بلوچ تاریخ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے


بلوچ کوئی نسلی گروہ نہیں ہے بلوچوں کی تاریخ تقریباً 11000 سال پرانا ہے۔ مہرگڑھ سے ملنے والے مختلف چیزیں آج کے موجود بلوچوں سے ملتے جلتے ہیں بلوچوں نے تقریباً 11000 سال پہلے کھیتی باڑی کرنا سیکھ لیا تھا اس بات کا ثبوت مہرگڑھ کے قدیم آثار دیتے ہیں۔ بلوچوں کا جد جسے حمزہ سیستانی کہتے ہیں وہ دراصل سیستان و بلوچستان میں رہتا تھا۔ بلوچوں کی مادری زبان بلوچی اور براھوئی ہے لیکن کچھ بلوچ دوسری زبانیں بھی بولتے ہیں۔

اصل میں لفظ بلوص ہے جسے عربوں نے بلوش اور ایرانیوں نے بلوچ لکھا اہل ایران” ص” ادا نہیں کرسکتے اس لیے انھوں نے “ص” کو “چ” سے بدل کر اسے بلوچ کی صورت عطا کی اور عربوں نے “ص” کو “ش” سے بدلا بلیدی قبیلہ بیلوص کی شاہی اولاد ہے۔

ملک خطی خان سنجرانی بلوچ[ترمیم]

سردار ملک خطی خان 1480 ء کو چاغی کے علاقے میں سردار شاه پسند خان کے ہاں پیدا ہوئے، وه ابھی چھوٹے تھے کہ ان کا والدایرانی حملہ آوروں کے ساتھ معرکہ میں شہید ہوئے، ایران کے طرف سے بزرگ زاده بہمن کے سربراہی میں ایرانی لشکر نے محمد حسنی بلوچوں پر حملہ کر دیا، بلوچ ہونے کے ناطے سردار شاه پسند خان نے بھی اپنے لوگوں کے ہمراه ایرانیوں کے خلاف جنگ کرتے ہوئے شہادت کا مقام اپنایا.

ملک خطی خان نے اپنے چچا جہاں خان کے ہاں جو اس وقت سیاه دک میں مقیم تھا آغا نور محمد خاروئی سے تعلیم حاصل کی اور تقریبًا 14 سال بعد واپس اپنے علاقے آکر سرداری سنبھال لی اپنے منتشر قبیلہ کو متحد ومنظم کیا .

ملک خطی خان (اصل نام لطیف خان) کو سرداری سنبھالے ابھی زیاده عرصہ نہ گذرا تھا کہ انہی دنوں بادشاه ہند ہمایوں سے تخت چھن گیا اور وه کمک اور پناه کی خاطر سندھ و بلوچستان کے راستے چھپتے چھپاتے ایران کی طرف عازم سفر ہوا، اسی اثناء مرزا کامران جو اس وقت ہند کا بادشاه تھا کی طرف سے ملک خطی خان حاکم چاغی کو خلعت و تحائف کے ساتھ ایک فرمان ملا، جس میں لکھا تھا کہ اگر ہمایوں ادھر سے گذرے تو اسے گرفتار کرکے ہمارے حضور پیش کیا جائے اور ساتھ ہی بے حد انعامات اور نوازشوں کا وعده کیا گیا تھا۔

اتفاق دیکھیے ... کہ ہمایوں... کسمپرسی اور در بدری کی حالت میں ایران سے امداد و تعاون کے حصول کی خاطر نوشکی (ڈاک) کے رستے علاقہ چاغی میں داخل ہوا اور سردار خطی خان کے دادا جہاں بیگ خان کے قلعہ کے سامنے خیمہ زن ہوا اس کے ساتھ کچھ خدام بھی تھے۔

ہمایوں کے ایک منصبدار کی بیوی جو بلوچی زبان جانتی تھی قلعہ کے اندر داخل ہوئی اور ملک خطی خان کی بیگم ماه ناز کی خدمت میں حاضر ہوکر اسے پوره حال سنایا اور امداد و حفاظت کی درخواست کی.

ملک خطی خان کو جب یہ معلوم ہوا کہ ہمایوں میرے قبضے میں ہے تو اپنے لوگوں سے مشوره کیا کہ اگر ہمایوں کو کامران کے حوالہ کیا جائے تو انعام و اکرام بھی ملے گا اور اس کی خوشنودی بھی حاصل ہوگی اور اگر ہمایوں کو جانے دیاجائے تو کامران کے ساتھ دشمنی اور غیظ و غضب سے واسطہ پڑے گا.

مشاورت کے بعد ملک خطی خان اور اس کے ذی وقار ساتھیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وه ایک مظلوم، بے خانماں اور تخت سے محروم بادشاه ہمایوں کو ہر گز گرفتار نہیں کریں گے اور کامران کا جہاں تک معاملہ ہے(ہرچہ بات بادا) جوکچھ ہوا بعد میں دیکھا جائیگا...

ملک خطی خان ایک عظیم بلوچ کی حیثیت سے ہمایوں کے خیمہ میں ہمایوں سے ملاقاتی ہوا اور اسے تسلی دی کہ جمع خاطر رکھیں آپ نے ہمارے ہاں پناه لی ہے آپ ہمارے معزز مہمان ہے.... ہم بلوچ لوگ ہیں اور ہمیں اپنی روایات بے حد عزیز ہیں، اگرچہ ہمیں کامران کی طرف سے آپ کی گرفتاری کے احکامات مل چکے ہیں، مگر ہم سیم و زر کی لالچ میں آپ کے ساتھ بد اخلاقی کرکے اپنی شاندار روایات کو داغدار نہیں کریں گے... ہم کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھائیں گے کہ ہماری آنے والی نسلیں ہماری وجہ سے شرمنده ہوں... اور تاریخ میں ہم ہمیشہ کے لیے رسوا ہوجائیں.... آپ بتادیں ہم آپ کی کیا مدد کرسکتے ہیں؟

روایت ہے کہ ملک خطی خان نے پچیس دن تک ہمایوں کو مہماں رکھا، اس کی تمام ضروریات پوری کیں اور اس کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے محافظ مامور کیے اور رخت سفر کے علاوه بے شمار گھوڑے اور اونٹ بھی اس کے ساتھ کیے اور اپنی ذاتی حفاظت اور نگرانی میں ہمایوں کو ملک سیاه یا سیاه کوه کے قریب سیستان میں دیوان چاه کے مقام پر ناروئی، ریکی اور اسماعیل زئی بلوچوں کے جملہ سرداروں کو بلاکر مجلس کی.. احوال کیا اور ان سے امداد و حفاظت کا بلوچی قول لے کر ہمایوں کو ان کے سپرد کیا جنھوں نے کرمان کے راستے طہران تک اسے عزت و تکریم کے ساتھ پہنچایا .

ایران سے واپسی پر ہمایوں نوکنڈی اور دالبندین کے راستے سے چاغی میں ملک خطی خان سے ملاقات کی اور ملک خطی خان نے دره بولان کے راستے سبی میں ہمایوں کو سردار چاکر خان رند (جو اس وقت بلوچستان کا بادشاه تھا) کے حوالہ کیا،....

