لکھنؤ کی عزاداری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محرم الحرام، 1795: نواب اودھ، آصف الدولہ محرم الحرام میں رات کے وقت مولوی صاحب کا بیان سنتے ہوئے

لکھنؤ کی عزاداری ایک رسم ہے جس میں شہید کربلا حسین بن علی کی شہادت اور سنہ 680ء میں پیش آنے والے واقعہ کربلا کی یاد میں ماتم کیا جاتا ہے اور ان کی یاد منائی جاتی ہے۔[1] رسم عزاداری خاص طور محرم کے مہینے میں ادا کی جاتی ہے۔ برصغیر میں شہدائے کربلا کی عزاداری ایک قدیم رسم ہے۔ قرائن اشارہ کرتے ہیں کہ عزاداری حضرت امام حسین ؑ منانے کا سلسلہ ملتان میں شروع ہوا جب وہاں تیسری صدی ہجری کے اوائل میں قرامطہ اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی اور یہاں مصر کے فاطمی خلفاء کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ ابن تعزی کے مطابق مصر اور شام میں فاطمیوں کی حکومت کے قیام کے بعد 366ہجری قمری/978ء عیسوی میں عزاداری سید الشہداء برپا پونا شروع ہوئی[2]۔ محمود غزنوی کے حملے کے نتیجے میں ملتان میں اسماعیلی حکومت کے خاتمے اور اسماعیلی پیشواؤں کے صوفیا کی شکل اختیار کر لینے کے بعد صوفیا کی درگاہوں اور سنی بادشاہوں کے قلعوں پر عشرہ محرم کے دوران میں عزاداری تذکر کے نام سے برپا کی جاتی رہی ہے۔ جنوبی ہندوستان میں یہ روایت دکن کی شیعہ ریاستوں میں زیادہ منظم رہی اور برصغیر کا پہلا عاشور خانہ (آج کل کی اصطلاح میں امام بارگاہ) بھی وہیں قائم ہوا - مغلیہ دور کے سیکولر طرز حکومت میں محرم کی عزاداری کا بہت سے سیاحوں نے اپنے سفرناموں میں ذکر کیا ہے۔ محمد بلخی، جو یکم محرم 1035 ھجری/3 اکتوبر 1625ء کو لاہور پہنچا، لکھتا ہے:۔

"سارا شہر محرم منارہا تھا اور دسویں محرم کو تعزیے نکالے گئے، تمام دکانیں بند تھیں۔ اتنا رش تھا کہ بھگڈر مچنے سے تقریباً 50 شیعہ اور 25 ہندؤ اپنی جان گنوابیٹھے"[3]۔

کچھ ایسا ہی منظر1620ء کے عشرے میں ڈچ تاجر پیلے سارٹ نے آگرہ میں دیکھا:۔

"محرم کے دوران میں شیعہ فرقے کے لوگ ماتم کرتے ہیں- ان دنوں میں مرد اپنی بیویوں سے دور رہتے ہیں اور دن میں فاقے کرتے ہیں۔ عورتیں مرثیے پڑھتی ہیں اور اپنے غم کا اظہار کرتی ہیں۔ ماتم کے لیے تعزیے بنائے جاتے ہیں کہ جنھیں خوب سجا کر شہر کی سڑکوں پر گھمایا جاتا ہے۔ جلوس کے وقت کافی شور و غوغا ہوتا ہے۔ آخری تقریبات شام غریباں کو ہوتی ہیں۔ اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خدا نے پورے ملک کو غم و اندوہ میں ڈبو دیا ہے"[4]۔

امام حسین نے ہندوستان میں متعدد گروہوں کے جذبات اور حسیات کو متحرک کیا۔نانپارا کے سنی راجا نے اپنی صوبائی نشست پہ شیعہ علما کو رکھا ہوا تھا تاکہ وہ اس کو مصائب کربلا سنائیں[5]۔ الہ آباد میں، سنّی 220 میں سے 122 تعزیے اٹھایا کرتے تھے[6]۔ دیہی مسلمان محرم کی رسومات میں اتنی بڑی تعداد میں شرکت کرتے تھے اور یہ رسومات بغیر فرقے کی تمیز کے ہوا کرتی تھیں[7]۔ شہری اور دیہی علاقوں میں، اکثر ہندؤ امام حسین کو بہت عزت و احترام دیتے تھے اور انھوں نے ان سے جڑی رسوم اور ایام کو اپنی رسومات میں خاص تقدیس کے ساتھ شامل کر لیا [8]۔ ڈبلیو ایچ سلیمن نے وسطی اور جنوبی ہندوستان کے ہندؤ شہزادوں اور یہاں تک کہ برہمن جات کے پنڈتوں کو محرم مناتے پایا۔ گوالیار ایک ہندؤ ریاست میں محرم عظیم الشان نمائش کے ساتھ منایا جاتا تھا[9]۔ سیاحوں نے ہندوؤں کو ریاست اودھ میں سبز لباس میں حسین کے فقیر بنے دیکھا۔ ایک ہندی اخبار نے جولائی 1895ء میں خبر دی۔' محرم بنارس میں مکمل طور پہ امن و امان سے گذرا۔جب ہندؤ ہی سب سے زیادہ اس کے منانے والے تھے تو پھر خوف کیسا ہونا تھا؟[10]مرہٹہ راجا شیو پرشاد نے ایک خصوصی تعزیہ بہانے کے لیے تیار کیا تھا۔ محرم کے دسویں روز، آدمی جتنا بلند قامت روشن کاغذوں سے بنا تعزیہ نما مقبرہ اور اور اس سے لٹکی زنجیریں جلوس میں دفنانے کے لیے لائی جاتی تھیں، مسلم خادم سوز خوانی کرتے، جبکہ شیو پرشاد اور اس کے بیٹے ننگے پاؤں اور ننگے سر احترام میں ان کے پیچھے چلتے تھے[11]۔

ہندوؤں میں ایک گروہ حسینی براہمن بھی کہلاتا ہے جن کے مطابق ان کے آبا و اجداد میدان کربلا میں امام حسین ابن علی کے شانہ بشانہ لشکر یزید سے لڑے اور جاں بحق ہوئے۔ یہ گروہ باقاعدگی سے کربلا کی یاد مناتا ہے۔ ہندوستان کے سابق رجواڑوں میں بھی ہندو حضرات کے یہاں امام حسین علیہ السلام سے عقیدت اور عزاداری کی تاریخی روایات ملتی ہیں جس میں راجستھان، گوالیار، مدھیہ پردیش، اندھرا پردیش[12] قابل ذکر ہیں۔

نوابی دور میں عزاداری[ترمیم]

دہلی کی مغلیہ سلطنت  کی شکست و ریخت کے دوران میں جو نیم آزاد اور خود مختار حکومتیں قائم ہوئیں ان میں سے ایک ریاست اودھ (1722ء تا 1857ء)بھی تھی۔ اودھ کی ریاست بھی مغلیہ سلطنت کی بالادستی تسلیم کرتی تھی اور اس کے کئی حکمران مغل بادشاہ  کے عہدیدار تھے۔ آصف الدولہ کے زمانے (1775ء تا 1797ء)  میں ایران  و عراق سے اصولی شیعہ علما کی آمد ہوئی جنھوں نے لکھنؤ میں علمی مرکز قائم کیا۔ آصف الدولہ کے وزیرِ اعظم حسن رضا خان نے نہ صرف شیعہ علما کی خصوصی سرپرستی کی بلکہ عراق میں نجف اور کربلا کی دیکھ بھال کے لیے بھی اودھی خزانے سے لگ بھگ دس لاکھ روپے سالانہ بجھوائے جانے لگے جبکہ پانچ لاکھ کے صرفے سے دریائے فرات سے نہرِ ہندی نکلوائی گئی جس نے نجف تا کربلا کا علاقہ سرسبز کر دیا۔نواب آصف الدولہ محرم میں 60000 روپے خرچ کیا کرتے تھے۔[13] برصغیر میں مسلم تہذیب نوابان اودھ کے دور میں عروج کو پہنچی۔ لکھنؤ کی عزاداری کے بارے میں عبد الحلیم شرر اپنی کتاب "گذشتہ لکھنؤ" میں یوں منظر کشی کرتے ہیں:۔

