مچھیرا اور جن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مچھیرے اور جن کی حکایت (انگریزی: The Fisherman and the Jinni)، عربی:حكاية الصياد مع العفريت) الف لیلہ و لیلہ کی جلد اول میں شامل ایک حکایت ہے جس میں ایک مچھیرے کی ایک جن سے ملاقات اور گفتگو کا حال مذکور ہے۔

تفصیلات[ترمیم]

یہ کہانی ایک مچھیرے اور جن کے مابین پیش آنے والی گفتگو پر مبنی ہے۔مچھیرا دریا میں جال ڈالتا ہے اور سہ بارہ جال ڈالنے کے بعد جب چوتھی بار جال پھینکتا ہے تو اُس میں ایک آفتابہ ہاتھ آتا ہے جس میں ایک جن نکلتا ہے جس سے مچھیرے کی گفتگو ہوتی ہے۔ وہ مچھیرے کو قتل کرنے کی دھمکی دیتا ہے مگر مچھیرا اُسے ایک چال کے ذریعے آفتابے میں واپس بند کردیتا ہے اور اُسے حکیم دوبان اور وزیر یونان کی حکایت سناتا ہے۔

متن حکایت[ترمیم]

’’گذشتہ زمانے میں ایک ماہی گیر تھا جو بوڑھا بھی تھا اور کثیرالعیال بھی۔ اِس لیے بڑی تنگی ترشی سے گذر اوقات ہوتی تھی۔ اِس کا یہ دستور تھا کہ صبح سویرے دریا پر جاتا اور چار مرتبہ جال پھینکتا اور جو کچھ ہاتھ لگ جاتا اُس کو لے کر خدا کا شکر ادا کرتا تھا۔ ایک دِن حسب معمول اُس نے دریا میں جال ڈالا۔ جب کھینچا تو بہت بھاری تھا۔ دِل میں سمجھا کہ آج بہت سی مچھلیاں آگئیں۔ خوشی خوشی جال نکالا۔ لیکن دیکھا تو ایک مردہ گدھے کی لاش تھی۔ بہت رنجیدہ ہوا اور پھر جال ڈالا تو صرف کیچڑ مٹی آئی۔ تیسری مرتبہ جال ڈالا لیکن خالی نکلا اور یہ حال دیکھ کر ماہی گیر بہت پریشان ہوا اور چوتھا جال یہ کہہ کر پھینکا کہ خداوند آپ میرے حال سے واقف ہیں کہ میں چار بار جال ڈالا کرتا تھا اور آج تین مرتبہ ڈال چکا ہوں لیکن مجھے میرا رِزق نہیں ملا۔ اب آخری بار آپ کا نام لے کر جال ڈال رہا ہوں۔ اپنا رحم فرمائیے۔ اِس مرتبہ جال بھاری معلوم ہوا۔ کھینچ کر باہر نکالا تو اُس میں مچھلیوں کی بجائے ایک سر بمہر پیتل کا آفتابہ تھا۔ ماہی گیر نے خیال کیا کہ شاید اِس میں مال ہو۔ اُس نے آفتابے کو کھولا لیکن وہ بھی خالی تھا۔ مایوس ہوکر جال اُٹھایا اور گھر چلنے کو تیار ہو گیا۔ آفتابے پر نظر پڑی تو کیا دیکھتا ہے کہ آفتابہ میں سے دھواں نکل رہا ہے۔ ماہی گیر رک گیا۔ دھواں بڑھتا رہا اور پھر ایک بڑے جن کی شکل بن گیا اور وہ جن کہنے لگا کہ: اے بادشاہ سلیمان! مجھے معاف کردیجئے۔ آئندہ کبھی سرکشی نہیں کروں گا۔ ماہی گیر پہلے تو ڈرا لیکن جب معافی کے الفاظ سنے تو اُس کو تسلی ہوئی اور کہنے لگا کہ: اے جن! حضرت سلیمان (علیہ السلام) تو مدت گذر گئی کہ وفات بھی پا چکے ہیں۔ تو کون ہے اور کیا معاملہ ہے؟۔ یہ سن کر جن نے غصہ سے ماہی گیر کی طرف دیکھا اور کہا: او گستاخ! تمیز سے گفتگو نہیں کرتا؟۔ تیار ہوجا کہ میں تجھ کو قتل کروں گا۔ ماہی گیر بولا: بھائی میں نے تمھارا کیا قصور کیا ہے؟۔ صدیوں سے تم قید تھے، میری وجہ سے آزاد ہوئے اور مجھے ہی قتل کرتے ہو۔ جن نے کہا: بے شک تمھارا اِحسان ہے لیکن میں اپنے عہد سے مجبور ہوں۔ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ناراض ہوکر مجھے اِس آفتابہ میں قید کرکے دریا میں ڈلوا دِیا تھا تو میں نے اپنے دِل میں عہد کیا کہ اگر مجھے کوئی پہلے سو سال میں رہا کرے گا تو اُس کو خزائنِ دنیا سے مالا مال کروں گا۔لیکن کسی نے مجھے نہ چھیڑا۔میں نے پھر عہد کیا کہ اگر دوسرے سو سال میں مجھے کوئی آزاد کرے گا تو میں اُس کو زمین کے دفینے بتا دوں گا، لیکن کوئی نہ آیا کہ مجھے مصیبت سے نجات دے۔ تیسری بار میں نے قسم کھائی کہ تیسرے سو سال میں اگر کوئی شخص مجھے نکالے تو میں اُس کو بڑا بادشاہ بنا دوں گا۔ لیکن اِس مرتبہ بھی کسی نے مجھے نہیں چھڑایا۔ تنگ آ کر میں نے خود قسم کھائی کہ اب اگر کوئی مجھے اِس آفتابے سے نکالے گا تو اُس کو قتل کردوں گا۔ چنانچہ تو نے اب مجھے قید سے رہا کیا ہے۔ میں اپنے عہد سے مجبور ہوں اور تجھ کو ضرور ماروں گا۔ صرف یہ ہو سکتا ہے کہ اپنی موت کے لیے جو طریقہ تو تجویز کرے گا۔ اُسی طرح تجھے ہلاک کردوں گا۔ ماہی گیر دِل میں بہت ہراساں ہوا لیکن سکون برقرار رکھا اور کہنے لگا کہ:تم نے جو اِتنے طویل طویل عہد و پیمان سنائے ہیں، ممکن ہے صحیح ہوں لیکن مجھے یہ شبہ ہے کہ تم اِس آفتابے میں نہیں تھے بلکہ کہیں دور سے آئے ہو اور اب مجھے خواہ مخواہ قتل کرنا چاہتے ہو اور یہ سب حیلے حوالے ہیں۔ جن نے کہا: تجھے یقین نہیں آتا ؟  تو مجھ کو جھوٹا سمجھتا ہے؟۔ ماہی گیر نے کہا کہ آنکھوں کے دیکھے بغیر کیسے مان لوں کہ اتنا بڑا پہاڑ سا جن اِس چھوٹے سے آفتابے میں بند تھا؟۔ جن نے کہا: اچھا لے دیکھ۔ جن پھر دھواں بن کر آفتابے میں بھرنا شروع ہو گیا اور آہستہ آہستہ کل دھواں آفتابے میں سما گیا۔ ماہی گیر نے موقع کو غنیمت سمجھا اور آفتابے کا منہ بند کرکے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی مہر پھر لگا دی اور آفتابہ اُٹھا کر دریا میں پھینکنے لگا تو جن نے کہا: بھائی یہ کیا کرتا ہے؟۔ ماہی گیر نے کہا کہ: تجھے دریا میں ڈالتا ہوں تاکہ تو قیامت تک تو قید رہے۔جن بہت منتیں کرنے لگا کہ مجھ پر رحم کر۔ میں تجھ سے مذاق کرتا تھا۔ بھلا میں اپنے محسن کو کیوں ہلاک کرتا؟۔ ماہی گیر نے ہنس کر کہا: میں تمھارے مکروں میں نہیں آؤں گا۔ [1]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. الف لیلہ ہزار داستاں: صفحہ 14/15۔ مطبوعہ دہلی