مکسڈ ممبر سسٹم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

یہ متناسب نمائندگی ہی کی قسم ہے لیکن اسے نیم متناسب نمائندگی بھی کہا جا سکتا ہے۔ اسے ’ایڈیشنل ممبر سسٹم‘، ’ٹو ووٹ سسٹم‘ یا پھر ’جرمن سسٹم‘بھی کہا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار کے مطابق پارلیمان کے آدھے ارکان کا انتخاب حلقوں میں یک رکنی انتخاب کے تحت ہوتا ہے جبکہ باقی آدھے ارکان پارٹی لسٹ کے مطابق منتخب ہوتے ہیں۔ یہ طریقہ کار دوسری جنگ عظیم کے فوری بعد مغربی جرمنی میں اختیار کیا گیا، اس کے بعد بولیویا اور وینزویلا سمیت بعض دوسرے ممالک میں بھی اسے اپنا لیا گیا۔ تاریخ کے اگلے مراحل میں نیوزی لینڈ اور ہنگری نے اس نظام کو اختیارکیا۔ یہ نظام حال ہی میں اسکاٹ لینڈ اور ویلز میں بھی رائج کیا گیا۔

اس طریقہ کا رمیں لوگ دوخانوں والا بیلٹ پیپر استعمال کرتے ہیں۔ ایک خانے میں مختلف پارٹیوں کے ایک ایک امیدوار کا نام درج ہوتاہے، ان میں سے کسی ایک کو پارلیمان میں بھیجنے کے لیے منتخب کرنا ہوتا ہے (جیسا کہ پاکستان میں نظام رائج ہے) جبکہ دوسرے خانے میں مختلف جماعتوں کے نام درج ہوتے ہیں، ووٹرکو ان میں سے کسی ایک پر مہرثبت کرناہوتی ہے۔ اس خانے کے ذریعے تعین ہوتاہے کہ کس جماعت کو پارلیمان میں کتنا حصہ ملنا چاہیے۔ جرمنی میں پارٹی لسٹ کلوزڈ ہوتی ہے اور گنتی قومی سطح پر ہوتی ہے۔ دنیا میں بعض قوموں نے اپنے ہاں نظام کو مزید مفید اور قومی امنگوں کے مطابق بنانے کے لیے اس میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں۔ مثلاً جرمن ورژن میں وہی جماعت پارلیمان میں داخل ہو سکے گی جس نے مجموعی طور پر پانچ فیصد ووٹ حاصل کیے ہوں یا پھر کم ازکم تین حلقوں میں دوڑ جیتی ہو۔ اس نظام کافائدہ یہ ہے کہ ہرعلاقے کو پارلیمنٹ میں لازمی نمائندگی ملتی ہے۔ وینزویلا، تھائی لینڈ، تائیوان، جنوبی کوریا، رومانیہ، نیوزی لینڈ، میکسیکو، لیسوتھو،جاپان، ہنگری، جرمنی، جمہوریہ کانگو اور بولیویا میں یہ نظام رائج ہے۔