محمد عثمان دامانی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمد عثمان دامانی
معلومات شخصیت
پیدائش 1820ء کی دہائی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ڈیرہ اسماعیل خان  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 22 شعبان 1314 ہجری (26 جنوری 1897)
شہریت پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

خواجہ محمد عثمان دامانی سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے عظیم بزرگوں میں شمار ہوتے ہیں۔

ولادت[ترمیم]

حاجی محمد عثمان دامانی کی ولادت باسعادت سنہ 1244ھ سلسلہ کوہ سلمان ڈیرہ اسماعیل خان کے دامن میں واقع قصبہ لونی میں ہوئی۔ یہ قصبہ افغانوں کے مشہور قبیلہ گنڈہ پور کا شہر ہے۔اور آپ درانی قبیلہ کی اچکزئی شاخ سے تعلق رکھتے تھے آپ کا سلسلہ نسب چار واسطوں سے قاضی قضاة قندھار قاضی ملا شمس الدین المعرف ملا شمس سے جا ملتا ہے۔ جناب ملا شمس جنگ پانی پت کے مشہور غازی احمد شاہ ابدالی کے دور حکومت میں قاضی القضاة کے منصب جلیلہ پر فائض تھے۔حاجی دوست محمد قندھاری تک رسائی اپنے ماموں مولانا نظام الدین صاحب جو حاجی صاحب کے سرپرست تھے کے ذریعے ہوئی۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

آپ دو بھائی تھے۔ محمد عثمان دامانی اور محمد سعید۔ آپ کی عمر ابھی بمشکل پانچ چھ برس ہوئی کہ آپ کے والد محمد جان راہی عالم بقا ہوئے۔ آپ کی والدہ نے اپنی مکمل توجہ ان دو بچوں کی پرورش کے لیے وقف کردی اور کفالت کا ذمہ آپ کے ماموں صاحبان نے اٹھایا۔ جب سن شعور کو پہنچے تو ایک دینی مدرسہ میں آپ کو داخل فرمادیا گیا۔ یہاں آپ نے قرآن حکیم اور مروج ابتدائی دینی علوم صرف نحو، اصول فقہ اور تفسیر کی کتابیں پڑھیں۔ جب کہ آپ کے چھوٹے بھائی محمد سعید اپنے ماموں جو قوم استرانہ میں قاضی و مفتی تھے کے زیر سایہ حصول علم میں مشغول تھے۔

حاضری مرشد[ترمیم]

ایک بار اپنے چھوٹے بھائی کو پہننے کے کپڑے دینے کی غرض سے کھوئے بہارہ جہاں آپ کے ماموں مدرس تھے، تشریف لے گئے۔ واپسی میں ماموں صاحب نے کہا کہ چودھواں کا قصبہ تمھارے راستے میں پڑتا ہے، یہاں میرے پیر و مرشد حاجی دوست محمد قندھاری قیام پزیر ہیں، تم ان کی خدمت میں میرے نیاز مندانہ تسلیمات عرض کرنا اور یہ بھی عرض کرنا کہ آپ کے درویش جس کام کی غرض سے میرے پاس آئے تھے وہ کل واپس خدمت اقدس میں حاضر ہوجائیں گے۔ قصبہ چودھواں میں مقیم حاجی صاحب کی خدمت میں ایک راہ چلتے مسافر کی طرح حاضر ہوئے اور اپنے ماموں کا پیغام گوش گزار کرکے واپس اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔ اگرچہ اس حاضری کا مقصد صرف پیغام رسانی تھی نہ کہ عقیدت و ارادت مندی اور اخلاص و زیارت، مگر یہ مختصر سی حاضری بھی وہ رنگ لائی کہ دنیا دنگ رہ گئی چنانچہ آپ واپس مدرسہ تشریف لاکر حصول علم میں مشغول ہو گئے۔ لیکن نگاہ ولی کامل کی تاثیر رنگ لائی اور آپ کا علم ظاہری سے دل اچاٹ ہو گیا۔ ذوق و شوق الٰہیہ نے آپ کو گھیر لیا اور ہر وقت استغراق کی حالت طاری ہونے لگی کہ کتاب و مطالعہ یکسر ختم ہو گئے۔ اس حالت میں آپ اپنے استاد محترم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا عرض کر دیا اور یہ بھی عرض کر دیا کہ اب مجھ سے تحصیل علم نہیں ہو سکتی۔ محبت الٰہیہ کا بہت غلبہ ہے، میں نے مصتمم ارادہ کر لیا ہے کہ کسی اہل اللہ کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت سے مشرف ہوجاؤں۔ استاد صاحب نے فرمایا کہ ہدایہ ابھی تھوڑا باقی ہے، کچھ دن توقف کر لیں کہ کتاب ہدایہ ختم ہوجائے تو پھر دونوں اکٹھے چلیں گے اور ایک ساتھ ہی ایک ہی شیخ کے دست حق پرست پر بیعت کریں گے۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ ہدایہ ختم ہونے میں کچھ دیر ہے اور مجھ میں یارائے صبر نہیں۔ میرا اضطراب حد درجہ بڑھ چکا ہے، ہر وقت استغراق اور محویت طاری رہتی ہے، میں کل بفضلہ تعالیٰ روانہ ہوجاؤں گا۔اس گفتگو کے بعد سبق اور درس چھوڑ کر دوسرے دن آپ بیعت کے ارادے سے چودھواں کی جانب روانہ ہوئے۔ جب موسیٰ زئی شریف کی نہر کے کنارے پہنچے تو نسبت باطنی کا اتنا شدید غلبہ ہوا کہ سارے جسم میں بسبب حرارت ذکر سخت گرمی پیدا ہو گئی جو ناقابل برداشت تھی۔ جوں ہی نہر پر پہنچے تو کپڑوں سمیت نہر میں کود پڑے اور کافی دیر تک نہر کے پانی میں بیٹھے رہے تاکہ کچھ ٹھنڈا ہوکر چودھواں تک چلنے کے قابل ہوجائیں۔ بالآخر 8 جمادی الثانی سنہ 1266ھ بوقت عصر حاجی دوست محمد قندھاری کی خدمت میں پہنچے۔ قدمبوسی کے بعد بیعت کی درخواست کی۔ آپ قبلہ نے انکار فرمایا کہ فقیری اختیار کرنا بہت مشکل کام ہے۔ لیکن پھر ان کے مسلسل اصرار پر بعد نماز مغرب آپ کو بیعت فرمایا۔ بیعت کے وقت آپ پر عجیب و غریب حالت طاری ہوئی کہ زبان بیان سے قاصر ہے۔ بیعت سے پہلے اگرچہ آپ مروجہ علوم سے فارغ ہو چکے تھے مگر پھر بھی بیعت کے بعد آپ نے اپنے پیر و مرشد سے علم حدیث میں مشکواة اور صحاح ستہ، علم اخلاق میں احیاء العلوم کامل، علم تصوف میں مکتوبات امام ربانی اور مکتوبات حضرت عروة الوثقیٰ خواجہ معصوم کی تینوں جلدیں اور دیگر تصوف کی مستند اور مروج کتابیں بھی کماحقہ اور اجازت کامل کے ساتھ حاجی دوست محمد قندھاری ہ سے پڑھیں۔