محرم میں شہر کا ماحول[ترمیم]

محرم میں اور اکثر مذہبی عبادتوں کے ایام میں لکھنؤ کے گلی کوچوں میں تمام گھروں سے پر سوز و گداز تانوں اور دلکش نغموں کی عجیب حیرت انگیز صدائیں بلند ہوتی تھیں اور کوئی مقام نہیں ہوتا تھا جہاں یہ سماں نہ بندھاہو۔ آپ جس گلی میں کھڑے ہو کے سننے لگئے، ایسی دلکش آوازیں اور ایسا مست و بے خود کرنے والا نغمہ سننے میں آ جائے گا کہ آپ زندگی بھر نہیں بھول سکتے۔ ہندوؤں اور بعض خاص خاص سنیوں کے مکانوں میں تو خاموشی ہوتی تھی، باقی جدھر کان لگائیے نوحہ خوانی کے قیامت خیز نغموں ہی کی آوازیں آتی ہوتی تھیں۔

تعزیہ داری چونکہ نوحہ خوانی کا بہانہ ہے اس لیے سنی اور شیعہ دونوں گروہوں کے گھروں میں نوحہ خوانی کے شوق میں تعزیہ داری ہونے لگی اور سنی مسلمان ہی نہیں، ہزارہا ہندو بھی تعزیہ داری اختیار کر کے نوحہ خوانی کرنے لگے[14]۔

محرم میں لباس[ترمیم]

محرم چونکہ لکھنؤ میں ایک بڑی اہم چیز اور عزاداری کا زمانہ تھا اس لیے سوگواری اور نفاست اور نزاکت کا لحاظ رکھ کے یہاں محرم کے لیے خاص لباس اور خاص زیور ایجاد ہو گیا۔سبز، نیلا اور سیاہ رنگ اور اس کے ساتھ زرد رنگ بھی اس موسم کے لیے مناسب سمجھے گئے۔ چنانچہ یہاں محرم میں تمام عورتوں کا لباس انھیں مذکورہ رنگوں سے مناسب جوڑ لگا کر منتخب کیا جاتا۔ سارا زیور بڑھا دیا جاتا، حتیٰ کہ چوڑیاں تک اتار دی جاتیں۔ جن کے عوض کلائیوں  کے لیے ریشم کی سیاہ و سبز پہنچیاں اور کانوں کے لیے سیاہ و زرد ریشم کے کرن پھول ایجاد ہوئے[15]۔

علمائے فرنگی محل[ترمیم]

علم بے شک یہاں دہلی سے آیا ہو گا لیکن پرانے زمانے میں علمائے دہلی میں صرف ایک شخص عبد الحق (محدث دہلوی) نظر آتے ہیں جنھوں نے حدیث اور علوم دینیہ میں شہرت حاصل کی۔ فرنگی محل کے سے کسی دار العلوم کا وہاں کسی زمانے میں پتہ نہیں لگتا۔ ہاں فرنگی محل کے مشہور ہو جانے کے بعد دہلی میں شاہ ولی اللہ(محدث دہلوی) صاحب کا خاندان البتہ بہت مشہور ہوا۔ جن کے فیض و برکت سے آج ہندوستان کے تمام شہروں میں علم حدیث کی تعلیم جاری ہوئی۔ لیکن اگر علم حدیث کی تعلیم اس نامور خاندان دہلی کی یادگار ہے تو اس کے ساتھ ہی صرف و نحو، منطق و حکمت اور معانی و بیان  اور دیگر فنون درسیہ کی تعلیم لکھنؤ کی نامور یونیورسٹی فرنگی محل کی یادگار ہے۔مجتہدین شیعہ کا آغاز بھی فرنگی محل سے ہوا۔ لکھنؤ کے پہلے مجتہد مولوی دلدار علی صاحب(غفران مآب) نے بھی ابتدائی کتب درسیہ فرنگی محل ہی میں پڑھی تھیں۔ پھر عراق میں جا کے علمائے کربلا و نجف کے سامنے زانوئے شاگردی تہ کیا۔ اور واپس آ کے خود فرنگی محل والوں کی تصدیق و تقریب سے مجتہد اور شیعہ فرمانروائے وقت کے مقتدا قرار پائے۔ انھوں نے چونکہ عراق میں تعلیم پائی تھی لہٰذا عربی کا نیا ادبی ذوق اپنے ساتھ لائے۔ اور ادب میں خاندان اجتہاد اور لکھنؤ کے شیعہ علما کو فرنگی محل والوں پر ہمیشہ فوقیت حاصل رہی اور آج تک حاصل ہے۔ علمائے شیعہ کے ادبی مذاق نے لکھنؤ کو ادب کی تعلیم کا اعلیٰ ترین مرکز بنا دیا جس نے مفتی میر عباس صاحب کا ایسا ادیب گراں پایہ پیدا کیا[16]۔

مجالس عزا[ترمیم]

مجلسوں کا عام رواج شیعوں میں تھا اور مولود شریف کا سنیوں میں، اگرچہ دونوں میں دونوں فریقوں کے لوگ شریک ہوتے۔ بلکہ یہ بھی ہوتا کہ کبھی بعض محب اہلبیت سنی مجلس عزا کرتے اور شیعہ حضرات کے ہاں مولود شریف کی محفل ہوتی۔ مجالس ہی کی برکت سے یہاں مختلف قسم کے ذاکر پیدا ہو گئے جو جدا جدا عنوانوں سے مصائب سید الشہدا علیہ السلام کو بیان کر کے روتے رلاتے تھے۔ ان میں سب سے پہلے علما و مجتہدین کا بیان ہے۔ اس کے بعد حدیث خوان آتے تھے جو احادیث کو سنا کر ایسے پر درد اور سوز و گداز کی آواز میں فضائل ائمہ اطہار اور مصائب آل رسول بیان کرتے کہ سامعین بے اختیار رونے لگتے۔ اور کیسا ہی سنگ دل ہو، ضبط گریہ نہیں کر سکتا تھا۔ ان کے بعد مرثیہ خوان یا تحت اللفظ خوان آتے تھے جو مرثیوں کو شاعرانہ انداز میں سناتے۔ مگر اس سادگی کے سنانے میں بھی چشم و ابرو اور ہاتھ پاؤں کے حرکات و سکنات سے واقعات کی ایسی سچی اور مکمل تصویر کھینچ دیتے کہ سامعین کو اگر رقت سے فرصت ملتی تو داد دینے پر مجبور ہو جاتے۔ اسی مرثیہ خوانی کی ضرورت نے میر انیس اور مرزا دبیر پیدا کیے جو کمال شاعری کے اعلیٰ ترین شہ نشین پر پہنچ گئے[17]۔

نذر نیاز[ترمیم]

مجلسوں میں ختم کے وقت شربت پلانا یا مٹھائی یا کھانا تقسیم کرنا لازم تھا۔ مگر مہذب اور دولت مند لوگوں نے یہ نہایت ہی شائستہ طریقہ اختیار کر لیا کہ جن حضرات کو بلانا ہوتا ان کے پاس دعوت کے رقعوں کے ساتھ حصہ بھی بھیج دیا جاتا۔ مجلس سے واپس آتے وقت ہاتھ میں حصہ لے کر چلنا بہت سے مہذب اور خوش حال لوگوں کو تہذیب کے خلاف اور نہایت مبتذل معلوم ہوتا تھا[18]۔

مجلس کا نقشہ و ترتیب[ترمیم]

