رافع بن خدیج

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
رافع بن خدیج
معلومات شخصیت

رافع بن خدیج کمسن اور جانثار صحابی تھے۔ قبیلہ بنو حارثہ کے سردار تھے۔

نام ونسب[ترمیم]

رافع نام،ابو عبد اللہ کنیت ،قبیلۂ اوس سے ہیں سلسلۂ نسب یہ ہے،رافع بن خدیج بن رافع بن عدی بن زید جشم بن حارثہ بن حارث بن خزرج بن عمر وبن مالک بن اوس ،والدہ کا نام حلیمہ بنت عروہ بن مسعود بن سنان بن عامر بن عدی بن امیہ بن بیاضہ ہے۔ قبیلۂ اوس میں عبدالاشہل اورحارثہ دو برابر کی طاقتیں تھیں، ان میں جنگ و جدل کا بازار گرم رہتا تھا، اسید بن حضیر کے دادا اسماک بن رافع کو انہی لوگوں نے ایک معرکہ میں قتل کیا تھا اوران کے خاندان کو شہر بدر کر دیا تھا، حضیر بن سماک نے بنو حارثہ کا محاصرہ کرکے اپنے باپ کا انتقام لیا اوران کو شکست دے کر خیبر میں جلا وطن کر دیا،بنو حارثہ ایک سال تک خیبر میں سکونت پزیر رہے،اس کے بعد حضیر کو رحم آیا اور مدینہ میں بود و باش کرنے کی اجازت دی۔ رافع کے آباواجداد بنو حارثہ کے رئیس اورسردار تھے،باپ اورچچا کے بعد یہ مسند رافع کے حصہ میں آئی اور وہ تمام عمر اس پر متمکن رہے۔ ہجرت کے وقت صغیر السن تھے،

غزوات[ترمیم]

غزوہ بدر میں 14 سال کا سن تھا، آنحضرتﷺ کے سامنے لڑائی میں شریک ہونے کے ارادہ سے حاضر ہوئے آپ نے کمسن خیال کرکے واپس کیا۔ آنحضرت ﷺ کے سامنے انصار کے لڑکے ہر سال پیش ہوتے تھے،چنانچہ دوسرے سال رافع بھی پیش ہوئے،اس وقت وہ پندرہ سال کے تھے،اس لیے شرکت کی اجازت مل گئی تو ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ ایک اورصحابی سمرہ بن جندبؓ بھی لڑکوں کی جماعت میں تھے، ان کو آنحضرتﷺ نے صغر سنی کی وجہ سے شامل نہیں فرمایا تھا، بولے کہ آپ نے رافع کو اجازت دیدی اورمجھ کو چھوڑدیا،حالانکہ میں کشتی میں ان کو پچھاڑ دوں گا،آنحضرتﷺ نے مقابلہ کرایا،سمرہ دیکھنے میں چھوٹے تھے،لیکن طاقتور تھے،رافع کو پچھاڑ دیا،اس لیے آنحضرتﷺ نے ان کو بھی میدان کی اجازت دیدی۔[1]یہ روایت طبری میں ہے، اسماء الرجال کی کتابوں میں بھی یہ واقعہ موجود ہے،لیکن ان میں رافع کے نام کی تصریح نہیں۔[2] اس غزوہ میں ان کے سینہ پر ایک تیر لگا جو ہڈیوں کو توڑ کر اند گھس گیا،لوگوں نے کھینچا تو نوک اندر رہ گئی،آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں تمھاری نسبت قیامت میں شہادت دوں گا۔ غزوۂ خندق اوراکثر معرکوں میں شامل رہے۔جنگ صفین میں حضرت علی کا ساتھ دیا۔

وفات[ترمیم]

وفات کے وقت 86 برس کا سن تھا،تیر کی نوک جو اندر رہ گئی تھی ایک عرصہ کے بعد اس نے زخم پیدا کر دیا اور اسی صدمہ سے جان بحق تسلیم ہوئے،نہلانے میں عصر کا وقت آگیا، حضرت ابن عمرؓ نے کہا کہ مغرب سے پیشتر نماز جنازہ پڑھ لینی چاہیے، جنازہ کفنا کر باہر لایا گیا اور اس پر سرخ چادر ڈالی گئی، [3] حضرت ابن عمرؓ نے نماز جنازہ پڑھائی، جنازہ کے ساتھ آدمیوں کی بڑی کثرت تھی،عورتیں بین کرتی اورچیختی ہوئی نکلیں تو ابن عمرؓ نے کہا خدا کے لیے ان کے حال پر رحم کرو یہ پیر مرد عذاب الہی برداشت نہ کرسکیں گے۔ سنہ وفات میں اختلاف ہے ،امام بخاری نے تاریخ اوسط میں لکھا ہے کہ امیر معاویہؓ کے زمانہ میں انتقال کیا،باقی مؤرخین کی رائے ہے کہ 74ھ کی ابتدا تھی اور عبد المالک بن مروان کی خلافت تھی۔