بالآخر میر چاکر خان رند بلوچ کے عظیم جرنیل اور امیر قلات اور بلوچ قبائل کے سردار اعلیٰ میر بجار خان جتوئی کی امداد و معاونت سے ہمایوں دوباره دہلی کا تخت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔اس جنگ میں میر بجار خان نے ھمایوں کو اپنے ساتھ جنگ میں شامل نہ ھونے دیا اور اس موقع پر تاریخی جملہ بولا کہ شکست خوردہ افراد کی جگہ میری فوج میں نہیں ھو سکتی.. ہمایوں نے بلوچوں کے اس عظیم کمک بہادری اور مہربانی کے صلے میں بلوچوں کو دہلی کے نواح اور پنجاب کے مختلف مقامات پر بڑی بڑی جاگیریں عطا کیں اور اس طرح بلوچوں کی بڑی تعداد بلوچستان سے نکل کر ہندوستان اور بالخصوص پنجاب میں بھی آباد ہو گئے... میر بجار خان کا نام فاتح ھندوستان کے لقب سے تاریخ میں رقم ھو گیا۔ بلوچ قبائل آج بھی اس عظیم سردار کے تاریخی جملے کی تقلید کرتے ہوئے شکست خوردہ قبائل اور افراد سے دوستی کرنے سے اعراض کرتے ہیں۔

گویا ملک خطی خان نے ہمایوں کو پناه اور اس کی امداد رہنمائی کرکے تاریخ میں نہ صرف اپنا نام روشن کیا بلکہ پوری بلوچ قوم کو بھی سرخرو و سرفراز کر دیا۔

ملک خطی خان کا اصل نام لطیف خان تھا چونکہ وه ایک عالم شخص تھا اور بقول سردار ہاشم خان کے وه نہایت خوشخط بھی تھا تو اس نسبت سے اس کا نام خطی خان مشہور ہوا.

سردار خطی خان جب ضعیف ہو گئے اور اپنی زندگی میں اپنے بیٹے سرفراز خان کی دستار بندی کرکے قوم کا سردار بنایا.

قریب نوے سال کے عمر میں سردار خطی خان اس فانی دنیا سے رخصت ہو گئے.

(حبیب مینگل از بلوچستان گزیٹر، تاریخ بلوچستان، بلوچ قبائل)

ﺧﻄﯽ دراصل ایک ترک خانہ بدوش تھا جو اپنے جانوروں کو خوراک کھلانے کے لیے ہر سال موجودہ زنگی ناوڑ آیا کرتے تھے ۔ جس کی بہادری اور اخلاق سے متاثر ہو کر اس کا نام رکھا گیا  ﺗﮭﺎ 

ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺧان گشکوری رقمطراز ہے کہ 'آپ بھی اپنے قومی دستہ کے سات باقی بلوچوں کے ہمراہ ہمایوں کی مدد کو ہندوستان کو چلے تھے اور واپسی پر آپ راستے میں فوت ہو گئے تھے ۔ آپ کو کچھی میں دفنایا گیا تھا ۔ ' ہمایوں کی بہن گلبدن بیگم نے آپ کو بخشو بلوچ لکھا ہے اور آپ کے احسان کو اپنے بھائی کے لیے اعزاز تصور کیا ہے ۔

اسماعیل مزاری ہسٹری ریسرچر.

بلوچ حضرت امیر حمزہ ؓ کی اولاد[ترمیم]

بلوچوں کی تاریخی حقیقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلوچوں کے طاقتور قبائل کے سربراہ میر جلال خان کا شجرہ نسب حضرت امیر حمزہ چچا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر ملتا ہے۔حضرت امیر حمزہ کی کنیت ابو عمارہ۔ابویعلی۔لقب سید شہداء اپ کی تین شادیوں کا بھی حوالہ ملتا ہے اپ کی چھ اولادوں کا ذکر بھی ملتا ہے اپ کا ایک بیٹا عمار/عمارہ ابن حمزہ جو قبیلہ خزرج کے سربراہ قیس النجار کی بیٹی خولہ بنت قیس سے تھا بلوچ اپنا شجرہ نسب ان سے ثابت کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔شجرہ نسب ۔۔۔۔۔ امیر حمزہ (اصل وطن ملک ۔۔|۔۔۔۔۔۔۔۔(عرب ) عمارہ ۔۔|۔۔۔ اسعد ۔۔۔۔(عرب ذات بلوص) ۔۔|۔۔۔ محمد (ملک شام حلب) ۔۔|۔۔ علمشه (اپنی قوم کا سردار بعہد یزید نقل مکانی شام سے کرمان (مرکزی ایران) بلوص لفظ بلوچ میں تبدیل ھوا ۔۔|۔۔ گل چراغ (نقل مکانی کرمان سے سیستان بوجہ فساد حاکم وقت ایران بدرالدین پسر شمس الدین ) ۔۔|۔۔

 سرخ تاج

۔۔|۔۔۔

عماره 

۔۔|۔۔ میر بلوص ۔۔|۔۔

دوست محمد

۔۔|۔۔۔

عیباس

۔۔|۔۔

ہارون

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔|۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔|۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔|میر عالی۔میر جلال۔میر نوز میر عالی کی اولاد بلہیدی۔کیچی۔قلات میں اباد ھوئ۔میر نوز کی اولاد سیستان میں ہے۔ ۔۔میر جلال خان ۔۔ بعہد 1100سے1185 عسیوی۔مدفن ایرانی بلوچستان بمبور ۔ میر جلال خاں کم بیش درجنوں قبائل /زم/رم کا سردار تھا۔مثلا۔زم حیلولہ۔زم سنجاں۔زم احمد بن لیث۔زم احمد بن علی۔زم کارما۔زم کرمانیاں۔زم درمانیاں۔زم بروحی۔زم محمد بن بشیر۔زم ادرغانیاں۔زم صاحبانیاں۔زم عشقیاں۔زم شیر کوہ۔زم زنگیاں۔زم صفاریاں۔زم شاہ ماریاں۔زم مستالیاں۔زم حمالیاں۔زم سماکاساں۔زم زم خلیلالیاں۔

میر عالی کو دو بیٹے میر جلال خان اور میر مراد خان تھے۔ میر مراد خان کے بیٹے کی شادی میر جلال خان کی بیٹی سے ھوئی اس شادی کی خوشی میں میر جلال خان نے اپنی ساری جائداد اپنی بیٹی کو دے دی۔جس سے میر جاتن خان پیدا ہوا۔تاریخ میں کچھ جگہ پرمیر جاتن خان میر جلال خان کا بھائی اور بڑا بیٹا بھی ماناجاتا ہے۔ بہر حال یہ مصدقہ ہے کہ جتوئی کا سلسلہ نسب میر جاتن سے چلتا ہے۔ جس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ عظیم جنگجو اور نا قابل شکست سردار امیر بجار خان جتوئی اس کا بیٹا تھا۔

میر جلال خان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی تھی ان سے قبائلی تقسیم کا عمل شروع ھوا مثلا  رند  سے اقوام رند۔  لاشار  سے اقوام لاشاری۔ ھوت سے اقوام ھوت۔ کوری  سے اقوام کورائ۔جتو مائ سے اقوام جتوئ۔

۔۔ رند ۔۔

رند کے تین بیٹے ھوے۔میر عبد اللہ خان۔پلیہ/ہلیہ خان۔ھوتی خان۔۔

میر عبد اللہ خان ۔۔|۔۔

شہداد ۔
شہداد  کے دو بیٹے ھوے۔میر حسن خان رند۔میر شہک خان رند۔میر حسن خان رند کو۔کوہ ماران میں بسایا گیا۔
شہک 

