مدرک الطالب فی نسب آل ابی طالب الموسوم بہ معارف الانساب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مدرک الطالب فی نسب آل ابی طالب سادات کے نسب پر لکھی گئی بہترین کتاب ہے .[1] اس کتاب میں پہلی مرتبہ اردو زبان میں اصولی علم الانساب کو مدون کیا گیا۔ کتاب اولاد ابو طالب بالخصوص سادات بنی سیدۃ النساء العالمين بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تمام بنیادی شاخوں کااحاطہ کرتی ہے۔ کتاب میں قدیم عربی مصادر کے ساتھ ساتھ مخطوطات اور بعض جید عربی، فارسی اور ہندی مصادر کو بھی زیر بحث لایا گیا۔

مدرک الطالب فیی نسب آل ابی طالب علیہ اسلام مولف نسابہ سید قمر عباس الہمدانی الاعرجی

ابواب[ترمیم]

کتاب کو کل پندرہ ابواب پر تقسیم کیا گیا ہے۔

  1. باب اول میں مولف سید قمر عباس اعرجی حسینی ہمدانی نے اولاد اسماعیل علیہ السلام کا ذکر کیا ہے جو بنی ہاشم پر آ کر ختم ہوتا ہے۔
  2. باب دوم میں عقیل بن ابی طالب کی اولاد کا تذکرہ ہے۔
  3. تیسرے باب میں اولاد جعفر طیار بن ابی طالب کا ذکر ہے۔
  4. چوتھے باب میں اولاد امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ اسلام کا ذکر ہے۔
  5. باب پنجم میں امام حسن علیہ اسلام کا ذکر ہے جو زید بن امام حسن کے تذکروں اور ہجرتوں پر مشتمل ہے۔
  6. باب ششم میں حسن مثنی بن امام حسن کی اولادوں کا مفصل ذکر ہے۔
  7. ساتویں باب امام حسین علیہ اسلام کے مقتل کا تذکرہ ہے۔
  8. باب ہشتم بہت بڑا ہے اس میں امام زین العابدین ع کے چھ فرزندان کی اولاد کا تفصیلی ذکر ہے جن میں اولاد عبد اللہ باہر۔ اولاد عمر الاشراف۔ اولاد علی الاصغر۔ اولاد زید شہید۔ اولاد حسین الاصغر اور اولاد امام محمد باقر ع شامل ہیں۔
  9. باب نہم میں اولاد امام جعفر صادق ع کا تذکرہ ہے۔
  10. باب دہم میں اولاد امام موسی کاظم ع کا مفصل ذکر ہے۔
  11. گیارہویں باب میں امام رضا ع کی اولاد کا ذکر ہے۔
  12. بارہویں باب میں امام علی ہادی ع کی اولاد کا مفصل ذکر ملتا ہے۔
  13. تیرہویں باب میں محمد بن حنفیہ بن امام علی ع کی اولاد کا تذکرہ ہے۔
  14. چودہویں باب میں اولاد ابوالفضل عباس بن حضرت علی ع کا ذکر ہے۔
  15. پندرہویں باب میں عمر الاطرف بن امیر المومنین علی ع کا ذکر ہے۔

عرب کے نسابین نے اس کتاب کو اردو زبان کی نسب پر معتبر کتاب تسلیم کیا۔ کتاب میں بنیادی قدیم عربی ماخذ کا استعمال بہت محنت سے کیا گیا سید قمر عباس اعرجی حسینی نے سید یحیی نسابہ، ابی نصر بخاری، ابو الفُرج اصفہانی، ابو الغنائم صوفی عمری، شیخ شرف عبیدلی، شیخ ابو الحسن عمری، ابن طباطبا، جمال الدین ابن عنبہ اور ابن طقطقی کی روایات کو زیادہ اہمیت دی ہے۔

کتاب لکھنے کے مقاصد[ترمیم]

