المقتدی بامر اللہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
المقتدی بامر اللہ
معلومات شخصیت
پیدائش 1 مئی 1056ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 3 فروری 1094ء (38 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد المستظہر باللہ  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان خلیفہ خلافت عباسیہ (بغداد)  ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
عباسی خلیفہ (27 )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
2 اپریل 1075  – 3 فروری 1094 
حمزہ القائم بامر اللہ 
المستظہر باللہ 
دیگر معلومات
پیشہ شاعر،  خلیفہ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

المقتدی بامر اللہ خلافت عباسیہ کا ستائیسواں خلیفہ تھا جس نے 1075ء سے 1094ء تک حکومت کی۔مقتدی نے خلافت عباسیہ کے وقار کو قائم رکھا۔ اُس میں دِین و سیاست دونوں جمع تھے۔

سوانح[ترمیم]

مقتدی کا نام عبد اللہ بن محمد ذخیرۃ الدین بن القائم بامر اللہ ہے۔کنیت ابو القاسم تھی۔ شمس الدین الذہبی نے نام عبیداللہ لکھا ہے۔ والدہ ارجوان نامی ایک کنیز تھیں۔[1] پیدائش سے چھ مہینے قبل مقتدی کے والد ذخیرۃ الدین محمد بن القائم بامر اللہ انتقال کرگئے تھے۔ مقتدی کی پیدائش اپنے دادا القائم بامر اللہ کے عہدِ حکومت میں ماہِ صفر 448ھ مطابق مئی 1056ء میں بغداد میں ہوئی۔[2]

عہد حکومت[ترمیم]

خلیفہ القائم بامر اللہ کی زندگی میں ہی مقتدی اُن کا جانشین ہو گیا تھا۔14 محرم 487ھ مطابق 2 اپریل 1075ء کو القائم بامر اللہ کی وفات کے بعد مقتدی کی بیعتِ خلافت لی گئی۔ [1]اُس وقت مقتدی کی عمر 19 سال 6 مہینے تھی۔بیعتِ خلافت کے وقت مؤید الملک ابن نظام الملک،  وزیر فخرالدولہ بن جہبز،  عمیدالدولہ،  شیخ ابواسحاق شیرازی،  ابن الصباغ،  نقیب النقبا طراد،  نقیب الطاہر،  معمر بن محمد اور قاضی القضاۃ ابو عبد اللہ دامغانی وغیرہ نے علما و اراکین سلطنت سے مقتدی کے لیے بیعت لی۔[3] ابن عمیدالدولہ کو ملک شاہ سے بیعت لینے کے لیے روانہ کیا۔ سعدالدولہ کو ملک شاہ نے شحنہ (محافظ شہر) کرکے بغداد بھیجا۔

محاسن[ترمیم]

خلیفہ نے عنانِ خلافت ہاتھ میں لیتے ہی تمام لہوولعب کے انسداد کا حکم جاری کیا۔ خلافِ شرع تمام اُمور کو سختی سے بند کروایا۔ تھوڑے ہی عرصے میں نیکی کا حکم عام ہو گیا۔بزمانہ ٔ مقتدی، شہروں میں عام طور پر اچھائیاں و نیکیاں ظہور افگن ہوئیں۔ قواعد خلافت و انتظام مملکت شگفتہ، حرمت خلافت گذشتہ کے برعکس ترقی پزیر و بلندوبالا رہی۔ مقتدی نے بغداد میں ترنم ریزی اور گانا بجانا موقوف کر دیا۔ قحبہ خانے بند کروائے۔ حمام میں بغیر لنگی باندھے غسل کرنے پر ممانعت عائد کردی۔ حمام سے کبوتر خانے ختم کروائے تاکہ غسل کرنے والوں کو ایذا نہ پہنچے۔ مذہبی طور پر مقتدی بلندکردار، قوی نفس، عالی ہمت اور بنوعباس کا شریف خاندانی فرد تھا۔[1][4]

وزارت سلطنت[ترمیم]

مقتدی سے قبل ہی فخرالدولہ بن جہبز عہدہ وزارت پر ممتاز تھا۔ مقتدی نے کچھ عرصہ اُس کو معطل کر دیا اور بعد ازاں پھر اُسے ہی قلمدانِ وزارت سپرد کر دیا۔ چند دِنوں کے لیے ابوشجاع محمد بن حسن مشہور بہ ظہیر الدین وزارت پر فائز رہا۔