۔۔|۔۔۔۔ میر چاکر خان | چاکر اعظم۔مقبرہ ست گھرہ نزد ساھیوال ۔ بلوچوں کا طاقت ور سردار۔ھمایوں بادشاہ کا دست بازو میر بجار خان جتوئی نے عمر میر واڑی بلوچ سے قلات پر قبضہ کیا۔جام نندہ /جام نظام الدین سے کچھی کا علاقہ۔سیوی سے کوہ سلیمان۔دریا ے حب کا سارہ علاقہ فتح کیا تھا۔میر بجار خان جتوئی کے چار بیٹے تھے بڑا بیٹا میر نوتک خان جو میر بجار خان کے بعد بلوچ قبائل کا سردار اعلیٰ مقرر ہوا اس کی اولاد دریائے سندھ کے کنارے نخلستان موجودہ نام مظفرگڑھ اور عظیم قدیمی بندرگاہ میروانہ کے آس پاس آباد ہو گئی اور ہندوستان کی تجارت کا سارا کنٹرول اس کے ہاتھ میں رہا جتوئی قبیلے کی اصل شاخ اور انہی کے بیٹے میر لوہار خان کے نام سے لوہارات اور سردار اعلیٰ کے طور پر پہچانی جاتی ہے اور تمام بلوچ قبائل اور جتوئی قبیلے کی شاخیں اور افراد میر لوہار خان کی اولاد کو اصل سردار اعلیٰ مانتے ہیں۔ میر لوہار خان کی اولاد عظیم جنگجو کے طور پر جانی اور پہچانی جاتی تھی۔ضلع رحیم یار خان انہی کی اولاد میں سے ایک جنگجو اور سردار اعلیٰ میر رحیم خان جتوئی کے نام سے منسوب ہے میر رحیم خان کے بھائی میر بلوچ خان اور بیٹے میر مزار خان نے سردار اعلیٰ کے طور پر اسلامی فوجوں کے ساتھ مل کر ان گنت جنگیں لڑیں اور وسیع علاقے فتح کر کے بلوچ قبائل میں تقسیم کیے۔ میر بجار خان کا دوسرا بیٹا سندھ تیسرا بیٹا ساہی وال اور چوتھا اور چھوٹا بیٹا بلوچستان میں آباد ہوا۔ میر چاکر اعظم کے پانچ بیٹے تھے۔میر شہداد۔میر بلوچ۔میر عبد اللہ۔میر شہک۔میر آللہ داد۔۔ خود بلوچوں کے پاس ایک نظم کے سوا کوئی قدیم مواد نہیں۔ اس نظم میں آیا ہے کہ وہ امیر حمزہ ؓ کی اولاد ہیں اور حلب سے آئے ہیں۔ یہی درست معلوم ہوتا ہے۔ اس میں مزید یہ بیان ہوا ہے کہ انھوں نے کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کا ساتھ دیا تھا اور ان کی شہادت کے بعد وہ بامپور یا بھمپور پہنچے اور وہاں سے سیستان اور مکران آئے۔ اولامیر حمزہ ؓ ھیئگوں

سوب درگاہ ءَ گو تر انت

اش حلب ءَ پاد کایوں

گوں یزید ءَ جیڑو انت

کلبلا بھمپور مس نیام ءَ

شہر سیستان منزل انت

ترجمہ:

ہم امیر حمزہ کی اولاد ہیں

نصرت ایزدی ہمارے ساتھ ہے

ہم حلب سے اٹھ کر آئے ہیں

یزید سے لڑنے کے بعد کربلا اور بمبور

کا پیچھے چھوڑ کر سیستان کے

شہر میں ہم نے ڈیر ے ڈال دیے ہیں

بلوچوں کا کربلا اور مکہ میں کردار[ترمیم]

بلوچوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے نہ صرف کربلا میں حضرت امام حسین ؓ کا ساتھ دیا بلکہ ان دنوں جب کہ رسول اللہ مکہ میں بے یار مدد گار تھے تو بلوچوں نے اپنے قبائل سے پانچ بہادر منتخب کرکے رسول اللہ کی حفاظت کے لیے بھیجے اس بات کا پتہ بھی ہمیں بلوچی کی ایک نظم سے چلتا ہے۔

جکتہ پنج مرد بلوچیں

گوں رسول£ ءَ شامل ءَ

دوست نماز ءَ کہ پڑھگن

سرہ کننتی پانگی ءَ

جنگ اڑ تہ گوں کفاراں

شہ حساب ءَ زیادھی ءَ

ترونگلی تیر ءِ شلیاں

در کپاں ڈاؤزمی ءَ

جکتیش ایمان مس ہند ءَ

ڈبنگ ءَ نہ اشتش وتی ءَ

تنگویں تاجے بلوچار

داتہ آ روچ ءَ نبی ءَ

ترجمہ:

پانچ بہادر بلوچ

رسول اللہ کی خدمت میں کھڑے تھے

جب خدا کے دوست نماز پڑھتے

تو وہ پہرہ دیا کرتے تھے

جب کفار کے ساتھ لڑائی چھڑی

کفار کا لشکر بے شمار تھا

تیر اولوں کی طرح برسے

اور زمین سے دھواں اٹھنے لگا

مگر وہ ثابت قدم رہے ان کا ایمان قا ئم رہا

دشمن ان کو مغلوب نہ کرسکا

اس دن پاک نبی£ نے

بلوچ کے سر پر طلائی تاج رکھا

فردوسی شاہنامے میں بلوچوں کا ذکر[ترمیم]

فردوسی نے شاہنامے میں تین بادشاہوں کے عہد میں بلوچوں کا ذکر کیا ہے

اول: کیخسرو

دوم : زرکس

اور سوم : نوشیروان

عہد کیخسرو:۔(532 ق۔ م) میں بلوچ بحر خضر کے جنوبی ساحلی علاقے اور کوہ البرز کے دامن میں رہتے تھے۔ ان میں جو تھوڑے متمدن ہو گئے وہ حکومت اور فوجی خدمت کرنے لگے۔ زرکس کے عہد میں بلوچ ایرانی بادشاہوں کے دربار میں اعلیٰ عہد وں پر فائز رہے۔ لیکن بعد میں بلوچ ایرانی بادشاہوں کے لیے خطرہ بن گئے۔ اس لیے انھوں نے نہایت بے دردی سے ان کے خلاف جو مہم بھیجی تھی اس کا تذکرہ فردوسی نے شاہنامے میں بڑی تفصیل سے کیا ہے گمان ہے کہ اس مہم کے نتیجے میں بلوچوں کی قوت اس علاقے میں ٹوٹ گئی اور مجبوراً جنوب و مشرق کے پہاڑوں میں جاکر رہنے لگے لیکن ڈیمز نے اپنی کتاب “دی بلوچ ریس” اور گینکووسکی نے اپنی کتاب “پیپل آف پاکستان” میں قیاس کیا ہے کہ سفید ہُنوں کی یورش کی وجہ سے بلوچوں نے بحر خضر کے جنوبی پہاڑوں سے کرمان کی طرف کوچ کیا۔ بہر حال اس سلسلے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کی جاتی کرمان کے بلوچ خانہ بدوشوں کا ذکر عرب سیاحوں، مورخوں اور جغرافیہ نویسوں نے بھی کیاہے۔

ڈیمز نے بلوچوں کی ہجرت کے بارے میں اپنی کتاب “دی بلوچ ریس” میں لکھا ہے (ترجمہ کامل القادری)

“یہ بات قرین قیاس ہے کہ بلوچوں نے دومرتبہ نقل مکانی کی اور دونوں بار ہجرت کی وجہ ایک بڑے علاقے میں نئے فاتحوں کی پیش قدمی تھی پہلی ہجرت اس وقت ہوئی جب فارس میں سلجوقیوں کے ہاتھوں ولیمی اور غزنوی طاقتوں کا خاتمہ ہوا۔ اس موقع پر یہ لوگ کرمان چھوڑ کر سیستان اور مغربی مکران کے علاقوں میں آکر آباد ہوئے۔ دوسری بار انھوں نے اس علاقے کو چھوڑ کر مشرقی مکران اور سند ھ کا رخ کیا۔ یہ ہجرت چنگیز خان کے حملوں اور جلال الدین منگول کی وجہ سے ہوئی۔ دوسری ہجرت کے نتیجے میں انھوں نے پہلی بار وادی سندھ میں قدم رکھا جس سے ان کے لیے تیسری اور آخری ہجرت کا راستہ ہموار ہو ا اور اس آخری ہجرت نے ان کے بڑے حصے کو ہندوستان کے میدانی علاقوں میں منتشر کر دیا۔ اس آخری ہجرت کا زمانہ ہندوستان پر تیمور لانگ کے حملے اور بابر کی یورش کا زمانہ ہے ”

