یہودی اسلامی فلسفے (800ء–1400ء)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تاریخ اسلام کے عہد زریں میں حکمائے اسلام کے ہاتھوں اسلامی فلسفہ مرتب و منظم ہو کر رائج ہوا تو اس وقت رائج دوسرے فلسفوں پر بھی اس کے اثرات پڑے اور خود اسلامی فلسفہ بھی اپنی ترتیب و تدوین کے دوران میں دوسرے فلسفوں سے متاثر ہوا جن میں یہودی فلسفہ قابل ذکر ہے۔ اسلامی فلسفہ کو یہود کے یہاں خاصا اہم مقام ملا اور انہی کے ذریعہ یہ نظریات عالم مسیحیت میں منتقل ہوئے۔ معروف یہودی فضلا کا ایک طویل سلسلہ (ابن تبون، موسی بن یوشع، ابن گرشون وغیرہ) ہے جنھوں نے اسلامی فلسفہ کی کتابوں کے عبرانی تراجم کیے اور ان کی شرحیں لکھیں۔ بالخصوص ابن رشد کی تصنیفات ان کی توجہ کا خاص مرکز رہی ہیں۔ پیش نظر مضمون میں 800ء سے 1400ء تک یہودی اور اسلامی فلسفے کے ایک دوسرے پر مرتب ہونے والے اثرات کا احاطہ کیا گیا ہے۔

ابتدائی فلسفہ[ترمیم]

نزول قرآن کے ایک صدی بعد مسلمانوں میں متعدد فرقے رونما ہوئے۔ ان فرقوں نے قرآن میں مذکور ان عقائد کو موضوع بحث بنایا جو اس وقت تک اسلامی معاشرے میں وحی الہی اور منزل من اللہ سمجھے جاتے تھے۔ ان مذکورہ فرقوں میں پہلا قابل ذکر افتراق قدریہ کے نام سے سامنے آیا جنھوں نے اسلام کے محکم عقیدے ایمان بالقدر اپنا مرکز توجہ بنایا۔ اس فرقے کے افراد جبریہ (جو جبریت کے روایتی عقیدے کے علم بردار تھے) کے برعکس آزادئ ارادہ کے پرزور حامی تھے۔

دوسری صدی ہجری میں بصرہ میں دوسرا عظیم افتراق رونما ہوا۔ اس وقت عراق کا شہر بصرہ علوم و فنون کا مرکز سمجھا جاتا تھا جہاں متعدد اساطین علم اپنی مسند درس بچھائے تشنگان علم کو سیراب کر رہے تھے۔ انہی علما میں ایک حسن بصری بھی تھے جن کا حلقہ درس خاصا مشہور تھا۔ ایک مرتبہ دوران میں درس میں ان کے ایک شاگرد واصل ابن عطا نے اپنے بعض آزاد افکار کو پیش کیا جس کی بنا پر حسن بصری نے انھیں اپنے حلقہ درس سے خارج کر دیا۔ واصل ابن عطا نے یہاں سے نکلنے کے بعد سابقہ فرقوں خصوصاً جبریہ کے افکار کو منظم کیا اور ان پر ایک نئے مکتب فکر کی بنیاد رکھی جس کا نام معتزلہ (علاحدہ ہونے والے) پڑا۔ اس فرقے یا مکتب فکر کے تین بنیادی عقائد تھے۔ پہلا، خدا کا وجود مطلق ہے، کوئی صفت اس سے منسوب نہیں کی جا سکتی۔ دوسرا، انسان آزاد وجود ہے۔ ان دو عقائد کی بنا پر معتزلہ خود کو "اصحاب العدل و التوحید" (عدل و اتحاد والے) کہتے ہیں۔ تیسرا، انسان کی نجات کے لیے جو علم ضروری ہے اس کا مصدر عقل انسانی ہے؛ چنانچہ ایک شخص وحی کے بغیر اور وحی کے ذریعہ محض عقل کی روشنی میں اپنی نجات کا علم حاصل کر سکتا ہے۔ اسی عقیدے کی بنا پر ان کے نزدیک تمام مرد و عورت پر ہر جگہ اور ہر وقت حصول علم فرض ہے۔

