جنسی خوف

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

جنسی خوف جنسی اعضا یا جنسی حرکات کے حوف کو کہتے ہیں۔[1] وسیع تر سیاق و سباق میں یہ جنسیت کا خوف ہو سکتا ہے۔ یہ عام طور سے لوگوں کے تعلیمی پس منظر، شخصی تجربوں، طرز فکر یا مجموعی عوامل جیسے کہ مذہبی گروہ، ادارہ جات یا کیفیات سے متعلق اشخاص کے رویوں پر مبنی ہو سکتا ہے۔ [2]

صحت[ترمیم]

مطبی گفتگو میں جنسی خوف اس بات پر اثر انداز کر سکتا ہے کہ کس طرح مریض ڈاکٹروں سے بات کرتے ہیں، کیوں کہ یہ اپنے آپ میں وہ تبادلۂ خیال کی توانائیوں کا مظاہرہ کرتا ہے جو نجی صحت کے مسائل کو بولنے کے لیے ضروری ہیں۔[3] اس معنوں میں ڈاکٹروں کی جانب سے غیر جانب دارانہ اور دبے ہوئے لفظوں کا استعمال مریضوں کو اپنے جنسی مسائل بیان کرنے سے باز رکھ سکتا ہے۔[3]

ؓخاتون مؤرخ اور ماہر عمرانیات سینڈی پیٹن نے جنسی خوف ان اہم رجحانات میں سے ایک پایا ہے جو برطانیۂ عظمٰی میں دوسری سطح کی جنسی امراض اور ایچ آئی وی کے فروغ کے لیے ذمے دار ہیں۔ اس ضمن میں وہ ہم جنسوں سے نفرت اور خوف جراثیم کو بھی مساوی طور پر ذمے دار مانتی ہیں۔[4]

ہم جنسوں سے نفرت[ترمیم]

ہم جنسیت سے متنفر رویہ اور برتاؤ جنسی خوف سے مربوط ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر مارٹن کینٹور بیان کرتے ہیں کہ کئی ہم جنسیت سے متنفرین بنیادی طور پر جنسی خوف کے شکار ہیں، جو ایک ہی جنس کے شرکاء کے بیچ جنسی رشتوں سے خوف زدہ اور متنفر ہیں جیسے کہ وہ مخالف جنس کے شرکاء کے تعلقات کے لیے بھی وہی رویہ رکھتے ہیں۔[5]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Definition by The Free Dictionary, based on the Segen's Medical Dictionary
  2. Richard Jackson (2004)۔ (Re)constructing Cultures of Violence and Peace۔ Rodopi۔ صفحہ: 96۔ ISBN 9789042011496۔ Sexophobia is the social and personal stigma associated with anything related to the physical and psychological aspects of sex and sexuality. This is evident from the 1961 Soviet Moral Code (…) 
  3. ^ ا ب V Minichiello، J Browne (1998)۔ "Issues in clinical care of people being tested/treated for sexually transmissible infections"۔ Venereology (بزبان انگریزی)۔ 11 (4): 27۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2017۔ Other researchers provide evidence of the impact of sexophobia on clinical talk through the identification of the strategies which are used to deal with embarrassing issues. These include the use of neutral and veiled vocabulary by doctors, which discourages patients from talking about sexual issues. 
  4. Peter Aggleton، Richard Parker (2002)۔ Culture, Society And Sexuality: A Reader (بزبان انگریزی)۔ Routledge۔ صفحہ: 337۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2017۔ On the other hand, there was widespread and continuing fear and prejudice about AIDS which found expression both unofficial circles (for example in media coverage) and in official indifference at a policy level. This phase is well characterised by Cindy Patton (1985) as one of 'homophobia, sexophobia and germophobia'. 
  5. David A. B. Murray (2009)۔ Homophobias: Lust and Loathing across Time and Space۔ 2009۔ صفحہ: 37۔ ISBN 9780822391395