بعض قبیلوں نے قلات پر قابض ہوکر بلوچوں کو سندھ اور پنجاب کے میدانی علاقوں کی طرف جانے پر مجبور کر دیا۔ یہ واقعہ بلوچی تاریخ میں ناقابل فراموش ہے۔ اس واقعہ کے بعد یہ قوم دو گروہوں میں تقسیم ہو گئی۔

سردار امیر جلال خان بلوچ[ترمیم]

محمد سردار خان بلوچ نے اپنی کتاب میں لکھا کہ بلوچ روایت کے مطابق سردار امیر جلال خان بلوچ تمام بلوچ قبائل کے سردار تھے جو گیارہوں عیسوی میں کرمان کے پہاڑ وں اور لوط کے ریگستان میں رہتے تھے۔ بلوچوں کی مقبول عام روایات اسی سردار کے عہد سے شروع ہوتی ہیں۔ سردار امیر جلال خان بلوچ کے چار بیٹے رند، کورائی، لاشار اور ھوت اور ایک بیٹی جتو مائی تھی آگے چل کر رند کی اولاد سے امیر چاکر خان رند بن امیر شہک پیدا ہوا۔ جو بلوچ نسل کا عظیم سپوت کہلاتے ہیں۔بلوچ اپنے سردار میر جلال خان کی سر کردگی میں کرمان کے مختلف اضلاع میں رہتے تھے مگر سیاسی انتشار کی وجہ سے وہ قافلہ در قافلہ کرمان چھوڑ کر سیستان چلے آئے۔ جب یہاں بھی چین نہ ملا تو وہ اپنے سردار امیر جلال خان کی قیادت میں واپس کرمان گئے اور ضلع بام پور میں آباد ہوئے۔ پھر سردار جلال خان اپنے چوالیس قبیلوں (پاڑوں) کو لے کر مکران کی طرف بڑھا اور یوں مکران کو بلوچستان کا نام دیا۔ اس کی آمد سے پہلے مکران پر مغول حکومت کرتے تھے۔ بلوچ سردار نے انھیں شکست دی جس سے مقامی آبادی کی وفاداریاں بھی انھیں آسانی سے میّسر آگئیں۔ کیونکہ مقامی لوگ مغول کے ظلم و ستم سے تنگ آچکے تھے۔ یہ مسلمہ ام رہے کہ امیر جلال خان کی آمد سے پہلے مکران میں بلوچ آباد تھے۔ جو خانہ بدوش تھے بھیڑ بکریاں پال کر گزارہ کرتے تھے سردار کے ساتھ جو بلوچ مکران پہنچے وہ شہسوار تھے اور بہت منظم بھی۔ سردار جلال خان نے حکومت قائم کرکے ا نہیں قومیت کا احساس دیا اور قبائلی نظام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔

پندرھوں صدی عیسویں میں بلوچوں کے دو قبیلوں رندو لاشار ساتھ ساتھ وسطی بلوچستان کی طرف بڑھے۔ جو لوگ ان کے مقابلے پر تھے یا وہ قتل کردیے گئے یا انھوں نے اطاعت قبول کر لی۔ آخر میر چاکر خان رند کے عہد میں سارا بلوچستان بلوچوں کے قبضے میں آگیا اور وہاں ان کی حکومت قائم ہو گئی۔

میر چاکر خان رند ایک عظیم بلوچ تھے انھوں نے خضدار فتح کیا درۂ مولا پر قبضہ کیا۔ کچھی کے میدانوں کو فتح کیا۔ درۂ بولان پر قبضہ کیا اور ڈھاڈر پر قبضہ کرنے کے بعد سبّی کو فتح کیا۔ اس کے بعد قبائلی حسد کی وجہ سے رند و لاشاریوں میں جنگ چھڑ گئی جو تیس سال تک جاری رہی۔ (ان دونوں قبائل کی جنگ نے بھی کئی داستانوں کو جنم دیاہے) اس جنگ کانتیجہ یہ نکلا کہ کئی بلوچ قبائل سندہ اور پنجاب میں ہجرت کرنے پہ مجبور ہو گئے اور بلوچ منتشر ہو گئے جس میں بلوچوں کا بہت نقصان ہوا۔

بلوچوں کا ذکر شہنشاہ بابر کی خود نوشت تزک بابری اور شہنشاہ ہمایوں کی بہن گلبدن بیگم کے تحریر کردہ ہمایوں نامے میں بھی موجود ہے۔

شہنشاہ بابر نے لکھا ہے “میں نے حیدر علم دار کو بلوچوں کی طرف بھیجا۔ بھیرے اور خوشاب سے دوسرے دن بلوچ گھوڑے کی ڈالی لے کر آئے او ر اطاعت کا وعدہ کیا”

1539 ء کو ہمایوں نے شیر شاہ سوری سے چونسہ کے مقام پر شکست کھائ اور دشت نوردی کے عالم میں اوکاڑے کے قریب ست گرہ پہنچا جہاں میر چاکر خان کے ایک امیر بخشو بلوچ نے شہنشاہ کو غلے کی سو کشتیاں امداد کے طور پر دیں۔

گلبدن بیگم نے جو ہمایوں کے ساتھ ہمایوں نامے میں بخشو بلوچ کی امداد کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ایران جاتے ہوئے شہنشاہ ہمایوں بلوچستان سے گذرا جب وہ نوشکی پہنچا تو ایک بلوچ سردار ملک خطی نے اسے پناہ دی اور اگلے دن اسے ایران کی سرحد پر چھوڑ کرآیا شہنشاہ نے انعام کے طور پر اسے ایک انمول ہیرا دیا۔وہ انمول ھیرا ملکہ برطانیہ کے پاس موجود ہے۔ جب شہنشاہ ہمایوں نے تحت دہلی کے لیے ہندوستان پر چڑھائی کی تو اس کے لشکر میں چالیس ہزار بلوچ جوان تھے جن کا سردار میر بجار خان جتوئی اور میر چاکر خان رند کا بیٹا میر شاہ داد خان تھے۔ ان چالیس ہزار فوج میں پچیس ہزار جتوئی قبیلے کے جنگجو تھے جبکہ باقی پندرہ ہزار جنگجو دوسرے بلوچ قبائل میں سے تھے۔

جنوبی پنجاب میں زیادہ بلوچ آباد ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچ پورے پاکستان میں آباد ہیں جن میں ساھیوال،اوکاڑہ،جھنگ، بھکر،میانوالی ،سرگودها ،خوشاب ،فیصل آباد، للہ، پنڈ دادنخان ،چکوال ،تلہ گنگ ،اٹک، فتح جنگ، راولپنڈی اور اسلام آباد میں کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ بلوچ قوم سب سے زیادہ بہادر اور دلیر قوم مانی جاتی ہے

میر چاکر خان رند بلوچ[ترمیم]

