تمل مطالعات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تمل مطالعات یا تملیات دراوڑیات کی سب سے بڑی شاخ اور اس کا ایک بڑا حصہ گھیرتی ہے۔ایک مطالعے کے شعبے کے طور پر اس میں تمل زبان، تمل ادب اور تمل ثقافت شامل ہے جو در حقیقت تمل لوگوں کا تحقیقی مطالعہ ہے۔

تمل زبان کی ثقافتی اہمیت[ترمیم]

سبھی دراوڑی زبانوں میں تمل زبانوں کو سب سے قدیم زبان ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ کچھ ماہریں لسانیات یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ حقیقی دراوڑی زبان تمل ہی ہے اور اسی سے دوسری زبانیں نکلی ہیں۔ مگر کچھ اور مؤرخین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اصلًا دراوڑی زبان اپنے آپ میں ایک الگ زبان تھی، پھر اس کی شاخیں نکلی ہیں، جن میں تمل، تیلگو، کنڑا اور ملیالم زبانیں نکلی ہیں۔ یہ بھی دعوٰی کیا گیا ہے کہ جہاں ہندی زبان کی تاریخ لگ بھگ ہزار سال کی ہے اور سنسکرت پانچ ہزار سالہ تاریخ رکھتی ہے، وہیں تمل اپنے آپ میں دس ہزار سالہ ورثہ رکھتی ہے۔ چنانچہ ماہرین لسانیات ملیالم اور تمل میں کافی سے زیادہ مماثلتیں پاتے ہیں۔ جب کہ تیلگو اور کنڑا تمل سے کم ہی متاثر ہوئی ہے۔ تمل وہ واحد دراوڑی زبان ہے جو بھارت کی سرحدوں کے آگے بھی اپنے بسیرے بنائے ہیں۔ پڑوسی ملک سری لنکا جو تمل ناڈو سے لگ کر ہے، وہاں کی قومی اور سرکاری زبانوں میں سے ایک تمل بھی ہے۔ سنگاپور میں بھی تمل کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ہے۔ انڈونییشیا میں کچھ تمل تہواروں کے موقع پر علاقائی تعطیلات کا اعلان کیا گیا ہے کیوں کہ وہاں کثیر تعداد میں تمل لوگ آباد ہیں۔

تمل کو قومی زبان کے درجے کا مطالبہ[ترمیم]

بیسویں صدی کے آغاز سے کئی تمل سیاست دان اور رہنما تمل کو ہندوستان کی قومی زبان بنانے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ ماضی قریب سرکردہ تمل سیاست دان کروناندھی اور جیا للیتا تمل کے لیے قومی زبان کے درجے کا مطالبہ کر چکی ہیں۔

تمل بحیثیت کلاسیکی زبان[ترمیم]

بھارت کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے تمل کو سب سے پہلے کلاسیکی زبان کا درجہ دیا تھا۔ بعد میں یہ درجہ تیلگو اور ملیالم زبانوں کو بھی دیا گیا۔

ہندی کی مخالفت[ترمیم]

تمل باشندے سمجھتے ہیں کہ اگر ہندی زبان ان پر مسلط کی جائے تو اس سے وہ اپنی زبان اور شناخت کھو دیں گے۔ اس وجہ سے تمل ناڈو کافی مخالف ہندی مظاہرے ہو چکے ہیں۔ عوامی رویے کے عین مطابق بہت کم اسکولوں میں ہندی پڑھائی جاتی ہے۔[1]

ثقافت[ترمیم]

ماضیٔ بعید میں تمل کے شاعر کنبن کے کلام کو اس لیے اہمیت حاصل تھی کہ اس سے کیرلا کی تاریخ کے کئی امور آشکارا ہوتے ہیں۔ تحریک آزادی ہند میں کئی نامی گرامی تمل ادیب دیکھے گئے، جن میں سبرامنیم بھارتی کا نام سر فہرست ہے۔

تمل ثقافت کا ایک ادنٰی نمونہ جلی کٹو یا بیلو کی لڑائی ہے جسے مرکزی حکومت اور سپریم کورٹ روکنا چاہتے تھے۔[2] تاہم تمل عوام کی حساسیت اور شدید احتجاج کی وجہ سے یہ رسم آج بھی حسبہ موجود ہے اور دیکھی جا سکتی ہے۔ اس طرح رہن سہن، کپڑے ، موسیقی، رقص اور ادب تمل ثقافت کا حصہ ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]