پنڈی گھیب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
پنڈی گھیب
انتظامی تقسیم
ملک پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تقسیم اعلیٰ ضلع اٹک   ویکی ڈیٹا پر (P131) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جغرافیائی خصوصیات
متناسقات 33°14′00″N 72°16′00″E / 33.233333333333°N 72.266666666667°E / 33.233333333333; 72.266666666667   ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بلندی
مزید معلومات
اوقات پاکستان کا معیاری وقت   ویکی ڈیٹا پر (P421) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رمزِ ڈاک
43260  ویکی ڈیٹا پر (P281) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فون کوڈ 0572  ویکی ڈیٹا پر (P473) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قابل ذکر
باضابطہ ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Map

پنڈی گھیب ضلع اٹک، کا ایک مشہور شہر اور تحصیل ہے، جو شاید پاکستان کی سب سے طویل عرصہ تک رہنے والی تحصیل ہے۔ پنڈی گھیب 1905ء میں تحصیل بنی، لیکن وہ آج تک ضلع کا درجہ حاصل نہ کرسکی۔

حدود اربعہ (تاریخی)[ترمیم]

آج کی تحصیل پنڈی گھیب اٹھارویں صدی عیسوی میں ’’ریاست پنڈی گھیب“ کہلاتی تھی۔ یہ ایک بہت بڑی ریاست تھی۔ جو نہ صرف یہ کہ ایک وسیع علاقہ پر محیط تھی بلکہ اردگرد کی ریاستوں اور علاقوں میں ایک نمایاں حیثیت رکھتی تھی۔ شمال کی جانب اس کا احاطہ کالا چٹا تک تھا اور کالا چٹا پہاڑ اس کی قدرتی سرحد تھی۔ موضع باہتر اور فتح جنگ اس ریاست کا حصہ تھے۔ مشرق کی طرف اس کی سرحد چونترہ تک تھی اور اس سے آگے راولپنڈیکا ضلع شروع ہوتا تھا۔ جب کے جنوب مشرق میں چکوال کا بیشتر حصہ ریاست پنڈی گھیب میں شامل تھا۔ کلر کہار، بلکسر، مواضعات اسی ریاست پنڈی گھیب کا حصہ تھیں۔ جنوب میں وادی سون کے موضع کھبکی تک جاتی تھی جنوب مغرب میں موجود تلہ گنگ کے مواضعات لاوہ، دھندہ شاہ بلاول، کوٹ گلہ بھی ریاست پنڈی گھیب کا حصہ تھے۔ مغرب میں جنڈ، تراپ اور جنوب مغرب میں موضع ناڑہ ریاست پنڈی گھیب کا حصہ تھے۔

محل وقوع[ترمیم]

یہ شہر ایک خوبصورت وادی میں واقع ہے۔ پنڈی گھیب دریاہے جو سیل کے بائیں کنارے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کے چاروں طرف چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں بیضوی دائرے کی طرح پھیلی ہوئی ہیں جو وادی کو ایک پیالے کی شکل دیتی ہیں۔ 1887 میں پنڈی گھیب کا انگریز افسر (Fred A Roberson) اپنے تاثرات میں لکھتاہے کہ

پوری تحصیل میں اس قدر آبادی والا واحد شہر ہے جو محل وقوع کے لحاظ سے ایک مثالی جگہ پر واقع ہے۔ سرسبز وادی اپنے اردگرد کے خشک پہاڑوں سے مقابلتاً متضاد منظر آنکھوں کے سامنے پیش کر کے ایک خوش کن اور پر کشش تاثر ابھارتی ہے۔یہاں بہت سے سر سبز درخت ہیں جن کی وجہ سے یہ وادی سیل کنارے سفید ریت پر ایک نخلستان کی طرح نظر آتی ہے۔

تاریخ ازمنہ قدیم[ترمیم]