سردار میر چاکر خان رند بن سردار امیر شہک رند بن سردار امیر اسحاق رند بن سردار امیر کا لو رند بن سردار امیر رند بن سردار امیر جلال خان رند بلوچ۔ میر چاکر رند یا چاکر اعظم صرف ایک نام یا ایک شخصیت نہیں بلکہ بلوچوں کی تہذیب و ثقافت، تاریخ و تمدن، معیشت و معاشرت، اخلاق و عادات، بہادری و جوانمردی، جوش و جذبہ، گفتار و کردار، ایثار م قربانی، ایفائے عہد اور انتقام کا نام ہے۔ سردار میر چاکر رند خود بھی بہادر تھے اور بہادر دوستوں ہی کی نہیں بلکہ دشمنوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور بقول میر چاکر "بہادروں کا انتقام بھی مجھے پیارا ہے جو میرے اونچے قلعوں پر حملہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں" میر چاکر خان مکران کے قیام کے دوران اپنی ابھرتی جوانی میں ہی قوم میں مقبول ہو گئے تھے۔ قلات پر حملے کے دوران بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔ میر شہک کے انتقال کے بعد پورے رند علاقوں کا حکمران انکا بیٹا میر چاکر تھا اور رندوں کی تاریخ کا سنہری دور تھا لیکن اس دور کا اختتام اتنا تاریک اور عبرت انگیز ہے کہ میر چاکر کے آخری دور میں نہ صرف رند بلکہ پوری بلوچ قوم اس طرح منتشر ہوئی کہ آج تک دوبارہ اکھٹی نہ ہو سکی میر چاکر کا دور بلوچوں کا عروج اور خوش حالی کا دور تھا اور آج بھی بلوچ قوم کا اجتماعی طور پر ہیرو میر چاکر رند ہے اور آج بھی میر چاکر کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں بقول میر چاکر "مرد کا قول اس کے سر کے ساتھ بندھا ہے" اور میرچاکر اپنے قول کا دھنی تھا اپنے قول کے مطابق ایک مالدار عورت "گوھر" کو امان دی اور اس کی حفاظت کف لیے جان کی بازی لگا دی اور اپنے ہی بھائیوں لاشاریوں سے جنگ کی جو تیس سالہ کشت و خون میں بدل گئی اور یہی جنگ کئی نامور رند اور لاشاریوں کو خاک و خون میں نہلا گئی جن میں میر چاکر کے دو نوجوان بھائیوں کے علاوہ میرھان، ھمل، جاڑو، چناور، ھلیر، سپر،جیند، بیبگر، پیرو شاہ اور دیگر سینکڑوں بہادر بلوچ شامل تھے بلوچوں کی معاشرتی زندگی میں وعدہ خلافی کے علاوہ جھوٹ بولنا معیوب سمجھا جاتا ہے خاص کر اگر وہ رند بلوچ ھو بقول چاکر خان رند کے "سچ بولنا بلوچوں کا شیوہ ہے اور جھوٹ ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے" بلوچ معاشرے میں جو کوئی جھوٹ بولے اور وعدہ خلافی کرے تو ان کے معاشرے میں کوئی مقام و عزت نہیں ہوتی اور ان کی نظر میں وہ شخص زندہ نہیں بلکہ مردہ ہے اور رندوں کی ایک کہاوت ہے کہ"مرے ہوئے رند کو کوئی راستہ نہیں ملتا دونوں طرف سے ان کی زندگی اسیر ہے" بلوچ لوگ بالخصوص رند بلوچ لوگ عورتوں اور بچوں پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھاتے، مہمان اور مہمان نوازی بلوچ معاشرے کا ایک لازمی حصہ ہے اور مہمانوں کو خدا کا نعمت سمجھتے ہیں سردار چاکر خان رند کی تاریخ پیدائش کا مختلف روایات ہیں ان میں سب سے زیادہ معتبر 1486ء اور قلات کو 1486ءفتح کیا کہ در آن وقت سردار چاکر کی عمر صرف 16 سال تھی اور سال 1488ء میں سبھی پر قبضہ کیا اور اسی سال میر شہک وفات پا گئے اور رند اور لاشار کی تیس سالہ جنگ کا آغاز سال 1489ءمیں شروع ھوا جو 1519ءمیں اختتام پزیر ہوا 1520ء میں میر چاکر ملتان کی روانہ ہوئے اور 1523ء میں مستقل طور پر ستگھڑہ میں قیام کیا اور 1555ءمیں ہمایوں کے ساتھ دہلی پر حملہ آور ہوئے اور شیر شاہ سوری کے جانشینوں کو شکست دے کر دہلی فتح کیا اور 1565ءمیں یہ عظیم قائد اس دنیاے فانی کو چھوڑکر خالق حقیقی سے جا ملے اور بمقام ستگھڑ اوکاڑہ میں دفن ہوئے۔

  1. بلوچ #رند #لاشار #ھوت #کورائی #جتوئی
لاشار ایک علاقہ ہے وہاں کے لوگ لاشاری، بلیدہ ایک علاقہ بلیدہ کے لوگ بلیدی، گیشکور ایک علاقہ گیشکور کے لوگ گیشکوری۔۔اور کورائی جیسے بلوچ کے اور قبائلی نام جتوئی، ناروئی۔وغیرہ
  1. بلوچی_زبان

بلوچی زبان کے لہجے کتنے ۔ 1. مکرانی بلوچی لہجہ :- ساحل بلوچستان مکران کی وجہ سے جو ادھا ایرانی بلوچستان (چابھار، کنارک، لاشار، دشتیار، ایرانشھر، فنوج وغیرہ) ادھا پاکستانی بلوچستان (پنجگور گوادر تربت کیچ) ،آواران. نال، اورناچ(خضدار) لسبیلہ (گڈانی، وندر، حب، سونمیانی تا ملیر لیاری کراچی کیونکہ کسی زمانے میں بلوچستان تھا) تا خلیج عرب امارت عمان ۔ 2. سلیمانی لہجہ بلوچی :- کوہ سلیمان کی وجہ سے، سبی کچھی بولان، بارکھان، شواران، کوہلو کاہان، ڈیرہ بگٹی، مراد جمالی. نصیراباد، جھل مگسی، ڈیرہ غازی خان، راجنپور، کوہ سلیمان تا سندھ 3. رخشانی بلوچی لہجہ :- دریا رخشان کی وجہ سے، واشک خاران، چاغی. نوشکی، دالبندین، تفتان، ہلمند نمروز افغانستان، زاہدان سسیتان و بلوچستان ۔

  1. تقسیم_بلوچ_و_بلوچستان
بلوچ و بلوچستان کب 
تقسیم ہوا ؟؟

ادھا سسیتان و بلوچستان ایران ادھا ہلمند نمروز افغانستان آدھے کو نام ملا برٹش بلوچستان کوئٹہ تا کوہ سلیمان جنوبی پنجاب آدھے کو ریاست قلات ۔۔جہاں بلوچ حاکم کا قلعہ میری قلات تھا اس کے میر کو ختم کرنے کے بعد اسی قلات کے نام پر ریاست قلات بنایا گیا۔ جس کے چار حصے تھے ۔ مکران۔۔ نواب اف مکران بٹھایا خاران ۔۔ نواب اف خاران بٹھایا لسبیلہ ۔۔ نواب اف لسبیلہ بٹھایا قلات خود۔۔ دو نواب ۔۔نواب اف سراوان ۔۔نواب اف جھالاوان بٹھایا اور ریاست قلات کا سربراہ خان اف قلات

  1. بلوچ_و_بلوچستان_کی_سرزمین

نہیں پتا جس سرزمین کو بلوچستان کہتے ہیں اس کے نام ایسے کیوں ہیں مکران، آواران، جھالاوان، سراوان، رخشان، خاران، تفتان، زاہدان، بولان، شوران. کاہان ،بارکھان، روجھان ،کوہ سلیمان اور لسبیلہ (لس معنی عام بیل معنی بگھوان جہاں عام بگھوان) اور ساتھ ہیں خراسان، کرمان. گیلان اور سمندر پار عمان (جہاں بلوچوں کی اچھی خاصی ابادیَ)

#بلوچی_رسم #رواج کا پتا

بلوچ۔شادی کا رسم ہے (ھنی) مہندی ، پیسے والا ہار پہنانا، جول بندی(دولہن کی تیاری) کورگان(دولہے کی تیاری) ،دعوت(کھانا کھلانے کا رسم) ،مبارکی (دولہا دولہن کو مبارک دینے کا رسم) ۔۔ یا

