خواجہ درویش محمد تونسوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

خواجہ درویش محمد تونسوی تونسہ شریف کے عظیم پیشوا شاہ محمد سلیمان تونسوی کے بیٹے تھے۔ آپ مادر زاد ولی تھے۔ آپ کم عمری میں فوت ہو گئے تھے۔ وصال وقت آپ کی عمر صرف چودہ سال تھی۔

خواجہ درویش محمد تونسوی
ذاتی
پیدائش1216ھ بمطابق 1801ء
وفات(29شوال 1230ھ بمطابق 4 اکتوبر1815ء)
مذہباسلام
والدین
سلسلہچشتیہ

نام ونسب[ترمیم]

آپ کا اسم گرامی درویش محمد اور والد محترم کا نام شاہ محمد سلیمان تونسوی ہے۔ آپ خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی کے چھوٹے صاحبزادے تھے۔ آپ مادر زاد ولی تھے۔ آپ کی کرامات بچپن میں ہی مشہور ہو گئیں تھیں۔

سلسلہ نسب[ترمیم]

خواجہ درویش محمد تونسوی بن خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی بن محمد زکریا بن عبد الوہاب بن عمر خان بن خان محمد

ولادت کی پیش گوئی[ترمیم]

منقول ہے کہ ایک درویش خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی کے دروازے پر آیا۔ اس درویش آواز لگائی کہ اس گھر میں ایک بچہ مادرزاد ولی پیدا ہوگا۔ اس کے دائیں کندھے پر یہ علامت ہوگی اور اس کا نام درویش محمد رکھنا۔ جب آپ کی پیدائش ہوئی تو اس علامت کو دیکھا گیا جو درویش نے بتائی تھی۔ دیکھا گیا تو وہ علامت موجود تھی اسی لیے آپ کا نام درویش محمد رکھا گیا۔

ولادت[ترمیم]

خواجہ درویش محمد تونسوی کی ولادت 1216ھ بمطابق 1801ء کو تونسہ شریف میں ہوئی۔اس وقت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی خواجہ نور محمد مہاروی کی خدمت میں ’خانقاہ تاج سرور‘ چشتیاں شریف میں تھے۔ بیٹے کی ولادت کی کی خبر خواجہ تونسوی کو وہاں ملی۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

خواجہ درویش محمد تونسوی کی عمر جب چار سال چار ماہ چار دن ہوئی تو آپ کو قرآن شریف پڑھنے کے لیے مکتب بھیجا گیا۔ ابتدائی عربی و فارسی اور فقہ و منطق کی کتب مولانا گل محمد صاحب دامانی المعروف میاں صاحب اور حافظ حسن نابینا صاحب سے پڑھیں۔ دورانِ تعلیم ہی آپ کا وصال ہو گیا تھا۔ اس وقت آپ کی عمر صرف چودہ برس تھی۔

بیعت[ترمیم]

خواجہ درویش محمد اپنے والد محترم خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے تھے۔

وصال[ترمیم]

خواجہ درویش محمد تونسوی نے بروز بدھ 29 شوال 1230ھ بمطابق 4 اکتوبر 1815ء کوچودہ سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپ کی تدفین تونسہ شریف کے غربی قبرستان میں کی گئی۔

سیرت وخصائص[ترمیم]

خواجہ درویش محمد مادر زاد ولی تھے۔ آثارِ سعادت آپ کی پیشانی سے بچپن ہی سے ظاہر تھے۔ آپ نے کبھی پوری روٹی نہیں کھائی، نصف خود کھاتے اور نصف خدا کی راہ میں صدقہ کردیتے۔ دورانِ تعلیم سبق سے فراغت کے بعد درویشوں کے کپڑے سیتے۔ اسی طرح مدرسے کے طلبہ کی بہت خدمت کرتے تھے۔ [1] [2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرہ خواجگان چشت اہل بہشت جلد سوم مولف خواجہ غیاث اللہ سلیمانی صفحہ 92
  2. "ضیائے طیبہ"۔ 10 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جولا‎ئی 2019