پنڈی گھیب کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس کا ثبوت یہاں سے ملنے والے قدیم آثار قدیمہ ہیں۔ ایسے آثار بھی پائے گے ہیں جن ميں قبرستان بھی شامل ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں مسلمانوں کی بستیاں بھی قدیم دور سے چلی آ رہی ہیں۔ اس علاقہ میں پتھر کے زمانے کے آثار بھی موجود ہیں "گاربٹ" جو برطانوی عہد میں اٹک کا ڈپٹی کمشنر تھا، اس نے "اٹک گزیٹر" میں تحریر کیا ہے کہ یہاں پر پتھر کے زمانے کے انسانوں کی ہڈیوں کا ڈھانچہ ملا ہے جو فرانس سے ملنے والے ڈھانچے سے مماثلت رکھتا ہے۔ لوہے کے ابتداہی زمانے کے آثار تو بے شمار ملتے ہیں میرا شریف جو پنڈی گھیب سے چند میل مغرب کی جانب ہے اس کے قریب بدھ مت کے دور کا ایک کنواں بھی ملا ہے جس کا اوپر کا حصہ چوکور ہے وہاں سے پتھر پر لکھی ہوئی ایک تحریر ملی تھی جو لاہور عجائب گھر میں رکھی ہوئی ہے۔

قبائلی دور[ترمیم]

شروع شروع میں پنڈی گھیب کے علاقے میں قبائلی ریاست تھی اور مختلف قبیلوں کے سردار مغل بادشاہ بابر کے حملہ آوروں کو گھوڑوں اور بازوں کے تحفے بھیج کر اپنے اوپر مہربان رکھتے اور ان کے حملوں سے بچے رہتے۔ قابل ذکر قبیلہ جو یہاں سب سے پہلے ظاہر ہوا جنجوعہ تھا۔ یہ لوگ کب اور کہاں سے آئے تاریخ اس بارے میں خاموش ہے نہ ہی ان کی ریاست کا پتہ چلتا ہے۔ "بابر" نے اپنی "تزک" میں لکھا ہے کہ یہ یہاں بڑے پرانے زمانے سے حکمران رہے ہیں۔ جنجوعوں کی طاقت پر جن لوگوں نے ضرب لگائی وہ کھڑ تھے۔ یہ لوگ مسلمانوں کے ابتدائی دور میں یہاں آئے اس کے بعد اعوان قبائل، جودڑے اور گھیبے یہاں آئے اور انھوں نے یہاں اپنی عمل داریاں قائم کیں اس زمانے میں یہ مختلف قبائل آپس میں ایک دوسرے سے لڑتے رہے اور کوئی قبیلہ بھی مستحکم حکومت نہ قائم کر سکا۔

مغل دور[ترمیم]

سلاطین دہلی اور مغلوں کے ابتدائی دور میں بھی پنڈی گھیب کے قبائل ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں رہے۔ اور تھوڑے تھوڑے وقت کے لیے حکومت کی 1519 میں جب شہنشاہ بابر بھیرہ سے کابل واپسی پر اس علاقے سے گذرا تو پنڈی گھیب شہر جس جگہ اب واقع ہے، یہاں آباد نہ تھا بلکہ موجودہ شہر کے شمال میں دریائے سواں کے کنارے آبادی تھی بابر اپنی تزک میں لکھتا ہے

سواں ندی پار کر کے ہم نے "اندرانہ" ایک بستی میں پڑاؤ کیا جو ملک ہست خان کے والد کی جاگیر ہے اور اب برباد ہے

گھیبہ[ترمیم]