مجلس کی نشست کی شان یہ تھی کہ لکڑی کا ایک ممبر جس میں سات آٹھ زینے ہوتے، دالان یا کمرے کے ایک جانب رکھا ہوتا اور لوگ چاروں طرف دیوار کے برابر پر تکلف فرش پر بیٹھتے۔ اور اگر مجمع زیادہ ہوا تو بیچ کی جگہ بھی بھر جاتی۔ جب کافی آدمی جمع ہو جاتے تو ذاکر صاحب ممبر پر رونق افروز ہو کر پہلے ہاتھ اٹھا کر کہتے، "فاتحہ"۔ ساتھ ہی تمام حاضرین ہاتھ اٹھا کر چپکے چپکے سورہ فاتحہ پڑھ لیتے۔ اس کے بعد اگر وہ حدیث خوان یا واقعہ خوان ہوتے تو کتاب کھول کر بیان کرنا شروع کرتے اور اگر مرثیہ خوان ہوتے تو مرثیے کے اوراق ہاتھ میں لے کر مرثیہ سنانے لگتے۔ مجتہدوں اور حدیث خوانوں کے بیان کو لوگ خاموشی اور ادب سے سنتے اور رقت کے موقعوں پر زار و قطار روتے۔ مگر مرثیوں کے سنتے وقت مجمع حاضرین سے، بجز رقت کے بندوں کے جبکہ رونے سے فرصت نہیں ملتی، برابر صدائے آفرین و مرحبا بلند ہوتی رہتی تھی۔

سوز خوان ممبر پر نہیں بیٹھتے بلکہ لوگوں کے بیچ میں ایک جانب بیٹھ کر نوحے اور مرثیے سناتے اور اکثر داد بھی پاتے تھے۔

اکثر مجلسوں میں مختلف ذاکر یکے بعد دیگرے پڑھتے اور عموما حدیث خوانی کے بعد مرثیہ خوانی اور اس کے بعد سوز خوانی ہوتی تھی۔ سوز خوانی چونکہ دراصل گانا ہے اس لیے اس کا رواج اگرچہ لکھنؤ ہی نہیں، سارے ہندوستان میں کثرت سے ہو گیا ہے۔  مگر مجتہدین اور ثقہ اور پا بند شرع بزرگوں کی مجلسوں میں سوز خوانی نہیں ہوتی تھی۔ مجتہدین کے وہاں کی مجلسوں میں پابندی دین کا بہت خیال رہتا تھا۔ خصوصا یہاں غفران مآب کے امام باڑے میں نویں محرم کو جو مجلس ہوتی تھی وہ خاص شان اور امتیاز رکھتی تھی۔ اس کی شرکت کے شوق میں لوگ دور دور سے آتے تھے۔ اس میں اثنائے بیان میں اونٹ حاضرین کے سامنے لائے جاتے جن پر کجاوے یا محملیں ہوتیں اور ان پر سیاہ پوششیں پڑی ہوتیں۔ اور مومنین کو یہ منظر نظر آ جاتا کہ دشت کربلا میں اہلبیت کا لوٹا مارا اور تباہ شدہ قافلہ کس مظلومیت اور ستم زدگی کی شان سے شام کی طرف چلا تھا۔  حاضرین پر اس المناک منظر کا ایسا اثر پڑتا کہ ہزارہا حاضرین سے دس بیس کو غش ضرور آ جاتا۔ جو بڑی مشکل سے اٹھا کر اپنے گھروں کو پہنچائے جاتے[18]۔

فرقہ وارانہ فسادات[ترمیم]

نوابی دور میں غیر شیعہ افراد، ہندو مسلمان سبھی، رسم عزاداری مناتے تھے۔ سنہ 1908ء، 1930ء کی دہائی، 1968ء، 1969ء اور 1977ء میں محرم کے موقع پر زبردست فسادات ہوئے۔ جن کی بنا پر حکومت اترپردیش نے 1977ء میں عزاداری کی تقریبات پر پابندی لگادی۔[19]

تاریخی پس منظر[ترمیم]

برصغیر میں شیعہ مخالف تشدد کوئی نیا مظہر نہیں ہے۔  ابن خلدون کے بقول خلیفہ ابو جعفر منصور کے زمانے میں سندھ کا عامل عمر بن حفص تشیع کی جانب میلان رکھتا تھا۔ محمد نفس ذکیہ کے فرزند عبد اللہ اشترؒ، جن کو عبد اللہ شاہ غازی کے نام سے جانا جاتا ہے، 400 افراد پر مشتمل زیدیوں کی ایک جماعت کے ساتھ اس کے پاس آئے۔ منصور کو جب اس کی خبر پہنچی تو اس نے ہشام بن عمر ثعلبی کو سندھ روانہ کیا جہاں ہشام کے بھائی اور ان کے درمیان میں قتال ہوا جس کے نتیجے میں عبد اللہ شاہ غازیؒ شہید ہوئے اور ان کے ساتھی  اس علاقے میں بکھرگئے۔ طبری نے یہ واقعات 768ء (151 ہجری) میں نقل کیے ہیں[20][21]۔

دسویں صدی عیسوی میں ایران اور عراق میں اثناء عشری شیعہ  خاندان آل بویہ  (934ء –1062ء )اور مصر، شام، حجاز اور  وادئ سندھ (موجودہ پاکستان)  میں  اسماعیلی شیعہ فاطمیوں ( 909ء –1171ء ) اور اسماعیلی  شیعہ قرامطہ کی حکومت قائم ہوئی ۔ بو علی  سینا نے اپنی معروف کتابیں ” الشفاء” اور “القانون”  اور  دسیوں مقالے اسی دوران میں لکھے۔شیخ صدوق، ابن الہیثم،   البیرونی  جیسے اہم علما اسی زمانے  سے تعلق رکھتے ہیں جسے  مسلمانوں کی گولڈن ایج کہا جاتا ہے۔    انہی دو شیعہ حکومتوں کے  ادوار میں عزاداری  اور تعزیہ کے جلوسوں کو آزادی حاصل ہوئی۔لیکن گیارہویں صدی کے شروع میں محمود غزنوی  نے ایران پر حملہ کر کے رے کو آل بویہ سے چھین لیا  اور شیعوں کا قتل عام کیا۔  دوسری طرف   محمود غزنوی کے دو حملوں میں ملتان سے سیہون تک پھیلی قرامطہ حکومت ختم ہو گئی۔ ان حملوں میں ملتان کی اسماعیلی آبادی کا قتلِ عام ہوا۔ قرامطہ حکمران ابوفتح داؤد کو قیدی بنایا گیا۔ ملتان کے شہریوں سے لگ بھگ دو کروڑ دینار تاوان وصول کیا گیا اور بچے کچھے شیعہ بالائی پنجاب اور زیریں سندھ کے مختلف علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ 1060ء  میں سلجوقیوں نے عراق پر حملہ کر کے آل بویہ کی حکومت کا مکمل خاتمہ کر دیا اور یہی حملہ مسلمانوں  میں  ڈارک  ایجز  کا   نقطۂ  آغاز  ثابت  ہوا  جس کے بعد سے مسلمانوں کو  مسلسل زوال کا سامنا ہے۔

چودہویں صدی عیسوی میں  سید علی ہمدانی اور  شمس الدین عراقی اور ان کے پیروکاروں نے کشمیر میں قدم رکھا اورمقامی ہندو آبادی میں اثنا عشری شیعہ اسلام کی تبلیغ شروع کی۔  1528ء میں بلتستان اور کشمیر میں چک سلطنت قائم ہوئی جس نے ہزاروں ہندوؤں کو شیعہ اسلام میں داخل کیا۔یہ لوگ نوربخشی صوفی سلسلے کے پیروکار تھے،   ان میں سے اکثر  بعد میں اصولی شیعہ بن گئے۔  ایک ترک جنگجو سردار مرزا حیدر دگلت نے 1540ء میں کشمیر پر حملہ کیا اور شیعہ مسلمانوں کا قتلِ عام کیا۔ مرزا دگلت کی واپسی کے بعد چک خاندان کا اقتدار پھر سے بحال ہو گیا۔ 1586 ء میں مغلوں کے ہاتھوں چک سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ چک سلطنت کے خاتمے کے بعد کشمیر میں  بیرونی حملہ آوروں  اور تکفیری علما نے   “تاراج شیعہ” کے نام سے معروف شیعہ مسلمانوں کے قتل، ان کی جائیدادوں کی لوٹ، ان کے  کتب خانوں کو آگ لگانے اور مقدس مقامات کو تباہ کرنے  کی متعدد مہمات  چلائیں۔ تاریخ میں 1548 ء، 1586ء، 1635ء، 1686ء، 1719ء، 1741ء، 1762 ء، 1801ء، 1830ء اور  1872ء  کے سالوں میں تاراج شیعہ  کی مہمات کا ذکر موجود ہے[22]۔

