محمد اکبر علی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مولانا محمد اکبر علی چشتی کا شمار میانوالی کی اہم بزرگ ہستیوں میں ہوتا ہے۔ آپ خواجہ احمد میروی کے خلفیہ خاص تھے اور ان کے سلسلہ چشتیہ کی اشاعت میانوالی میں کی۔ آپ نے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا اور مہاجرین کی خوب مدد کی۔ آپ کی دینی خدمات میں سب سے اہم جامعہ اکبریہ کا قیام ہے۔ آپ کے بعد آپ کے جانشین آپ کے بیٹے مولانا غلام جیلانی ہوئے۔
محمد اکبر علی چشتی
ذاتی
پیدائش(1884ء)
وفات(29 دسمبر 1956ء)
مذہباسلام
والدین
  • مولانا غلام حسین (والد)
سلسلہچشتیہ
مرتبہ
مقاممیانوالی
دورانیسیویں، بیسویں صدی
پیشروخواجہ احمد میروی
جانشینمولانا غلام جیلانی

ولادت[ترمیم]

آپ کا نام گرامی محمد اکبر علی اور والد گرامی کا اسم غلام حسین تھا۔ آپ کی پیدائش 1884ء میں میانوالی میں ہوئی۔

ابتدائی تعلیم[ترمیم]

محمد اکبر علی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم غلام حسین سے حاصل کی اور قرآن پاک حفظ کیا۔ اس کے بعد مولانا نور الزمان (رسول نما) سے کوٹ چاندنہ میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد چکی شیخ جی کے مقام پر مولانا میاں محمد کی خدمت میں حاضر ہوکر دین کاعلم حاصل کیا۔ 1901ء میں دیوبند میں دورہ حدیث کے لیے گئے اور 1904 میں سند فراغت حاصل کر کے میانوالی واپس ہوئے۔

خواجہ میروی سے ملاقات[ترمیم]

محمد اکبر علی نے تحصیل علم سے فراغت کے بعد میانوالی کے محلہ زادے خیل بلوخیل روڈ پر واقع چھوٹی سی مسجد کو امامت اور خطابت کے لیے منتخب کیا۔ اس مسجد میں امامت و خطابت کے دوران لوگوں کی سردمہری دیکھ کر آپ کا دل ٹوٹ گیا۔ ان دنوں میں الله تعالی کے ایک نیک بندے خواجہ احمد میروی اس مسجد میں نماز پڑھنے آئے اور انھوں نے آپ سے فرمایا کہ آپ اس مسجد میں رہیں آپ کو سب کچھ مل جائے گا اور آپ نے مخلوق خدا کو فیض پہنچانا ہے۔ شاہ محمد سلیمان تونسوی کے خلیفہ کے یہ الفاظ آپ پر بہت اثر کر گئے۔ آپ نے مشکلات پر قابو پانے کا فیصلہ کر لیا اور اسی جگہ پر رہنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

مولانا اکبر علی پر خواجہ احمد میروی سے پہلی ملاقات نے بہت اثر ڈالا اس لیے آپ نے خواجہ میروی کے ہاں آمدورفت جاری رکھی۔ خواجہ میروی کی صحبت نے اکبر علی پر اتنا اثر ڈالا کہ آپ ان کے گرویدہ ہو گئے اور ان کے دست حق پر بیعت کر لی۔ آپ نے سلوک کی تمام منازل اپنے پیرومرشد کی نگرانی میں طے کیں اور آپ کو 1907ء میں خواجہ احمد میروی نے خلافت عطا کی۔

تحریک پاکستان[ترمیم]