معتزلہ نے جب اپنے مذکورہ نظریات کو پیش کیا تو اسلامی معاشرے کے راسخ الاعتقاد حلقوں کی جانب سے ان کی سخت مخالفت کی گئی۔ اس مخالفت کے جواب میں معتزلہ نے بھی اپنے اصولوں اور افکار کا مدلل دفاع کیا۔ اس دفاعی مکالمات میں انھوں نے فلسفہ کے اصولوں سے خوب مدد لی اور یوں ایک نیا عقلی الہیاتی مکتب فکر وجود میں آیا جسے علم کلام اور اس علم کے ماہرین کو متکلمین کہا جاتا ہے۔ ابتدا میں یہ نام معتزلہ کے لیے مخصوص تھا لیکن آہستہ آہستہ یہ ان تمام اصحاب علم و فضل کے لیے استعمال ہونے لگا جو مذہبی اصولوں کے اثبات و تائید کے لیے فلسفیانہ اصولوں کی مدد لیتے تھے۔ ابتدائی متکلمین کو راسخ الاعتقاد روایتی حلقوں اور غیر مسلمانوں دونوں کے حملوں کا بیک وقت سامنا کرنا پڑا۔ تاہم بعد میں آنے والے بیشتر متکلمین نے اپنی توجہ فلاسفہ کے خلاف دلائل و براہین پیش کرنے ہی تک محدود رکھی۔ ان متکلمین کا اشعری مکتب فکر خاصا مشہور ہوا جو راسخ الاعتقاد عقائد و افکار کا علم برادر کہلاتا تھا۔ علم کلام میں ان کے رسوخ اور اس کے ذریعہ استدلال کا یہ عالم تھا کہ بعد کے فلاسفہ اپنی تحریروں میں جب "متکلمین" (ماہرین الہیات یا الہیات دان) کہیں تو ان سے عموماً اشعری ہی مراد ہوتے ہیں۔

نویں صدی عیسوی کے بعد خلیفہ مامون الرشید اور ان کے جانشین کی ذاتی دلچسپی کی بدولت عربوں میں یونانی فلسفہ کو قبول عام ملا۔ سرکاری سطح پر یونانی فلاسفہ کی کتابیں عربی زبان میں ترجمہ ہوئیں اور مسلمان فلاسفہ یا حکما پیدا ہونے لگے۔ چنانچہ فلسفہ مشائیت کو ان عربوں میں سے انتہائی باصلاحیت افراد ملے جن میں یعقوب بن اسحاق الکندی، فارابی، ابن سینا اور ابن رشد خاصے مشہور ہیں۔ ان مسلمان حکما نے اپنی تصنیفات میں متکلمین کا خوب رد و ابطال کیا۔

حجت تخلیق[ترمیم]

مسلمان فلاسفہ کو جن یونانی فلاسفہ کے افکار و نظریات سے واسطہ پڑا ان میں شہنشاہ فلسفہ ارسطو قابل ذکر ہے۔ اس نے خدا کی وحدت کا تصور پیش کیا تھا لیکن اگر مسلمان فلاسفہ ارسطو کے اس نظریہ کو تسلیم کر لیں تو یہ لازم آتا ہے کہ مادے کو ازلی تسلیم کر لیا جائے۔ اس ضمن میں ارسطو مزید کہتا ہے کہ خدا اس کائنات کا خالق نہیں ہو سکتا جسے مسلمان فلاسفہ بعینہ تسلیم نہیں کر سکتے تھے۔ نیز مشائیوں کی پیروی میں خدا کے دائرہ علم کو انفرادی اور ناگہانی واقعات کی بجائے محض کائنات کے عام قوانین تک محدود سمجھنا خدا کے اسلامی تصور ہمہ دانی کے انکار مترادف ہے۔ اسی طرح ارسطو کے نظریہ عقل نے بھی متکلمین کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ مشائیوں کی تعلیم تھی کہ انسانی روح اصلاً محض ایک قابلیت (یعنی انفعالی تکمیلیت کے ہر تنوع کو حاصل کرنے کی قدرت) تھی جو بعد میں معلومات اور اپنی مذکورہ صفت کی مدد سے عقل فعال (جس کا منبع بالآخر خدا کی ذات ہی ہے) سے جڑ جانے کے قابل بنی۔ کوئی مسلمان فلسفی اس نظریہ کو تسلیم کر لینے کے بعد روح کی لافانیت کا قائل نہیں رہ جاتا۔