بیان کیا جاتا ہے کہ سیال جو ایک پنوار راجپوت رائے شنکر کی اولاد تھا جو الٰہ آباد اور فتح پور کے درمیانی علاقہ دارا نگر کا رہنے والا تھا ایک کہانی یہ بھی ہے کہ پنواروں کی ایک شاخ دارانگر سے نقل مکانی کر کے جونپور چلی گئی جہاں شنکر پیدا ہوا۔ گورنر پنجاب” ای ڈی میکلیگن “کے مطابق شنکر کے ہاں تین بیٹے ہوئے جن کے نام گھیؤ، ٹیؤ اورسیؤ رکھے گئے انہی سے جھنگ کے سیالوں شاہ پور کے ٹوانوں اور پنڈی گھیب کے گھیبوں کی نسل چلی۔ ایک اور روایت کے مطابق سیال رائے شنکر کا اکلوتا بیٹا تھا اور یہ کہ ٹوانوں اور گھیبوں کے مورثین محض شنکر کے ہم جد رشتہ دار تھے کہا جاتا ہے کہ شنکر کی زندگی میں تو یہ تمام قبیلہ باہم شیر و شکر رہا مگر شنکر کی موت کے ساتھ ہی ان میں شدید جھگڑے شروع ہو گئے جس وجہ سے 1241–46 میں اس کا بیٹا سیال سلطان رکن الدین کے بیٹے” علاؤ الدین غوری یا مسعود شاہ علاؤ الدین“ کے دورِ حکومت میں پنجاب کو نقل مکانی کر گیا۔ یہ شواہد بھی ملتے ہیں کہ قریباً یہ وہی دور تھا جب متعدد راجپوت خاندانوں نے موجودہ ہندوستان سے پنجاب کو نقل مکانی کی ادھر اسی زمانہ میں بابا فرید الدین گنج شکر کی دینی تعلیمات اور اخلاق حسنہ کی بدولت یہاں اسلام خوب پھیل رہا تھا۔ قرین ِ قیاس ہے کہ سیال آوارہ گردی کرتا ہو ” اجودھن“ موجودہ پاک پتن جا پہنچا اور بابا فرید الدین گنج شنکر کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہو گیا۔1265ءمیں بابا فرید الدین کے وصال تک یہ انہی کے پاس مقیم رہا۔ مشہور ہے کہ بابا فرید الدین نے بشارت دی کہ اس کی اولاد جہلم اور چناب کے درمیانی علاقے پر حکمرانی کرے گی۔ یہ پیشن گوئی اگرچہ سیالوں کے ہاں کچھ درست ثابت نہ ہوئی البتہ ان کے ہم جد قبیلہ گھیبوں کے ہاں اس کے اثرات ضرور ملتے ہیں۔ ایک اور روایت کے مطابق یہ رائے درست نظر آتی ہے کہ سیال ٹوانہ اور گھیبے رائے شنکر کے تین بیٹے بالترتیب سیؤ، ٹیؤ اور گھیؤ کی اولاد ہیں۔ سیال اور ٹوانہ بھی اس تعلق کو کسی حد تک تسلیم کرتے ہیں۔ اسی بناءپر راجپوت قبائل کے اس گروہ کا پنوار ہونا خلافِ امکان نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ گھیبہ خاندان سیال اور ٹوانہ کے بعد پنجاب آیا اور فتح جنگ، پنڈی گھیب کے نیم پہاڑی علاقہ میں آباد ہوا۔ یہاں وہ اعوانوں گکھڑوں اور دیگر پڑوسی قبائل کے مقابل قائم رہے حتیٰ کہ رنجیت سنگھ نے انھیں 1798–99 میں مطیع کر لیا۔ بعض مقامات پر یہ شواہد بھی ملتے ہیں کہ ”جودرا “ جن کے جد امجد نے محمود غزنوی کے ہاتھ پر اسلام تو ضرور قبول کیا مگر تا حال ان کے رہن سہن بالخصوص تہواروں میں ہندوانہ رنگ موجود ہے غالباً سولہویں صدی کے اواخر میں ضلع اٹک میں وارد ہوئے اورسواں اور سیل جسے سر لیپل ایچ گریفن نے سل کے نام سے بھی لکھا ہے، علاقوں کے مالک بن بیٹھے۔ ایک دیگرروایت انھیں ہندوستان سے آیا ہوا بھی بیان کرتی ہے۔ مگر قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ اس علاقہ میں گھیبوں کی آمد سے قبل آباد تھے اب بھی یہ لوگ پنڈی گھیب کے مشرقی حصہ میں اور گھیبہ فتح جنگ کے مغربی حصہ میں آباد ہیں۔ کچھ محققین گھیبہ کو اصل جودرا قبیلہ کی شاخ کہتے ہیں جو دیگر قبیلے والوں سے لڑ کر علاحدہ ہو گئی البتہ یہ بات حقیقت ہے کہ پنڈی گھیب کا قصبہ گھیبوں کی بجائے جودروں نے بسایا۔ لیپل ایچ گریفن اپنی کتاب Punjab Chiefs میں رقمطراز ہے کہ ” جودرا اور سیال (جو راولپنڈی کے مسلم راجپوتوں کا ایک ایسا قبیلہ ہے جو فتح جنگ کے جنوبی کونے پر قابض ہوئے ) کے ساتھ اکثر گھیبوں کی جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں۔“ تاریخِ فرشتہ کی رو سے گھیبے اپنے ہمسایہ گکھڑوں کی طرح مذہب سے عاری قبیلہ نہیں اور نہ ہی ان میں دختر کشی کی کوئی روایت موجود ہے بلکہ یہ لوگ اپنی بیٹیوں کو ”اعوانوں“ کی طرح وراثت میں حصہ دار بناتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ کھٹڑوں اور گکھڑوں کی طرح گھیبہ خاندان سے باہر شادیوں کو برا تصور نہیں کرتے ان کے ہاں تا حال سرداری کی روایت بھی موجود ہے جس کے مطابق سردار کا بڑا بیٹا اضافی حصہ کا حقدار تصور کیا جاتا ہے۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ گھیبہ کا جد امجد ” کمّاں خان“ عہد اکبر میں ہندوستان سے فتح جنگ کے مغرب میں واقع ہر گھنہ گھیب میں آیا اور وہیں مقیم ہو گیا اس زمانہ میں یہاں کی آبادی بہت کم تھی ادھر اُدھر چند مواضعات بکھرے نظر آتے جن میں کھوکھر لوگ آباد تھے۔ تاریخ ہند میں کھوکھروں کا بھی کافی ذکر ملتا ہے تیمور کے مورخین کے مطابق 1398میں انھوں نے اس کی فوج کے خلاف مدافعت میں کافی اہم کردار ادا کیا روایت میں ان کی اولاد ملک شیخا یا شیخا کھوکھر جسے بعض مؤرخین شیخا کوکر بھی کہتے ہیں کا ذکر ملتا ہے جس نے اس خطہ میں ” کافروں کے کمانڈر“ کی شہرت پائی۔ ان کی سب سے زیادہ تعداد جہلم اور پنجاب کی وادیوں میں ہے تعداد میں کم ہونے کے باوجود یہ زیریں سندھ، ستلج اور لاہور کے علاوہ جہلم سے بالائی سندھ کی پہاڑیوں تک بھی ملتے ہیں۔ کھوکر اپنے قبیلوں کے مابین ہی شادی بیاہ کرتے ہیں یا پھر اپنی بیٹیاں دیگر قبیلوں میں بیاہتے ہیں مگر ان کی بیٹیوں سے بیاہ نہیں کرتے۔ بعض روایات کے مطابق مغربی کھوکھر غزنی کے قطب شاہ کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تاہم یہ ان کی من گھڑت کہانی محسوس ہوتی ہے کیونکہ قطب شاہ اعوانوں کا روایتی مورث اعلیٰ ہے۔ نتیجتاً کھوکھروں کی ابتداءکے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ کھوکھروں کی اولاد اب بھی بطور مزارع علاقہ گھیب میں موجود ہے۔ اسی مقام پر ” کمّاں خان“ آباد ہو گیا جو بعد ازاں اسی کی اولاد فتح خان کے نام سے منسوب ہو کر ” کوٹ فتح خان “ کہلائی۔ کوٹ جو ہندی کا لفظ ہے اورا س کا لغوی معنیٰ قلعہ، فصیل یا شہر پناہ کے ہیں(فیروز الغات) اس کی اولاد نے اپنے اس علاقہ کو اپنے ہمسایہ یعنی اعوانوں، گکھڑوں اور جودھروں سے مہاراجا رنجیت سنگھ کے دادا ”چڑت سنگھ سوکر چکیا“ کے زمانے تک بچائے رکھا۔ کماں خان کی اولاد کو ہندوستان کے افغان بھی مطیع نہ کر سکے اس کی جو سب سے بڑی وجہ نظر آتی ہے وہ ان لوگوں کا شاہراہ سے دور آباد ہونا تھا جس بناءپر ان علاقوں تک رسائی کچھ سہل نہ تھی اور دوسرا ان سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہوا جس کی وجہ سے کوئی ان پر حملہ آور ہونے کا خیال کرتا۔ یہی وجہ تھی کہ والئِ گجرات” گوجر خان بھنگی“ بھی، جس کے قبضہ میں راولپنڈی کا تمام شمالی علاقہ تھا علاہ گھیب پر کچھ اثر انداز نہ ہو سکا اور اس کے بعد چڑت سنگھ نے پنڈ دادن خان کے علاقہ پر قبضہ کر لینے کے بعد راولپنڈی کے جنوبی علاقہ پر چڑھائی تو ضرور کی۔ مگر وہ خود اور اس کا بیٹا ” مہان سنگھ زبردست“ گھیبوں سے کچھ بھی حاصل نہ کر سکے۔ روایت کے مطابق 1806عیسوی میں مہاراجا رنجیت سنگھ نے ” سردار فتح سنگھ کالیانوالہ“ کو علاقہ راولپنڈی کا ناظم بنا کر بھیجا اس زمانہ میں کوٹ کے سرداران کے بڑے حریف پنڈی گھیب کے ملک تھے۔ جنھوں نے سیل یا سِل کا علاقہ سکھوں سے اجارہ داری پر لے رکھا تھا ان دونوں قبائل کی باہمی دشمنی آخر کار کِشت و خون پر اس طرح منتج ہوئی جب دونوں امرتسر کے دربار میں بلائے گئے تو ان دونوں میں جھگڑا ہو گیا جس میں سردار محمد علی خان گھیبہ نے ملک غلامِ محمد خان کو خود راجا کی موجودگی میں قتل کر ڈالا اور خود بھاگ کر اپنے گھر آ گیا۔ یہاں تاریخ کے ہاں خاموشی ملتی ہے کہ بھرے بازار سے وہ کس طرح فرار ہونے میں کامیاب ہوا اور کن حالات سے گزرتا ہوا ہزاروں میل دور اپنے ٹھکانے تک پہنچا۔( خیر) اس وقت اس کے خلاف کوئی قدم اٹھانا خلاف مصلحت قرار دیا گیا کیونکہ سرکار خالصہ ہزار کوششوں کے اس علاقہ میں کبھی پورا اقتدار حاصل نہ کر سکے غالباً اسی لیے اس سے الجھنا مناسب نہ سمجھا گیاہو۔