1526 ء میں بابر نے شمالی ہندوستان میں سلطان ابراہیم لودھی کی حکومت کو شکست دے کر مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ بابر اور ہمایوں ایرانی صفوی بادشاہوں کے رہینِ منّت ہونے کی وجہ سے شیعہ سنی منافرت سے دور رہے۔ شروع شروع میں اکبر کا مذہبی رویہ خاصا سخت گیر رہا۔ اس نے بااثر تکفیری عالم شیخ عبدالنبی کے مشورے پر حضرت امیر خسرو ؒکے پہلو میں دفن ایک شیعہ عالم میر مرتضی شیرازی ؒکی قبر اکھڑوا دی۔ اکبر کے زمانے میں بعض تکفیری علما کی سفارش پر متعدد شیعہ رہنما قتل بھی ہوئے، جن میں لاہور کے ملا احمد ٹھٹھویؒ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔  ملا احمد ٹھٹھوی ؒ  نے بائیس سال کی عمر میں شیعہ مسلک اختیار کیا تھا۔ وہ ایران کے شہر مشہد گئے اور بعد ازاں یزد اور شیراز چلے گئے جہاں انھوں نے بو علی سیناؒ کی کتاب “القانون” کا درس حاصل کیا۔ اس کے بعد وہ مکہ چلے گئے اور عرب دنیا کے علما سے ارتباط پیدا کیا۔ مختلف علوم پر دسترس حاصل کرنے کے بعد ہندوستان کے علاقے فتح پور سیکری تشریف لائے جہاں بعض تکفیری علما کی سازشوں کا شکار ہو کر شہید کر دیے گئے۔  بعد ازاں یہی اکبر مذہبی و فرقہ وارانہ لحاظ سے غیر جانبدار ہو گیا۔ اس نے  تکفیری علما کی تنگ نظری کی بدولت اپنی مملکت کو لاحق خطرات سے نبٹنے کے لیے ایک نیا آئین بنام “دین  الہی” متعارف کرایا جس میں ہندوستان کے تمام مذاہب  کی آزادی کو یقینی بنایا گیا تھا۔ اس نے غیر مسلم اکثریت سے جزیہ لینا بند کر دیا اور ریاست کی نظر میں تمام شہریوں کو مساوی قرار دیا۔ اس سلوک  کی وجہ سے جہاں آ ئے روز اٹھنے والی بغاوتیں کم ہو گئیں وہیں بعض ہندوؤں نے اکبر کی شان میں قصیدے اور بھجن گانا شروع کر دیے جن  کو شیخ احمد سرہندی جیسے  علما نے اکبر کی پرستش قرار دے کر طوفان کھڑا کر دیا۔ اکبر دور میں ایک اثنا عشری شیعہ عالم آیت اللہ  سیدنور اللہ شوستریؒ  نے ہر فقہ کے ماننے والے کے لیے اس کی فقہ کے مطابق فیصلہ کرنے کی صلاحیت کے سبب بادشاہ کا اعتماد حاصل کر لیا۔ اکبر نے سید نور اللہ شوستری ؒکوقاضی القضاۃ  کا درجہ دیا۔ اکبر کے زمانے میں شیخ احمد سرہندی نے شیعوں کے خلاف “رسالہ ردِ روافض”نامی ایک کتاب لکھی جس کا جواب قاضی نور اللہ شوستری ؒنے 1605 ء   میں “احقاق الحق” لکھ کر دیا۔ اکبر کی وفات کے بعد شیخ احمد سرہندی  اور دوسرے سنی علما کے مطالبے پر جہانگیر نے قاضی نور اللہ شوستریؒ کو کوڑے لگانے کی سزا سنائی جس کے نتیجے میں ستر سال کی عمر میں انکا انتقال ہو گیا۔ اپنے والد کے برعکس شاہجہاں نے شیعوں کے خلاف کوئی تعصب نہیں برتا البتہ اورنگزیب نے اپنے بھائی داراشکوہ اور دکن کی شیعہ ریاست کے خلاف لشکر کشی کے لیے مذہبی منافرت کو کامیابی سے استعمال کیا۔ اسی زمانے میں مرحوم شیخ احمد سرہندی کے شاگردوں کو سرکاری سرپرستی میسر آئی۔ اس خطرناک حکمت عملی نے معاشرے پر جو اثرات چھوڑے ان کا اندازہ اس واقعے سے ہو جاتا ہے کہ1707ء میں اورنگزیب کی وفات کی خبر سن کر لاہور میں مشتعل افراد نے شیعہ امام بارگاہوں اور مساجد کو آگ لگا دی[23]۔ اورنگزیب کے زمانے میں تینتیس جلدوں پر مشتمل جو مجموعہ بعنوان “فتاویِ عالمگیری” مرتب کیا گیا اس میں شیعہ عقیدے کو گمراہانہ بتایا گیا۔ اورنگ زیب ہی کے دور میں تعزیے اور ماتمی جلوس پر پابندی لگانے کی کوشش بھی ہوئی۔

1687 ء میں اورنگزیب نے  دکن میں شیعہ اقتدار کا خاتمہ کر دیا مگر  اس  فرقہ وارانہ جنگ کے نتیجے میں ہندوستان میں مسلمان معاشرہ فرقہ واریت کا شکار ہو کر بٹ گیا۔1674 ء  میں دکن سلطنت کے خاتمے اور مغل سلطنت کی کمزور یوں سے فائدہ اٹھا کر رائے گڑھ کے مقام پر شیوا جی بھوسلے نے “مرہٹہ سلطنت “کا آغاز کیا۔ شیوا جی نے فارسی کو ممنوع قرار دیا اور سنسکرت کو نافذ کیا۔ مرہٹوں نے ہندو قوم پرستی کے فسطائی خیالات پھیلائے جنھوں نے آگے چل کر راشٹریہ سیوک سنک جیسی ہندو قوم پرست تنظیموں کو جنم دیا۔ یہاں تک کہ 1737 ء میں مرہٹہ لشکر نے دہلی پر حملہ کر کے لوٹ مار کی۔ دوسری طرف ایران میں مغل دوست صفوی سلطنت کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ ایران کے نئے ترک  نژاد سنی بادشاہ “نادر شاہ افشار “نے حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے1739 ء  میں ہندوستان پر حملہ کیا اور دہلی کو دوبارہ لوٹ مار اور قتل عام کا سامنا کرنا پڑا۔ نادر شاہ فرقہ وارانہ تعصب سے پاک تھا اور اس کا مقصدصرف لوٹ مار کر کے خراسان میں قائم اپنی سلطنت سہارا دینا تھا۔1747 ء  میں نادر شاہ کے قتل کے بعد اس کے افغان دستے کے سربراہ احمد شاہ ابدالی نے افغانستان نامی نئے ملک کی بنیاد رکھی۔ اس سے قبل یہ علاقہ ہمیشہ پڑوسی ریاستوں کے زیر اثر ہوا کرتا تھا۔شاہ ولی اللہ کی دعوت پر احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں کو شکست دینے کے نام پر  ہندوستان پر حملے کیے مگر اس کی افواج نے لوٹ مار کا وہ بازار گرم کیا کہ ہندوستان کی رہی سہی طاقت بھی ختم ہو گئی۔ پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر وارث شاہ نے احمد شاہ ابدالی کی لوٹ مار کے بارے میں کہا:۔