اسلام کے بنیادی عقائد سے متصادم یونانی فلسفہ کی اس یلغار کے خلاف متکلمین اسلام کے لیے ضروری تھا کہ وہ سب سے پہلے مادے کی تخلیق کو اپنا موضوع بنائیں اور اسے بیان کرنے کے لیے ایک منظم فلسفہ مرتب کریں۔ چنانچہ انھوں نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اس موقع پر دیموقراطیس کے نظریہ ایٹم کو اپنایا۔ اس نظریہ کی رو سے ایٹم یعنی جوہر میں مقدار اور توسیع نہیں ہوتی۔ ابتدا میں ان ایٹموں کو خدا نے تخلیق کیا اور اب وہ بوقت ضرورت تخلیق ہوتے رہتے ہیں، نیز ایٹموں کے ملنے اور بکھرنے سے جسم وجود پاتے اور مرتے ہیں۔ لیکن اس نظریہ کو اپنا لینے کے بعد بھی مادے کی تخلیق پر فلسفہ کے اعتراضات ختم نہیں ہوئے۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ خدا نے اپنے ارادے سے ایک مخصوص وقت میں اور خاص مقصد کے تحت آفرینش کی ابتدا کی تو ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑے گا کہ خدا کی ذات اپنے اس ارادے کی تکمیل یا اُس خاص مقصد کو پانے سے قبل نامکمل تھی۔ اس مشکل کے تدارک کے لیے متکلمین نے اپنے نظریہ ایٹم میں زمان کو شامل کیا۔ چنانچہ اب ان کا کہنا تھا جس طرح مکان ایٹموں اور خلا پر مشتمل ہے اسی طرح زمان بھی چھوٹے چھوٹے ناقابل تقسیم لمحوں سے مل کر بنا ہے۔ ایک مرتبہ کائنات کی تخلیق مکمل ہو گئی تو یہ سمجھنا انتہائی آسان ہے کہ اس وسیع اور منظم کائنات کا خالق موجود ہے اور یہ عظیم تخلیق اس کی قدرت مطلقہ، ہمہ دانی اور علام الغیوب ہونے کا کھلا ثبوت ہے۔

آٹھویں صدی عیسوی کے وسط میں یہودیت میں قرایت نامی ایک فرقہ (جو اب تک موجود ہے) ظاہر ہوا۔ اپنے حریفوں سے مناظرے کے دوران میں اپنے دلائل کو فلسفیانہ رنگ دینے کے لیے اس فرقے نے متکلمین اسلام کی منطقی و فلسفی زبان و اسلوب سے خوب استفادہ کیا، حتیٰ کہ ان کا نام بھی اختیار کر لیا اور یوں مسلمانوں کا علم کلام بتدریج یہودی جسم میں سما گیا۔

یوسف فیومی[ترمیم]