  1. بلوچی_میوزک بینجو. دونلی. سروز، ڈول۔۔۔۔۔

بلوچی سر و تال ۔ ھالو ھالو۔۔۔لے لاڑو لاڑی۔شعر و نڑ و سر۔۔

  1. بلوچی_راوہات ہے ۔ میار جلی، باھوٹی. مہمان۔نوازی ،بیر
  2. بلوچ_قبائلی_

بلوچ کے زئی قبائلی والے نام کا کیسے وجود ہوا۔۔ زئی معنی کیا؟؟ زئی یعنی تعلق ہے ۔۔۔ تو کوئی گمشادزئی. نوتیزئی، ساتکزئی، شمبے زئی. ملازئی حسن زئی، ڈگارزئی، سمالزئی، بنگل زئی وغیرہ وغیرہ ۔ یہ بلوچ کا نی قبائلی نام کا کیسے وجود ہوا۔۔جو ہلمند نمروز افغانستان سسیتان و بلوچستان ایران. سندھ جنوبی پنجاب. مادر وطن بلوچستان تک۔۔۔ جو ہر بلوچ قبائلی نام کے اخر میں نی ۔۔کوئی سنجرانی ۔۔سنجرھان / سنجرخان سے شاھوانی ۔۔۔ شاھوھان / شاھو خان سے سمالانی ۔۔ سمال ھان / سمال خان سے رئیسانی. پرکانی قیصرانی. بجارانی. میرانی.جکھرانی، قیصرانی، احمدانی ،نوتکانی، میروانی(جتوئی حاکم خاندان کا علاقہ). کمبرانی. شاہانی، دہانی، احمدانی، جاگیرانی، آسکانی. عمرانی. لسکانی. جسکانی. بھوتانی، وغیرہ وغیرہ تو کوئی ۔۔۔۔ ی سے ۔۔ ی کیا یعنی تعلق ہے ۔ مزاری، لغاری، لہری، زہری. زرداری. ساجدی، گیشکوری. دشتی. لاشاری. مغیری، بزدار،جمالی مگسی.. بلیدی، بگٹی. مری. پالاری. نیچاری. کورائی. ناروئی. جتوئی، مستوئی. ابابکی. ریکی. وغیرہ وغیرہ یا وہ بلوچ قبائلی نام بنیادی قبائلی نام۔۔ ھوت، رند. گورگیج، گبول. لنڈ. شر. کھوسہ.رونجہ ،رائجہ ،گولہ. چانڈیہ. واڈیلہ، بزدار، دریشک ،جتک ،گوپانک ،مینگل وغیرہ وغیرہ

  1. بلوچ_تاریخ، #تہذیب و تمدن. قبائلی نام، بلوچی لباس کلچر. بلوچی زبان کا پتا تو جا سب مکران بتائے گا

پندول جیگ استینک یا پاگ، جر کیا یا بلوچی باقی سازوں سامان کا نام کیا... نہ پتا #بلوچ_حاکم کو #میر کیوں کہتے ہیں اور اس کے قلعے کو #میری_قلات یعنی حاکم کا۔قلعہ۔۔۔ چاکراعظم کو میرچاکراعظم کہتے ہیں یا بلوچستان کے تاریخ کے اہم شخصیات میر بجار خان جتوئی، میر نصیرخان نوری، میر حمل جئند. میر کمبر ۔۔

مکران کا نہیں پتا جو بلوچ تاریخ وہاں سے تمھیں ملے گا 

جب تک دنیا. سسی پنوں کا نام لے گا مکران کا نام لے گا جب تک خلیج عرب میں البلوشی کا نام رہے گا. عمانی تاریخ ہو ،امارات، دبئی، ِبحرین ،قطر میں البلوشی ۔ بلوچ تاریخ و نام مکران کی وجہ سے زندہ رہے گا۔۔۔۔ یہاں تک فورٹ جیزز کینیا بمباسا کی میوزیم میں بلوچ تاریخ بھی مکران کی وجہ سے۔زندہ و محفوظ رہے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہندوستان سے پاکستان بھر جہاں جہاں کالے شیدی لوگ نظر آئیں گے ساحل بلوچستان مکران یاد کیا جائے گا.انھیں مکرانی پکارا جائے گا۔ لاشاری ،کولواہی ۔۔بلیدی، گیشکوری ، دشتی، گچکی، کلمتی اور کلانچی بلوچ قبائل کا نام و زکر آئے گا۔۔۔۔۔۔ مکران کے علاقے لاشار، کولواہ، بلیدہ، گیشکور،، دشت، گچک ،، کلمت اور کلانچ کے علاقے کو یاد کیا جائے گا. جب جب میر چاکر رند جو دفن اوکاڑہ ستگرہ پنجاب میں اس کا نام آئے گا اس کے پیدائش کا زکر آئے گا کہ کولواہ مکران کا تھا۔۔۔۔اج پنجاب میں کولوائی / کولواہی رند قبیلہ بھی۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تاریخ میں میر اور میری قلات کو ڈنڈولا جائے گا تجزیہ مشاہدہ کیا جائے گا کیا معنی میر اور میری قلات کا۔۔۔۔۔

مکران کے میری قلات کے کھنڈر کو پرکھا جائے گا.۔۔۔۔۔۔ کہ میری قلات کسے کہتے ہیں ۔۔

قلات کی معنی کیا ۔۔۔قلات معنی قلعہ میر معنی حاکم ۔۔میری قلات ۔۔حاکم کا قلعہ۔



رند و لاشار کا واقعہ[ترمیم]

بلوچ اپنے سردار میر جلال خان کی سر کردگی میں کرمان کے مختلف اضلاع میں رہتے تھے مگر سیاسی انتشار کی وجہ سے وہ قافلہ در قافلہ کرمان چھوڑ کر سیستان چلے آئے۔ جب یہاں بھی چین نہ ملا تو وہ اپنے سردار امیر جلال خان کی قیادت میں واپس کرمان گئے اور ضلع بام پور میں آباد ہوئے۔ پھر سردار جلال خان اپنے چوالیس قبیلوں (پاڑوں) کو لے کر مکران کی طرف بڑھا اور یوں مکران کو بلوچستان کا نام دیا۔ اس کی آمد سے پہلے مکران پر مغول حکومت کرتے تھے۔ بلوچ سردار نے انھیں شکست دی جس سے مقامی آبادی کی وفاداریاں بھی انھیں آسانی سے میّسر آگئیں۔ کیونکہ مقامی لوگ مغول کے ظلم و ستم سے تنگ آچکے تھے۔ یہ مسلمہ ام رہے کہ امیر جلال خان کی آمد سے پہلے مکران میں بلوچ آباد تھے۔ جو خانہ بدوش تھے بھیڑ بکریاں پال کر گزارہ کرتے تھے سردار کے ساتھ جو بلوچ مکران پہنچے وہ شہسوار تھے اور بہت منظم بھی۔ سردار جلال خان نے حکومت قائم کرکے ا نہیں قومیت کا احساس دیا اور قبائلی نظام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔

پندرھوں صدی عیسویں میں بلوچوں کے دو قبیلوں رندو لاشار ساتھ ساتھ وسطی بلوچستان کی طرف بڑھے۔ جو لوگ ان کے مقابلے پر تھے یا وہ قتل کردیے گئے یا انھوں نے اطاعت قبول کر لی۔ آخر میر چاکر خان رند کے عہد میں سارا بلوچستان بلوچوں کے قبضے میں آگیا اور وہاں ان کی حکومت قائم ہو گئی۔

میر چاکر خان رند ایک عظیم بلوچ تھے انھوں نے خضدار فتح کیا درۂ مولا پر قبضہ کیا۔ کچھی کے میدانوں کو فتح کیا۔ درۂ بولان پر قبضہ کیا اور ڈھاڈر پر قبضہ کرنے کے بعد سبّی کو فتح کیا۔ اس کے بعد قبائلی حسد کی وجہ سے رند و لاشاریوں میں جنگ چھڑ گئی جو تیس سال تک جاری رہی۔ (ان دونوں قبائل کی جنگ نے بھی کئی داستانوں کو جنم دیاہے) اس جنگ کانتیجہ یہ نکلا کہ کئی بلوچ قبائل سندہ اور پنجاب میں ہجرت کرنے پہ مجبور ہو گئے اور بلوچ منتشر ہو گئے جس میں بلوچوں کا بہت نقصان ہوا۔

