ایمان (اسلامی تصور)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ایمان شریعت اسلامی کی ایک اہم اصطلاح ہے۔ اس کے لغوی معنی تصدیق کرنے (سچا ماننا) کوکہتے ہیں۔[1] ایمان کا دوسرا لغوی معنیٰ ہیں : امن دینا، مفتی احمد یار خاں نعیمی اس کی وضاحت کرتے ہیں : چونکہ مومن[2] جبکہ اصطلاح شرع میں ایمان سے مراد سچے دل سے ان سب باتوں کی تصدیق کرنے کا نام ہے جو ضروریاتِ دیں سے ہیں ۔[3] ایمان کا الٹ کفر ہے۔

لفظی و لغوی معنی[ترمیم]

ایمان امن سے ماخوذ ہے جو ضد خوف کا ہے یعنی بے خوف ہونا یا بے خوف بنانا۔

ایمان عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا مادہ ’’ا۔ م۔ ن‘‘ (امن) سے مشتق ہے۔ لغت کی رو سے کسی خوف سے محفوظ ہو جانے، دل کے مطمئن ہو جانے اور انسان کے خیر و عافیت سے ہمکنار ہونے کو امن کہتے ہیں۔ ایمان کا لفظ بطور فعل لازم استعمال ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے ’’امن پانا‘‘ اور جب یہ فعل متعدی کے طور پر آئے تو اس کا معنی ہوتا ہے ’’امن دینا‘‘۔[4][5] کسی پر ایمان لانے سے مراد اس کی تصدیق کرنا اور اس پر یقین رکھنا ہے۔ گویا لفظ ایمان اپنے اصل معنی اور مفہوم کے اعتبار سے امن، امانت اور بھروسے پر دلالت کرتا ہے۔ شرعی معنوں میں دل سے یقین، زبان سے اظہار، جسمانی طور پر عمل کا نام ایمان ہے جبکہ اطاعت سے ایمان میں اضافہ اور نافرفانی سے کمی واقع ہوتی ہے۔[6]

اصطلاحی معنی[ترمیم]

تصدیق النبیؐ مما جآء بہ النبیؐ بالاعتماد علی النبیؐ، اس تعریف سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ جو لوگ عقل کے زور اور عقلی دلائل سے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتے ہیں وہ مسلمان نہیں ہو سکتے کیونکہ وہاں اعتماد علی النبیؐ نہیں بلکہ اعتماد النبیؐ عقل اور اپنی دلیل ہے۔

کفر کی حقیقت اور اس کے اقسام[ترمیم]

کفر ایمان کا مقابل اور ضد ہے اس لیے اس کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ وبضدھا تبین الاشیاء چنانچہ کفر لغوی اعتبار سے ستر اور چھپانے کے معنی میں ہے اور شریعت میں کفر کی حقیقت کو امام غزالی نے ایمان کی تعریف میں بیان فرمایا ہے۔ والکفر تکذیب النبیؐ فی شیئ مما جآء بہ ایک مختصر تعریف کفار کی یہ بھی ہےالذین ستروالحق عنادا یعنی جنھوں نے عناد کی وجہ سے حق کو چھپایا۔ لیکن وہ کافر ہو جانے کے لیے صرف اتنا کافی ہے۔ ضروریات دین میں سے ایک کا انکار کریں۔

خاتم النبیین

اگر نبی کریم صلی الله عليه وسلم کو مانتا ہے لیکن آخری نبی نہیں مانتے ہو، تو وہ بھی کافر ہے۔

ارکان ایمان[ترمیم]

ایمان
ایمان باللہ ایمان بالملائکہ
ایمان بالکتب ایمان بالرسالت
ایمان بالقدر ایمان بالآخرت



ایمان کے چھ ارکان ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ جبرائیل فرشتہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا:تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، روز قیامت پر اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لاؤ (صحیح مسلم)۔ نیز مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانا جیسا کہ ایمان مفصل میں ہے آمنت باللہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الاآخر والقدر خیر وشرہ من اللہ اللہ تعالیٰ والبعث بعد الموت۔

  1. * ایمان باللہ، اللہ پر ایمان
  2. * ایمان بالملائکہ، فرشتوں پر ایمان
  3. * ایمان بالکتب، آسمانی کتب پر ایمان
  4. * ایمان بالرسالت، رسولوں پر ایمان
  5. * ایمان بالآخرۃ، قیامت پر ایمان ایمان بعث بعد الموت، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانا پر ایمان
  6. * ایمان بالقدر، اچھی اور بری تقدیر پر ایمان

ایمان باللہ[ترمیم]

ایمان باﷲ، یعنی اللہ تعالیٰ کے واحد و یکتا ہونے، اس کے خالق و مالک ہونے، اس کے پروردگار اور حاجت روا ہونے، اس کے تنہا معبود برحق ہونے کا زبان سے اقرار اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اس کی تصدیق کی جائے نیز اس کے مطابق اپنے عمل وکردار کو بنایا جائے تو اس اقرار و تصدیق اور عمل کے مجموعے کا نام ایمان باﷲ ہے، جو اسلام کے بنیادی عقائد میں شامل ہے۔

ایمان بالملائکہ[ترمیم]

فرشتے اللہ کی نورانی مخلوق ہیں نہ مرد اور نہ عورت اللہ کی ذرا برابر نا فرمانی نہیں کرتے

ایمان بالکتب[ترمیم]

ایمان بالکتب یہنی اللہ کی بھیجی ھوئی نبیون مین جنھین کتاب دیے ان پر ایمان رکھنا۔جیسی کی انجیل حضرت عیسیء پر نازل ھئی۔زبور حضرت داودء پر نازل ھئی۔توریت حضرت موسئ پر نازل ھئی۔اور قران مجید اخری نبی حضرت محمد مصطفئ پر نازل کی گئی۔