اسلامی فلسفے سے متاثر ہونے والے یہودی فلاسفہ میں اہم ترین نام یوسف فیومی (892ء – 942ء) کا ہے جو یہود کے یہاں "سعدیا گاؤن" کے نام سے معروف ہیں۔ یوسف کی سب سے اہم تصنیف "کتاب الامانات و الاعتقادات" ہے جو عبرانی زبان میں امونوت و دِعوت کے نام سے ترجمہ ہوئی۔ اس کتاب میں یوسف فیومی نے ان سوالات کو موضوع بحث بنایا ہے جن پر متکلمین نے خوب خوب خامہ فرسائی کی ہے، مثلاً مادے کی تخلیق، خدا کی وحدت، خدائی صفات، روح وغیرہ اور ساتھ ہی متکلمین کی طرح انھوں نے بھی فلاسفہ پر سخت تنقیدیں کی ہیں۔

یوسف کے یہاں تخلیق کوئی دشوار مسئلہ نہیں ہے۔ ان کا نظریہ ہے کہ مذہبی کتابوں کے بیانات کے مطابق خدا نے اس کائنات کو عدم سے وجود بخشا، البتہ وہ متکلمین کے اختیار کردہ نظریہ ایٹم کی مخالفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ نظریہ بھی عقل و مذہب کا اتنا ہی مخالف ہے جتنا فلاسفہ کا نظریہ ازلیت مادہ ہے۔ خدا کی وحدت کے اثبات کے لیے یوسف نے متکلمین کے دلائل کا سہارا لیا ہے۔ ان کے نزدیک صفات الجوہر کو خدا سے منسوب کیا جا سکتا ہے، صفات الافعال کو نہیں؛ نیز روح ایسا مادہ ہے جو نفوس فلکی کے مادے سے بھی زیادہ نازک اور نفیس ہے۔ اس جگہ بھی یوسف متکلمین سے اختلاف کرتے ہیں جن کے نزدیک روح محض ایک اتفاق ہے۔ وہ اپنے اس موقف کو ثابت کرنے کے لیے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ ایک مادہ ہی کسی اتفاق کی بنیاد بن سکتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر روح محض ایک اتفاق ہے تو اس میں حکمت و دانائی، فرحت و انبساط اور محبت جیسے اتفاقات نہیں پائے جا سکتے۔ تاہم مجموعی طور پر یوسف متکلمین کے حامی ہی نظر آتے ہیں۔ البتہ جہاں ان کے مذہبی اعتقادات مجروح ہونے کا خطرہ ہو وہاں وہ اپنے اصولوں سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ یہی طرز عمل مسلمان اور دیگر یہودی فلاسفہ کا بھی تھا، جہاں ان کے مسلمہ مذہبی عقائد کو ٹھیس پہنچنے کا خطرہ ہوتا وہ فلسفیانہ بحثوں کو وہیں روک دیتے تھے۔

نو افلاطونیت[ترمیم]

گیارہویں صدی عیسوی میں یہودی فلسفہ ایک نئے دور میں داخل ہوا۔ اس دور میں مسلمان فلاسفہ الفارابی اور ابن سینا اور رسائل اخوان الصفا نے علم کلام کو ایک نئی جہت سے روشناس کرایا اور نو افلاطونی نظریات کی بنیاد رکھی۔ علم کلام میں اس تبدیلی کے اثرات اس عہد کے یہودی فلاسفہ پر بھی پڑے۔ چنانچہ اس دور کے دو سربرآوردہ فلسفی سلیمان بن جبریل اور بہیہ بن پاکودا قابل ذکر ہیں، سلیمان خالص فلسفی تھے جبکہ بہیہ مذہبی فلسفی تھے لیکن دونوں کے یہاں استنباط شدہ نتائج یکساں ہیں۔ دونوں کا اعتقاد ہے کہ کائنات کی ہر شے (بجز خدا کے) کی بنیاد مادہ ہے لیکن بہیہ مزید آگے بڑھ کر مادہ کی ماہیت پر بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تاریکی ہے لیکن یہ مادہ ازلی نہیں جیسا کہ مشائیوں کا دعویٰ ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ روح اور اس کے افعال کے متعلق جبریل اور بہیہ کے افکار اخوان الصفا سے خاصے متاثر ہیں۔ انسان (یعنی عالم اصغر) ہر لحاظ سے نفوس فلکی یعنی عالم اکبر کے مشابہ ہے۔ جس طرح عالم اکبر یعنی اجسام سماوی ایک عالمی روح (جو خدا کی ذات سے نکلنے والا سادہ مادہ ہے) کی بنا پر متحرک ہیں عین اسی طرح انسانی اجسام بھی ایک عقلی روح (جو خدا کی ذات سے نکلی ہے) کے وجود کے ذریعہ متحرک ہیں۔ درحقیقت تخلیق کائنات کا عمل اس ترتیب سے مکمل ہوا: عقل فعال، عالمی روح جو اجسام سماوی کو متحرک رکھتی ہے، فطرت، تاریکی جو ابتدا سے تھی لیکن محض متشکل ہونے کی صلاحیت تک محدود تھی، نفوس فلکی، اجسام سماوی، آگ، ہوا، پانی اور سب سے آخر میں زمین۔

