پہلی اینگلو سکھ جنگ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
پہلی اینگلو سکھ جنگ

خطۂ پنجاب کا نقشہ
تاریخ11 دسمبر 1845ء9 مارچ 1846ء
مقامخطۂ پنجاب
نتیجہ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی فتح
مُحارِب
برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی
ریاست پٹیالہ
ریاست جند
سکھ سلطنت

پہلی اینگلو سکھ جنگ سکھ سلطنت اور برٹش راج کے درمیان وہ پہلی جنگ تھی جس کے نتیجے میں انگریزوں کو خطۂ پنجاب پر قابض ہونے میں بڑی راہ ہموار ہوئی۔ دوسری اینگلو سکھ جنگ میں انگریز خطۂ پنجاب پر مکملاً اختیار کے ساتھ قابض ہو گئے اور خطۂ پنجاب سے سکھ سلطنت ختم ہو گئی۔

پیش خمیہ حالات[ترمیم]

خطۂ پنجاب میں رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد حالات ناگفتہ بہ ہو گئے تھے ۔ متعدد حکمرانوں اور خراب حکومتی انتظامات کے تحت فسادات اور افراتفری کا دور دورہ تھا۔ دلیپ سنگھ جو کم عمر حکمران تھا مگر اُس کی حیثیت کٹھ پتلی کی سی تھی اور انتطام حکومت تین وزیروں ہیراسنگھ ڈوگرہ، لال سنگھ ڈوگرہ اور جواہر سنگھ اولاکھ کے پاس تھا جبکہ دلیپ سنگھ کی والدہ مہارانی جند کور بھی انتظام سلطنت میں کارِمختار تھی۔ خطۂ پنجاب میں ناگفتہ بہ حالات کے دوران برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے صلح کل اور برداشت کا رویہ اختیار کیے رکھا۔ درحقیقت اِس بارے نہیں سوچا گیا تھا کہ ایک غیر متحد، فتنہ ساز اور اندرونی جھگڑوں میں مصروف قوم اپنے طاقتور مگر بے ضرر ہمسائے (برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی) کے علاقوں پر حملہ کرنے کا خطرہ مول لینے میں اِس قدر بے باک ہوجائے گی۔ برطانوی حکام نے اِن اغراض کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی سختی سے دفاعی طرزِعمل پر کاربند رہے۔ جون 1845ء کے اوائل میں گورنر جنرل ہندوستان لارڈ ہنری ہارڈنگ نے جہاں تک ممکن ہو سکا، خطۂ پنجاب میں سکھ سلطنت کو قائم رکھنے کے ارادے کا اِظہار کیا۔ اِس حکمت عملی کے اعلان کو ستمبر 1845ء اور دوبارہ اکتوبر 1845ء میں دہرایا گیا۔ مسلسل اشتعال سکھ سلطنت کی جانب سے ظاہر کی گئی لیکن اِس کا جواب برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہتھیاروں سے نہیں بلکہ دوستانہ مشورے یا واضح انداز میں بروقت تنبیہات کی صورت میں دیا۔ گورنر جنرل ہندوستان لارڈ ہنری ہارڈنگ اور کمانڈر انچیف سر ہیوگو کی 14 دسمبر 1845ء تک یہی رائے تھی کہ سکھ دریائے ستلج کو پار کرکے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقبوضات میں داخل نہیں ہوں گے۔ دراصل یہ رنجیت سنگھ اور برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین طے پانے والا 1809ء کا معاہدہ تھا جس کے تحت سکھ سلطنت کی مشرقی حد دریائے ستلج قرار دِی گئی تھی۔

جنگ[ترمیم]