پنڈی گھیب میں غروب آفتاب کا منظر

1830میں جب سید احمد نے پشاور سے ہٹ کر بالا کوٹ ضلع ہزارہ کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا تو شہزادہ سیر سنگھ اور جنرل عنچور نے سردار محمد علی خان گھیبہ کے ہمراہ اس پر حملہ کیا جس میں سردار موصوف نے بڑے کا رہائے نمایاں سر انجام دیے۔ جودھ سنگھ، دھنا سنگھ ملوئی، عطر سنگھ کالینوالہ اور شہزادہ نونہال سنگھ جو یکے بعد دیگرے علاقہ گھیب کے ناظم مقرر ہوئے خوب جانتے تھے کہ سردار محمد علی خان جو ہر وقت سرکارِ خالصہ سے بغاوت پر آمادہ رہتا ہے قابو میں رکھنا نہایت مشکل ہے چنانچہ سردار عطر سنگھ جب دوسری بار علاقے کا ناظم مقرر ہوا تو اس نے سردار محمد علی خان گھیبہ کے قتل کا منصوبہ بنایا جس پر عمل کرتے ہوئے اس نے ایک روز سردار محمد علی خان کو پاگھ کے قلعہ میں مدعو کیا جو سیل ندی کے دوسرے کنارے پر واقع ہے۔ واضع رہے کہ یہاں سے موضع کوٹ صاف نظر آتا تھا شاید یہی وجہ تھی کہ اس جگہ کا انتخاب کیا گیا ہو یا پھر یہ ایک نفسیاتی چال ہو جس میں گھر کے نہایت قریب ہونے کی بناءپر سردار کوٹ گنے چنے افراد کے ہمراہ آئے گا دوسرا جب سردار کوٹ قلعہ کی جانب آ رہا ہو تو اس پر نگاہ رکھی جا سکے اور منصوبے میں مناسب تبدیلی کی جا سکے یہ بھی قرینِ قیاس نہیں کہ اگر محمد علی گھیبہ کے ہمراہ زیادہ افراد ہوتے تو یہ منصوبہ کسی اور موقع کے لیے مؤخر بھی ہو سکتا تھا۔ مگر کوٹ سردار سکھ ناظم کی سازش کے جال میں اس وقت بری طرح جا پھنسا جب وہ اپنے بڑے بیٹے غلامِ محمد خان اور دو ملازمین جن کے نام پر اوراق تاریخ میں خاموشی ملتی ہے کے ہمراہ مقام دعوت پر جا پہنچا جونہی اس چار رکنی وفد نے پاگھ کے قلعہ میں قدم رکھا ان پر پہلے سے تیار بڈھا خان ملال اور عطر سنگھ کے سپاہیوں نے حملہ کر دیا یوں ایک بہادر سراد اپنے جواں سال بیٹے اور دو جانثار ملازمین سمیت قتل کر دیا گیا۔ محمد علی گھیبہ اور غلامِ محمد خان کے اس طرح دغا بازی سے قتل کے بعد روایتِ وراثت کے تحت سردار محمد علی گھیبہ کا منجھلا بیٹا فتح خان جانشین ہوا جس کی سرداری کے دوران میں ہی اس کا چھوٹا بھائی احمد خان گھیبہ داغِ مفارقت دے گیا۔ محمد علی خان گھیبہ نے بڈھا خان کے کنبہ کے قریباً تمام افراد کو موت کی نیند سلا کر اپنے باپ اور بھائی کے قتل کا بدلہ لیا۔ محمد علی خان گھیبہ بھی اپنے والد کی طرح سکھ مخالف جذبات رکھتا تھا شاید اس کی بڑی وجہ باپ اور بھائی کا قتل بھی ہو۔ 1844-46میں سردار فتح خان نے سکھوں سے بغاوت کا ارادہ باندھا مگر کرنل لارنس کہنے پر باز رہ گیا گوکہ کرنل نے اس وقت اسے اس بغاوت سے باز رکھا مگر دوسال کے قلیل عرصہ بعد 1848–49 میں انہی جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے سکھوں کیخلاف انگریزوں کا حلیف بنا لیا۔ 1848-49میں سکھوں کیخلاف جنگ میں اس نے کمال بہادری اور جانفشانی کا مظاہرہ کیا جس کے بدلے اسے حکومت انگلشیہ کی جانب سے حین حیات پنشن اور خلعت ملی۔ 1860میں علاقہ میں اثر و رسوخ اور با اثر ہونے کی بناءپر اسے فوجداری اور دیوانی اختیارات دے دیے گئے۔ چیفس آف پنجاب کی جلد دوم میں روایت ہے کہ 1866میں جب ضلع کی رکھوں کی حد بندی ہوئی تو کالا چٹا پہاڑیوں کے علاقہ سے تقریباً 3ہزار ایکڑ کا ایک رقبہ الگ کر کے گھوڑوں اور مویشیوں کی چراگاہ کے طور پر دے دیا گیا۔ جنوری1888عیسوی میں اس کی خدمات کے پیشِ نظر اسے ” خان بہادر“ کا خطاب دے دیا گیا۔ سردارفتح خان ضلع بھر کے تین بڑے مالکان اراضی میں شمار ہوتا تھا جس بناءپر اس پر اسلحہ ایکٹ کا اطلاق نہ ہوتا تھا۔ اولادِ نرینہ نہ ہونے کے باعث جب 1894میں اس کے انتقال کے بعد اس کے بھتیجے محمد علی خان کے سر خاندانِ گھیبہ کی سرداری کا تاج رکھا گیا۔ سردار محمد علی خان کو ضلع راولپنڈی میں آنریری اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر مقرر کیا گیا اور ان کی خدمات کے صلہ میں حکومت انگلشیہ نے 1895میں اعزازی تلوار دی گئی۔ سردار محمد علی کا انتقال 27سال کی اوائل عمری میں ہی ہو گیا۔[1]

جودھڑا[ترمیم]