سادات پوری دنیا بالخصوص پاک و ہند میں کثیر تعداد میں موجود ہیں مگر اس خطے میں علم الانساب کو ویسے مقام حاصل نہ تھا جیسے عرب میں تھا۔ دوسری بات علم الانساب چونکہ عرب خطے کا تھا اس لیے غیر عرب منطقوں میں اس سے ناواقفیت کی وجہ سے بھی علم الانساب کو برصغیر میں کوئی خاص مقام نہ ملا اور جو خاندان ہجرت کر کے آئے ان کے مشجرات بھی زیادہ خاندان کے افراد سے ہی چھپا کے رکھے گئے۔اس کی ایک وجہ شائد یہ بھی تھی کہ سادات ظلم و جور سے تنگ آ کر ہجرت کرتے رہے اور ایسی حالت میں جو ہاتھ آیا ہندوستان لے کر آگئے۔ اس کے علاوہ مصنف سید قمر عباس اعرجی نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ بھی بتایا کہ جب انھوں نے مختلف جگہ پر مشجرات کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ سادات کو انساب کے بارے میں بنیادی معلومات درکار ہیں۔

بر صغیر میں علم الانساب پر اوّل کتاب سید مبارک حسینی نے لکھ کر قطب الدین ایبک کو پیش کی۔ اس کے بعد بھی کتابیں لکھی گئیں مگر وہ بنیادی عربی مصادر سے خالی رہیں اور بس قدیمی شجروں کو ہی چھپوا دیا گیا۔ اس لیے ایک ایسی کتاب کی ضرورت تھی جو اردو زبان میں علم الانساب کے تمام بنیادی عربی قدیمی مصادر کا احاطہ کرتی ہو تاکہ یہاں کے لوگ باقاعدہ علم الانساب تک رسائی حاصل کر سکیں۔

مصنف کا اجازہ[ترمیم]

علم الانساب ایک فن ہے اور اس کے باقاعدہ استاد ہوتے ہیں جو اس علم میں اہل افراد کو روایت کا اجازہ یعنی اجازت مرحمت فرماتے ہیں لیکن باقاعدہ اصولی علم الانساب کے استاد بہت کم ہیں اور اس وقت عرب میں مشہور سلسلہ زبدۃ المحققین سرتاج النسابین سید جعفر الاعرجی کا سلسلہ ہے۔ مدرک الطالب فی نسب آل ابی طالب کے مصنف سید قمر عباس اعرجی ہمدانی نے یہ علم سید عبد الرحمان العزی الحسینی الاعرجی سے حاصل کیا انھوں نے سید حلیم حسن الاعرجی سے حاصل کیا انھوں نے سید ضیا شکارہ الاعرجی سے حاصل کیا انھوں نے سید ھادی الاعرجی سے حاصل کیا انھوں نے زبدۃ المحققین سرتاج النسابین معین الاشراف سید جعفر الاعرجی البغدادی سے حاصل کیا انھوں نے سید محمد الاعرجی سے حاصل کیا انھوں نے سید جعفر الحسینی سے حاصل کیا انھوں نے سید راضی الاعرجی سے حاصل کیا انھوں نے سید حسن الاعرجی سے حاصل کیا انھوں نے سید مرتضی الاعرجی سی حاصل کیا انھوں نے سید شرف الدین سے حاصل کیا انھوں نے سید نصر اللہ الاعرجی سے حاصل کیا انھوں نے السید العالم الفاضل الشریف الاجل محسن الکبیر المعروف زوزور سے حاصل کیا۔

مخطوطات کا استعمال[ترمیم]

سید قمر عباس ہمدانی نے کتاب میں قدیم کتابوں کے خطی نسخوں سی بھرپور استفادہ کیا خاص کر عمدہ الطالب۔ المجدی فی انساب الطالبین۔الاصیلی۔ اور المعقبین من ولد امیر المومنین کے قدیم اور نایاب نسخوں کو استعمال کیا خاص کر عمدہ الطالب کی تشجیر جو موصلی کی لکھی ہوئی ہے کا استعمال کیا گیا۔