وقائع سلطنت[ترمیم]

  • مقتدی کی خلافت کے پہلے سال (یعنی 467ھ مطابق 1075ء) میں مکہ مکرمہ میں عباسیوں کی بجائے عبیدیوں کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔
  • تتش اول جو ملک شاہ کا بھائی تھا، وہ بھی مقتدی کے خیرخواہوں میں شامل تھا۔ اُس نے دمشق کو تسخیر کر لیا اور وہاں 468ھ مطابق 1075ء میں مقتدی کے نام کا خطبہ پڑھوایا۔ ملک شاہ سے تتش اول کی ناراضی ہو گئی مگر جلد ہی صلح ہوئی۔ اِس ناراضی کے سبب تتش اول نے خراسان، ترمذ پر قبضہ کر لیا تھا، صلح کے بعد دونوں علاقوں کو واپس ملک شاہ کے سپرد کردیے۔[5]
  • 469ھ مطابق 1076ء میں ابونصر بن استاذ ابو القاسم القشیری بغداد آئے اور مدرسہ نظامیہ میں ایک تقریر کی جس میں تمام دلائل مذہب اشعریہ کے بیان کیے۔ اِس تقریر سے حنابلہ کو طیش آیا اور فتنہ کھڑا ہو گیا۔ دونوں جماعتوں کے اکثریتی افراد میں تعصب کی بنا پر فساد برپا ہو گیا اور اکثر لوگ قتل ہوئے۔ خلیفہ نے وزیر فخرالدولہ بن جہیر کو وزارت سے معزول کر دیا کیونکہ اُس کا میلان حنابلہ کی طرف تھا۔
  • 473ھ مطابق 1080ء میں ملک شاہ سلجوقی نے اپنی بیٹی خلیفہ مقتدی کی کنیزی میں پیش کی جس سے خلیفہ نے نکاح کر لیا۔[6]
  • 476ھ مطابق 1083ء میں ممالک ہائے عباسی سے قحط ختم ہوا ۔ اِسی سال خلیفہ نے ابوشجاع محمد بن حسن کو وزیر مقرر کیا اور اُسے ظہیر الدین کا خطاب تفویض ہوا۔
  • 478ھ مطابق 1085ء میں بغداد میں سخت ہولناک کالی آندھی آئی جس میں بجلی کی چمک اور بادلوں کی گرج زوروں پر تھی۔ مٹی اور ریت آسمانی بارش کی طرح اُڑ رہی تھی۔ بعض اوقات اِس زور سے کڑک ہوئی کہ لوگوں کو قیامت برپا ہو جانے کا یقین ہو گیا۔ یہ طوفان مسلسل تین گھنٹے تک رہا جو عصر کے بعد کم ہوا۔ امالی بن ابوبکر طوسی نے لکھا ہے کہ یہ پورا منظر اُن کا چشم دِید ہے۔
  • 479ھ مطابق 1086ء میں یوسف بن تاشفین، والی ٔ سبتہ و مراکش نے خلیفہ سے درخواست کی کہ جو شہر اُس کے قبضے میں ہیں، وہ اُس کو عنایت کرکے سلطان کا لقب تفویض کیا جائے چنانچہ مقتدی نے یہ درخواست قبول کر لی اور اُسے اپنے پاس سے خلعت و عَلَم بھیجا اور اُسے امیر المومنین کا خطاب عطاء کیا۔ اِس طرح یوسف بن تاشفین نے دولت مرابطین کی بنیاد رکھی۔[7]
  • 479ھ مطابق 1086ء میں ملک شاہ سلجوقی پہلی بار بغداد آیا اور بغداد میں قیام پزیر ہوا۔ خلیفہ مقتدی کے ساتھ دوستانہ طور پر چوگاں کھیلا۔ بعد ازاں واپس اصفہان چلا گیا۔
  • 479ھ مطابق 1086ء میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں عبیدیوں کا خطبہ خارج کر دیا گیا اور خلیفہ مقتدی کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔
  • 484ھ مطابق 1091ء میں تمام جزائر صقلیہ پر انگریزوں نے قبضہ کر لیا، حالانکہ یہ وہی جزائر تھے جنہیں 200ھ میں مسلمانوں نے فتح کر لیا تھا۔ عرصہ تک یہ جزائر آل اغلب کے پاس رہے جو خلافت عباسیہ کے ماتحت تھے۔ عبیدیوںکے دور میں یہ جزائر عبیداللہ مہدی کے پاس تھے، انگریزوں نے عبیداللہ مہدی سے یہ جزائر چھین لیے۔
  • 484ھ مطابق 1091ء میں ملک شاہ سلجوقی بغداد آیا اور ایک عالیشان جامع مسجد تعمیر کروائی۔ مسجد کے اطراف میں شاہی محلات تعمیر کروائے۔ تھوڑا عرصہ قیام کرکے واپس اصفہان چلا گیا۔
  • 485ھ مطابق 1092ء میں ملک شاہ سلجوقی کی خلیفہ مقتدی سے ٹھن گئی۔ ملک شاہ سلجوقی بغداد آیا اور شر انگیزی کی، خلیفہ کو کہلا بھیجا کہ آپ بغداد خالی کر دیجئے اور جہاں جی چاہے، چلے جائیں کیونکہ اب میں بغداد سے خلافت کروں گا۔ اِس حکم سے خلیفہ متقدی پریشان ہوا اور کہلایا کہ کم از کم ایک مہینے کی مہلت دی جائے لیکن ملک شاہ سلجوقی نے کہا کہ ایک گھنٹے کی بھی مہلے نہ دی جائے گی۔ آخرکار خلیفہ کی استدعا پر ملک شاہ سلجوقی نے 10 دن کی مہلت دی اور اِسی عشرے میں ملک شاہ سلجوقی بیمار ہو کر 19 نومبر 1092ء کو بغداد میں فوت ہو گیا۔ خلیفہ نے اُس کے پانچ سالہ بیٹے محمود کو سلطان مقرر کر دیا۔[8]
  • 492ھ مطابق 1099ء میں غزنوی سلطان ظہیرالدولہ ابراہیم بن مسعود غزنوی کا انتقال ہوا۔ اُس کا بیٹا جلال الدین مسعود غزنوی تخت نشین ہوا۔[9]
  • 14 محرم 487ھ مطابق 2 فروری 1094ء کو ملک شاہ سلجوقی کا دوسرا فرزند برکیاروق نے خلیفہ کے دربار میں حاضری دی۔ خلیفہ مقتدی نے اُسے رکن الدولہ کا خطاب تفویض کیا اور ایک شمشیر عنایت کی۔

