حویطب بن عبد العزی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت حویطت ؓبن عبدالعزیٰ
معلومات شخصیت
کنیت ابو محمد

نام ونسب[ترمیم]

حویطب نام، ابو محمد کنیت، سلسلۂ نسب یہ ہے حویطب بن عبدالعزیٰ بن ابو قیس بن عبدودابن نصر بن مالک بن حسل بن عامر بن لوئی قرشی

قبل از اسلام[ترمیم]

ظہور اسلام کے وقت 60 سال کی عمر تھی، دعوتِ اسلام کے آغاز ہی سے حویطب اسلام کی طرف مائل تھے، کئی مرتبہ قبولِ اسلام کا قصد کیا،مگر ہر مرتبہ مشہور دشمنِ اسلام ابو الحکم ابن امیہ نے غیرت دلا کر روکا کہ نیا مذہب قبولِ کرکے اپنے قومی وقار اورآبائی مذہب سے دستبردار ہوجاؤ گے؟ [1] بدر میں مشرکین کے ساتھ تھے،صلح حدیبیہ کی کارروائی میں شروع سے آخر تک شریک رہے معاہدہ حدیبیہ میں شاہد تھے،یہ سب کچھ تھا؛ لیکن حویطب کو اس کا پورا یقین تھا کہ قریش کبھی آنحضرتﷺ کے مقابلہ میں کامیاب نہ ہوں گے، صلح حدیبیہ میں اس کا اظہار بھی کیا کہ قریش کو محمدﷺ سے برا ہی دیکھنا نصیب ہوگا، عمرۃ القضاء کے موقع پر جب قریش نے حدیبیہ کے معاہدہ کے مطابق 3 دن کے لیے مکہ خالی کر دیا، اس وقت حویطب اورسہیل بن عمرو مکہ ہی میں رہ گئے تھے، تاکہ تین دن کے بعد مسلمانوں سے مکہ خالی کرالیں ؛چنانچہ تین دن کے بعد رسول اللہﷺ سے کہا کہ ازروے معاہدہ تمھارے قیام کی مدت ختم ہوچلی اس لیے اب تم کو مکہ خالی کردینا چاہیے، ان کے کہنے پر آنحضرتﷺ نے اعلان فرمایا کہ غروب آفتاب تک کوئی مسلمان مکہ میں باقی نہ رہے۔ فتح مکہ کے بعد جب مشرکین کی قوتیں ٹوٹ گئیں تو حویطب بہت گھبرائے اوراپنے اہل و عیال کو محفوظ مقامات میں پہنچادیا، انھیں پہنچا کر واپس ہو رہے تھے کہ عوف کے باغ کے پاس ان کے پرانے رفیق اوریار غار مسیح الاسلام حضرت ابو زر ؓ آتے ہوئے دکھائی دیے،حویطب انھیں دیکھ کر خوف سے بھاگے ،حضرت ابوذرؓ نے آواز دی ،حویطب نے کہا تمھارے نبی آگئے!حضرت ابوذرؓ نے فرمایا تو کیا ہوا؟ حویطب نے کہا خوف و ہراس، حضرت ابوذرؓ نے کہا خوف دل سے نکال دو، تم خدا کی امان میں مامون ہو، ان تشفی آمیز کلمات سے حویطب کو اطمینان ہوا اور ابو زر کے پاس جاکر اطمینان کے ساتھ سلام کیا ابو زرؓ نے کہا، اپنے گھر چلو، حویطب نے کہا گھر تک پہنچ بھی سکتا ہوں ، مجھ کو ڈر ہے کہ گھر پہنچنے سے پہلے ہی کوئی مسلمان میرا کام تمام کردیگا گھر میں گھس کر مارڈالیگا، اس وقت میرے اہل و عیال مختلف مقاموں پر ہیں، ابوذرؓ نے کہا انھیں اکٹھا کرلو تم کو گھر تک پہنچادوں گا؛چنانچہ حویطب حضرت ابوذرؓ کے ساتھ ہو گئے، حضرت ابوذرؓ اعلان کرتے جاتے تھے کہ حویطب مامون ہیں، انھیں کوئی شخص ستانے کا ارادہ نہ کرے، اس طرح اعلان کرتے ہوئے حویطب کو بحفاظت تمام ان کے گھر پہنچا کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں آئے اور پورا واقعہ بیان کیا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم کو یہ نہیں معلوم کہ ان چند اشتہاری مجرموں کو چھوڑ کر جن کے قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ،باقی سب مامون ہیں، اس ارشاد کے بعد حویطب کو پورا اطمینان ہو گیا اور اپنے اہل و عیال کو اکٹھا کرکے گھر پہنچادیا۔ حویطب کے اطمینان کے بعد حضرت ابو زرؓ نے ان سے کہا ابو محمد یہ لیت ولعل کب تک تم تمام معاملات میں پیش پیش رہے،بھلائی کے بہت سے مواقع کھوچکے، اب بھی وقت نہیں گیا ہے، بہت کچھ باقی ہے، چلو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کر لو، آپ بڑے نیک ،بڑے صلہ رحمی کرنے والے اوربڑے حلیم ہیں ان کا شرف واعزاز عین تمھارا شرف واعزاز ہے، ابوذرؓ کے اس وعظ وپند سے متاثر ہوکر حویطب ان کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بطحاء آئے، حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ بھی موجود تھے، حویطب نے ابوذرؓ سے اسلامی سلام کا طریقہ پوچھا، انھوں نے بتایا کہ: السلام علیک ایہا النبی ورحمۃاللہ وبرکاتہ، حویطب نے اسی طرح سلام کیا ،آنحضرتﷺ نے جواب مرحمت فرمایا، سلام وجواب کے بعد حویطب نے کہا: اشہد ان لا الہ الااللہ وانک رسول اللہ،آنحضرتﷺ نے فرمایا خدا کا شکر ہے کہ اس نے تم کو اسلام کی ہدایت دی، آپ ان کے اسلام سے بہت مسرور ہوئے ،حویطب مکہ کے روساء میں تھے، آنحضرتﷺ نے ان سے قرض مانگا، انھوں نے 40 ہزار درہم قرض دیے۔ [2]