بلوچوں کا ذکر شہنشاہ بابر کی خود نوشت تزک بابری اور شہنشاہ ہمایوں کی بہن گلبدن بیگم کے تحریر کردہ ہمایوں نامے میں بھی موجود ہے۔

شہنشاہ بابر نے لکھا ہے “میں نے حیدر علم دار کو بلوچوں کی طرف بھیجا۔ بھیرے اور خوشاب سے دوسرے دن بلوچ گھوڑے کی ڈالی لے کر آئے او ر اطاعت کا وعدہ کیا”

1539 ء کو ہمایوں نے شیر شاہ سوری سے چونسہ کے مقام پر شکست کھائ اور دشت نوردی کے عالم میں اوکاڑے کے قریب ست گرہ پہنچا جہاں میر چاکر خان کے ایک امیر بخشو بلوچ نے شہنشاہ کو غلے کی سو کشتیاں امداد کے طور پر دیں۔

گلبدن بیگم نے جو ہمایوں کے ساتھ ہمایوں نامے میں بخشو بلوچ کی امداد کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ایران جاتے ہوئے شہنشاہ ہمایوں بلوچستان سے گذرا جب وہ نوشکی پہنچا تو ایک بلوچ سردار ملک خطی نے اسے پناہ دی اور اگلے دن اسے ایران کی سرحد پر چھوڑ کرآیا شہنشاہ نے انعام کے طور پر اسے ایک انمول ہیرا دیا۔ جب شہنشاہ ہمایوں نے تحت دہلی کے لیے ہندوستان پر چڑھائی کی تو اس کے لشکر میں چالیس ہزار بلوچ جوان تھے جن کا سالار میر چاکر خان رند کا بیٹا میر شاہ داد خان تھا۔

جنوبی پنجاب میں زیادہ بلوچ آباد ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچ پورے پاکستان میں آباد ہیں جن میں ساھیوال،اوکاڑہ،جھنگ، بھکر،میانوالی ،سرگودها ،خوشاب ،فیصل آباد، للہ، پنڈ دادنخان ،چکوال ،تلہ گنگ ،اٹک، فتح جنگ، راولپنڈی اور اسلام آباد میں کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ بلوچ قوم سب سے زیادہ بہادر اور دلیر قوم مانی جاتی ہے

بلوچ قوم نشینیلٹی ہولڈرز ممالک[ترمیم]

بلوچ قوم کن کن ممالک میں اپنی ایک حثیت رکھتی ہے تاریخ رکھتی ہے کن کن ممالک میں آج بھی اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں اثر رکھتے تھے یا ہیں۔

1. پاکستان 2۔ ایران 3۔ افغانستان 4۔ ترکمانستان 5۔ عمان 6۔ کویت 7۔ متحدہ عرب امارات 8۔ بحرین 9۔ یمن 10۔ سعودیہ 11۔ ہندوستان 12۔ قطر 13۔ اردن 14۔ کینیا (Mombasa) 15۔سوریا 16۔عراق ان ممالک میں بلوچ قوم نشینیلٹی ہولڈرز ہیں مطلب مقامی باشندے ہیں جن کا ان تمام ممالک میں ان ممالک کی تاریخ میں کردار ہے حصہ ہے اور آج بھی ان ملکوں میں بلوچ ایک مقام اور عزت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچ عراق، شام، مصر، لبنان، تاجکستان، روس اور کرد علاقوں میں آباد ہیں اور لوکل باشندے ہیں لیکن ان علاقوں میں کم تعداد میں ہیں۔ شروع میں عرب ریاستوں کی سیکیورٹی کو سنبھالنے اور ان ریاستوں کو پروٹیکٹ کرنے والے بلوچ تھے اور وقت کے ساتھ ساتھ لوکل عرب قبائل کے لوگوں کو عرب بادشاہوں نے سیکیورٹی فورسز کا حصہ بنانا شروع کیا کیونکہ عرب بادشاہوں کو فوری طور پر ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ایک بلوچ جیسی قوم کی ضرورت تھی کیونکہ فورا ایک مستند فوج بنانا کم وقت میں ناممکن تھا اس لیے پہلے بلوچ قوم جو قدرتی طور پر جنگجو صلاحیتوں والی تھی کی خدمات حاصل کرکے پھر وقت کے ساتھ عرب قبائل کو حصہ بناتے گئے کیونکہ کوئی بھی بادشاہ کسی ایسی قوم پر اعتبار نہیں کرسکتا جو کبھی بھی بغاوت کرکے پوری سلطنت کو اپنے قبضہ میں لے لے اس لیے کسی بھی قوم کو مکمل کنٹرول دینا کسی ملک کا اصول نہیں اور آج بلوچ کے ساتھ ہر عرب ریاستوں میں عرب قبائل موجود ہیں۔ لیکن ان ریاستوں کی حفاظت کرکے بلوچوں نے جو تاریخ رقم کی ہے وہ آج بھی سنہارے لفظوں میں موجود ہے اور بلوچ قوم کا مقام اور عزت آج بھی وہاں لوکل عرب قبائل سے زیادہ ہے۔

نوٹ: کرد اور بلوچ ایک قوم ہیں۔ ایک خون ہیں۔

بلوچی زبان[ترمیم]

بلوچی
بلوچی baločî Balóćí
مقامی پاکستان، ایران، افغانستان، ترکمانستان، م ع ا، عمان
مقامی متکلمین
(20 ملین cited 1998)
رسمی حیثیت
دفتری زبان
 پاکستان (بلوچستان (پاکستان)) (صوبائی) اور  ایران (بلوچستان صوبۂ ایران)
منظم ازبلوچی اکادمی (پاکستان)
زبان رموز
آیزو 639-2bal
آیزو 639-3balمشمولہ رمز
انفرادی رموز:
bgp – مشرقی بلوچی
bgn – رخشانی (مغربی ) بلوچی
bcc – جنوبی بلوچی
کرہ لسانی58-AAB-a> 58-AAB-aa (East Balochi) + 58-AAB-ab (West Balochi) + 58-AAB-ac (South Balochi) + 58-AAB-ad (Bashkardi)

بلوچی زبان (Balochi language) بلوچ قبائل کی زبان ہے۔ ہند یورپی خاندانِ السنہ کی ایک شاخ ہند ایرانی جو مروجہ فارسی سے قبل رائج تھی، کی ایک بولی ہے۔ پاکستانی صوبہ بلوچستان ایرانی بلوچستان، سیستان، کردستان اور خلیج فارس کی ریاستوں میں بولی جاتی ہے۔

بلوچی ادب[ترمیم]

بلوچی ادب کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا رند دور جو 1430ء سے 1600ء تک کے عرصے پر محیط ہے۔ دوسرا خوانین کا دور جس کی مدت 1600ء سے 1850ء تک ہے۔ تیسرا دور برطانوی دور جو 1850ء سے شروع ہوا اور اگست 1947ء میں تمام ہوا۔ چوتھا ہمعصر دور جس کا آغاز قیام پاکستان سے ہوا۔

کلاسیکی دور[ترمیم]

