مسجد اجابہ

متناسقات: 24°28′19″N 39°37′6″E / 24.47194°N 39.61833°E / 24.47194; 39.61833
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مسجد اجابہ
بنیادی معلومات
متناسقات24°28′19″N 39°37′6″E / 24.47194°N 39.61833°E / 24.47194; 39.61833
مذہبی انتساباسلام
صوبہمدینہ منورہ صوبہ
ملکسعودی عرب
سنہ تقدیس/ 622ء
مذہبی یا تنظیمی حالتمسجد
تعمیراتی تفصیلات
نوعیتِ تعمیرمسجد
طرز تعمیراسلامی
تفصیلات
گنبد1
مینار1

مسجد اجابہ مدینہ منورہ کی تاریخی مساجد میں سے ایک ہے۔ یہ مسجد بنی معاویہ اور مسجد المباہلہ کے نام سے بھی مشہور ہے۔یہ مدینہ منورہ کی قدیمی مساجد میں سے ایک ہے جس کی تعمیر جدید 1997ء میں کی گئی۔

محل وقوع[ترمیم]

یہ مسجد مدینہ منورہ میں قبرستان بقیع کے شمال میں 385 میٹر (1263.12 فٹ) کے فاصلہ پر شارع الملک الفیصل پر جانب مشرق واقع ہے۔ اِسے شارع ستین بھی کہتے ہیں۔ مسجد نبوی سے یہ فاصلہ 850 میٹر (یعنی 2788.71 فٹ ) ہے۔[1]

تاریخ[ترمیم]

اِس مسجد کی تعمیر کا اندازہ سنہ مطابق 622ء/ 623ء سے ہوتا ہے۔مؤرخ مدینہ ابن نجار اِس مسجد کو بنو نجار کی مسجد خیال کرتے تھے، علاوہ ازیں لکھا ہے کہ اِس مسجد کی حالت خراب ہے اور یہ قبرستان بقیع کے قریب تھی۔ اِس میں ستون موجود ہیں اور خوبصورت محراب بھی ہے لیکن باقی حصہ خراب ہے۔علامہ سمہودی کہتے ہیں کہ ابن نجار کو اِس معاملے میں وہم ہوا کہ یہ مسجد بنو نجار کی نہیں بلکہ بنو معاویہ کی تھی۔ جب علامہ سمہودی نے اِس مسجد کو دیکھا تو اِس میں کوئی ستون موجود نہ تھا، بلکہ متعدد حصے خراب ہو چکے تھے۔ لکھتے ہیں کہ یہ عریض کی طرف جانے والے راستے میں بائیں طرف واقع ہے اور قبرستان بقیع کے شمال میں ہے اور ٹیلوں کے درمیان واقع ہے، جو بنو معاویہ کی بستی کے آثار ہیں۔ جب میں نے (یعنی علامہ سمہودی) اِس مسجد کی پیمائش کی تو مشرق سے مغرب کی طرف 25 ہاتھ سے قدرے کم تھی جبکہ سمت قبلہ سے شامی جانب (یعنی مغربی جانب) 20 ہاتھ سے کچھ کم تھی۔[2]

وجہ تسمیہ[ترمیم]

مسجد اجابہ[ترمیم]

اِس مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دعائیں کی تھیں جن میں سے دو قبول کرلی گئیں جبکہ ایک سے روک دیا گیا (یعنی قبول نہ کی گئی)۔ مؤرخ آثار مدینہ منورہ احمد عباسی (متوفی: 1036ھ/ 1627ء) نے اِس حدیث کا ذِکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اِسی قبولیت یا اِجابت کی وجہ سے اِس مسجد کا نام مسجد اِجابہ ہے۔[3]

صحیح مسلم کی ایک روایت میں مذکور ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دِن مدینہ کے بالائی حصے سے تشریف لائے اور جب مسجد بنو معاویہ کے قریب سے گذرے تو اُس میں داخل ہو کر دو رکعت نفل پڑھے۔ ہم نے بھی آپ کے ہمراہ پڑھے۔ آپ نے بارگاہِ الٰہی میں طویل دعا کی اور پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے۔ فرمایا: میں نے اپنے پروردگار سے تین دعائیں کی تھیں، جن میں سے دو قبول کرلی گئیں اور ایک روک لی گئی۔ میں نے یہ دعا کی تھی کہ: میری اُمت کو قحط سے ہلاک نہ فرمائے، تو یہ قبول کرلی گئی۔ پھر یہ دعا کی کہ: اِسے (یعنی اُمت کو) غرق نہ کیا جائے، یہ بھی منظور کرلی گئی۔ اور پھر یہ دعا کی کہ: اِن میں باہم جھگڑا نہ ہو تو یہ روک لی گئی۔ چنانچہ یہ وہ وجہ ہے جس کی بنا پر اِسے مسجد اِجابہ کہا گیا۔[4]