مولانا اکبر علی چشی نے اپنے علم اور عمل کے ذریعے مسلمانوں میں بیداری کی روح پھونکی۔ ان میں یہ سوچ پیدا کی کہ وہ بھی علم کے میدان میں آگے بڑھیں اور اس کے علاوہ دنیا داری کے معاملات میں آگے آنے کی دعوت لوگوں میں عام کی۔ یہاں ہندو ہر شعبہ ہائے زندگی میں چھائے ہوئے تھے اور مسلمانوں کو ان کی کم علمی کی بنیاد پر لوٹتے تھے انھیں اپنا ماتحت بنا کر رکھتے تھے۔ خاص طور پر تجارت کا شعبہ ہندووں کی مکمل اجارہ داری میں تھا۔ مسلمان تجارت میں بہت کم آتے جس کی وجہ ہندو ساہوکاروں کے ہاتھوں ان پر ظلم ہوتا تھا۔ مولانا اکبر علی نے انجمن اسلامیہ کے نام سے تنظیم بنائی جس نے مسلمانوں میں شعور پیدا کیا۔ مولانا اکبر علی نے مسلم لیگ کی مکمل حمایت کی۔ تحریک پاکستان کا ایک مشہور جلسہ جامعہ اکبریہ میں مولانا عبد الستار خان نیازی کی صدارت میں ہوا۔ وہاں پاکستان کے حق میں تقریریں ہوئیں ۔ انجمن اسلامیہ نے ایک اشتہار شائع کرایا۔ جس میں قیام پاکستان کے حق میں مسلمانوں کے لیے مسلم لیگ کی حمایت ضروری ہے کا فتوی مسلمان علما اور مفتیان نے دیا جس میں نمایاں نام مولانا اکبرعلی کا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آبادکاری میں آپ کے حکم پر آپ کے صاحبزادے مولانا غلام جیلانی پیش پیش رہے۔

تاجدارہ گولڑہ سے تعلقات[ترمیم]

مولانا محمد اکبر علی کے پیر و مرشد اور پیر مہر علی شاہ کے پیر و مرشد دونوں شاہ محمد سلیمان تونسوی کے خلفاء میں سے تھے اس لیے آپ کے پیر مہر علی شاہ تاجدار گولڑہ شریف سے دوستانہ مراسم تھے۔ پیر مہرعلی شاہ کی سوانح حیات مہر منیر میں آپ کو ان الفاظ کے ساتھ خراج تحسین پیش کیا گیا ہے کہ

  • محمد اکبر علی حضرت خواجہ احمد میروی کے خلفاء میں سے تھے۔ ہمارے حضرت کے ساتھ ان کا گہرا روحانی رابط تھا۔ مستند عالم تھے۔ تصوف، کشف اور روحانیت میں بلند مقام رکھتے تھے۔

سنت مصطفی سے پیار[ترمیم]

مولانا اکبر علی مقام رضاپر فائز تھے۔ اللہ تعالی کی رضا پر راضی تھے۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ ادنی غلام کی کیا مجال کہ بڑے بادشاہ کے فیصلوں میں اپنی رائے کا تصور لائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ فرماتے تھے کہ میری کوشش ہوتی ہے کہ کہیں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی سنت مبارک ترک نہ ہونے پائے۔ جو سنت ادا ہوجائے شکر خداوندی ادا کرتا ہوں اور الله تعالی کی توفیق طلب کرتا ہوں کہ اپنے محبوب صلی الله تعالی علیہ والہ وسلم کی ہر ہرسنت پرعمل ہوتا رہے اور یقیناً اپنی ذات کو صفات محبوب خدا میں رنگ دینے کا عمل الله تعالی کو بہت پسند ہے۔

قوت کشف[ترمیم]