جودھرا یا جودرا جو ضلع اٹک اکا ایک راجپوت قبیلہ ہے جہاں یہ پنڈی گھیپ کے جنوب مشرق میں آباد ہےذاتوں کا انسائیکلو پیڈیاکے لکھاری ای ڈی میکلیگن اور ایچ روز لکھتے ہیں کہ یہ تحصیل پنڈی گھیب کے ایک تہائی سے کچھ کم قابل کاشت رقبہ کا مالک قبیلہ ہے۔ جو قبل از قیام پاکستان ایک تہائی محاصل ادا کیا کرتے تھے۔ دو مختلف بیانات کے مطابق یہ کہا جاتا ہے کہ جودھرا یا جودرا یا پھر جنھیں علاقہ پنڈی گھیب میں جودڑے کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے جموں یا پھر ہندوستان سے آئے اور اپنی موجودہ مقبوضات پر نواحی علاقوں میں گھیبہ کی آمد سے پہلے آباد ہو گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ جودھروں کے جد امجد نے سلطان محمو د غزنوی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تاہم تا دم تحریر ان کی رسومات میں ہندوانہ رنگ موجود ہے۔ اس بات کا بھی گمان ہے کہ وہ سولہویں صدی کے اواخر میں اس ضلع میں وارد ہوئے اور سواں اور سیل ( جو کوٹ فتح خان کے قریب سے گزرتی ہوئی ندی ہوا کرتی تھی جسے قدرتی آفات نے ایک برساتی نالے کی شکل دے دی) کے علاقوں کے مالک بن بیٹھے۔ ملک اولیاءخان تاریخ کا پہلا قابل ذکر جودھرا ملک تھا۔ مغلیہ دور حکومت میں وہ پنڈی گھیب، تلہ گنگ اور چکوال سمیت فتح جنگ تحصیلوں کے کچھ حصوں کا محصل تھا اور خیال کیا جاتا ہے کہ اسی نے تلہ گنگ پرچڑھائی بھی کی۔ چند مورخ حضرات کے ہاں سکھ دور حکومت میں جودھرا طاقت اپنے عروج پر ملتی ہے لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ یہ جلد ہی انحطاط کا شکار ہو گئی۔ ایک خیال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ گھیبہ جودھرا ہی کی ایک شاخ ہے اس سلسلہ میں مورخ پنڈی گھیب قصبہ میں گھیبوں کی بجائے جودھرں کے قبضے سے حمایت حاصل کرتے ہیں مگر گھیبہ خاندان اس روایت کو ماننے سے انکار کرتا ہے کیونکہ وہ خود کو مغلیہ خاندان کی ایک شاخ گردانتے ہیں۔ خیر جودھرے ایک پر عزم اور پر جوش طبیعت کے طور پر بھی پہچانے جاتے ہیں ان کے ہاں عمدہ عقاب اور گھوڑے پالنے اور کسی ذاتی رنجش یا کسی ناراضی کی صورت میں لڑنے مرنے کی روایات بکثرت ملتی ہیں پنڈی گھیب کے ملک پاکستان میں جودھرا خاندان کے سرکردہ ہیں۔[[تاریخ قوم جودھڑا [2]

اہم مقامات[ترمیم]

مساجد

  • جامع مسجد طیبہ و مدرسہ تعلیم القرآن , (مولانا حسین احمد صاحب)
  • دار العلوم جامعہ فاروقیہ ،(استاد العلماء قاری سلطان محمد صاحب)
  • جامع مسجد مائی مصاحب بانو،(مولانا عبد اللہ صاحب)
  • جامع مسجد امیر معاویہ المعروف مسجد مائی سراں والی ،( استاد قاری خان محمد صاحب)
  • جامع مسجد مریم المعروف ہسپتال والی مسجد ، (مولانا عاقب نواز صاحب)
  • جامع مسجد دارے والی ،(ڈاکٹر ضیاء الرحمن مرحوم)
  • مسجد حنفیہ رضویہ (علامہ بشیر احمد رضوی)
  • مسجد موچیاں والی (مولوی بشیر احمد چشتی)
  • مسجد مولوی گل محمد (بڑی مسجد)
  • فیضان مدینہ مرکز دعوت اسلامی
  • مسجد اہل حدیث، گلزار آباد

مقامات

  • اویسیہ ٹاؤن
  • مسلم ٹاون
  • بہنوڑہ چوک
  • کمیٹی چوک
  • ظفر چوک
  • گلزار آباد
  • صدیق اکبر چوک المعروف کالج چوک
بنگلہ حاجی گلاب خان
  • مسجد شیخاں والی ( متولی رسالدار محمد شریف شیخ)

شخصیات[ترمیم]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "گھیبہ قوم کی تاریخ"۔ 14 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 دسمبر 2021 
  2. "آرکائیو کاپی"۔ 14 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 دسمبر 2021 

بیرونی وابط[ترمیم]