مخمور سعیدی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مخمور سعیدی
معلومات شخصیت
پیدائش 1938
ٹونک، بھارت
وفات 2010
جے پور، بھارت
قومیت بھارتی
عملی زندگی
پیشہ شاعر، مصنف، مترجم، صحافی
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ شہرت نظمیں, غزل اور ق قطعات
اعزازات
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ   (برائے:Rasta Aur Main ) (2006)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مخمور سعیدی ایک اردو شاعر، کاتب، مترجم اور صحافی تھے۔ ان کا تعلق بھارتی صوبہ راجستھان کے شہر ٹونک سے تھا۔

حالات زندگی[ترمیم]

مخمور سعیدی کی ولادت 31 دسمبر سنہ 1938ء کو ٹونک میں ہوئی۔ ان کے والد احمد خان نازش بھی ایک معتبر اردو شاعر تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انھوں نے آگرہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور وہاں سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد وہ دہلی منتقل ہو گئے۔[2]

سنہ 1956ء سے 1979ء تک انھوں نے بحیثیت جونئر ایڈیٹر ماہنامہ تحریک میں کام کیا۔ ماہنامہ تحریک کو گوپال متل شائع کرتے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے نگار، ایوان اردو اور امنگ کو اپنی خدمات فراہم کیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ دہلی اردو اکیڈمی کے سیکریٹری بھی تھے۔ انھوں نے وزارت فروغ انسانی وسائل کے ایک خود مختار ادارے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان میں سنہ 1998ء میں بحیثیت ادبی مشیر شامل ہوئے اور سہ ماہی رسالہ فکر و تحقیق میں بحیثیت ایڈیٹر کام کیا۔ ان کو کونسل کے خبر اور ملاحظات کے مجلے اردو دنیا کا بھی ایڈیٹر بنایا گیا۔ ان کی وفات 2 مارچ سنہ 2010 کو جے پور میں ہوئی اور ٹونک میں سپرد خاک ہوئے۔[3]

ادبی زندگی[ترمیم]

محض دس برس کی عمر سے مخمور سعیدی نے اپنی شاعری کے خمار کا اس وقت مظاہرہ کیا جب انھوں نے سنہ 1948ء میں اپنی پہلی نظم لکھی۔ بہت جلد ان کی شاعری کی لیاقت نے زور پکڑا اور وہ شاعری میں ماہر ہو گئے، بطور خاص نظم اور غزل گوئی میں۔ انھوں نے روایتی شاعری میں خوب مہارت حاصل کی۔ مقفی اور غیر مقفی دونوں ہی شکلوں میں طبع آزمائی کی اور اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ انھوں نے آزاد نظم میں محنت کی۔ ان پر علامہ اقبال، اختر شیرانی اور جوش ملیح آبادی کا خاصا اثر تھا۔ بشیر بدر، علی سردار جعفری اور کیفی اعظمی کے ساتھ مخمور سعیدی جدید شاعری کے بلند ستارے تصور کیے جاتے ہیں۔[3] وہ زمینی خوبصورتی کے شاعر تھے۔ خوبصورتی اور محبت ان کو بھاتی تھیں۔ انھوں نے قطعہ، رباعی، گیت اور دوہے بھی لکھے۔ ان کی کل تصانیف کی تعداد 20 ہے جن میں سب رنگ، سیاہ اور سفید، آواز کے جسم، واحد متکلم، آتے جاتے لمحوں کی صدا، دیوار اور در کے درمیان اور راستی اور میں قابل ذکر ہیں۔

راستہ اور میں کے لیے ان کو سنہ 2007ء میں ساہتیہ اکیڈمی انعام سے نوازا گیا۔[3] شین کاف نظام نے ان کی زندگی اور ادب کا جائزہ لیا ہے جس کو "بھیڑ میں اکیلا" کے عنوان سے راجستھان اردو اکیڈمی نے 2007 میں شائع کیا۔[3][4]

کتابیات[ترمیم]

  • سب رنگ
  • سیاہ بر سفید
  • آواز کے جسم
  • واحد متکلم
  • آتے جاتے لمحوں کی صدا
  • گفتنی
  • دیوار و در کے درمیان
  • راستا اور میں
  • گھر کہیں گم ہو گیا
  • شیرازہ

حوالہ جات[ترمیم]

  1. http://sahitya-akademi.gov.in/awards/akademi%20samman_suchi.jsp#URDU
  2. Abida Samiuddin (2007)۔ Encyclopaedic Dictionary Of Urdu Literature۔ 1۔ Delhi: Global Vision Publishing۔ صفحہ: 531۔ ISBN 81-8220-192-6 
  3. ^ ا ب پ ت "Eminent Urdu poet Saeedi passes away"۔ The Hindu۔ March 4, 2010۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جون 2018 
  4. "Bheed Main Akela(Articles on Makhmoor Saeedi's life & works) (Open Library)"۔ openlibrary.org۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 مئی 2015 

4. Lall, Inder Jit, Makhmoor, The Century, July 25, 1964
5. Lall, Inder Jit, Makhmoor classical cum modern poet, EN (Hindustan Times), June 19, 1981