خوفناک جنگل (ناول)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
خوفناک جنگل
خوفناک جنگل
مصنف ابن صفی
زبان اردو
اصل زبان اردو
ملک پاکستان
سلسلہ جاسوسی دنیا
ناشر اسرار پبلی کیشنز
تاریخ اشاعت مارچ 1952ء پہلا ہفتہ
پیش کش
صفحات 90
دیگر تحاریر
دلير مجرم
خوفناک جنگل

خوفناک جنگل معروف ادیب ابن صفی کی جاسوسی دنیا کا دوسرا ناول ہے۔ یہ فریدی اور حمید کے ابتدائی دور کی کہانی ہے جب انھیں زیادہ سہولتیں اور وسائل میسر نہ تھے۔

کہانی[ترمیم]

خوفناک جنگل کی کہانی شروع ہوتی ہے رندھیر سنگھ سے جو پولیس اسٹیشن پہنچتا ہے اور جنگل میں ایک لاش کے بارے میں اطلاع دیتا ہے۔ جب پولیس پارٹی جنگل میں پہنچتی ہے تو صورت حال اس طرح نہیں ہوتی جیسا کہ اطلاع دی گئی تھی۔ اچانک فائرنگ شروع ہو جاتی ہے۔ ایک کانسٹیبل زخمی ہوتا ہے، لیکن پولیس پارٹی خود کو بچا لیتی ہے۔ تحقیقات کسی کامیابی کی طرف نہیں جاتیں اور اسی لیے سی بی آئی کو طلب کر لیا جاتا ہے۔ مبصر ہونے کے ناطے فریدی شروع میں ہی کچھ بد عنوانی کی نشان دہی کرتا ہے۔ سطحی طور پر یہ ایک قتل کا معما ہے۔ لیکن قاتل تحقیقاتی ٹیم کو گمراہ کرنے کے لیے معاملات کو گہماتا رہتا ہے۔ تاہم فریدی بے خوف ہے اور اسرار کو سلجھانے میں پرعزم۔۔۔۔۔۔ دلبیر سنگھ ایک امیر زمیندار ہے۔۔۔۔۔۔ ایک بیوہ سروج جس کی شادی ایک مشہور سائنس دان سے ہوئی، ایک لڑکی بملا جو سروج کی سہیلی تھی اسے ملنے اس کے گھر موجود تھی اور اس کا منگیتر رندھیر سنگھ اسے لینے سروج کے گھر جا رہا تھا، جب اس کو جنگل کے قریب قتل کر دیا گیا۔

سروج کا دیور دلبیر سنگھ جو نابینا بنا ہوا ہے۔ وہ اصل میں منشیات کا کاروبار کرتا ہے، ایک دن اسے علم ہو جاتا ہے کہ اس کا سائنس دان بھائی ایک گیس دریافت کر چکا ہے، جس سے ہنسی کا دوری پڑتا ہے۔ ان کا ایک دوسرے ڈاکٹر ستیش ہے۔ جو غلط کاموں میں ملوث ہے۔

ان لوگوں کے اس غیر قانونی کام کا سروج کی سہیلی بملا کو علم ہو جاتا ہے۔ تو ڈرا دہمکا کر اس کے منگیتر کو بلوا کر راستے میں بملا کی لاش ڈال دی جاتی ہے۔ جس کی اطلاع دینے وہ پولیس اسٹیشن جاتا ہے۔ اور پھر پولیس کے ساتھ واپس پہنچنے پر فائرنگ سے مر جاتا ہے۔

فریدی آخر کار جان جاتا ہے کہ سروج کا دیور دلبیر سنگھ جھوٹ میں نابینا بنا ہوا ہے اور ڈاکٹر ستیش بھی اس کا دوست ہے۔ جو بملا کے گھر جا رہا ہوتا ہے تاکہ ثبوت مٹا سکے۔ مگر ریل میں فریدی کو دیکھ کر حملہ کر دیتا ہے، پکڑا جاتا ہے اور اس کو بھی قتل کرا دیا جاتا ہے۔

آخر کار فریدی دلبیر کے سامنے اس کی گود میں سانپ ڈال دیتا ہے جس کو دیکھ کر وہ بدک جاتا ہے۔ جس سے اس کے بینا ہونے کا ثبوت مل جاتا ہے۔ یوں وہ جرم کا اقرار کر لیتا ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]

مزید دیکھیے[ترمیم]