خلافت و اجازت[ترمیم]

حاجی صاحب کے خدا شناس خلفاء کی کمی نہ تھی لیکن حاجی صاحب کا قلبی تعلق اور روحانی اعتماد اور باطنی رسوخ آپ سے اس قدر زیادہ تھا کہ علم حدیث و علم تفسیر اور علم اخلاق و علم سیر اور علم تصوف کی مخصوص کتابیں خصوصی تربیت کے ساتھ آپ کو پڑھائیں اور ساتھ ہی ان کی سند اپنی مہر خاص سے مزین فرماکر حضرت دامانی کو دی۔ سلوک اور تصوف کے تمام مقامات تفصیل و تحقیق کے ساتھ خصوصی عنایت سے طے کروائے اور فیوضات و برکات سے مالامال فرمایا اور تمام مشہور اور سلسلہ ہائے طرق عالیہ میں اجازت مطلقہ عنایت فرماکر خلافت کے بلند ترین اعزاز سے مشرف فرمایا۔

سفر حرمین شریفین[ترمیم]

22 شوال المکرم سنہ 1284ھ کو حاجی دوست محمد قندھاری اس عالم فانی کو الوداع کہہ کر عالم جاودانی کی جانب روانہ ہوئے تو خواجہ عثمان دامانی مسند ارشاد پر جلوہ افروز ہوئے۔ مسند ارشاد پر جلوہ افروز ہونے کے تین سال بعد ہی آپ کے دل میں حرمین شریفین کی زیارت اور حج مبارک ادا کرنے کا شوق دامنگیر ہوا۔ چنانچہ تقریبًا 1288ھ میں دامانی چند رفقا سمیت عازم زیارت حرمین شریفین ہوئے۔

شریعت کی پابندی[ترمیم]

سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کی بنیاد ہی شریعت مطہرہ کی کمال پابندی اور سنت نبویہ کی پیروی کامل پر رکھی گئی ہے۔ چنانچہ عثمان دامانی نے شریعت پر کمال پابندی اور سنت نبویہ کے کمال اتباع کو اپنا نصب العین اور دستور زندگی ایسا بنایا کہ کردار و گفتار، نشست و برخواست اور خور و نوش، وضع قطع اور لباس وغیرہ غرض کی زندگی کے ہر شعبہ میں شرعی احکام اور سنت نبویہ کی پابندی اور کامل اتباع کو لازم قرار دیا، یہاں تک کہ بال بھر بھی انحراف کو حرام سمجھتے اور اس سے تجاوز نہ فرماتے۔

خلفاء[ترمیم]

آپ کے خلفاء میں خواجہ غلام حسن پیر سواگ مولانا سید لعل حسین شاہ ہمدانی بلاولی، مولانا محمود شیرازی، قاضی عبدالرسول انگوی، مولانا قاضی قمرالدین محدث چکڑالہ، مولانا غلام حسین کانپوری، مولانا عبد الرحمان بگھاروی، بگھار شریف، مولانا عبد الرحمان پشاوری اور سید امیر شاہ گیلانی گنجیال شریف، وغیرہ ہیں جو آپ کے فیضان کے امین ہیں اور اس سلسلے کی ترویج و اشاعت میں اپنا کردار نبھا رہے ہیں۔ [1]

وصال[ترمیم]

عثمان دامانی کئی امراض کے دائمی مریض تھے۔وصال سے ایک سال پہلے جو احباب و مریدین زیارت و ملاقات کے لیے حاضر ہوتے تو ان سے اکثر فرماتے ”فقیر کی اس ملاقات کو آخری ملاقات سمجھو، کیونکہ حیات مستعار پر کوئی اعتبار نہیں۔ آپ صاحبان کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اوقات کو ذکر و فکر، اطاعت و عبادت میں صرف کرو۔22 شعبان سنہ 1314ھ کو منگل کے روز بوقت اشراق عثمان دامانی اس عالم ناپائیدار سے تعلق توڑ کر خالق حقیقی کی جانب عازم سفر ہوئے۔[2]

حوالہ جات[ترمیم]