ہدٰی مثنٰی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ہدٰی مثنٰی
معلومات شخصیت
پیدائش (1994-10-28) اکتوبر 28, 1994 (عمر 29 برس)
ہیکینسیک، نیو جرسی, ریاستہائے متحدہ امریکا[1]
رہائش الحول پناہ گزیں کیمپ
شہریت متنازع
عملی زندگی
وجہ شہرت سوریہ کا سفر کرنا تاکہ داعش میں شمولیت ہو سکے اور اس کی حمایت کی جا سکے

ہدٰی مثنٰی (انگریزی: Hoda Muthana) (پیدائش 28 اکتوبر، 1994ء) ایک عورت ہے جو نیو جرسی میں ایک یمنی سفارت کار (حالانکہ والد کی دختر کی ولادت کے وقت سفارتی حیثیت پر اب تنازع ہے) کو پیداہوئی تھی جو داعش میں شامل ہونے کے لیے نومبر 2014ء روانہ ہوئی تھی، جس کے لیے اس نے اس پیسے کا استعمال کیا جسے والدین نے اس کے کالج کی پڑھائی کے لیے بچا رکھا تھا۔ اس نے الاباما میں خود کے گھر کو ایک آن لائن رابطے کی ہدایت پر چھوڑ دیا اور اس علاقے کی طرف روانہ ہوئی جس پر جہادیوں کا قبضہ تھا۔ اس نے جنوری 2019ء میں اس نے اتحادی فوجوں کے آگے سوریہ میں خود کو سپرد کیا اور اسی سال فروری میں ریاستہائے متحدہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واپسی کی گزارش کی۔ تاہم ٹرمپ نے وزیر خارجہ ریاستہائے متحدہ امریکا مائک پومپیؤ سے اسے داخل ہونے پر روک لگانے کو کہا۔

نیو یارک ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مثنٰی نے انکشاف کیا کہ کس طرح اس جیسے نو آمد شدہ خاتون ہمدردوں کو اولًا سیل فون سپرد کرنے پڑتے تھے، پھر انھیں مقفل بیرک تک محدود کیا جاتا تھا، جہاں انھیں جہادوں لڑاکوں کے لیے موجود امکانی دلہنوں کے طور پیش کیا جاتا تھا۔ [2] مثنٰی نے اولین ازدواجی سفر کا آغاز سوہان رحمان سے شادی کر کے کیا جو ایک آسٹریلیائی جہادی تھا۔ رحمان کی عرفیت ابو جہاد الآسٹریلی تھی۔ یہ شادی دسمبر 2014ء میں ہوئی۔ اس کا ٹویٹر کھاتہ @ZumarulJannah ببانگ دہل امریکا کو بزدلوں کا وطن قرار دیتا تھا اور اس بات کی وکالت کرتا تھا کہ اس ملک کے شہریوں پر حملے کیے جانے چاہیے۔ اس کے علاوہ وہ چاہتی تھی کہ امریکی شہری داعش کے زیر قبضہ علاقہ جات کا دورہ کریں اس نو تشکیل شدہ خلافت کی پر زور حمایت کریں۔ اب مثنٰی کا دعوٰی ہے کہ کسی نے اس کے ٹویٹر کھاتے پر قبضہ کر لیا تھا اور انتہا پسندانہ ٹویٹ کسی اور کی جانب سے اس کے کھاتے سے پوسٹ کیے گئے تھے۔[3] سوریہ میں رحمان مارچ 2015ء مارا گیا۔[4] اس کے بعد وہ تونس کے ایک لڑاکے سے شادی کی اور اور ایک لڑکے کو جنم دیا۔[2]

