خرم ذکی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
خرم ذکی
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 26 مارچ 1976ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 7 مئی 2016ء (40 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسز   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ صحافی ،  کارکن انسانی حقوق   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سید خرم ذکی (پیدائش: 26 مارچ 1976ء - وفات: 7 مئی 2016ء) ایک پاکستانی صحافی اور انسانی حقوق کارکن تھے۔[2][3][4][5][6][7] انھوں نے کراچی میں تعلیم حاصل کی۔ جہاں انھوں نے 1998ء سے 2001ء تک نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسز میں شرکت کی۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والا پاکستان کا یہ نامور اور بہادر صحافی صرف 40 برس کا تھا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ پرستی کو چیلنج کرنے کے لیے اس نے بے خوفی سے آواز بلند کی تھی۔ خرم ذکی کو خاص طور سے لال مسجد فیم مولانا عبد العزیز کی فرقہ وارانہ نفرت پر مبنی تقریروں کا بھانڈا پھوڑنے اور ان کے خلاف مظاہرہ کرکے مذہبی منافرت کا مقدمہ درج کروانے پر شہرت حاصل ہوئی تھی۔

خرم ذکی کو 7 مئی 2016ء رات نارتھ ناظم آباد کراچی میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ۔ وہ اپنے ایک ساتھی راؤ خالد کے ساتھ ایک ریستوران میں رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم حملہ آوروں نے ان پر فائر کھول دیا۔ دونوں شدید زخمی ہوئے۔ ساتھ میں ایک راہگیر بھی گولیوں کا نشانہ بنا۔ تاہم خرم ذکی اسپتال پہنچنے تک دم توڑ گئے اور ملک میں تشدد، انتہا پسندی اور مذہبی منافقت کے خلاف ایک دلیر آواز خاموش ہو گئی۔

کسی دانشور، صحافی ، سماجی کارکن یا انسانی حقوق اور مذہبی ہم آہنگی کی بات کرنے والے کسی شخص پر یہ پہلا حملہ نہیں ہے۔ گذشتہ برس اپریل میں کراچی ہی کی ایک ہیومن رائیٹس ایکٹیوسٹ سبین محمود کو بلوچستان میں مظالم کے خلاف ایک سیمینار منعقد کروانے کے فوری بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ انھوں نے شہر میں آزادی اظہار کو فروغ دینے کے لیے T2F کے نام سے ایک فورم قائم کیا تھا۔ وہ اختلاف رائے کے مہذب اظہار کی مثبت روایت کو فروغ دینے کی کوشش کررہی تھیں۔ اس سے ایک سال قبل ملتان میں ایڈووکیٹ راشد رحمان کو ان کے دفتر میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک ممتاز قانون دان تھے۔ انھوں نے بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کے ایک ایسے لیکچرر کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا تھا، جو توہین مذہب کے جھوٹے الزامات میں گرفتار کیے گئے تھے لیکن انتہا پسند مذہبی گروہوں کے دباؤ اور دہشت کی وجہ سے کوئی ان کا مقدمہ لڑنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ راشد رحمان نے یہ بھاری پتھر اٹھایا اور تھوڑے ہی عرصے بعد انھیں خاموش کروا دیا گیا۔ان کے بعد کوئی وکیل توہین مذہب میں گرفتار جنید حفیظ کے مقدمے کی پیروی کرنے کا حوصلہ نہ کر سکا۔[8]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. http://www.sandiegouniontribune.com/news/2016/may/07/gunmen-kill-rights-activist-in-pakistan/ — اخذ شدہ بتاریخ: 9 مئی 2016
  2. "Civil society protests against religious extremism"۔ The News International, Pakistan۔ 17 February 2015۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 نومبر 2018 
  3. "Protest outside Lal Masjid disrupted by police"۔ The Nation۔ 17 December 2015۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 نومبر 2018 
  4. "باشعور شہری کا بہترین اقدام"۔ ایکسپریس اردو۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 نومبر 2018 
  5. Munawer Azeem۔ "Civil society members 'arrested' for protesting at Lal Masjid"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 نومبر 2018 
  6. سانحہٴ پشاور: لال مسجد کے سامنے ’درجن بھر‘ شہریوں کا احتجاج | حالات حاضرہ | DW | 16.12.2015
  7. The West has got it Wrong about Iran
  8. http://www.humsub.com.pk/14872/syed-mujahid-ali-139/