مسئلہ صفات الہی میں (جس نے یہودی اور مسلمان فلاسفہ و حکما کو خاصا الجھائے رکھا) بہیہ نے اپنی "كتاب الهداية في فرائض القلوب" میں معتزلہ ہی کی رائے کو اختیار کیا ہے، یعنی خدا کو بیان کرنے کے لیے جن صفات کا ذکر کیا جاتا ہے انھیں (بجز صفات متضاد کے) منفی مفہوم کا حامل سمجھنا چاہیے۔ تاہم اس مسئلہ میں جبریل کا موقف واضح نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلہ میں اشعریوں سے متاثر تھے جو خدا کی صفات کے منکر نہیں ہیں۔ شاید اسی بنا پر انھوں نے اپنی کتاب "کتر ملکوت" (تاج ملکوت) میں خدا کی متعدد صفات بھی ذکر کی ہیں۔ مذکورہ تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی فلسفے کی تاریخ میں ان نو افلاطونی افکار و تصورات کی وجہ سے گیارہویں صدی یہودی فلسفے کے عبوری دور پر مشتمل رہا جس کے بعد یہودی فلاسفہ بنیادی طور پر دو گروہوں میں منقسم نظر آتے ہیں، پہلا گروہ مشائیوں کے خالص فلسفے کا حامی اور دوسرا قبالہ کی باطنیت کا داعی۔

فلسفہ کا عروج[ترمیم]

بارہویں صدی میں فلسفہ اپنے نقطہ عروج پر جا پہنچا اور علم کلام کا زوال شروع ہوا۔ اس عہد میں علم کلام پر فلاسفہ کے ساتھ ساتھ دینی حلقے بھی تنقیدیں کرنے لگے تھے۔ اہل اسلام میں فلسفے کے اس عروج کی وجہ امام غزالی کی شخصیت تھی جبکہ یہود کے یہاں یہودا لاوی نے فلسفے کو شہرت کے بام عروج پر پہنچایا۔ درحقیقت تہافت الفلاسفہ میں امام غزالی نے فلاسفہ پر جو تند و تیز حملے کیے ہیں وہ محض ایک رد عمل نہیں تھا بلکہ ان کی تنقیدوں نے خود فلاسفہ کو خاصا فائدہ پہنچایا۔ چنانچہ انھوں نے غزالی کی تنقیدوں کی روشنی میں اپنے دلائل و براہین کو مزید واضح اور منطقی بنانے کی کوشش کی۔ اس رد عمل کے نتیجے میں مسلمانوں میں دو عظیم فلسفی سامنے آئے جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ مشائی مکتب فکر میں ایسے فلسفی کبھی پیدا نہیں ہوئے؛ ابن باجہ اور ابن رشد۔ ان دونوں نے فلسفہ کے دفاع میں اپنی توانائیاں صرف کر دی تھیں۔