کھادا پیتا وادے دا

باقی احمد شاہے د ا

یعنی تمھارے  دنیاوی مال و اسباب میں تمھاراحصہ وہی ہے جو تم استعمال کر لو ورنہ  جو بچا کر رکھو گے وہ  احمد شاہ ابدالی جیسے لٹیرے لے جائیں گے۔ احمد شاہ ابدالی نے دہلی میں عام  ہندوؤں  اور  شیعوں کا بھی قتل عام کیا[24]۔ 1758ء میں مرہٹوں نے پنجاب تک قبضہ کر لیا تھا۔ 1761ء میں اودھ کے شیعہ نواب شجاع الدولہ، روہیل کھنڈ کے نجیب الدولہ کی مشترکہ افواج نے مرہٹوں کو پانی پت میں عبرتناک شکست دے کر شمال میں ان کی پیشقدمی ہمیشہ کے لیے روک دی۔شیعہ سنی اختلاف سے شروع ہونے والے اس سو سالہ خانہ جنگی کے دور میں مشرق اور جنوب میں انگریزوں کی پیش قدمی جاری رہی۔1764ء میں بکسر کے میدان میں بنگال کے شیعہ نواب میر قاسم نے انگریزوں سے چھٹکارہ پانے کے لیے مغل شہنشاہ  شاہ عالم ثانی اور اودھ کی  شیعہ حکومت سے اتحاد قائم کیا مگر شکست کھائی۔ اس جنگ میں فتح کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کو بے پناہ اثر و رسوخ حاصل ہو گیا۔ انھوں نے بنگال اور بہار پر ٹیکس لگا یا مغل شہنشاہ بھی ان کا وظیفہ خوار بن گیا۔ 1790ء میں شاہ عبد العزیز دہلوی نے شیعہ اعتقادات کے خلاف “تحفۃ اثنا عشریۃ” نامی کتاب لکھی۔اس طرح برصغیر میں شیعہ مخالف کتب لکھنے کے سلسلے کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔ اس کے جواب میں شیعہ علما میں سے علامہ سید محمد قلی موسوی ؒنے “الأجناد الإثنا عشريۃ المحمديۃ”،   آیت اللہ میر سید حامد حسینؒ نے “عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار” اور علامہ سید محمّد کمال دہلوی ؒنے” نزھۃ اثنا عشریۃ” کے عنوان سے کتابیں لکھیں، لیکن  ان کتابوں کو  پڑھ کر الجھنیں دور کرنے کی بجائے شیعہ دشمن علما  شاہ عبد العزیز صاحب کے الزامات کو ہی  دہراتے رہتے ہیں۔

عوام کو دہشت زدہ کر کے صرف ایک قسم کی مذہبی ثقافت میں ڈھالنے کی کوشش سب سے پہلے 1820ء کی دہائی میں سید احمد رائے بریلی اور شاہ اسماعیل دہلوی نے کی۔ ان دو نیم خواندہ حضرات کا کردار اس خطے کی مذہبی تاریخ میں بہت اہم ہے، جس کا اثر آج بھی بھارت کے صوبوں اترپردیش اور ہریانہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے پختون اور مہاجر اکثریت والے علاقوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پورے ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت قائم ہو چکی تھی مگر پنجاب اور پختون خواہ کے علاقوں میں سکھوں کا دور چل رہا تھا۔1786ء میں پیدا ہونے والے سید احمد رائے بریلی نے پہلے عالم دین بننے کی کوشش کی مگر کند ذہن ہونے کی وجہ سے ناکام ہوئے۔ 1811ء میں امیر خان نامی ڈاکو کی فوج میں شامل ہوئے جس نے سات سال بعد انگریزوں سے معاہدہ کر کے ہتھیار ڈال دیے اور آپ بے روزگار ہو گئے۔ 1817ء سے 1820ء تک مختلف شہروں میں پھر کر مذہبی رہنما بننے کی کوشش میں ناکامی کے بعد سید احمد بریلوی1821ء کو حج کرنے چلے گئے[25]- 1820ء میں سید احمد رائے بریلی نے لکھنؤ میں اہل سنت کو عزاداری پر حملے کے لیے اکسایا اور کہا کہ تعزیہ توڑنے کا ثواب بت شکنی جیسا ہے[26]- حج کے  دوران میں شیخ محمد بن عبدالوہاب کی تحریک توحید والعدل، جو وہابیت کے نام سے معروف تھی، سے متاثر ہوئے اور  شیخ محمد بن عبد الوہاب کی کتاب، ''کتاب التوحید'' سے آشنا ہوئے۔ کتاب التوحید کے مفاہیم کو ان حضرات نے اپنی کتابوں ''تقویۃ الایمان '' اور ''صراط مستقیم'' میں پیش کیا۔ ان کتابوں کو انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی نے شائع اور تقسیم کرنے میں مدد دی نیز انگریزوں نے مسلمانوں میں پائی جانے والی محرومیوں کو سکھوں کے خلاف استعمال کر نے کے لیے سید احمد اورشاہ اسماعیل دہلوی کو اپنے زیر انتظام علاقوں میں لشکر سازی کی مکمل آزادی دی[27][28]۔  سواد اعظم کی نمائندگی کرتے ہوئے متعدد حنفی علما نے سید احمد رائے بریلی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے انحراف کے خلاف کتب تحریر کیں جن میں علامہ  فضل حق خیر آبادی، مولانا عبد المجید بدایونی، مولانا فضل رسول بدایونی، مفتی صدر الدین آزردہ، مولانا محمد موسیٰ اورمولانا ابوالخیر سعید مجددی نمایاں تھے۔ان بزرگوں کے پیروکار بعد میں بریلوی کہلائے۔

برطانوی ہندوستان میں شیعہ دشمنی[ترمیم]

برصغیر پر قبضے کے بعد انگریزوں نے یہاں جدید ریاست قائم کرنا شروع کی۔ اس کا مقصد یہاں کی عوام کی فلاح و بہبود نہیں تھا بلکہ فعال اداروں کے بغیر انگریز اپنے  اہداف حاصل کرنے میں کامیاب  نہیں ہو سکتے تھے۔چونکہ شیعہ سنی  تشدد انگریز سرکار کے کام میں خلل پیدا کر سکتا تھا،  اس لیے انگریز انتظامیہ اہم مقامات اور ایام پر اپنی پولیس کو حرکت میں لا کر امن و امان قائم رکھتی تھی نیز مجرموں کو ضرور سزا دی جاتی تھی۔ تکفیری علما کی تمام تر کوشش کے باوجود بڑے پیمانے پر شیعہ کشی کا عمل انجام نہ دیا جا سکا۔اگرچہ تاریخ سے ناواقفیت کی بنا پر شیعہ مخالف تشدد کو اکثر انگریزوں کی سازش قرار دیا جاتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بانی دار العلوم دیوبند مولانا رشیداحمد گنگوہی نے فتویٰ دیا کہ :۔

“محرم میں ذکر شہادت حسینؑ کرنا اگر چہ بروایات صحیح ہو یا سبیل لگانا، شربت پلانا چندہ سبیل اور شربت میں دینا یا دودھ پلانا سب ناجائز اور حرام ہے” [29]۔ برطانوی ہندوستان میں عزاداری پر سب سے پہلا حملہ مولانا قاسم نانوتوی کی قیادت میں دار العلوم دیوبند کے طلبہ نے کیا۔ دیوبند قصبے کے رہائشی اہل سنت محرم میں کربلا کا ذکر کیا کرتے تھے۔ مولانا قاسم نانوتوی نے طلبہ کا جتھہ بنا کر دیوبند کے رہائشی اہل سنت کو دہشت زدہ کیا اور کربلاکی یاد منانے سے روک دیا [30]۔