ایمان بالرسالت[ترمیم]

ایمان بالرسالۃ کا مطلب ہے رسولوں پر ایمان لانا۔ اللہ رب العزت نے انسانیت کی ہدایت و رہنمائی کے لیے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے ہی رسولوں اور نبیوں کا سلسلہ شروع فرمایا ہے، سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام تھے اور سب سے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس دوران اللہ تعالی نے بے شمار انبیا کرام مبعوث فرمائے اور وہ سب انسانیت کو اللہ کی طرف بلاتے رہے۔ ایمان بالرسالۃ میں یہ بات بھی داخل ہے کہ گذشتہ انبیا کرام پر ایمان رکھا جائے۔ ایمان بالرسالۃ کا اہم ترین جزو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ایمان رکھنا بھی شامل ہے۔

ایمان بالآخرۃ[ترمیم]

اللہ رب العزت نے انسانیت کو اس دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا ہے اور زندگی گزارنے کے دو طریقے بتائے ہیں، ایک وہ راستہ جو اللہ کی مرضی کا ہے، دوسرا وہ راستہ جو نفس وشیطان کی خواہش کے مطابق ہے اور پھر اللہ نے ہر آدمی کو اختیار دیا ہے کہ وہ جس طرح چاہے زندگی گزارے، آخرت میں اس دنیا میں کیے ہوئے سب اعمال کا حساب ہوگا، کامیاب لوگوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا، جبکہ ناکام لوگوں کے لیے جہنم ہے۔

حقیقت ایمان[ترمیم]

ایمان قلب و باطن کی یقینی حالت کا نام ہے جس میں قلب و باطن دنیا کی محبت سے خالی اور اللہ کی محبت سے معمور ہوں۔ اس کی وضاحت درج ذیل حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے :

’’حضرت حارث بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گذرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا : ’’اے حارث! (سناؤ) تم نے صبح کیسے کی؟ انھوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے ایمان کی حقیقت پاتے ہوئے صبح کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حارث! غور کر کے بتاؤ تم کیا کہہ رہے ہو؟ بے شک ہر شے کی ایک حقیقت ہوتی ہے، تمھارے ایمان کی کیا حقیقت ہے؟ عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے اپنے نفس کو دنیا کی محبت سے جدا کر لیا ہے اور راتوں کو جاگ کر عبادت کرتا ہوں اور دن کو (روزے کے سبب) پیاسا رہتا ہوں گویا میں اپنے رب کے عرش کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں اور مجھے ایسے لگتا ہے جیسے جنتی ایک دوسرے کی زیارت کرتے جا رہے ہیں اور دوزخیوں کو (اس حالت میں) دیکھتا ہوں کہ وہ ایک دوسرے پر گر رہے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حارث تم عارف ہو گئے، پس اس (کیفیت و حال) کو تھامے رکھو اور یہ (جملہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا۔ ‘‘ [7]

ایمانیات کے بنیادی ذرائع و احکام اوران کے دلائل[ترمیم]

ایمانیات و عقائد کے اصول و ذرائع قرآن وسنت ہیں، اس باب میں قیاس اور اندازوں کی گنجائش نہیں ہوتی، کسی بھی بات کو ایمانیات و عقائد کا حصہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ بات اللہ اور اس کے رسول سے منقول ہو اور قرآن و سنت میں مذکور ہو، اس طرح سے کہ قرآن و سنت نے اس کو ماننے کا مطالبہ کیا ہے یا قرآن و سنت نے اس کو ماننے کی نسبت اللہ کی جانب کی ہے یا قرآن و سنت نے اس بات کے ماننے کی نسبت انبیا٫ و رسل اور ان کے پیرکاروں کی جانب کی ہے۔ وأسماء الله عز و جل تؤخذ توقيفا ولا يجوز أخذها قياسا۔[8]

وَكَيْفَ تُعْلَمُ أُصُولُ دِينِ الْإِسْلَامِ مِنْ غَيْرِ كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ؟ وَكَيْفَ يُفَسَّرُ كِتَابُ اللَّهِ بِغَيْرِ مَا فَسَّرَهُ بِهِ رَسُولُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُ رَسُولِهِ، الَّذِينَ نَزَلَ الْقُرْآنُ بِلُغَتِهِمْ؟ وَقَدْ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ». وَفِي رِوَايَةٍ: «مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ». وَسُئِلَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَفَاكِهَةً وَأَبًا}

  • مَا الْأَبُّ؟ فَقَالَ: أَيُّ سَمَاءٍ تُظِلُّنِي، وَأَيُّ أَرْضٍ تُقِلُّنِي، إِذَا قُلْتُ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا لَا أَعْلَمُ؟[9]


مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تفسیر قرطبی جلد-1، صفحہ-147
  2. مفتی احمد یار خان نعیمی، تفسیر نعیمی جلد-1، صفحہ-8
  3. مفتی امجد علی اعظمی، بہار شریعت، جلد-1، صفحہ-92
  4. ابن منظور، لسان العرب، 13:23
  5. زبيدی، تاج العروس من جواهر القاموس، 18 : 23، 24
  6. تفسیر الجزءالاخیر من القرآن لکریم، دائمی فتوی کمیٹی، سعودی عرب۔ صفحہ-61
  7. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 170، رقم : 30325
  8. اصول الدین:1/108
  9. شرح العقیدۃ الطحاویۃ لإبن أبی العز:1/114