عالم اسلام میں جب بھی کوئی نیا نظریہ یا کوئی ادبی و فلسفی تحریک رونما ہوتی تو یہود پر بھی لازماً اس کے اثرات پڑتے۔ چنانچہ امام غزالی نے جب فلاسفہ کے خلاف محاذ کھولا تو ابو الحسن یہودا لاوی نے ان سے متاثر ہو کر اپنے مذہب کو بھی فلسفہ کی بندشوں سے آزاد کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ یہودا نے اس مقصد کے لیے کتاب الحجۃ و الدلیل تصنیف کی جس میں فلسفہ کے تمام مکاتب فکر کو بیک جنبش قلم مسترد کر دیا۔ نیز انھوں نے مذہب کو فلسفیانہ دلائل سے ثابت کرنے پر متکلمین کی بھی سخت گرفت کی۔ یہودا لکھتے ہیں: "میں اس شخص کو کاملیت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز سمجھتا ہوں جو مذہبی حقائق کو بغیر کسی چوں چرا کے تسلیم کر لے"۔ بعد ازاں یہودا نے متکلمین کے ان دس قضیوں کو شرح و بسط سے بیان کیا ہے جن سے متکلمین وحدت الہ کو ثابت کرتے ہیں اور ان الفاظ پر اس بحث کو ختم کیا: "کیا علم کلام ہمیں خدا اور اس کی صفات کے متعلق پیمغبر سے زیادہ معلومات فراہم کرتا ہے؟" ان کی نگاہوں میں ارسطاطالیسی نظریات نہیں ججتے، ہاں کسی درجے میں نو افلاطونیت کو وہ قابل اعتنا سمجھتے ہیں کیونکہ اس کے افکار میں ان کی شاعرانہ طبیعت کے لیے خاصی کشش پائی جاتی ہے۔

لیکن عبرانیوں کا یہ غزالی عربوں کے غزالی سے زیادہ کامیاب نہیں ہو پایا، تاہم ان کے تنقیدی حملوں نے یہودی حکما کو فلسفہ کے دفاع پر ضرور ابھارا۔ چنانچہ ان کی کتاب الحجۃ و الدلیل کے شائع ہونے کے بعد ابراہم بن داؤد نے "امونہ رمہ" لکھی جس میں انھوں نے ارسطو کی طبیعیات اور مابعد الطبیعیات پر فارابی اور ابن سینا کی باتیں نقل کیں اور ثابت کیا کہ یہ تمام نظریات یہودیت سے مکمل ہم آہنگ ہیں۔ کتاب کے مقدمے میں ابن داؤد لکھتے ہیں: "اس وقت یہ غلط رجحان فروغ پا رہا ہے کہ فلسفہ کا مطالعہ مذہب کے لیے نقصان دہ ہے۔ جبکہ حقیقی فلسفہ نہ صرف مذہب کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ اس کی تائید کرتا اور اسے مزید توانا بناتا ہے۔"

موسیٰ بن میمون[ترمیم]

ابراہم بن داؤد کے بعد موسی بن میمون سامنے آئے جنھوں نے ارسطو کے فلسفے کے یہودیت سے ربط و تعلق کو اپنا مرکز توجہ بنایا اور اس موضوع پر اپنی لازوال کتاب "دلالۃ الحائرین" تصنیف کی جو صدیوں تک یہودی مفکرین کے یہاں موضوع بحث بنی رہی۔ یہ کتاب اصلاً یہودی عربی میں لکھی گئی تھی جسے بعد میں "مورہ نبوخیم" کے عنوان سے عبرانی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔

اس کتاب میں موسی بن میمون نے متکلمین کے قضیوں کو رد کرنے کے بعد تخلیق کائنات، وحدت الہ، صفات خداوندی اور روح وغیرہ کے امور پر ارسطو کے نظریات درج کرکے یہ ثابت کیا کہ ان کا مذہب سے کوئی تضاد نہیں ہے۔ مادہ اور شکل پر ارسطو کے نظریات بیان کرتے ہوئے موسی بن میمون نے مادے کی ازلیت سے انکار کیا ہے۔ خدا کے متعلق ارسطو کا نظریہ تھا کہ اسے جزئیات کا علم نہیں ہے، اگر ایسا ہو تو اسے مسلسل تبدیل ہونا پڑے گا۔ اس پر موسی بن میمون لکھتے ہیں: "خدا مستقبل کے واقعات کو پيش آنے سے پہلے دیکھ لیتا ہے اور اس کا یہ مشاہدہ کبھی غلط نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس کے لیے کچھ نیا نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ فلاں ابھی موجود نہیں ہے لیکن فلاں وقت پر وہ پیدا ہوگا، اتنے دنوں تک زندہ رہے گا اور پھر معدوم ہو جائے گا۔ چنانچہ جب کوئی شے وجود پاتی ہے تو خدا کو کسی نئی حقیقت کا علم نہیں ہوتا، کیونکہ خدا کو اس کی پیدائش سے قبل ہی اس کا علم تھا"۔ تاہم ارسطو کے بعض نظریات کے نتائج مذہب کے لیے بالکل ناقابل قبول ہیں، ایسے موقع پر موسی اپنے آپ کو راسخ الاعتقاد مذہبی حلقے کی تنقید سے نہیں بچا پائے۔

ابن رشد[ترمیم]

موسی بن میمون کے ہم عصر ابن رشد مسلمانوں میں فلسفے کے ایک نئے عہد کے بانی ہیں۔ ارسطو کے اس عظیم شارح کی بے باکی نے راسخ الاعتقاد مذہبی حلقوں میں آگ لگا دی تھی۔ چنانچہ انھوں نے اسی جوش میں تمام فلاسفہ کو غلط ٹھہرایا اور فلسفیانہ کتابوں کو نذر آتش کر دیا۔ بنیادی طور پر ابن رشد کے نظریات ابن سینا اور فارابی کے مقلد ابن باجہ اور ابن طفیل کے نظریات سے مختلف نہیں ہیں۔ دیگر تمام مسلمان حکما کی طرح ابن رشد نے بھی نفوس فلکیہ، جواہر مجردہ، ماہیت مادہ اور تخلیق عالم وغیرہ کے نظریات کو تسلیم کیا ہے لیکن ابن رشد کا ان نظریات کو بیان کرنے کا انداز منفرد اور طاقت ور ہے۔ ابن رشد کے نظریہ کے مطابق کائنات کا وجود محض امکان نہیں جیسا کہ ابن سینا نے کہا ہے، بلکہ یہ ایک ضرورت ہے۔ ابن سینا کے اس موقف کی وجہ یہ تھی کہ وہ ارسطو کے نظریہ کو راسخ الاعتقاد مذہبی حلقوں کے لیے قابل ہضم بنانا چاہتے تھے۔

اندلس کے تصوف عرفانی کے اثرات[ترمیم]

وحید براؤن کی تحقیق کے مطابق اندلس کی خلافت اسلامی کے دوران میں مسلمان اور یہودی فلاسفہ و متصوفین کے درمیان میں آرا و افکار کے تبادلے نے بعد کے ادوار میں عالم یہود اور عالم اسلام دونوں میں فلسفیانہ افکار کی ترقی و ترویج میں زبردست کردار ادا کیا۔[1]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. براؤن وحید (2006) Andalusí Theosophy: A Recontextualization۔ In Lights of Irfan, Volume 7, pp. 1-28 ، Irfan Colloquia. Wilmette, IL, US.

 اس مضمون میں شامل متن ایک اشاعت سے ماخوذ ہے جو اب دائرہ عام میں ہے: اِسیڈور سنگر، وغیرہ، مدیران (1901–1906)۔ "عرب فلسفہ اور یہودیوں پر اس کے اثرات"۔ یہودی دائرۃ المعارف۔ نیو یارک: فنک اینڈ ویگنلز کمپنی