عاشق الہیٰ بلند شہری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عاشق الہیٰ بلند شہری
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1925ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بلند شہر   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1999ء (73–74 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی مظاہر علوم سہارنپور   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ محمد زکریا کاندھلوی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم ،  معلم ،  مفتی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی ،  اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

محمد عاشق الہی بلند شہری مہاجر مدنی‬‎ ممتاز ہندوستانی مسلم عالم تھے۔

نام و نسب[ترمیم]

آپ کا نام محمد عاشق الٰہی تھا۔ خود فرماتے تھے حضرت الاستاذ قاری محمد سلیمان دیوبندی   مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ اس زمانہ میں وہ شاطبیہ کی شرح لکھ رہے تھے مجھے بھی اس میں شریک رکھتے تھے میر ا نام محمد عاشق الٰہی انھوں نے ہی تجویز کیا تھا۔ اس سے پہلے صرف محمد عاشق تھا۔استاد محترم کی بے پناہ محبت اور عاشق الٰہی نام رکھنا ا س بات پر دال ہے کہ مولانا صاحب میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی صفت نمایاں تھی۔

مولانا صاحب اسم بامسمٰی تھے ۔ بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ کی محبت کے آثار نمایاں تھے ان کے والد محترم نے انھیں دیکھ کر فرمایا:

؎ بہت سادگی اور بہت سادہ لوح ہے
خدا کا پیارا ہے عاشق الٰہی

مولانا مسلم امہ کی عظیم علمی عملی اور روحانی شخصیت تھے ۔ وہ بیک وقت عظیم مفسر ، با عمل محدث ، زیرک فقیہ دیگر علوم سے بہرہ مند ایک با عمل ذخیرہ علم انسان بھی تھے اور صوفی کا مل، عظیم مصنّف ، طریقت و شریعت کے جامع اور حق گو مبلغ بھی۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے جوا ر رحمت میں جگہ عطا فرمائیں ۔ آمین

ولادت اور بچپن[ترمیم]

آپ کے والد محترم کا نام محمد صدیق اور دادا کا نام اسد اللہ تھا ۔ راجپوت قوم سے تعلق تھا ۔ اصل وطن ضلع میرٹھ کے کسی گاؤں میں تھا ۔ آپ کے والد صاحب کے  ماموں محمداسماعیل حضرت مولانا گنگوھی  سے بیعت ہونے کی وجہ سے گھر میں دینداری کی فضا اور ماحول تھا۔بلند شہر مولانا صاحب کے پیدائشی ضلع کی طرف نسبت ہے ۔’’البرنی‘‘ پیدائشی ضلع کا پرانا نام ہے۔ آپ عربی تالیفات میں ’’البرنی‘‘ اور اردو تالیفات میں بُلند شہری تحریر فرماتے تھے۔

مولانا صاحب کے بیٹے عبد اللہ تسنیم نے اپنے والد ماجد سے دریافت کیا جب وہ اپنے تفصیلی حالات روضتہ الطالبین کی شرح پر لکھوا رہے تھے کہ آپ کا وطن کہاں تھا تو فرمایا میں موضع بسی  ڈاکخانہ بگراسی ضلع بلند شہر (یو پی ھند ) میں پیداہوا۔

مولانا صاحب کا گھرانہ علمی نہ ہونے کی وجہ سے تاریخ پیدائش محفوظ نہ تھی آپ فرماتے تھے ہمارا گھرانہ کوئی علمی نہ تھا۔ اس لیے تاریخ پیدائش محفوظ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا میں نے اپنے اندازے سے 1343ھ سن پیدا ئش تجویز کر رکھا ہے جب میں نے حفظ مکمل کیا تو گھر والے کہتے تھے کہ اس نے بارہ 12 سال کی عمر میں حفظ کی تکمیل کی چونکہ اس وقت 1355ھ تھا اس لیے میں نے سنہ پیدائش 1343ھ تجویز کر لیا۔

مولانا صاحب نے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا ؒ  صاحب  سے بیعت کر رکھی تھی فرماتے ہیں کہ جب میں نے درس میں ان سے صوفیہ کے متعلق باتیں سنیں تو بہت عقیدت ہو گئی۔ اور بیعت کی درخواست دے دی اور انھوں نے بیعت کے لیے قبول فرما لیا۔

