خلیل الرّحمن رمدے

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
خلیل الرّحمن رمدے
معلومات شخصیت
پیدائش 13 جنوری 1946ء (78 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برطانوی پنجاب   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن)   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ پنجاب
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور
پنجاب یونیورسٹی لا کالج   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ منصف ،  وکیل   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عدالت عظمٰی کے منصف۔ جسٹس ریٹائرڈ خلیل الرحمن رمدے سپریم کورٹ کی حالیہ تاریخ کے اُن تمام اہم فیصلے کرنے والے بینچ میں شامل رہے ہیں جنھوں نے ملکی سیاسی تاریخ پر بڑے گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔

خلیل الرحمن رمدے سپریم کورٹ کے اس بینچ کی سربراہی کر رہے تھے جس نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی طرف سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کی تھی اور اس بینچ نے بیس جولائی سنہ دوہزار سات کو افتخار محمد چوہدری پر اُس وقت کے صدر کی طرف سے لگائے گئے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔ مبصرین کے مطابق بیس جولائی کے فیصلے کی روشنی میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد اُس وقت کے صدر پرویز مشرف کو سب سے زیادہ خطرہ چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس خلیل الرحمن رمدے سے بھی تھا۔

خلیل الرحمن رمدے اُس بینچ میں بھی شامل تھے جو سابق صدر جنرل ریٹایرڈ پرویز مشرف کے یونیفارم میں صدارتی انتخابات لڑنے سے متلق درخواستوں کی سماعت کر رہا تھا۔ جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم ہونے والے اس بینچ نے پرویز مشرف کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی تھی تاہم الیکشن کمیشن کو ہدایت کی تھی کہ جب تک ان درخواستوں کا فیصلہ نہ ہو جائے اُس وقت تک نتائج کا نوٹیشکیشن جاری نہ کیا جائے۔

یہ درخواستیں ابھی عدالت میں زیر سماعت تھیں کہ پرویز مشرف نے تین نومبر سنہ دوہزار سات کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمت اعلی عدالتوں کے ساٹھ کے قریب ججوں کو معزول کرکے گھروں میں نظر بند کر دیا اور ان ججوں میں خلیل الرحمن رمدے بھی شامل تھے۔

خلیل الرحمن رمدے اُس بینچ میں بھی شامل تھے جس نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے تھے جنھوں نے سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف کے عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف اُٹھایا تھا۔

2010ء میں نوکری فراغ کے بعد، آپ کو منصف اعظم افتخار چودھری کی تجویز پر ایک اضافی سال کے لیے خاص منصف مقرر کیا گیا۔[1]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]

  • بی بی سی،، "’آئینی طور پر میں ابھی بھی جسٹس ہوں‘"