  1. مولوی محمد عظیم شاه جو ایک نیک بزرگ اور مولانا اکبر علی کے مریدوں میں سے تھے کہتے ہیں ایک مرتبہ خواب میں مجھے کوئی شخص کہتا ہے کہ یا اللہ کا ورد کیا کرو۔ میں ورد کرنے لگا پھر وہ شخص روپوش ہو گیا اور میں پہچان نہ سکا۔ اس خواب کی تعبیر کے لیے مولانا محمد اکبر علی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ابھی میں نے خواب بیان بھی نہیں کیا کہ فرمایا شاه صاحب ! چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ مرتبہ یا الله کا ورد کیا کرو۔
  2. مولوی محمد عظیم شاه دوسرا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مولانا اکبر علی نے خواب میں ارشاد فر مایا کہ تہجد کے وظیفہ کے طور پر سورہ زلزال اکتالیس مرتبہ پڑھا کرو۔ خواب سے بیدار ہوا تو سب واقعہ یاد تھا جب پڑھنے کا وقت آیا تو سورہ کا نام بھول گیا اس لیے وظیفہ شروع نہ کر سکا۔ چند روز بعد حاضر ہوا تو دیکھتے ہی فرمانے لگے جو چیز بتائی تھی فوراً بھول گئے بھئی اکتالیس مرتبہ اذ ازلزالت الارض بعد نماز تہجد پڑھا کرو۔ مولوی محمد عظیم کہتے ہیں کہ مجھے یقین ہو گیا کہ کامل پیر اپنے مرید پر دور سے نگاہ رکھتا ہے۔

روزمرہ معمولات[ترمیم]

مولانا اکبر علی شروع سے ہی عبادات کا شغف رکھتے تھے اور تکمیل تعلیم کے بعد اس میں اضافہ ہو گیا۔ آپ نے جامع اکبریہ میں ایک تہ خانہ بنوا رکھا تھا جہاں نوافل کی کثرت کرتے اور ذکر کی محفلیں ہوتیں۔ آپ کی مسجد میں تہجد کا خاص اہتمام ہوتا تھا اور دور دور سے لوگ تہجد پڑھنے آتے تھے۔ اس کے بعد ذکر کی محفل ہوتی اور اشراق وغیرہ سے فراغت کے بعد چائے آجاتی ۔ تمام حاضرین کی چائے سے تواضع ہوتی۔ آپ نماز چاشت، اوابین اور تہجد انتہائی پابندی سے ادا کرتے۔ نفلی روزے بھی رکھتے لیکن اس کی نمائش سے گریز کرتے تھے۔ آپ نماز اشراق سے فارغ ہوکر درس و تدریس فرماتے۔ اس سے فارغ ہو کر دوپہر میں کچھ دیر آرام کرتے تھے۔ ظہر کی نماز کے بعد تلاوت کلام پاک فرماتے جو عصر تک جاری رہتی ۔ عصر کی نماز پڑھ کر گھر تشریف لے جاتے۔ پھر مغرب کے وقت واپسی ہوتی۔ عشاء کے بعد عبادات شروع ہو جاتیں اور پھر یہ عبادات رات گئے تک جاری رہتی۔ مولانا اکبر علی اپنے پیر و مرشد خواجہ احمد میروی کے حکم کے بعد ضروریات دنیاوی کے سلسلہ میں مسجد سے باہر جانا ترک کر دیا۔ دن کا اکثر حصہ مسجد یا اپنے حجرہ میں گزارتے۔ دوسرے تیسرے روز سلطان محمد زکریا (میانوالی) اور مخدوم حاجی صاحب کے مزارات حاضری دیتے تھے۔ آپ اپنے حاضرین محفل پر یکساں توجہ دیتے کہ ہر شخص یہی سمجھتا تھا کہ آپ مجھے زیادہ توجہ سے سنتے ہیں۔

خدمات[ترمیم]

مولانا اکبر علی چشتی نے اپنی زندگی میں دینی اور دنیاوی لحاظ سے لوگوں کی خدمات میں کو کسر اٹھا نہیں رکھتے تھے۔ آپ کی چند اہم خدمات یہ ہیں۔

دینی خدمات[ترمیم]