8 دسمبر 1845ء کو سکھ فوج نے دریائے ستلج کے دائیں جانب سے ظاہر ہوئی اور اگلے دِن تک یہ تعداد بڑھتی رہی۔ سکھ فوج کی کثیر تعداد نے دریائے ستلج کے کناروں سے توپ خانے کو تیار کیا جس میں وہ بے شمار توپیں لائے تھے۔ سکھ سواروں کی ایک کثیر تعداد نے دریائے ستلج کے بائیں کنارے کی طرف سے دریا کو پار کر لیا اور فیروزپور کے سامنے دریائے ہری کے پتن تک جتنے میدان تھے، وہ سکھ فوجیوں کی بے شمار تعداد سے بھرگئے۔ فیروزپور کی ظاہری چوکی اُس وقت 10000 انگریزی فوجیوں اور 31 توپوں کے ساتھ ایک بہادر اور ماہر افسر سر جان لٹلر کے قبضہ میں تھی۔ 13 دسمبر 1845ء تک سکھ فوجی کشتیوں کے پل کے ذریعے بہت بڑی تعداد میں دریائے ستلج کو پار کرکے فیروزپور سے تقریباً 10 میل کے فاصلے تک آگے بڑھتے چلے گئے۔ گورنر جنرل ہندوستان لارڈ ہنری ہارڈنگ نے اپنے ایجنٹ میجر براڈفٹ کی طرف سے موصول شدہ اطلاعات کے نتیجے میں کرنال کے مقام پر کمانڈر انچیف سے ملاقات کی اور اِس کے بعد ایک دوسری چوکی لدھیانہ کا دورہ کیا۔ اِس وقت ایک پوری رجمنٹ مقامی پیدل فوج کی پانچ پلٹنوں، مقامی سواروں کی ایک پلٹن اور گھڑچر زنبوروں کے دو لشکروں کے قبضہ میں تھی۔ 8 دسمبر 1845ء تک برطانوی افواج نے سکھوں کے خلاف کوئی پیش قدمی نہیں کی، لہٰذا برطانوی حکومت نے صلح کل کی پالیسی کو اختیار کرنا چاہا حالانکہ جب سکھ دریائے ستلج کی سرحد کو پار کرکے فیروزپور پہنچ رہے تھے تو گورنر جنرل لارڈ ہارڈنگ نے اولان کیا تھا کہ: ’’سرحد کی خلاف ورزی کیے بغیر اُس کی طرف سے کسی طرح بھی جنگ کا جواز پیدا نہیں ہوتا۔‘‘[1]

برطانوی حکومت کی حکمت عملی کے اسباب[ترمیم]

برطانوی ترجمان کا بیان ہے کہ دریائے ستلج پر حکومت لاہور کو بھی اِسی طرح کمک بھیجنے کا حق حاصل تھا جس طرح اُس دریا پر ہمیں اپنی چوکیوں کو مدد پہنچانے کا حق تھا۔ تاہم جیسے ہی گورنر جنرل ہندوستان لارڈ ہنری ہارڈنگ نے 8 دسمبر 1845ء کو یہ سنا کہ سکھ جنگ پر آمادہ ہیں تو اُس نے حکم دیا کہ حملہ آور فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری طور پر تدابیر کی جائیں۔13 دسمبر 1845ء کو برطانوی حکومت نے حکمت عملی کے پیش نظر اغراض و مقاصد پر مبنی ایک اعلان جاری کیا اور اِس منشور کے مطابق کہا گیا تھا کہ: ’’برطانوی حکومت سکھ سلطنت کے ساتھ دوستانہ شرائط پر قائم رہی ہے اور 1809ء میں مہاراجا رنجیت سنگھ کے ساتھ طے پانے والے معاہدہ کی شرائط پر اِیمانداری سے کاربند رہی ہے۔ یہ کہ برطانوی حکومت نے مہاراجا رنجیت سنگھ کے جانشینوں کے ساتھ بھی اِسی قسم کے دوستانہ تعلقات قائم رکھے ہیں اور یہ کہ مہاراجا شیر سنگھ کے انتقال کے بعد گورنر جنرل پر یہ فرض عائد ہو گیا ہے کہ وہ حکومت لاہور کی غیر منظم حالت کے پیش نظر برطانوی سرحد کی حفاظت کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ علاوہ ازیں یہ کہ لاہور کے دربار کی طرف سے گذشتہ دو سالوں کے دوران متعدد غیر دوستانہ کارروائیوں کے باوجود گورنر جنرل نے ہر موقع پر انتہائی برداشت کا مظاہرہ کیا ہے اور خلوص دِل کے ساتھ خطۂ پنجاب میں ایک مضبوط حکومت کے ازسر نو قیام کو دیکھنے کی خواہش کی۔ یہ کہ برطانوی علاقہ پر حملہ کرنے کی غرض سے سکھ فوج نے دربار کے احکامات کے تحت حال ہی میں لاہور سے پیش قدمی کردی گئی ہے اور وضاحت کے لیے مسلسل مطالبات کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ اب یہ کہ سکھ فوج نے بغیر کسی اشتعال کے برطانوی علاقوں پر حملہ کر دیا ہے اور چنانچہ حکومت برطانیہ کے اختیار کو قائم رکھنے اور عہد و پیماں کی خلاف ورزی کرنے اور اَمن عامہ میں گڑبڑ کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے اور برطانوی صوبوں کی مؤثر حفاظت کے لیے گورنر جنرل نے تدابیر ضرور اختیار کرنا تھیں۔ بعد ازاں اِس دستاویز میں بتایا گیا کہ دریائے ستلج کے بائیں کنارے پر مہاراجا دلیپ سنگھ کے مقبوضات کو ضبط کرکے اُسے برطانوی علاقے میں شامل کر لیا گیا ہے۔‘‘