مثنٰی کا بیان ہے کہ اس نے اس دور میں خلافت سے اپنی وابستگی پر سوال کیے۔ اس کا دوسرا شوہر موصل میں لڑائی کے دوران 2017ء میں مارا گیا۔ وہ الرقہ سے مدائن چلی گئی۔ پھر وہاں سے ہجین گئی اور وہاں سے مشرقی سوریہ روانہ ہو گئی۔اس کے بعد وہ ایک تیسرے آدمی سے شادی کی اور ایک طلاق بھی جھیل گئی۔ مثنٰی نے کیمبرلی گوین پولمین سے دوستی کرلی جو کینیڈا اور ریاستہائے متحدہ کی مشترکہ شہری ہے۔ یہ اس وقت ہوا جب جہادی دائرہ سمٹ کر چند مربع میل تک رہ گیا تھا۔ غذا اس قدر کم تھی کہ ان لوگوں کو ابلتی گھاس تغذیہ کے لیے لینا پڑ رہا تھا۔ ان لوگوں نے یہ طے کیا کہ وہ اس دائرے سے بچ کر نکل کر آئیں گے، حالانکہ پولمین کا کہنا تھا کہ پالنا بدلنے کی اس کی پہلی کوشش میں اسے گرفتار کیا گیا، اذیتیں دی گئی اور آبرو ریزی کی گئی۔ مثنٰی شفا سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی اور اس نے امریکی فوجوں کے آگے 10 جنوری 2019ء کو خود کو سپرد کیا۔ مثنٰی اور پولمین، دونوں کو کو الحول پناہ گزین کیمپ میں رکھا گیا۔[2] ان دونوں نے امریکا لوٹنے کی خواہش ظاہر کی۔ [5][1]

بزفیڈ نے مثنٰی اور اس کے والد اور ایک دوست کا انٹرویو 2015ء میں لیا تھا۔ ان لوگوں نے یہ اطلاع دی کہ مثنٰی نے اپنے والد سے ایک سیل فون حاصل کرنے کے بعد ایک ٹویٹر کھاتہ تخلیق کیا تھا جس کے بارے میں والدین کو کچھ بھی علم نہیں تھا۔ اس کے کئی ہزار مریدین (فالوئرس) ہوئے۔ انٹرویو لیے گئے دوستوں کا بیان تھا کہ شاید وہ ان چند لوگوں میں سے ایک تھے جن سے وہ حقیقی دنیا میں جانتی تھی۔ بزفیڈ نے اس کے دوست کی اس خواہش کا احترام کیا جو گمنام رہنا چاہتی تھی۔ اس نے یہ کہا کہ مثنٰی کی حقیقی دنیا کی شخصیت اور اس کے ٹویٹر کھاتے کی شخصیت میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اس کی مثالیں مثنٰی کے پہناوے میں دکھتی تھی جس میں وہ جلباب اور عبایہ آٹھویں جماعت سے پہنتی تھی اور زیادہ ستر پوشی کا لباس حال کی اپج تھی۔ [6]

جنوری 2016ء میں اوباما انتظامیہ نے مثنٰی کے پاسپورٹ کو کالعدم قرار دیا اور ایک خط میں کہا کہ وہ حق پیدائش کی بنا پر شہری نہیں ہے کیونکہ اس کے والد کی سفارتی وابستگی کا اختتام فروری 1995ء تک سرکاری طور پر قلمبند نہیں ہوا تھا۔[7]

صدر ٹرمپ نے وزیر خارجہ مائک پومپیؤ کو ہدایت دی کہ اسے ملک واپس ہونے سے روکا جائے۔ پومپیؤ نے ایک صحافتی بیان جاری کیا کہ: " مسماۃ ہدٰی مثنٰی ریاستہائے متحدہ کی شہری نہیں ہے اور انھیں ریاستہائے متحدہ میں داخل ہونے نہیں دیا جائے گا۔ اس کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے، نہ ہی کوئی رائج امریکی پاسپورٹ ہے، نہ پاسپورٹ کا حق ہے، نہ امریکا سفر کرنے کا کوئی ویزا ہے۔ ہم سختی سے سبھی امریکی شہریوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ سوریہ کا سفر نہیں کریں۔"[8]

