حدیث غدیر خم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

واقعہ غدیر خم کچھ اس طرح سے ہے کہ حضرت محمد بن عبد اللہ جب حج کر کے اپنے ساتھوں کے ھمراہ واپس مدینہ منورہ تشرہف لا رہے تھے تو حضرت جبراعیل ع۔س غدیر کے مقام پر تشریف لاے اور اللہ کا سلام پیش کیا اور اللہ کئی وحئ آپ ع۔س کو پہنچائ جس کا زکر قران شریف کئی سورہ ماعدہ میں موجود ہے " اے رسول پہنچا دو جو کچھ اترا تمھیں تمھارے رب کئی طرف سے اور ایسا نہ ھوا تو تم نے اس کا کوی پیغام نہ پہنچایا "اس کے بعد آپ ع۔س نے وھاں پڑاو ڈالنے کا حکم دیا اس کے بعد جو لوگ آگے جا چکے تھے ان کو واپس وھاں بلانے کے لیے کہا اور جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے ان کے وھاں پر پہنچنے تک کا انتظار کیا گیا اس کے بعد جب سب لوگ وھاں جمع ھو گئے تو اونٹ کے پالانوں ( اونٹ کئی کاٹھئ ) کا رکن بنوایا تاکے انکئ بات سب لوگ سن سکھیں اور دیکھ لیں اس کے بعد آپ ع۔س نے ان پلانوں پر چڑھ کر حضرت علی ع۔س کا ہاتھ اپنے ہاتھ سے بلند کیا اور فرمایا "من کنتم مولا فا ھذا علئ مولا " یعنئ میں جس جس کا مولا ھوں علئ بھئ اسئ طرح اس اس کا مولا ہیں " اس موقع پر حضرت عمر نے حضرت کو مبارکباد دیتے ھوے کہا " اے علئ مبارک ھو آپ آج سے ہمارے مولا ھو گئے ہیں۔

حدیث[ترمیم]

ابن مغازلی نے اپنی کتاب میں عطیہ عوفی سے روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عطیہ نے کہا: میں نے ابن ابی اوفی کو اس کے گھر کے پاس دیکھا جب وہ نابینا ہو چکا تھا۔ میں نے اس سے حدیث غدیر کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا: اے کوفہ کے رہنے والو: کس قدر تم بد بخت ہو۔ وائے تمھاری اس حالت پر۔ میں نے کہا: خدا تمھارے کام کو آسان اور اصلاح کرے، میں کوفہ سے نہیں ہوں اور تجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ میں کوفہ کا رہنے والا نہیں ہوں۔ اس نے پوچھا: تمھاری مراد کونسی حدیث ہے؟ میں نے کہا حدیث غدیر کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں، جسے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روز غدیر علی ابن ابی طالب کے بارے میں فرمایا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خم کے میدان میں غدیر کے دن علی ابن ابی طالب کا ہاتھ پکڑ کر لوگوں سے اس طرح مخاطب ہوا: اے لوگو! کیا تم نہیں جانتے کہ میں مومنین سے زیادہ ان کے جسموں پر تصرف کا حق رکھتا ہوں؟ سب نے کہا: کیوں نہیں اے رسول خدا۔ اس کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا: جس جس کا میں مولا ہوں، اس کا علیؑ ابن ابی طالب بھی مولا ہے۔[1] ۔ علامہ مجلسی لکھتے ہیں: حافظ ابونعیم نے اپنی کتاب (مانزل من القرآن فی علیؑ) میں اعمش (عطیہ عوفی کا شاگرد) سے اور اعمش، عطیہ عوفی سے نقل کرتا ہے کہ عطیہ اس آیہ شریفہ (یا آیھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک)۔[2]۔

کی شان نزول کے بارے میں کہتا ہے کہ: (نزلت ہذہ الآیہ علیؑ رسول اللہ فی علیؑ بن ابی طالب) یہ علیؑ ابن ابی طالب کے بارے میں نازل ہوا ہے۔[3]۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. محمدباقر مجلسي، بحارالانوار، ج 37، ص 185 به نقل از الطرائف
  2. مائده، آیه 67۔
  3. بحارالانوار، ج 37، ص 190۔