سکھ افواج کی پیش قدمی اور برطانوی افواج کی تیاریاں[ترمیم]

سکھوں نے 11 دسمبر 1845ء کو دریائے ستلج پار کیا اور انگریزی افواج میں پانچ ہزار جوانوں اور 12 توپوں پر مشتمل لدھیانہ کی پوری فوج اور 7500 جوانوں اور 36 توپوں کی انبالہ کی فوج نے بریگیڈئیر وہیلر کی قیادت میں پیش قدمی کردی اور تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے وہ انبالہ اور کرنال کی سڑکوں کے اتصالی مقام پر بسیان کے مقام پر پہنچ گئے، جہاں میجربراڈفٹ نے رسد اور ذخائر جمع کر رکھے تھے۔ لال سنگھ ڈوگرہ نے فیروزپور کے قریب سر جان لٹیلٹر کے قریب سے گزرتے ہوئے جنوب مشرقی سمت کی جانب تقریباً 10 میل کے فاصلہ پر موضع فیروزپور میں خندقی مورچہ سنبھال لیا۔ جبکہ اُس کی فوج کے ایک حصہ نے پچاس ہزار جوانوں اور 108 توپوں کی مکمل تعداد کے ساتھ مدکی کے علاقہ پر چڑھائی کردی۔ جب اُس نے سنا کہ پیش قدمی کرتے ہوئے برطانوی فوج اُس کے مقابلے میں کم ہے تو وہ مقابلہ کرنے کے لیے آگے بڑھا اور 6 دنوں میں 150 میل کا سفر طے کیا اور کم کھانا کھایا یا آرام کیا، کیونکہ سکھوں کی طرف سے دریائے ستلج کو پار کرنے کی خبر 11 دسمبر 1845ء کو اُس وقت انبالہ پہنچی جب کمانڈر انچیف کی جانب سے محفل رقص کی ایک عظیم الشان دعوت کا اہتمام ہونے والا تھا۔

جنگ مدکی[ترمیم]

18 دسمبر 1845ء کو مدکی کے مقام پر جنگ مدکی لڑی گئی جس میں 215 انگریز فوجی قتل ہوئے جبکہ 657 فوجی زخمی ہوئے۔ میجر جنرل رابرٹ سیل اور میجر جنرل سر جان ایم کیسکیل اِس جنگ میں مارے گئے جبکہ سکھوں کی 17 توپیں جنگ کے پہلے ہی دن انگریزوں کے قبضے میں آ گئی تھیں۔

گورنر جنرل کا اعلان[ترمیم]