مؤرخ مدینہ عمر ابن شبہ النمیری (متوفی: 262ھ/ 876ء) نے جید سند کے ساتھ موطأ امام مالک کی ایک حدیث صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ بن جابر بن عتیک سے بیان کی ہے کہ انھوں نے کہا: ہمارے پاس حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بنومعاویہ (مدینہ کے علاقہ) میں آئے، یہ انصار کی بستی کے قریب تھے۔ پوچھا: جانتے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھاری اِس مسجد میں کہاں نفل پڑھے تھے؟۔ میں نے کہا: ہاں اور انھیں مسجد کی ایک جگہ کی طرف اِشارہ کرکے بتایا۔ پھر پوچھا: جانتے ہو کہ آپ نے تین دعائیں کونسی کی تھیں؟۔ میں نے کہا: ہاں، جانتا ہوں۔ انھوں نے کہا: مجھے بتاؤ تو سہی۔ میں نے کہا: یہ دعا فرمائی تھی کہ اُن پر کوئی غیر غالب نہ آسکے اور انھیں قحط سے ہلاک نہ کیا جائے۔ چنانچہ دونوں قبول کرلی گئیں۔ پھر تیسری دعا یہ کی کہ آپس میں اِن کی دشمنی نہ ہو تو اِس سے روک دیے گئے۔ انھوں نے کہا: سچ کہتے ہو، قیامت تک فتنہ و فساد جاری رہے گا۔[5]

مسجد بنومعاویہ[ترمیم]

یہ مسجد بنو اوس کے علاقہ میں بنو معاویہ کے ایک انصاری صحابی معاویہ بن مالک بن عوف کی اراضی پر تعمیر کی گئی تھی۔ اِسی لیے اِسے مسجد بنومعاویہ بھی کہتے ہیں۔علامہ سمہودی (متوفی: 911ھ /1505ء) کے زمانہ تک اِس مسجد کا نام مسجد بنومعاویہ بھی مشہور تھا۔[6]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں نفل پڑھے؟[ترمیم]

مؤرخ مدینہ عمر ابن شبہ النمیری (متوفی: 262ھ/ 876ء) نے صحابی حضرت محمد بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ: وہ کہتے ہیں کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد بنو معاویہ میں محراب کی دائیں جانب تقریباً دو ہاتھ کے فاصلے پر نفل پڑھے۔[7]

تعمیر جدید[ترمیم]

خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز آل سعود نے اِس مسجد کی تعمیر جدید کا فرمان 1418ھ/ 1997ء میں جاری کیا۔ اِس کے مطابق مسجد کی تعمیر جدید کا کام شروع ہوا۔ مسجد کا مسقف کا حصہ 1000 مربع میٹر کر دیا گیا۔ خواتین کے لیے یہ مسقف کا حصہ 100 مربع میٹر کیا گیا جو شمال مشرقی جانب میں واقع ہے۔ مسجد کا گنبد 11.70 میٹر بلند ہے جس کا قطر 9.5 میٹر ہے۔ مسجد کا ایک مینار ہے جس کی بلندی 33.75 میٹر ہے۔ یہ مینار جنوب مشرقی سمت میں واقع ہے اور اِس پر ہلال نصب ہے۔ ہلال سے مینار کی بلندی 36 میٹر تک ہوجاتی ہے۔ مسجد کے شمالی حصے میں مردوں کے لیے 60 مربع میٹر رقبہ پر وضو کی 15 ٹونٹیاں اور 12 بیت الخلاء موجود ہیں۔ خواتیں کے لیے 60 مربع میٹر رقبہ میں 6 وضو کی ٹونٹیاں اور 5 بیت الخلاء ہیں۔ مسجد کے شمال مغربی سمت میں مسجد کی ضروریات کے لیے ایک کمرہ ہے۔ شاہ فہد بن عبدالعزیز آل سعود کی اِس تعمیر میں مسجد پر اڑھائی ملین ریال صرف ہوئے۔[8]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. محمد الیاس عبد الغنی: مدینہ منورہ کی تاریخی مساجد، صفحہ 48۔ مطبوعہ مدینہ منورہ، 2002ء
  2. علی بن احمد سمہودی: وفاء الوفا باخبار دار المصطفٰی، جلد 3، صفحہ 71/72۔ مطبوعہ لاہور۔
  3. احمد عباسی: عمدۃ الاخبار، صفحہ 176۔
  4. علی بن احمد سمہودی: وفاء الوفا باخبار دار المصطفٰی، جلد 3، صفحہ 71۔ مطبوعہ لاہور۔
  5. علی بن احمد سمہودی: وفاء الوفا باخبار دار المصطفٰی، جلد 3، صفحہ 71۔ مطبوعہ لاہور۔
  6. علی بن احمد سمہودی: وفاء الوفا باخبار دار المصطفٰی، جلد 3، صفحہ 70۔ مطبوعہ لاہور۔
  7. علی بن احمد سمہودی: وفاء الوفا باخبار دار المصطفٰی، جلد 3، صفحہ 71۔ مطبوعہ لاہور۔
  8. محمد الیاس عبد الغنی: مدینہ منورہ کی تاریخی مساجد، صفحہ 49۔ مطبوعہ مدینہ منورہ، 2002ء