1878 ء سے 1880 ء تک ہونے والی دوسری اینگلو افغان جنگ میں افغانستان کو شکست ہوئی تھی  اور پورے افغانستان پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا تھا۔ انگریزوں نے امیر عبد الرحمان  خان کو کٹھ پتلی حکمران بنا کر افغانستان کے امور خارجہ اپنے اختیار میں قرار دیے تھے نیز کسی  غیر ملکی (روسی)  حملے کی صورت میں افغانستان کی “مدد “کرنے کی ذمہ داری لی تھی۔ دیوبند مکتب کی شیعہ  دشمن سوچ کاپہلا نتیجہ امیر عبد الرحمن کی طرف سے 1891ء سے 1893ء تک کی جانے والی ہزارہ قبائل کی نسل کشی اور ان کی جائداد کی پشتونوں میں تقسیم اوران کو غلام اورلونڈیاں بناکر فروخت کرنے کا عمل تھا جس کے نتیجے میں افغانستان کے  ہزارہ قبیلے کی آبادی میں 60فیصد تک کمی آ گئی[31]۔ یہ جدید انسانی تاریخ کی پہلی نسل کشی تھی جس کے نتیجے میں پانچ لاکھ انسان لقمۂ اجل بنے۔ اسی دوران میں کچھ ہزارہ خاندان ہجرت کر کے  کوئٹہ میں آ گئے۔ وادئ کرم کے شیعہ قبائل افغان شاہ کی ایسی فرقہ وارانہ کارروائیوں کی وجہ سے الگ ہو کر برطانوی ہندوستان سے ملحق ہو گئے اور یوں فاٹا کی پہلی ایجنسی قائم ہوئی۔

1908ء کے فسادات اور پایگوٹ کمیٹی[ترمیم]

لکھنؤ میں پہلا شیعہ سنی فساد سنہ 1908ء میں ہوا جب سنی مسجد میں چھپے چند دیوبندی عسکریت پسندوں نے ایک تعزیہ پر حملہ کیا۔ اس کے بعد اس معاملے کی جانچ کے لیے چار ارکان کی ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں ایک آئی سی ایس افسر اور عدالت عالیہ کے ایک جج بھی تھے جبکہ اس کمیٹی کے صدر ٹی ایس پایگوٹ تھے۔ کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی "کہ چار خلفا کے احترام میں تعزیہ بنانا ایک خوش آئند بات ہے اور انوکھا فیصلہ ہے۔" کمیٹی ارکان کی معلومات اہل تشیع کی حمایت میں تھیں۔ کمیٹی نے یہ بھی مشورہ دیا کہ تین ایام، عاشورہ (دس محرم)، چہلم (عاشورہ کا چالیسواں دن) اور 21 ویں رمضان کو مدح صحابہ کی تقریبات منعقد نہ کی جائیں۔ حکومت نے کمیٹی کی تمام سفارشیں قبول کر لیں۔[32][33][34]

1930ء کی دہائی کی کشیدگی، 1935ء کا فساد اور السوپ کمیٹی[ترمیم]

1935ء میں چہلم کے دن کچھ دیوبندیوں نے حکم کی خلاف ورزی کی اور مدح صحابہ کا انعقاد کیا۔ نتیجتاً شیعہ دیوبندی فساد پھوٹ پڑا اور بڑے پیمانے پر غارت گری کا بازار گرم رہا۔ تین ماہ تک دیوبندیوں نے اپنی اس حکم عدولی کا دفاع کیا۔ جب صلح کی تمام کوششیں رائیگاں ہو گئیں تب حکومت نے الہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس السوپ کی زیر نگرانی عوام کے مدح صحابہ کی مانگ کے معاملہ کی ازسرنو جانچ کے لیے ایک کمیٹی بنائی۔ کمیٹی نے پایگوٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا اور 28 مارچ 1938ء کو حکومت نے السوپ کمیٹی کی رپورٹ تسلیم کی اور اسے نافذ کر دیا۔[32][33][34]

1938ء کی عوامی نافرمانی تحریک اور بارہ وفات کے دوران میں مدح صحابہ کی اجازت[ترمیم]

اہل سنت السوپ کمیٹی کی سفارشات کو نافذ کرنے کے فیصلے سے متفق نہیں تھے اور نتیجتاً عوامی نافرمانی تحریک شروع کردی۔ اواخر اپریل 1938ء میں مدح صحابہ تحریک کے دو نامزد قائدین ظفر الملک اور عبد الشکور لکھنوی نے 26 معزز دیوبندی علما کے ساتھ مل کر ایک عوامی جلسہ میں یہ اعلان کیا کہ مدح صحابہ پر ایک دن کے لیے بھی پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ اگلے دن پٹانالہ میں تعزیہ پر پتھراؤ ہوا جس میں 10 افراد مارے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔ اگلے کئی دن شیعوں اور دیوبندیوں کے مابین کشیدگی رہی۔ اپنے تحفظ اور عوامی نافرمانی تحریک کی مضبوطی کے لیے دیوبندیوں نے "انجمن تحفظ ناموس" تشکیل دی تو وہیں شیعوں نے "انجمن تنظیم المومنین" بنائی۔[32][33][34]

اہل سنت سے گفتگو کے بعد کانگریس حکومت نے 31 مارچ 1939ء کو ایک فرمان جاری کیا کہ دیوبندیوں کو ہر حال میں عوامی جلسہ میں مدح صحابہ پڑھنے کی اجازت دی جائے گی اور ہر سال بارہ وفات کے دن وقت کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے ضلع انتظامیہ جگہ اور راستے طے کرے گی۔ لیکن حکومت شیعوں سے بات کرنے یا انھیں اس فیصلے سے مطلع کرنے میں ناکام رہی۔[32][33]

عوامی نافرمانی تحریک، 1939ء کا فساد، مدح صحابہ اور تبرا پر پابندی[ترمیم]

آصف الدولہ امام باڑہ (بڑا امام باڑہ) میں جمع تبرے کی تیاری کے لیے اکھٹے ہوئے شیعہ ہجوم گرفتار ہوتے ہوئے، اپریل 1939ء

اس مرتبہ اہل تشیع نے فیصلہ کی مخالفت میں عوامی نافرمانی تحریک چلائی اور تقریباً 1800 شیعوں نے کھلم کھلا احتجاج کیا۔[32] اس میں شیعہ سماج کے معزز افراد بھی شامل تھے جن میں جون پور الہ آباد سے نو منتخب ایم ایل اے سید علی ظہیر، اودھ کے شاہی خاندان کے شاہزادے، ایک باعزت شیعہ مجتہد مولانا ناصر کے بیٹے (جو مولانا ناصر حسین کے بیٹے، شاگرد اور نامزد جانشین تھے)، مولانا سید کلب حسین اور ان کے بیٹے مولانا سید کلب عابد (دونوں نصیرآبادی خاندان کے علما ہیں) اور پیر پور کے راجا اور سلیم پور کے راجا کے بھائی ، شعلہ بیاں مقرر مولانا محسن علی عمرانی اور اہم ایم ایل قائدین قابل ذکر ہیں۔ غالب گمان تھا کہ مولانا ناصر بڑے قائدین جیسے محمودآباد کے راجا اور پیرپور کے راجا کے بدلے عدالتی گرفتاری دیں گے۔[35] مولانا ابو الکلام آزاد کی ثالثی میں ایک کانفرنس ہوئی لیکن کوئی حل نکالنے میں ناکام رہی۔[32] اگلا دن بارہ وفات کا تھا۔ دیوبندیوں نے مدح صحابہ کی تقریب منائی۔ شیعہ کو بھی تقاریب منانے کی اجازت تھی۔ نتیجتاً فسادات ابل پڑے اور کئی لوگ مارے گئے۔ ضلع انتظامیہ نے مدح صحابہ اور تبرا کی تقاریب اور عوامی جلسوں پر پابندی عائد کر دی۔[32][33][34]

1940ء کی دہائی[ترمیم]

1940 کی دہائی میں شیعہ سنی کشیدگی برقرار رہی۔[34]

1950ء کی دہائی[ترمیم]

1950ء کی دہائی کے اوائل میں ضلع انتظامیہ مدح صحابہ کی تقریبات اور انسدادی جلوس کو منع کرتی رہی، عدالت نے ان فیصلوں کو برقرار رکھا۔[36]