31 دسمبر 1845ء کو گورنر جنرل ہندوستان لارڈ ہنری ہارڈنگ نے اعلان کیا جس کے تحت ہندوستان کے اُن تمام باشندوں پر زور دِیا گیا جنہیں حکومت لاہور کی ملازمت میں لیا گیا تھا کہ وہ فوری طور پر اپنی ملازمت ترک کرکے خود کو گورنر جنرل کے زیر احکامات لے آئیں۔ انھیں حکم دیا گیا کہ وہ انگریزوں کی جانب سے دریائے ستلج کے کنارے کی طرف آجائیں اور برطانوی حکام کے سامنے حاضر ہوجائیں۔ اگر وہ حکم کی بجا آوری میں ناکام رہے تو انھیں برطانوی پناہ کے تمام حقوق سے دستبردار سمجھا جائے گا اور اُن کے ساتھ اپنے ملک کے غداروں اور حکومت برطانیہ کے دشمنوں جیسا سلوک کیا جائے گا۔

بدووال کی جنگ[ترمیم]

مزید پڑھیں: جنگ بدووال

اِس تمام کشمکش میں جبکہ انگریز بھاری توپوں، اسلحہ اور ذخائر کی کمی کے باعث بیکاری کا شکار تھے تو سکھوں نے جنوری 1846ء کے وسط میں دریائے ستلج کی بالائی جانب سے حملہ کر دیا۔ رنجور سنگھ مجیٹھیہ نے جو سردار لہنا سنگھ کا بھائی تھا، کی قیادت میں سکھوں کی ایک مضبوط فوج نے 70 توپوں کے ساتھ پھلور کے مقام پر دریائے ستلج کو پار کر لیا اور لدھیانہ کے سرحدی مقام پر پڑاؤ پر حملہ کر دیا۔ اُس وقت وہاں مناسب حفاظتی فوج تعینات نہ تھی بلکہ ایک ادنیٰ سردار لاڈوا کا راجا بھی رنجور سنگھ کے ساتھ شامل ہو گیا۔ وہ انگریزوں کا اطاعت گزار تھا مگر اب وہ سکھوں کے ساتھ ہولیا۔ سر ہیری اسمتھ کو ایک سوار فوج اور 18 توپوں کے ساتھ لدھیانہ بھیجا گیا۔بدووال کا قلعہ جس میں رنجور سنگھ نے فوج کا ایک چھوٹا دستہ پہرے پر بٹھا دیا تھا، وہ لدھیانہ کے راستے میں آتا تھا۔ لیکن اِس سے قبل کہ ہیری اسمتھ وہاں پہنچتا،  سکھوں کی 10000 فوجیوں کی کمک وہاں پہنچ گئی۔ ہیری اسمتھ نے غیر مساوی لڑائی سے بچنے کی کوشش کی اور سکھوں کے مقبوضہ علاقے سے دور رہ کر اپنی پیش قدمی کرنے کا سوچا مگر سکھوں نے جو تہیہ کر رکھا تھا، لہٰذا جیسے ہی انگریز فوج سامنے آئی، انھوں نے اُن پر گولہ باری شروع کردی۔ اِس زبردست جھڑپ کے پیش نظر انگریزوں کو شکست ہوئی۔ اُن کے سازوسامان کا ایک حصہ اور باربرداری کے جانور سکھوں کے ہاتھ لگے۔ یہ جنگ 21 جنوری 1846ء کو لڑی گئی جس میں انگریزوں کے 69 فوجی ہلاک ہوئے اور 68 زخمی ہوئے جبکہ 77 لاپتا ہو گئے۔ بے شمار انگریز فوجیوں کو قیدی بناکر لاہور بھیج دیا گیا۔[2]

علی وال کی جنگ[ترمیم]

28 جنوری 1846ء کو ستلج کے کنارے علی وال کے مقام پر ایک زبردست جنگ ہوئی جس میں سکھوں کی قیادت رنجود سنگھ مجیٹھیہ نے کی اور مدمقابل ہیری اسمتھ تھا۔ اس جنگ میں سکھوں کے پاس 67 توپیں تھیں جبکہ مقتولین کی تعداد 2 ہزار سے 3 ہزار تک تھی۔ انگریزی فوج کے 673 سے 850 کے مابین فوجی قتل ہوئے۔اِس جنگ میں سکھوں کو شکست ہوئی۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. محمد لطیف: تاریخ پنجاب، صفحہ 989۔
  2. محمد لطیف: تاریخ پنجاب،  صفحہ 997۔
ماقبل  ہند برطانوی تنازعات مابعد