عنایت حسین (موسیقار)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(ماسٹر عنایت حسین سے رجوع مکرر)
ماسٹر عنایت حسین
معلومات شخصیت
پیدائش 1916ء
لاہور، صوبہ پنجاب
وفات مارچ 26، 1993(1993-03-26)ء
لاہور، پاکستان
قومیت پاکستان کا پرچمپاکستانی
عملی زندگی
پیشہ موسیقار ،  نغمہ ساز   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ شہرت موسیقار
صنف فلمی موسیقی
اعزازات
نگار ایوارڈ
IMDB پر صفحات[1]  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ماسٹر عنایت حسین (پیدائش: 1916ء - وفات: 26 مارچ، 1993ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے برصغیر پاک و ہند کے نامور فلمی موسیقار تھے۔

حالات زندگی و فن[ترمیم]

ماسٹر عنایت حسین 1916ء کو لاہور، صوبہ پنجاب (برطانوی ہند) میں پیدا ہوئے[2][3]۔ ماسٹر عنایت حسین کے والد نے انھیں استاد بڑے غلام علی خان کی سرپرستی میں دے دیا تاکہ وہ کلاسیکی موسیقی کی تربیت حاصل کرسکیں۔ انھوں نے کئی برس اپنے استاد سے کلاسیکی موسیقی سیکھی۔ اس دوران وہ لاہور کی گراموفون کمپنی میں غیر فلمی گیتوں اور غزلوں کی موسیقی ترتیب دیتے رہے۔ خوب صورت ہونے کی وجہ سے یہ اداکاری کی طرف بھی مائل تھے۔ پندرہ برس میں انھوں نے ممبئی کا رُخ کیا جہاں وہ چار پانچ برس رہے اس دوران انھوں نے امپیریل فلم کمپنی میں کام کیا اور ہدایت کار موتی بی گڈوانی کی فلم مخبری میں ماسٹر انداز کے نام سے کام کیا۔ 23 برس کی عمر میں انھوں نے نواب رام پور کے دربار میں ملازمت اختیار کی جہاں دو برس گزارنے کے بعد وہ کولمبیا ریکارڈنگ کمپنی میں میوزک ڈائریکٹر کے طور پر ملازم ہو گئے۔ کچھ عرصے کے بعد انھوں نے ہزماسٹر وائس میں ملازمت کرلی اور بہت سے مقبول گانوں کی دھنیں ترتیب دیں۔ 1946ء میں فلم ساز ہری متل کھوسلا نے فرنیچر بنانے والی فیکٹری خرید کر اسے اسٹوڈیو میں تبدیل کر دیا اور اس کا نام لیلامندر اسٹوڈیو رکھ دیا جہاں ہدایت کار پرکاش بخشی نے پہلی فلم کملی کا آغاز کیاجس کی موسیقی ماسٹر عنایت حسین نے کمپوز کی۔ اس فلم کے نغمہ نگار پی این رنگین تھے۔ جب کہ اداکاروں میں آشا پوسلے، رمیش، رانی کرن، امرناتھ، گیتا بالی اور شیخ اقبال نمایاں تھے۔ اس فلم کے یہ گانے بہت مشہور ہوئے جن میں استاد برکت علی خان کی آواز میں ایک گانا جا چناں بدلی وچ جا اور ان کے ساتھ زینت بیگم کی آواز میں ایک دو گانا شام پئی ہُن گھر آ نہایت خوب صورت گیت تھے۔ تقسیم ہند کے بعد ماسٹر عنایت حسین نے فلم ہچکولے کی موسیقی ترتیب دی جس کا تذکرہ کیا جاچکا ہے۔1954ء میں ہدایت کار انور کمال پاشا کی فلم گمنام ماسٹر عنایت حسین کی وہ فلم ہے جس کے گیتوں نے انھیں ایک بڑا موسیقار ثابت کر دیا۔ جب ان کا گیت تو لاکھ چلی رے گوری تھم تھم کے پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے ممبئی تک اس گیت کی دُھوم تھی۔ استاد خان صاحب امیر خان (اندور والے) خاص طور پر لاہور ماسٹر عنایت حسین کو مبارک باد دینے کے لیے ہندوستان سے بطور خاص لاہور آئے۔ ابھی اس گیت کی مقبولیت ختم نہیں ہوئی تھی کہ 1955ء میں فلم قاتل ریلیز ہو گئی جس کے گیت ماسٹرعنایت حسین کے شاہ کار ثابت ہوئے۔ طفیل ہوشیارپوری کا لکھا ہُوا کوثر پروین کی آواز میں گیت مینا نہ جانے کیا ہو گیا کہاں دل کھوگیا بے حد مقبول ہُوا وہیں اس سے بڑھ کر اقبال بانو کی آواز میں قتیل شفائی کی لکھی ہوئی غزل الفت کی نئی منزل کو چلا آج بھی سننے والوں میں بے حد مقبول ہے۔[4]

