صابر کلوروی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ڈاکٹر صابر کلوروی

ادیب
ولادت9 اکتوبر 1949ء ایبٹ آباد
ابتداایبٹ آباد، پاکستان
وفات11مارچ 2008ء پشاور
اصناف ادبتحقیق، تدریس
ذیلی اصنافاقبالیات
تعداد تصانیف24
معروف تصانیفتاریخِ تصوّف(اقبال کی غیر مطبوعہ کتب کی دریافت)،داستانِ اقبال(یادِ اقبال کی مکرر ّ اشاعت) ،یادِ اقبال
ویب سائٹhttp://pdshk.blogspot.com/


ڈاکٹر صابر کلوروی اردو محقق، نقاد،علامہ اقبال کے عاشق اور اقبالیات کے ثقہ محقق تھے، انھوں نے اقبالیات میں جو اضافے کیے اس کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انھیں بعد از وفات تمغا امتیاز سے نوازا، وہ اس وقت ایبٹ آباد میں اپنے گھر قلندرآباد کے شہر خموشاں میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔.............خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

ابتدائی زندگی[ترمیم]

ڈاکٹر صابر کلوروی 31 اگست 1950ء کو شاہ میر خان کے ہاں کلور میں پیدا ہوئے جو بانڈی پیرخان کے پاس ایبٹ آباد سے کچھ دور واقع ہے۔ ان کے والد محترم نے دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے محاذ پر جنگ میں شرکت کی تھی۔ وہ جہاندیدہ شخص تھے اورتعلیم کی اہمیت سے واقف تھے۔ اس لیے اپنے سب بچوں کواعلے ٰ تعلیم دلائی۔۔ صابرکلوروی صاحب نے مڈل قلندرآبادسے1963ء میں اور میٹرک مانسہرہ سے 1965ء میں پاس کیا۔ اس کے بعدگورنمنٹ کالج ایبٹ آباد میں داخل ہو گئے اور وہیں سے 1967ء میں ایف۔ ایس سی اور1969ء میں بی۔ ایس سی پاس کی۔ بی۔ ایس سی پاس کرنے کے بعدآپ نے بنک کی ملازمت اختیارکرلی۔ اس دوران آپ نے1975ء میں ایم اے(اردو)کا امتحان پاس کر لیا۔ اب آپ کی کوشش تھی کہ کسی کالج میں بطورلیکچررتقرری ہو جائے۔

اقبالیات[ترمیم]

صابرکلوروی دوران تعلیم ہی میں کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے۔ اس سلسلے کے بہت سے مضامین مختلف ماہوار رسالوں اور ڈائجسٹوں میں شائع ہوتے رہتے تھے۔ ایسے ہی کچھ منتخب مضامین کا ایک مجموعہ مکتبہ شاہکار،لاہورسے ” سائنس سے بھی عجیب تر“ کے نام سے 1975ء میں شائع ہوا۔ ایم اے (اردو) کرنے کے بعدانھوں نے بنک کی ملازمت چھوڑ دی اور لکچررمقرر ہو گئے۔ اس حیثیت سے انھوں نے لورہ،ایبٹ آباد،مانسہرہ اورغازی میں خدمات سر انجام دیں۔ اس دوران میں ان کارحجان اقبالیات کی طرف ہو چلا۔ چنانچہ انھوں نے محنت سے اقبال کی سوانح عمری”یاد اقبال“ کے نام سے مرتب کی جسے مکتبہ شاہکار،لاہورنے جریدی کتب کے سلسلے میں15/اپریل1977ء کوشائع کیا۔(کتاب کانظرثانی شدہ اڈیش اسی ادارے نے 1982ء میں کراچی سے ”داستان اقبال“ کے نام سے شائع کیا)۔ پھرآپ نے”اشاریہٴ مکاتیب اقبال“ مرتب کی جو1984ء میں اقبال اکادمی پاکستان،لاہور سے چھپی۔ اقبالیات ہی کے سلسلے کی تیسری کتاب”اقبال کے ہم نشیں“کے نام سے مرتب کی جسے مکتبہ خلیل،لاہورنے1985ء میں شائع کیا۔ ان کی محبت کامرکزومحوراُردوزبان و ادب،اقبالیات اوران کاخاندان تھے۔ اردوزبان و ادب سے محبت کی بناپرڈاکٹرعطش درانی نے انھیں” اردو کا ملنگ“کہا۔ جہاں تک اقبالیات سے محبت اورشغف کاتعلق ہے،وہ ان کے اس کام سے ظاہر ہے جوانھوں نے اس میدان میں سر انجام دیاہے اورجووہ کرنا چاہتے تھے۔ مشفق خوا جہ مرحوم نے ان کے پاس علامہ اقبال کی دونادربیاضیں دیکھ کر کہاتھاکہ ان دوبیاضوں کی وجہ سے تحسین فراقی صاحب نے انھیں”ملا دو بیاضا“ کاخوبصورت نام دیا ہے۔

پی ایچ ڈی[ترمیم]