وفات[ترمیم]

برکیاروق کی دربار حاضری کے اگلے روز ہی خلیفہ متقدی نے بغداد میں 15 محرم 487ھ مطابق 3 فروری 1094ء کو 38 سال شمسی کی عمر میں وفات پائی۔بقول علامہ جلال الدین سیوطی، خلیفہ مقتدی کو اُس کی کنیز شمس النہار نے زہر دیا تھا۔[10] مدت خلافت 18 سال 10 ماہ 1 دن ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ شمس الدین الذہبی: سیراعلام النبلاء، جلد 18، صفحہ 318۔
  2. مفتی انتطام اللہ شہابی/ مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی: تاریخ ملت، جلد 2، صفحہ 554۔
  3. ابن خلدون: تاریخ ابن خلدون، جلد 9، صفحہ 19۔
  4. جلال الدین سیوطی: تاریخ الخلفاء، صفحہ 399۔ مطبوعہ کراچی 1983ء
  5. جلال الدین سیوطی: تاریخ الخلفاء، صفحہ 400۔ مطبوعہ کراچی 1983ء
  6. علامہ محمد محی الدین الخیاط المصری:  الدروس التاریخ،  جلد 4،  صفحہ 134۔
  7. جلال الدین سیوطی: تاریخ الخلفاء، صفحہ 401۔ مطبوعہ کراچی 1983ء
  8. مفتی انتطام اللہ شہابی/ مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی: تاریخ ملت، جلد 2، صفحہ 555۔
  9. شمس الدین الذہبی: سیراعلام النبلاء، جلد 18، صفحہ 321۔
  10. جلال الدین سیوطی: تاریخ الخلفاء، صفحہ 402۔ مطبوعہ کراچی 1983ء