1960ء کی دہائی[ترمیم]

اوائل میں کشیدگی کے بعد 26 مئی 1969ء کو اس وقت فسادات شروع ہوئے جب محمود نگر کے قریب ایک شیعہ تقریب پر دیوبندیوں نے سنگ باری کی۔[37][38]

لکھنؤ میں تحریک عزاداری[ترمیم]

سنہ 1977ء کی پابندی کے بعد شیعہ سماج پرامن احتجاج کرتا رہا اور محرم کے موقع پر بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوتی تھیں۔ یہ احتجاج اگلے 20 سال یعنی سنہ 1997ء تک جاری رہے۔ اس سال سڑکوں پر جلوس اور تقریبات کا انعقاد ممنوع قرار دیا گیا البتہ گھروں، امام باڑوں اور کربلا میں اجازت تھی۔

بعد کی تحریکیں اور تقریبیں[ترمیم]

جنوری 2007ء کو لکھنؤ میں محرم کا جلوس

2010ء میں ضلع انتظامیہ نے بہت محدود پیمانے پر سخت حفاظتی انتظامات کے ساتھ تقریبات کے انعقاد کی اجازت دی۔[39] 17 دسمبر سنہ 2010ء کے یوم عاشورہ کو شیعہ دیوبندی جھگڑا ہوا جس میں تین افراد زخمی ہوئے۔[40] 16 جنوری 2013ء کو وزیر گنج کے آغا میر دیوگھی محلہ کے ڈپٹی صاحب کے امام باڑہ کے شیعہ مجلس سے باہر آ رہے تھے کہ ایک بندوق بردار نے گولیاں برسانی شروع کردی جس میں دو لوگ مارے گئے اور کئی زخمی ہوئے۔ اگلے دن چوک پر مارے گئے ایک شخص کی لاش چوراہے پر رکھ کر احتجاج کرنے کے نتیجے میں مزید کچھ نوجوان زخمی ہوئے۔[41][42][43][44][45]

امام باڑے، درگاہیں، کربلا اور روضے[ترمیم]

ذیل میں اہم امام باڑوں، درگاہوں، کربلاؤں اور روضوں کی فہرست ملاحظہ ہو:

  • آصفی امام باڑہ یا بڑا امام باڑہ[46]
  • امام باڑہ حسین آباد مبارک یا چھوٹا امام باڑہ[47]
  • امام باڑہ غفران مآب
  • عباس کی درگاہ، رستم نگر[48]
  • عباس کی درگاہ، کربلا مصاحب الدولہ (مصری کی بگھی)
  • بی مصری صاحبہ کا امام باڑہ (علی اکبر سے متعلق)، کربلا مصاحب الدولہ (مصری کی بگھی)
  • مغل صاحبہ کا امام باڑہ، بھارت کا سب سے اونچا مینار اسی امام باڑہ میں ہے۔[49]
  • زین العابدین خان کا امام باڑہ[50]
  • دیانت الدولہ کا امام باڑہ[51]
  • شاہ نصیر الدین حیدر کا امام باڑہ[52]
  • کربلا آغا میر یا کربلا معتمد الدولہ، نرہی، لکھنؤ
  • امام باڑہ سبطین آباد مبارک یا امام باڑہ جنت نشین۔[53]
  • کربلا شرف الدولہ (روضہ کاظمین)[54]
  • امام باڑہ شاہ نجف (علی بن ابی طالب سے متعلق)[55]
  • کربلا میر خدا بخش یا تال کٹورا کربلا اور امام باڑہ ایوان جاہ۔[56]
  • کربلا عظیم اللہ خان یا نہرو ولی کربلا۔
  • آغا بقر کا امام باڑہ (عباس سے متعلق)
  • کربلا ملکہ آفاق صاحبہ (غار کی کربلا) یا کربلائے عسکرین۔
  • کربلا ملکہ جہاں صاحبہ (عیش باغ کی کربلا)۔
  • کربلا رفیق الدولہ (کربلا عباس باغ)
  • سوداگر کا امام باڑہ
  • ناظم صاحب کا امام باڑہ
  • نواب سالار جنگ بہادر مرزا علی خان صاحب کا امام باڑہ یا کالا امام باڑہ۔

8 محرم علم فتح فرات[ترمیم]

علم فتح فرات کا اہتمام دیر شام کو میڈیکل کالج کے عقب میں دریاوالی مسجد میں ہوتا ہے اور اس تقریب کا اختتام آدھی رات کو امام باڑہ گلفام مآب میں ہوتا ہے۔ اس میں لکھنؤ و اطراف کے لاکھوں شیعہ شرکت کرتے ہیں۔[57][58][59]

9 محرم علم شب عاشور[ترمیم]

علم شب عاشور دیر شام وکٹوریہ اسٹریٹ پر ناظم صاحب امام باڑہ سے شروع ہوتا ہے۔ پہلے محرم اور ساتویں محرم کی شاہی تقاریب کے بعد یہ سب سے پرانی تقریب ہے جو شروع کے دس دنوں میں ادا کی جاتی ہے۔ اس کی شروعات 1926ء میں مرحوم حسین رضوی نے کی۔ 1361 ہجری میں کربلا کے واقعہ کو 1300 سال مکمل ہوئے اور اس موقع پر "یادگار حسین" کے نام سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور اس تقریب کو اس سال اسی نام سے منایا گیا مگر بعد میں 1939ء کو یہ کمیٹی تحلیل ہو گئی۔ قیصر حسین رضوی نے دوبارہ ذمہ داری لی اور پھر اب یہ علم شب عاشور کے نام سے منایا جاتا ہے۔ 1971ء میں ان کی وفات کے بعد ان کے بھانجوں نے اس رسم کو باقی رکھا ہے۔ یہ تقریب امام باڑہ ناظم صاحب سے شروع ہو کر درگاہ عباس رستم نگر پر صبح کے وقت ختم ہوتی ہے۔ اس تقریب میں لکھنؤ و اطراف کے لاکھوں شیعہ شرکت کرتے ہیں۔[60]

یاد سکینہ[ترمیم]