اقبالیات سے ان کے شوق اورشغف کو دیکھتے ہوئے ان کے استادوں اور بھی خواہوں نے انھیں اقبالیات ہی میں پی ایچ ڈی کرنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کی صلاح اور مشورے سے ان کی پی ایچ ڈی کا موضوع ”باقیات شعراقبال کاتحقیقی وتنقیدی مطالعہ“ قرار پایا۔ انھوں نے اپناتحقیقی مقالہ ہاشمی صاحب ہی کی راہنمائی میں پایہٴ تکمیل کو پہنچایا اوربالآخرپنجاب یونیورسٹی نے1989ء میں انھیں پی ایچ ڈی کی سندعطا کردی۔ اگرچہ ان کایہ تحقیقی مقالہ ہنوزشائع نہیں ہوا لیکن اس سلسلے میں انھوں نے اقبال کا بہت ساغیر مطبوعہ اور ردّ کردہ کلام اکٹھاکرلیاتھا جسے انھوں نے” کلیات باقیات شعرِ اقبال“ کے نام سے 2004ء میں اقبال اکادمی پاکستان،لاہورسے شائع کیا۔

شعبہ اردو جامعہ پشاور[ترمیم]

ستمر1994ء میں انھوں نے پشاوریونیورسٹی کے شعبہ اُردومیں شمولیت اختیارکی۔ دسمبر2000ء میں وہ تین سال کے لیے گردشی نظام کے تحت (By Rotation) صدرشعبہ منتخب ہوئے۔ بعد میں دسمبر2006ء میں وہ مستقل طورپرصدرشعبہ اُردومقرر ہو گئے۔ اس حیثیت میں انھوں نے شعبے کے لیے تادمِ آخر انتھک محنت کی اوریادگارکام سرا نجام دئے۔ شعبہ اردو کے مجلہ خیابان کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ انھوں نے باڑہ گلی کے مقام پر اردو زبان و ادب کے حوالے سے سیمنار کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے علاوہ نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

کتب خانہ[ترمیم]

ردوزبان سے محبت ہی توتھی کہ انھوں نے ایبٹ آبادکے بغل قلندرآباد میں ایک اشاعتی ادارہ ” سرحد اردو اکیڈیمی“ قائم کیا۔ اس ادارے سے اردو زبان و ادب اور اقبالیات کے سلسلے میں بہت سی علمی اور تحقیقی کتابیں شائع ہوئیں۔ ان میں نظیرصدیقی مرحوم کی خود نوشت ”سویہ ہے اپنی زندگی“، بشیراحمدسوز کی ”اقبال اور ہزارہ“، پروفیسرسیدیونس شاہ صاحب کی ”مرزامحمودسرحدی:فن اورشخصیت“ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اوربھی کئی مفیداورعلمی کتب اس ادارے سے شائع ہوئیں۔ صابر صاحب کو کتاب سے عشق تھا اس لیے انھوں نے سالہا سال کی انتھک محنت سے کتابوں کا ایسا ذخیرہ جمع کیا جو صوبہ سرحد میں ذاتی کتب خانوں میں ایک بڑا کتب خانہ تصور کیا جاتا ہے۔ آج بھی سینکڑوں محقق اور نقاد ان کے اس کتب خانے سے مستفید ہوتے ہیں۔

انتقال[ترمیم]

21 مارچ 2008 میں دل کا دورہ پڑنے ان کا انتقال ہوا۔ ان کی وفات کے بعد انھیں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔

تصانیف[ترمیم]

1) سائنس سے بھی عجیب تر 1975ء مکتبہ شاہکار،لاہور

2) یادِ اقبال 1977ء مکتبہ شاہکار،لاہور

(اس کانظرثانی شدہ اڈیشن اسی ادارے نے1982ء ”داستان اقبال“ کے نام سے شائع کیا)

3) نقوش اردو (بالشتراک ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی)1983ء علمی کتب خانہ،لاہور

4) عروض وبدیع 1984ء علمی کتب خانہ،لاہور

5) اشاریہٴ مکاتیب اقبال 1984ء اقبال اکادمی پاکستان،لاہور

6) اقبال کے ہم نشیں 1985ء مکتبہ خلیل،لاہور

7) تاریخ تصوف (تصنیف اقبال کی تدوین) 1985ء مکتبہ تعمیر انسانیت،لاہور

(علامہ اقبال کی غیر مطبوعہ کتاب کے دوباب انھوں نے دریافت کیے اوران پر حواشی لکھے۔ اپنی اس کاوش پر نظرثانی اوراس کی مزید بہتر تدوین بقول ڈاکٹ رہاشمی صاحب”ان کے پرعزم منصوبوں میں شامل تھی“ )اس کتاب کی کل آمدنی ایوان اقبال لاہورکوہدیہ کردی تھی۔

8) کلیاتِ باقیاتِ شعر اقبال 2004ء اقبال اکادمی پاکستان،لاہور

9) پشاوریونیورسٹی کے مجلے ”خیابان“ کے مختلف نمبروں کی ترتیب وتدوین مثلاً اصنافِ سخن نمبر،اصنافِ نثر نمبر،صوبہ سرحد میں اردو ادبیات نمبر اور نوادراقبال وغیرہ۔

10) علاوہ ازیں ان کے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مقالات بھی ایک معقول تعداد میں موجود ہیں۔

بیرونی روابط[ترمیم]