پاکستان کے صدارتی انتخابات، 1965ء

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
پاکستان کے صدارتی انتخابات، 1965ء

2 جنوری 1965ء 1988ء ←
 
امیدوار ایوب خان فاطمہ جناح
جماعت کنونشن مسلم لیگ متحدہ حزب اختلاف کی مشترکہ امیدوار
انتخابی ووٹ 49,951 28,691
فیصد 62.43% 35.86%

صدر قبل انتخابات

ایوب خان
کنونشن مسلم لیگ

منتخب صدر

ایوب خان
کنونشن مسلم لیگ

پاکستان کی تاریخ کے دوسرے صدارتی انتخابات 2 جنوری 1965ء کو منعقد ہوئے تھے۔ ایوب خان اس دور میں کنونشن مسلم لیگ کے حمایت یافتہ تھے۔ جبکہ فاطمہ جناح کی حمایت کمبائینڈ اپوزیشن پارٹیز نامی پانچ جماعتی اتحاد کر رہا تھا۔ ان انتخابات میں بیسک ڈیموکریٹس نے فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کو ایک اور مدت کے لیے صدر منتخب کیا۔ انتخابات کے نتائج کے بعد ایوب خان پر انتخابات میں خصوصاً مشرقی پاکستان اور کراچی میں دھاندلی کے شدید الزامات بھی لگے تھے۔

پس منظر[ترمیم]

جب تاشقند میں معاہدہ طے پا رہا تھا تو بقول ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کو یہ مشورہ دیا تھا کہ ”بین الاقوامی دباؤ کے تحت یہ ضروری ہے کہ دونوں ملک اپنی اپنی فوجیں زمانہ امن کی پوزیشن پر سرحدوں پر لے آئیں لیکن کشمیر اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے تحت ایک متنازع علاقہ ہے جس کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ہی حل ہونا ہے اور یہاں عالمی سطح کی تسلیم شدہ سرحد نہیں اس لیے مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی فوجیں جہاں تک آگے بڑھ چکی ہیں وہاں نئی جنگی بندی لائن قرار دی جائے“ اور بقول ذو الفقار علی بھٹو یہاں جب اُن کے اس اعتراض کے باوجود پاکستان اور بھارت کے درمیان معاہدہ تاشقند پر دستخط ہو گئے تو ذو الفقار علی بھٹو نے اس کے تھوڑے عرصے بعد وزارت خارجہ سے استعفیٰ دے دیا اور پھر پاکستان پیپلز پارٹی بنا کر ایوب خان کے خلاف تحریک شروع کردی یہ تحریک اس لیے بھی زیادہ قوت اختیار کر گئی جب جنوری 1965 میں ایوب خان نے بنیادی جمہوریت اور صدارتی نظام کے لیے 1962 کے آئین کے تحت دوسرے انتخابات کروائے تھے۔ جس میں متحدہ حزب اختلاف نے فاطمہ جناح کو مشترکہ طور پر صدارتی امیدوار نامزد کیا تھا، بھٹو ایوب خان کی اس صدارتی انتخابی مہم میں ایوب خان کے ساتھ تھے اِن انتخابات میں بیسک ڈیموکریٹس کی تعداد دُگنی کردی گئی تھی۔

انتخابی مہم[ترمیم]

الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب کے لیے ایک ماہ کی انتخابی مہم چلانے کی اجازت دی تھی۔ لیکن جب اِسٹیبلشمنٹ کو احساس ہوا کہ عام لوگ فاطمہ جناح کو سننے کے لیے جوق در جوق آ رہے ہیں تو پھر الیکشن کمیشن نے ہر فریق کے لیے زیادہ سے زیادہ نو پروجیکشن میٹنگز منعقد کرنے کی حد لگا دی۔ جن میں صرف الیکٹورل کالج کے بیسک ڈیموکریٹس یا صحافی شریک ہو سکتے تھے۔ عوام کو ان اجلاسوں میں آنے کی ممانعت تھی۔[1]

نتیجہ[ترمیم]

عجیب بات ہے کہ ایوب خان جنہیں عام طور پر ایک لبرل اور سیکولر شخصیت سمجھا جاتا تھا انھوں نے کئی علما سے عورت کے سربراہ مملکت ہونے کے خلاف فتویٰ لیا۔ جبکہ جماعت اسلامی پاکستان نے کھل کر فاطمہ جناح کی حمایت کی۔ ایوب خان کو یہ سہولت بھی حاصل تھی کہ وہ باسٹھ کے آئین کے تحت اس وقت تک صدر رہ سکتے تھے جب تک ان کا جانشین منتخب نہ ہوجائے۔[2]

چنانچہ ایوب خان بحثیت صدر پوری سرکاری مشینری اور ہر طرح کا دباؤ برتنے کے بعد حسبِ توقع بھاری اکثریت سے فاطمہ جناح کو ہرانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں سیاسی حلقوں میں جو مایوسی پھیلی اس نے تین برس بعد ایوب خان کے خلاف بھرپور ملک گیر ایجی ٹیشن کی بنیاد رکھ دی۔[2]

محترمہ فاطمہ جناح پنجاب کے علاقے پھالیہ اور رکن سے کامیاب ہوئی تھیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Trouble with Mother". Time Magazine Friday, 25 December 1964
  2. ^ ا ب Presidential Elections آرکائیو شدہ 27 ستمبر 2007 بذریعہ وے بیک مشین

مزید دیکھیے[ترمیم]