ترکہ[ترمیم]

ترکہ میں حسب ذیل چیزیں چھوڑیں: لونڈی، غلام، اونٹ ،زمین [4]

حلیہ[ترمیم]

مفصل حالات معلوم نہیں اتنا علم ہے کہ مونچھ باریک رکھتے تھے اور زرد خضاب لگاتے تھے۔

اہل و عیال[ترمیم]

حسب ذیل اولاد چھوڑی،عبد اللہ ،رفاعہ، عبد الرحمن،عبید اللہ،سہل ،عبید، ان میں اول الذکر اپنی مسجد کے امام تھے، عبید ام ولد سے تولد ہوئے تھے،باقی لڑکے دو بیویوں سے پیدا ہوئے جن کے نام یہ ہیں، لبنی بنت قرۃ بن علقمہ بن علاثہ، اسماء بنت زیاد بن طرفہ بن معاذ بن حارث بن مالک بن نمر بن قاسط بن ربیعہ ،ان لوگوں کی اولاد مدینہ اور بغداد میں سکونت پزیر تھی۔

فضل وکمال[ترمیم]

حدیث کی کتابوں میں ان کے سلسلہ سے 78 روایتیں منقول ہیں،راویوں میں صحابہ اور تابعین دونوں گروہ کے لوگ شامل ہیں جن کے نام یہ ہیں، ابن عمر، محمود بن لبید، سائب بن یزید، اسید بن ظہیر، مجاہد، عطار، شعبی، عبایہ بن رفاعہ، عمرہ بنت عبد الرحمن،سعید بن مسیب، نافع بن جبیر، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، ابو النجاشی ،سلیمان بن یسار، عیسیٰ ،عثمان بن سہل، ہریر بن عبد الرحمن،یحییٰ بن اسحاق ،ثابت بن انس بن ظہیر، حنظلہ بن قیس ،نافع، واسع بن حبان ،محمد بن یحییٰ بن حبان ،عبید اللہ بن عمرو بن عثمان۔'

اخلاق[ترمیم]

امر بالمعروف اوراطاعتِ رسول معدنِ اخلاق کے تابناک جواہر پارے ہیں،ایک مرتبہ نعمان انصاری کے غلام نے چھوہارے کا ایک چھوٹا سا درخت کسی کے باغ سے اکھیڑ دیا، مروان کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوا، اس نے چوری کا جرم عائد کرکے ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کر لیا، تو رافعؓ نے کہا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ پھل میں قطع ید نہیں۔ [5] عبد اللہ بن عمرؓ اپنی زمین کرایہ پر اٹھاتے تھے اور آنحضرت ﷺ ،حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور امیر معاویہؓ کے ابتدائی زمانہ خلافت تک اسی پر ان کا عمل رہا بعد میں خبر ملی کہ آنحضرتﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے اور رافعؓ کے پاس اس کی حدیث ہے؛چنانچہ نافع کو لے کر حضرت رافعؓ کے پاس گئے اور حدیث سنی ،اس کے بعد کرایہ لینا چھوڑدیا، یہ مسلم کی روایت ہے ،مسند میں ہے کہ خود رافعؓ نے ان کو یہ حدیث سنائی تھی۔ [6] مروان نے ایک مرتبہ خطبہ دیا جس میں کہا کہ مکہ حرم ہے رافعؓ موجود تھے پکار کر کہا اگر مکہ حرم ہے تو مدینہ بھی حرم ہے اوراس کو رسول اللہ ﷺ نے حرم قرار دیا ہے ، میرے پاس حدیث لکھی ہوئی ہے، اگر چاہو تو دکھا سکتا ہوں، مروان نے جواب دیا ہاں وہ حدیث میں نے سنی ہے۔ [7] اطاعت رسول کے لیے واقعات ذیل کافی ہیں: ایک مرتبہ ان کے چچا ظہیر نے آکر بیان کیا کہ آج آنحضرتﷺ نے ایک چیز کی ممانعت فرمائی ہے، حالانکہ ہم لوگوں کو اس سے کچھ آسانی تھی، رافعؓ نے جواب دیا عم محترم جو کچھ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہی حق ہے۔ [8] ایک روز بیوی سے ہمبستر تھے،عین اسی حالت میں رسول اللہ ﷺ نے آواز دی ،فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور غسل کرکے باہر نکل آئے۔ [9]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. اسد الغابہ:2/354
  2. طبری:3/1392
  3. (مسند بن حنبل:4/141)
  4. (مسند بن حنبل:4/141)
  5. (مسند بن حنبل:4/141)
  6. (مسلم:1/615،مسند:3/463)
  7. (مسند :4/141)
  8. (مسلم:1/616)
  9. (مسند:4/143)