رند یا کلاسیکی دور میں بلوچ شعرا نے چار بیت طرز کی رزمیہ داستانیں اور مشہور بلوچ رومان نظم کیے۔ اُس دور کے شعرا میں سردار اعظم میرچاکرخان رند، میر بیو رغ رند، سردارگوہرام لاشاری، میر ریحان رند، شے مرید، میر شہدادرند، میر جمال رند اور شے مبارک قابل ذکر ہیں۔ خوانین قلات کے دور میں خان عبد اللہ خان، جیئند رند، جام درک ڈومبکی، محمد خان گیشکوری، مٹھا خان رند اور حیدربالاچانی شعرا نے شہرت پائی۔ برطانوی دور نے ملا فضل رند ،ملاقاسم رند، مست توکلی، رحم علی،پلیہ کھوسہ ,محمد علی چگھا،رحمن چاکرانی ,جوانسال بگتی، بہرام جکرانی، حضور بخش جتوئی ،ملاعبدالنبی رند، ملاعزت پنجگوری، نور محمد بمپُشتی، ملاابراہیم سربازی، ملا بہرام سربازی اور اسماعیل پل آبادی جیسے شعرا اور ادبا پیداہوئے۔

قیامِ پاکستان کے بعد[ترمیم]

قیام پاکستان کے بعد بلوچی ادب کی ترقی و فروغ کے لیے موثر کوشیشیں کی گئیں۔ 1949ء میں بلوچستان رائٹر ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا۔ 1951ء میں بلوچ دیوان کی تشکیل ہوئی اور بلوچی زبان کاایک ماہوار مجلہ اومان کا اجرا ہوا۔ کچھ عرصے بعد ماہنامہ بلوچی جاری کیا گیا۔ اس کے فوری بعد ماہنامہ اولس اور ہفت روزہ ’’دیر‘‘ شائع ہوئے۔ 1959ء میں بلوچی اکیڈیمی قائم ہوئی جس کے زیر اہتمام متعدد بلوچی کلاسیکی کتب شائع ہو چکی ہیں۔

ہمعصر بلوچی شعرا میں سیّد ظہور شاہ ہاشمی، عطا شاد، مراد ساحر، میرگل خان نصیر، مومن بزدار، اسحاق شمیم، ملک محمد طوقی، صدیق آزاد ،اکبر بارکزئی،مراد آوارانی، میرعبدالقیوم بلوچ، میر مٹھا خان مری اور ملک محمد پناہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ نئی پود میں امان اللہ گچکی، نعمت اللہ گچکی، عبد الحکیم بلوچ، عبد الغفار ندیم ،اللہ بخش بزدار،قاضى مبارک ،سيدخان بزدار،عيدالغفور لغارى، عزیز سنگھور اور صورت خان مری نے بلوچی ادب کے ناقدین کو کافی متاثر کیا ہے۔

بلوچ یوم ثقافت[ترمیم]

بلوچ یوم ثقافت ہر سال 2 مارچ کو پاکستان، ایران، افغانستان دبئی مسقط، بحرین،سعودی عرب اور بھارت میں شایان انداز سے منایا جا تا ہے۔ یوں تو ہر قوم کو اپنی ثقافت پہ ناز ہوتا ہے اس دن کو روایتی جذبہ سے مناتے ہیں۔ بلوچ مرد، خواتین اور بچے اپنے روایتی لباس میں ملبوس رنگا رنگ ریلیاں نکالتے ہیں۔ مختلف اجتماعات کا بندوبست ہوتا ہے اور جشن کاسماں ہوتا ہے۔ اس مخصوص دن کی تیاری بھر پور انداز سے ہوتی ہے تا کہ دنیا کو بلوچ ثقافت زبردست طریقے سے پیش کیا جائے۔ بے شک ثقافت ہر قوم کی غمازی کرتی ہے لیکن بلوچ جو غیور قوم ہیں اپنی ممتاز ثقافت کو ایک کشش ثقل کے طور پر استعمال کرتے ہیں تا کہ پوری بلوچ قوم یکجا ہو کر نازاں ہو سکے۔ برطانوی اور فرانسیسی ماہرین آثار قدیمہ کی سروے ٹیموں نے بلوچ ثقافت کو دنیا میں ایک منفرد، مخصوص اور دوسری قدیم ثقافتوں کے مقا بلے میں مضبوط ثقافت قرار دیا ہے۔ بلوچ قوم اپنی مہمان نوازی، جرأت اور ایفائے عہد کی وجہ سے مشہور ہیں۔ بلوچی خواتین اپنے حسین وجمیل ملبوسات خود تیار کرتی ہیں۔ بلوچ لباس اپنی خو بصورت کڑھا ئی اور ڈیزائن کے باعث قیمتی اور مشہور ہیں۔ بلوچ مرد بھی اپنے روایتی لباس زیب تن کرکے تلواروں کے سائے میں پر جوش بلوچی رقص پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پر شکوہ بلوچ ثقافت دنیا کی توجہ کا مرکز ہے اوربلوچ یوم ثقافت اس کا آئنہ ہے۔ بلوچ دین اسلام کی پیروی کرتے ہیں اور ان کی ثقافتی شناخت میں مذہب ایک اہم جز ہے انھیں یکجا کرنے اور متحدہ رہنے میں مدد دیتا ہے۔ جہاں بلوچی مردوں کے ڈر یس کوڈ کا تعلق ہے، مردوں کی مقبول پوشاک میں پگڑی شامل ہے، ڈ ھیلی چوڑے گھیرکی شلوار اور گھٹنوں سے نیچی ڈ ھیلی قمیص شوق سے پہنی جا تی ہے۔ بلوچ یوم ثقافت بلوچستان کے دارا لحکومت کوئٹہ کے علاوہ اسلام آبا د، لاہور،فیصل آباد،ملتان،ساھیوال،ڈیرہ غازی خان اور کراچی میں دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ یہ دن متنوع بلوچ ثقافت کو سمجھنے اور اجاگر کر نے کے لیے اچھا موقع ہے۔ اس میں بلوچ ادب اور موسیقی بھی مضبوط روایات اور ثقافتی اقدار کا حصہ ہیں۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ امریکی، جرمن اور چند یورپی سفارت خانے بھی بلوچ یوم تقریبات کا انتظام ہوتا ہے۔ بلوچ ثقافت کی عکاسی کی خاطر بلوچ کھانے، لوک گا نے اور رقص و موسیقی کا اہتمام کیا جا تا ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]

Vidya Prakash Tyagi۔ Martial Races of Undivided India۔ Gyan Publishing House۔ صفحات 7–9۔ آئی ایس بی این 8178357755۔ مورخہ 6 جنوری 2019 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 نومبر 2014۔

Central Intelligence Agency۔ "The World Factbook: Ethnic Groups"۔ مورخہ 6 جنوری 2019 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 نومبر 2014۔
Iran, Library of Congress, Country Profile . Retrieved December 5, 2009.
Joshua Project۔ "Baloch, Southern of Oman Ethnic People Profile"۔ Joshuaproject.net۔ مورخہ 6 جنوری 2019 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-08-01۔
Languages of Oman, Ethnologue.com . Retrieved December 5, 2009.
Oman, CIA World Factbook . Retrieved December 5, 2009.
Afghanistan, CIA World Factbook . Retrieved December 5, 2009.
Languages of United Arab Emirates, Ethnologue.com (retrieved 5 December 2009)
Baloch, Eastern of India Ethnic People Profile. Joshuaproject.net (2008-08-01). Retrieved on 2013-07-12.
KOKAISLOVÁ, Pavla, KOKAISL Petr. Ethnic Identity of The Baloch People. Central Asia and The Caucasus. Journal of Social and Political Studies. Volume 13, Issue 3, 2012, p. 45-55., ISSN 1404-6091
Baloch people in Turkmenistan (1926–1989), http://beludzove.central-asia.su
Mehrdad Izady۔ 2013 of Religion in the Gulf http://gulf2000.columbia.edu/images/maps/GulfReligionGeneral_lg.png%7Ctitle=Demography of Religion in the Gulf تحقق من قيمة |url= (معاونت)  مفقود أو فارغ |title= (معاونت)[مردہ ربط]

|}