ہدایت کار انور کمال پاشا اور عنایت حسین کا ساتھ جن فلموں میں رہا وہ اپنی موسیقی کی وجہ سے پسند کی گئیں لیکن 1958ء میں فلم انار کلی کے گانوں کی ریکارڈنگ کے دوران ان دونوں کے درمیان اختلافات اتنے بڑھے، ماسٹر عنایت حسین نے صرف تین گانے ہی کمپوز کیے تھے باقی گانے رشید عطرے نے کمپوز کیے لیکن اس پر ماسٹر عنایت حسین نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ لیکن فلم میں ان کے ہی گانے زیادہ مقبول ہوئے کہاں تک سُنو گے کہاں تک سُنائوں، بے وفا ہم نہ بھولے تجھے، جلتے ہیں ارمان میرا دل روتا ہے۔ نور جہاں کی آواز میں یہ گیت آج بھی اُسی طرح مشہور ہیں جس طرح پہلے تھے۔ 1962ء میں فلم عذرا میں ان کا کمپوز کیا ہُوا گیت جانِ بہاراں، رشکِ چمن، غنچہ دہن سیمیں بدن، اے جان من ایرانی ماحول میں فارسی انداز لیے ہوئے تھا جس کو سلیم رضا نے گایا۔ اس کے علاوہ فلم عشق پر زور نہیں کا مالا اور سائیں اختر حسین کا گایا ہوا گانا دل دیتا ہے رو رو دہائی اور فلم نائلہ میں مالا کے گائے ہوئے گانے مجھے آرزو تھی جس کی وہ پیام آ گیا ہے، غمِ دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے اور دل کے ویرانے میں اک شمع ہے اب تک روشن ان کے مقبول ترین گیت ہیں۔[4]

بطور موسیقار مشہور فلمیں[ترمیم]

مشہور نغمات[ترمیم]

  • تو لاکھ چلی رے گوری تھم تھم کے پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے (گمنام)
  • او مینا نہ جانے کیا ہو گیا کہاں دل کھوگیا (قاتل)
  • الفت کی نئی منزل کو چلا (قاتل)* کہاں تک سُنو گے کہاں تک سُناؤں (انارکلی)
  • جلتے ہیں ارمان میرا دل روتا ہے (انارکلی)
  • جانِ بہاراں، رشکِ چمن، غنچہ دہن سیمیں بدن، اے جان من (عذرا)
  • دل دیتا ہے رو رو دہائی کسی سے کوئی پیار نہ کرے (عشق پر زور نہیں)
  • غمِ دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے (نائلہ)

اعزازات[ترمیم]

ماسٹر عنایت حسین نے نگار ایوارڈ سمیت متعدد اعزازات حاصل کیے۔[5]

وفات[ترمیم]

ماسٹر عنایت حسین 26 مارچ، 1993ء کو لاہور، پاکستان میں انتقال کر گئے۔ وہ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔[2][3][5][5]

حوالہ جات[ترمیم]