یاد سکینہ ایک ماتمی رسم کی تقریب ہے جس کا اہتمام ہر سال ماہ محرم کے چوتھے اتوار کو امام باڑہ حسین آباد مبارک (چھوٹا امام باڑہ)پر کیا جاتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی غمناک تقریب ہے۔ اس میں ایک چھوٹا سا عارضی قید خانہ بنایا جاتا ہے جس کے اندر بی بی سمیہ سکینہ کی حالت نزع والے جسم کا ایک پتلا رکھا جاتا ہے۔ ہزاروں ماتم کرنے والے قید خانہ کی زیارت کو آتے ہیں اور بی بی سمیہ سکینہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ یہ غمناک رسم پہلی مرتبہ 1990ء میں ادا کی گئی۔ مرحوم محمود خان صاحب (مرحوم بنے میاں صاحب)، بیل والا ٹیلہ، مفتی گنج، لکھنؤ نے اسے شروع کیا۔ انجمن گلزار پنجتن کے ارکان اس کا انتظام سنبھالتے ہیں۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Azadari | Four Californian Lectures | Books on Islam and Muslims"۔ Al-Islam.org۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 فروری 2014 
  2. ابن تغری بردی، جمال الدين ابي المحاسن يوسف، النجوم الزّاهرہ في ملوك مصر و القاہرہ ج 4، ص 126.
  3. محمد بلخی، بحر الاسرار، مرتبہ ریاض الاسلام، کراچی، 1980،ص 7-10
  4. ڈاکٹر مبارک علی، "جہانگیر کا ہندوستان"، صفحہ 87، تاریخ پبلیکیشنز لاہور (2016)۔
  5. Cole, "Roots of North Indian Shiísm"، pp. 105
  6. C.A. Bayly, The Local Roots of Indian Politics-Allahabad, 1880–1920 (Oxford, 1975)، p. 81
  7. W. Crooke, "The North-Western Provinces of India: their History ، Ethnology, and Administration"، p. 263
  8. Cole, "Roots of North Indian Shiísm"، pp. 116-7
  9. P.D. REEVES (ed.)، Sleeman in Oudh: An Abridgement of W.H. Sleeman' s Journey Through the  Kingdom of Oude in 1849–50 (Cambridge, 1971)، pp. 158-9
  10. Nita Kumar The Artisans of Bañaras: Popular Culture and Identity 1880–1986 (Princeton New Jersey, 1988)، p. 216.
  11. Attia Hosain. Phoenix Fled (Ruper Paperbacks. 1993)۔ p. 176
  12. Syed Akbar Journalist: Muharram: Hussaini Brahmins of Telangana
  13. Islam in India and Pakistan By Annemarie Schimmel, BRILL, 1982
  14. عبد الحلیم شرر، گذشتہ لکھنؤ -مشرقی تمدن کا آخری نمونہ، صفحہ 215،نسیم بک ڈپو، 1974
  15. عبد الحلیم شرر، گذشتہ لکھنؤ -مشرقی تمدن کا آخری نمونہ، صفحہ 289،نسیم بک ڈپو، 1974
  16. عبد الحلیم شرر، گذشتہ لکھنؤ -مشرقی تمدن کا آخری نمونہ، صفحہ 119،نسیم بک ڈپو، 1974
  17. عبد الحلیم شرر، گذشتہ لکھنؤ -مشرقی تمدن کا آخری نمونہ، صفحہ 356،نسیم بک ڈپو، 1974
  18. ^ ا ب عبد الحلیم شرر، گذشتہ لکھنؤ -مشرقی تمدن کا آخری نمونہ، صفحہ 358،نسیم بک ڈپو، 1974
  19. "Tanzeem-e-Pasdaran-e-Husain, Azadari Movement"۔ 20 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جون 2018 
  20. ابن خلدون۔تا ريخ ابن خلدون، ج 3۔ ص 198– 199۔
  21. طبری، تاريخ الطبری۔ ج 6۔ ص 291
  22. پیر غلام حسن کویہامی، تاریخ حسن، 1960
  23. Rizvi, “A Socio-Intellectual History of the Isna Ashari Shias in India“، Vol. II, pp. 39–41
  24. Khalid Ahmed, “Sectarian War: Pakistan’s Sunni-Shia Violence and its links to the Middle East”، Oxford University Press, 2011
  25. ڈاکٹر مبارک علی، "المیہ تاریخ، حصہ اول، باب 11جہاد تحریک" تاریخ پبلیکیشنز لاہور 2012
  26. Barbara Metcalf, "Islamic revival in British India: Deoband, 1860-1900"، pp. 52 – 58, Princeton university Press, (1982)۔
  27. مرزا حیرت دہلوی، "حیات طیبہ"‘ مطبوعہ مکتبتہ الاسلام‘ ص 260 شاہ اسماعیل دہلوی کے الفاظ میں: "انگریزوں سے  جہاد کرنا کسی طرح واجب نہیں ایک تو ان کی رعیت ہیں دوسرے ہمارے مذہبی ارکان کے ادا کرنے میں وہ ذرا بھی دست اندازی نہیں کرتے۔ ہمیں ان کی حکومت میں ہر طرح کی آزادی ہے بلکہ ان پر کوئی حملہ آور ہو تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس سے لڑیں اور اپنی گورنمنٹ پر آنچ نہ آنے دیں"۔
  28. مقالات سرسید حصہ نہم 145-146
  29. فتاوٰی رشیدیہ ص 435مصنف :رشید احمد گنگوہی دیوبندی
  30. مولانا محمد اللہ قاسمی، “دار العلوم دیوبند اور ردِّشیعیت”، ماہنامہ دار العلوم ‏، شمارہ 12 ‏، جلد: 97 ‏، صفر 1435 ہجری مطابق دسمبر 2013ء
  31. Afghanistan: Who are the Hazaras? | Taliban | Al Jazeera
  32. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج
  33. ^ ا ب پ ت ٹ
  34. ^ ا ب پ ت ٹ
  35. Karim ur Raza Khan to Jinnah, 27 اپریل 1939, Madhe Sahaba file, Qaid-i-zamPapaers۔
  36. Mohammad Siddiqui vs State Of U.P. And Anr. on 21 جولائی 1954 [مردہ ربط]، الہ آباد ہائی کورٹ، Equivalent citations: AIR 1954 All 756, Author: Malik, Bench: Malik, R Singh, Judgement: Malik, C.J.
  37. Islamic society and culture: essays in honour of Professor Aziz Ahmad، ʻAzīz Aḥmad, Milton Israel, Manohar, 1983, Collection of articles honoring Aziz Ahmad, 1913–1978, historian of Muslim life and Culture.
  38. Violence erupts، Sugata Dasgupta, Dileep Padgaonker, Radha Krishna, 1978
  39. No new Muharram procession allowed in Lucknow، TwoCircles.net, 16 دسمبر 2010
  40. Shia Sunni clash in Lucknow during Muharram, Jafariya News, 18 دسمبر 2010 – 11:04pm
  41. "1 killed in sectarian clash in Lucknow"۔ The Indian Express۔ 17 جنوری 2013۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جنوری 2013 
  42. "Cops' inaction leads to more violence in Lucknow"۔ Times of India۔ 18 جنوری 2013۔ 21 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جنوری 2013 
  43. "Lucknow riots on, 2 stabbed"۔ The Indian Express۔ 18 جنوری 2013۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جنوری 2013 
  44. "Sectarian violence in Lucknow; Tension prevails"۔ TwoCircles.net۔ 18 جنوری 2013۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جنوری 2013 
  45. "Second death in Lucknow's Old City firing incident"۔ Times of India۔ 19 جنوری 2013۔ 16 فروری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جنوری 2013 
  46. "Lucknow | Bada Imambara ۔.:::"۔ Lucknow.me۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جنوری 2014 
  47. "Lucknow | Chota Imambara ۔.:::"۔ Lucknow.me۔ 1994-06-06۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جنوری 2014 
  48. "Lucknow | Dargah of Hazrat Abbas ۔.:::"۔ Lucknow.me۔ 1997-07-23۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جنوری 2014 
  49. "Lucknow | Imambara of Moghul Saheba ۔.:::"۔ Lucknow.me۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جنوری 2014 
  50. "Lucknow | Imambara of Zain-ul-Abidin Khan ۔.:::"۔ Lucknow.me۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جنوری 2014 
  51. "Lucknow | Karbala of Dayanat-ud-Daulah ۔.:::"۔ Lucknow.me۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جنوری 2014 
  52. "Lucknow | Karbala Naseer-ud-Din Haider ۔.:::"۔ Lucknow.me۔ 1998-02-18۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جنوری 2014 
  53. "Lucknow | Maqbara of Amjad Ali Shah | Imambara Sibtainabad ۔.:::"۔ Lucknow.me۔ 1998-05-27۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جنوری 2014 
  54. "Lucknow | Rauza Kazmain ۔.:::"۔ Lucknow.me۔ 1997-11-05۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جنوری 2014 
  55. "Lucknow | Shah Najaf Imambara ۔.:::"۔ Lucknow.me۔ 1997-09-24۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جنوری 2014 
  56. "Lucknow | Talkatora Karbala & Imambara Kaiwan Jah ۔.:::"۔ Lucknow.me۔ 1999-02-06۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جنوری 2014 
  57. "Remembering Hazrat Abbas"۔ Times of India۔ 12 مارچ 2003۔ 16 فروری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جنوری 2013 
  58. "Remembering Hazrat Abbas"۔ Times of India۔ 28 فروری 2004۔ 16 فروری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جنوری 2013 
  59. "Cleric to Muslims: Be tolerant"۔ Times of India۔ 29 جنوری 2007۔ 16 فروری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جنوری 2013 
  60. "Alam-e-shabe-e-Ashoor procession on the ninth day of Muharram in Old City area of Lucknow on Thursday"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 دسمبر 2020