والدین مرحومین[ترمیم]

میری والدہ صاحبہ شیخ رحمت اللہ (ساکن بگراسی ضلع بلند شہر )کی سب سے چھوٹی صاجزادی تھیں ان کی وفات تب ہوئی جب میری عمر صرف پانچ سال تھی میری دو بہنیں بھی تھیں جن میں سے ایک کی وفات والدہ محترمہ کی وفات کے پندرہ دن بعد ہو گئی ۔ اور دوسری بہن بارہ تیرہ برس زندہ رہنے کے بعد فوت ہوئیں۔والدہ محترمہ کی وفات کے بعد ہماری دادی اماں نے ہماری پرورش کی جب میں مدرسہ امدادیہ مراد آباد میں پڑھتا تھا تو اس وقت دادی اماں کی بھی وفات ہو گئی۔

مولانا صاحب کے والد صاحب کافی عرصہ زندہ رہے ۔ انھوں نے مولانا صاحب کی کتب بھی پڑھیں۔ دارالعلوم کراچی ساتھ تشریف لائے تھے ادھر ہی انتقال ہوا اور قبربھی دار العلوم میں ہی ہے۔ آپ کے والد صاحب کسان تھے۔ محنت مزدوری کر کے بچوں کی پرورش کرتے تھے ۔ مولانا صاحب کو پہلے انھوں نے قرآن مجید کے حفظ پر لگایا پھر عربی پڑھنے پر ڈالا۔ مولانا صاحب فرماتے تھے مجھے خوب یاد ہے کہ گاؤں میں حفظ کرنے کے بعد باہر کے مدارس میں پڑھانے کے لیے لے کر چلے تو مختلف مدارس میں گئے۔میں چلتے چلتے تھک جاتا تو وہ کندھے پر اُٹھا لیتے تھے غربت و تنگدستی میں بھی انھوں نے مجھے تحصیل علم پر لگائے رکھا۔ جب کہ میں دو چار پیسے کمانے کے قابل ہو گیا تھا۔

شخصیت، وضع قطع اور لباس اور مشہور شاگرد[ترمیم]

حضرت مولانا صاحب ایک پر کشش اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک انسان تھے۔ با عمل عالم تھے۔ اپنے عمے و فضل، سادگی اور زہدوتقویٰ میں سلف کی یاد گار تھے۔سفید سیدھے بالوں والی داڑھی ،گندمی رنگت، خوبصورت پرکشش چہرہ جس پر ہمیشہ نور اور مسکراہٹ ہوتی۔ زیادہ تر سفید لباس پسند فرماتے۔سر پر ہمیشہ ٹوپی ہوتی۔ لباس اور دوسری تمام چیزوں میں صفائی و طہارت کا بہت ہی زیادہ خیال رکھتے۔مولانا صاحب کشادہ پیشانی ،گول چہرہ، میانہ قد، سر مگیں آنکھیں، چمکیلے دانت ، سانولا رنگ اور بارعب شخصیت کے مالک تھے۔

رأس الاتقیاء والا صفیاء حضرت مولانا مفتی عاشق الٰہیؒ اس آخری دور میں ان چند عظیم ہستیوں میں سے ایک تھے جن کا علم و فضل زھد و تقویٰ، خلوص و للّٰہیت ، سادگی و تواضع ایک امر مسلمہ کی حیثیت رکھتا ہے وہ سلف صالحین کا نمونہ تھے۔ سچے عاشق رسول  اور اخلاق و اوصاف میں اپنے اسلاف و اکابر کی یادگار تھے۔ آپ کے مشہور شاگرد نائب شیخ الحدیث سابق جامعہ دار العلوم کراچی مفتی محمود اشرف عثمانی رحمہ اللّٰہ نائب شیخ الحدیث جامعہ دار العلوم کراچی حضرت مولانا عزیز الرحمن سواتی مدظلہم ناظم اعلیٰ دارالاقامہ واستاد الحدیث جامعہ دار العلوم کراچی وناظم جامع مسجد محمدی مولانا محمد اسحاق جہلمی ہیں