اس کے علاوہ پاکستان و ہند کے سادات عظام کے نسب کے قدیم مخطوطات کو بھی نقل کیا جن میں سید مکرم حسین مجتہد غیر مطبوعہ کتاب جو ہمدانی اعرجی سادات پر تھی خلاصہ الانساب سید مزمل شاہ کی کتاب نسب سادات ہمدانی سید محمد شاہ مشہدی کی نسب نامہ شریف سید حیدر شاہ بن مہدی شاہ کی شجرہ سادات مشہدی در خانہ سادات بخاری اوچ بلوٹ گلزار سادات از سید فتح علی زیدی اور سید رضا حسین شاہ کی غیر مطبوعہ کتاب “تلہ گنگ تاریخ کے آئینے میں” اور دیگر بہت سے قدیم مخطوطات شامل ہیں۔

کتاب کی جامعیت[ترمیم]

کتاب اس قدر جامع ہے کہ آل ابو طالب کے تمام خاندانوں اور ان کی ذیلی شاخوں پر تفصیلی بحث ہے اور اقوال النسابین سے قبول یا رد کیا گیا اور وہ بھی جیّد نسابین کے اقوال سے مصنف نے اس کتاب کو ایک محقق کی طرح کم اور ایک نسابہ کی طرح زیادہ رقم کیا یعنی انھوں نے نسابین کے اقوال نقل کیے اور ان کا موازنہ کیا۔ کتاب اس قدر جامع ہے کہ انساب کے ساتھ ساتھ تاریخ کو بھی رقم کیا اس لیے انساب اور تاریخ دونوں کے خواہشمندوں کے لیے گرانقدر خزانہ ہے۔

مقاتل کی تفصیل[ترمیم]

(1) مقتل امام حسین بن علی ع 61ھ

(2) مقتل زید بن امام زین العابدین

(3) مقتل سید محمد نفس ذکیہ بن عبد اللہ محض بن حسن مثنی بن امام حسن ع 145ھ

(4) مقتل ابراہیم بن عبد اللہ محض بن حسن مثنی بن امام حسن ع 145ھ

(5) مقتل ابو عبد اللہ محمد بن صالح بن عبد اللہ بن موسی الجون بن عبد اللہ محض بن حسن مثنی بن امام حسن ع 234ھ

(6) مقتل محمد بن ابراہیم طباطبا بن اسماعیل بن ابرہیم الغمر بن حسن مثنی بن امام حسن ع 199ھ

(7) مقتل حسین صاحب فخ بن علی بن حسن مثلث بن حسن مثنی بن امام حسن ع 169ھ

(8)مقتل یحیی بن زید بن امام زین العابدین

(9) مقتل ابو جعفر محمد بن ابو علی قاسم بن علی الاصغر بن عمر الاشراف بن امام زین العابدین

(10) مقتل ابو الحسین یحیی بن عمر بن یحیی بن حسین ذی الدمعۃ بن زید بن امام زین العابدین 250ھ

(11) مقتل محمد الدین آج بن امام جعفر صادق

اس کی ساتھ چھوٹے بڑے 80 مقاتل کا ذکر قدیمی عربی مصادر کی روشنی میں کیا گیا ہے۔

رجال علم الانساب[ترمیم]