اسٹیفین ولاڈیک، جو یونیورسٹی آف ٹیکساس اسکول آف لا کے پروفیسر ہیں، کہتے ہیں کہ: "میں حکومت کی اس دلیل سے اتفاق کرتا ہوں کہ وہ ایک سفارت کار کے یہاں پیدا ہوئی ہے جو سرکاری فرائض کے سلسلے میں ریاستہائے متحدہ میں بر سر خدمت تھا اور اس وجہ سے اسے حق پیدائش کی شہریت نہیں مل سکتی۔ یہ قانونی معاملے کے طور پر صحیح ہے اگر واقعی یہی ہے، مگر صحیح نہیں ہے چونکہ حکومت ایسا کہتی ہے۔"[9] اس کے وکیل چارلی سویفٹ، جو قومی سلامتی قانون اور دستوری قانون کے ماہر ہیں، حکومت کی حق پیدائش شہریت کی دلیل سے عدم اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا دعوٰی ہے کہ مثنٰی کے والد اپنے سفارتی عہدے سے اس کی پیدائش سے ایک مہینہ پہلے سبک دوش ہوئے تھے۔[1][10] 21 فروری، 2019ء کو مثنٰی کے والد احمد علی مثنٰی نے ایک ہنگامی قانونی مقدمہ دائر کیا جس میں وفاقی حکومت سے مثنٰی کی شہریت کی تصدیق کرنے اور اسے ریاستہائے متحدہ میں داخل ہونے کی درخواست کی۔ [11]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ Rukmini Callimachi, Alan Yuhas (فروری 20, 2019)۔ "Alabama Woman Who Joined ISIS Can't Return Home, U.S. Says"۔ نیو یارک ٹائمز۔ صفحہ: A7 
  2. ^ ا ب پ Rukmini Callimachi, Catherine Porter (2019-02-19)۔ "2 American Wives of ISIS Militants Want to Return Home"۔ نیو یارک ٹائمز۔ al Hawl Camp, Syria۔ صفحہ: A1۔ 2019-02-20 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ Ms. Muthana and Ms. Polman acknowledged in the interview here that many Americans would question whether they deserved to be brought back home after joining one of the world’s deadliest terrorist groups. 
  3. Martin Chulov, Bethan McKernan (2019-02-17)۔ "Hoda Muthana 'deeply regrets' joining Isis and wants to return home"۔ دی گارڈین۔ al-Hawl, Syria۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 فروری 2019۔ For many months in 2015, her Twitter feed was full of bloodcurdling incitement, and she says she remained a zealot until the following year. She now says her account was taken over by others. 
  4. Melissa Davey (2015-03-18)۔ "Australian Isis recruit Suhan Rahman reportedly killed fighting in Syria"۔ The Guardian (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 فروری 2019 
  5. Anna Beahm (2019-02-19)۔ "Alabama woman who joined ISIS 'ready to face the consequences'"۔ AL.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 فروری 2019۔ Muthana is currently the only American among an estimated 1,500 foreign women and children inside the sprawling al-Hawl refugee camp of 39,000 people in northern Syria, according to a report from The Guardian. She also has an 18-month-old son. 
  6. Ellie Hall (2015-04-17)۔ "Gone Girl: An Interview With An American In ISIS"۔ Buzzfeed۔ ہوور، الاباما۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 فروری 2019۔ A naturalized U.S. citizen who fled Yemen with his wife more than 20 years ago, Mohammed watched from across an ocean as his country descended into civil war. As each of his five children was born, far away from falling bombs and tribal violence, he thanked God for their lives in the United States. 
  7. ‘Rule by tyranny’: American-born woman who joined ISIS must be allowed to return, lawsuit says, Washington Post, فروری 22, 2019
  8. "Statement on Hoda Muthana"۔ U.S. Department of State (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 فروری 2019 
  9. Kim Hjelmgaard، Michael Collins۔ "President Trump: ISIS wife Hoda Muthana won't be allowed to return to United States"۔ USA TODAY (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 فروری 2019 
  10. David Shortell, Jennifer Hansler, Michelle Kosinski (2019-02-20)۔ "Trump says Alabama woman who joined ISIS should not return to US"۔ سی این این۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 فروری 2019۔ According to Shibly, Muthana was born in New Jersey in 1994. Her father, who had been in the US as a Yemeni diplomat, stepped down from his diplomatic role months before Muthana's birth, Shibly added.