  1. مولانا اکبر علی چشتی جس مسجد میں امامت کر رہے تھے اس کے ساتھ نے ایک اسلای مدرسے کی بنیادی رکھی۔ مدرسے میں پڑھنے والے طالب علموں کو اپنے گھر سے لنگھر کا اہتمام کرتے اور ساتھ میں ان کو دینی تعلیم سے آراستہ کرتے تھے۔ دینی مدرسے نے آہستہ آہستہ ترقی کی اور یہ مدرسہ اب میانوالی کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ اکبریہ کے نام سے مشہور و معروف ہے۔
  2. آپ کی عظیم الشان دینی خدمات میں سے ایک عید گاہ کا قیام ہے۔ آپ نے ایک بہت بڑی عالیشان عیدگاہ بنوائی اور تمام ضروریات کا اہتمام کیا۔ آپ نے 50 سال عیدگاہ کا سارا انتظام خود کیا اور بغیر کسی معاوضے کے خدمات انجام دیں۔
  3. مولانا اکبر علی چشتی نے شرعی ضروریات میں لوگوں کی راہنمائی کے لیے دارالافتاء کا قیام عمل میں لایا۔ آپ خود بہت بڑے عالم دین اور مفتی تھے۔ خوبصورت تحریر کے ساتھ فتویٰ نویسی کیا کرتے اور مسائل کے حل کا شرعی جواب تحریراً دیا جاتا۔ آپ کے فتاوی کا ایک ضخیم مجموعی قلمی شکل میں لائبریری میں موجود ہے۔ جسے اب فتوی اکبریہ کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔

ادبی خدمات[ترمیم]

اس زمانے میں کتاب خریدنا بہت مشکل تھا کیونکہ کتابیں بہت مہنگی ملتی تھی۔ اکثر کتب قلمی ہوا کرتی تھیں اور غریب طالب علم اس وجہ سے کتابوں کو خریدنے کی طاقت نہ رکھتے تھے حتی کہ ایک کتاب پر بعض اوقات دس دس طلبہ درس لیتے تھے اور پھر باری باری مطالعہ کرتے تھے۔ مولانا محمد اکبر علی چشتی نے ایک لائبریری کا قیام عمل میں لایا۔ آہستہ آہستہ اس میں 5000 کتابیں جمع ہوگئیں۔ ان کی خوبصورت جلد بندی کرائی اور ہر شخص اس لائبریری سے استفادہ کر سکتا تھا۔

وصال[ترمیم]

مولانا محمد اکبر علی نے سفر آخرت کی تیاری پہلے سے شروع کر دی تھی۔ مسجد کے ساتھ متصل قطعہ اراضی میں سے کچھ آپ نے خرید لیا تھا۔ اس زمین میں چار دیواری بنا کر نہر والی صاف اور پاکیزہ مٹی ڈلوا دی۔ آپ کو معمولی سی پیشاب کی تکلیف ہوئی۔ اس تکلیف کا تین دن تک علاج ہوتا رہا لیکن کچھ افاقہ نہ ہوا۔ آپ نے اسی تکلیف میں بروز ہفتہ 29 دسمبر 1956ء کو رات دس بجے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کے جنازہ میں ہزاروں عشاق حاضر ہوئے اور حضرت علامہ احمد دین گانگوی نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ آپ کا مزار جامعہ اکبریہ بلوخیل روڈ میانوالی پر واقع ہے۔

اولاد[ترمیم]

مولانا محمد اکبر علی چشتی کی اولاد میں دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل تھیں۔ بیٹوں کے نام یہ ہیں۔

  1. مولانا غلام جیلانی (سجادہ نشین)
  2. غلام ربانی

خلفاء[ترمیم]

مولانا محمد اکبر سے کثیر تعداد میں لوگوں نے شرف بیعت حاصل کیا۔ آپ کے مشہور خلفاء کے نام یہ ہیں۔

  1. مولانا غلام جیلانی (سجادہ نشین میانوالی)
  2. غلام جعفر شاہ (بھکر) [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. سرزمین اولیاء میانوالی مرتب سید طارق مسعود شاہ صفحہ 260 تا 266