سید قمر عباس اعرجی نے ساٹھ سے ستر (70۔60) علم الانساب کے جیّد نسابین کی روایات کو رقم کیا جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔ (1) ابو منذرہشام بن محمد بن صائب الکلبی (2) ابو عبد اللہ معصب الزبیری 233ہجری متوفی (3) ابو الحسین یحیی نسابہ بن حسن بن جعفرالحجۃ بن عبیداللہ الاعرج بن حسین الا صفر بن امام زین العابدین ع 277 ہجری متوفی (4) ابو نصرسہل بن عبد اللہ بخاری 357 متوفی (5) ابن خداع نسابہ مصری الحسینی 347 ہجری متوفی (6) شیخ شرف العبیدلی حسینی 435 متوفی (7)ابو عبد اللہ حسین بن ابی طالب محمد المعروف ابن طباطبااصفہانی 449 ہجری متوفی (8)شیخ نجم الدین ابو الحسن عمری علوی450 ہجری متوفی (9) سید ابو اسماعیل ابراہیم بن ناصر الحسنی (10) شیخ ابو الحسن علی بہقی المعروف ابن فندق 565 ہجری متوفی (11) امام فخر الدین رازی (12) صفی الدین ابو عبد اللہ محمد المعروف ابن طقطقی 709 ہجری متوفی (13) سید عزالدین اسماعیل مروزی 611 ہجری متوفی (14) سید جمال الدین ابن عنبہ 828 ہجری متوفی

اقوال النسابین[ترمیم]

کتاب مدرک الطالب میں سیدقمرعباس اعرجی ہمدانی نے دور حاضر کے بعض نسابین کے اقوال بھی شامل کیے جن میں سید عبد الرحمان العزی الاعرجی کویت۔سید واثق زبیبہ عراق۔ سید حلیم حسن اعرجی عراق۔سید مہدی رجائی۔ سید مجید المھنا۔سید محمود یونس الحسنی ادریسی مصر۔اور سید محسن رضا کاظمی الحمیدی پاکستان زیادہ معروف ہیں

کتب کا استعمال[ترمیم]

سید قمر عباس اعرجی ہمدانی نے 190 کے قریب مصادر الکتب استعمال کئیں جن میں انساب ۔ تاریخ ۔ فقہ۔ جغرافیہ۔حدیث۔رجال۔زمینی ریکارڈ ۔ غیر مطبوعہ کتب ہیں اور اس کے علاوہ کچھ مخطوطات شامل ہیں اور اس کے علاوہ لا تعداد عرب عجم افغانستان پاکستان اور بھارت کے قلمی مشجرات شامل ہیں انساب کی بنیادی کتب میں جمہرةالنسب۔نسب قریش۔المعقبیین۔سرسلسلہ العلویہ۔تہذیب الانساب۔المجدی فی الانساب الطالبین ۔ منتقلہ الطالبیہ۔لباب الانساب۔شجرةالمبارکہ۔الفخری فی انساب الطالبیین۔الاصیلی فی الانساب الطالبین ۔ عمدةالطالب فی انساب آل ابی طالب۔مناھل الضرب فی انساب العرب۔سراج الانساب۔آل الاعرجی اور سید مہدی رجائی کی المعقبون من آل ابی طالب زیادہ شہرت کی حامل ہیں

اردو زبان کا استعمال[ترمیم]

اردو زبان میں علم الانساب کی یہ اوّل کتاب ہے نسب لکھنے کے دو مقبول طریقے ہیں تشجیر اور مبسوط ۔ تشجیر میں خطوط کے ذریعے نسب مرتب کیا جاتا ہے اور یہ آسان طریقہ ہے مگر اس میں افراد کی تاریخ تفصیل سے نہیں کھی جا سکتی اور پاکستان و ہند میں جو کام اس میں مبسوط طریقہ سے کبھی نسب نہیں لکھا گیا سید قمر عباس اعرجی نے اردو میں مبسوط اصولی نسب کا طریقہ وضع کر کے واقعی کمال کر دیا جو اردو زبان پر بھی ایک عظیم کام ہے۔قمر عباس اعرجی نے اردو زبان میں باقاعدہ نسب لکھنے کا طریقہ بھی ایجاد کیا۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

خلاصۃ الانساب

حوالہ جات[ترمیم]

https://archive.org/details/MudrikAlTalib2ndEddition