانچی پہاڑی پر بابِ تورن

نیل کاشت تحریک (انگریزی: Indigo revolt)یا نیل کاشت بغاوت یا نیل ودروہ ایک کسان تحریک تھی جو 1859 میں بنگال میں شروع ہوئی۔

پس منظر[ترمیم]

بنگال میں بہت بڑے پیمانے پر نیل کی کاشت ہوتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بنگال میں بہت سے نیل کے کارخانے موجود تھے۔ اندازہ ہے کہ 1830ء کے سال میں یہاں نیل کے ایک ہزار سے بھی زیادہ کارخانے تھے۔ اس صنعت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ نیل کے تاجر کسانوں کو پیشگی دو روپے رقم ادا کرتے اور فصل کے موقع پر اپنی شرائط پر اُن سے نیل خریدتے اور کسانوں پر ظلم کرتے۔ کسان ساری زندگی بھی تاجروں کا قرض نہ اتار پاتے۔

تحریک کا آغاز[ترمیم]

1859ء آخر میں کرشنا نگر کے نزدیک "چھوگا چھا"[1] نامی ایک گاؤں سے اس نیل کاشت تحریک کا آغاز ہوا۔ رفتہ رفتہ یہ تحریک پھیلتے پھیلتے ندیا، جیسور، پینا، فریدپور، راجشاہی، کھلنا، دیناجپور اور باراسات تک پھیل گئی اورپھر پورا بنگال اس تحریک کی لپیٹ میں آ گیا۔ اس تحریک کے آغاز میں کسانوں نے اس ظلم کے خلاف حکام کے ساتھ مقدمہ دائر کیا لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے میں کسانوں نے نیل کی کاشت کا بائیکاٹ کر دیا۔ جب کسانوں کو مجبور کیا گیا تو جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ اس تحریک کے لیے بشنوچرن سبواس اور دگامبرسبواس نے کسانوں کو منظم کیا۔ باغی کسانوں نے نیل کے کارخانوں پر حملہ کر کے اُن کو آگ لگا دی۔ مختلف طریقوں ے تاجروں کو پریشان کی، اُن کی یومیہ سپلائی کاٹ دی اور نیل کے بیج برباد کر دیے۔ اس تحریک سے گورنر جنرل کافی خوفزدہ ہوا۔ حکومت نے پولیس اور فوج کے ساتھ دو بحری جنگی جہاز باغیوں کی سرکوبی کے لیے ندیا، جیسور اور دیگر متاثرہ علاقوں میں بھیجے۔ اسی وقت گیارھواں ایکٹ پاس کیا گیا جس کے تحت یہ طے پایا کہ جہاں کہیں کسانوں نے تاجروں سے زرپیشگی قبول کیا ہے انھیں نیل کی کاشت کرنی ہوگی ورنہ انھیں دس روپے فی بیگھا جرمانہ ادا کرنا پڑے گا اور تین ماہ قید بامشقت کی سزا دی جائے گی۔[2]

اثرات[ترمیم]

یہ تحریک ہندوستان کی تاریخ کی اہم ترین تحریکوں میں سے ایک ہے۔ اس تحریک نے پہلی مرتبہ کسان، زمین مالکان تعلیم یافتہ نوجوان اور ہندو مسلمانوں کو متحد کیا۔ مسیحی مشنریوں نے بھی نیل کے تاجروں کے خلاف کسانوں کی حمایت کی۔ اس تحریک نے ثابت کر دیا کہ متحد تحریک ہر ظلم کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ اس تحریک کی اہم بات یہ بھی ہے اسے دیہات کے عام لوگوں نے منظم کیا اور علاقائی رہنماؤں کے زیر قیادت عوامی تحریک کے سچے جذبے کے ساتھ مزاحمت کی۔

تحریک کے رہنما[ترمیم]

اس تحریک کے دیگر رہنماؤں میں پبنا کے مہیش بنر جی،مالدہ کے فرائضی رہنما رفیق منڈل، کھلنا کے قادر ملا، سندربن کے رحیم مالا، رانا گھاٹ کے گوپال چودھری کے علاوہ تعلیم یافتہ طبقہ بالخصوص ہریش چندر مکھرجی، دین بندھومترا، موہن گھوش اور جیمس لانگ شامل تھے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Subhas Bhattacharya (July 1977)۔ "The Indigo Revolt of Bengal"۔ Social Scientist۔ 5 (60): 17۔ JSTOR 3516809۔ 09 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 مئی 2018 
  2. Subhas Bhattacharya (July 1977)۔ "The Indigo Revolt of Bengal"۔ Social Scientist۔ 5 (60)۔ JSTOR 3516809۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 مئی 2018