غزوات[ترمیم]

قبولِ اسلام کے بعد حنین اورطائف کے غزوات میں آنحضرتﷺ کے ساتھ شریک ہوئے، آپ نے حنین کے مالِ غنیمت میں سے سو اونٹ ان کو مرحمت فرمائے۔ [3]

وفات[ترمیم]

امیر معاویہ کے عہد خلافت میں مدینہ میں وفات پائی، وفات کے وقت 120 سال کی عمر تھی۔ [4]

معاشی حالت[ترمیم]

حویطب مکہ کے رئیس تھے مدینہ میں بھی اس کے مظاہر نظر آتے تھے اوریہاں ان کے عالیشان محلات تھے، ایک مکان امیر معاویہ کے ہاتھ 4 ہزار میں فروخت کیا تھا۔

فضل وکمال[ترمیم]

فضل وکمال کے لحاظ سے حویطب کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، گو کتبِ حدیث میں ان کی روایتیں ملتی ہیں؛ لیکن ان میں سے کسی کا سماع آنحضرتﷺ سے ثابت نہیں ہے، البتہ دوسرے کبار صحابہ سے روایتیں کی ہیں اوران سے ان کے لڑکے ابو سفیان اورعبداللہ بن بریدہ نے روایت کی ہے۔

جرأت وبے باکی[ترمیم]

حویطب نہایت جری وبے باک تھے،واقعات کے اظہار میں بڑے سے بڑے شخص کی پروانہ کرتے تھے،امیر معاویہ کے زمانہ میں مروان مدینہ کا گور نر تھا، اس کی تند خوئی مشہور ہے،ایک مرتبہ حویطب اس کے پاس گئے،اس نے طنزاً پوچھا بڑے میاں تم نے اسلام قبول کرنے میں کیوں اتنی تاخیر کی،اس شرف میں نوجوان تم سے بازی لے گئے،انھوں نے جواب دیا میں نے بارہا ارادہ کیا لیکن تمھارے باپ (ابو الحکم بن امیہ) نے ہر مرتبہ مجھ کو غیرت دلا کر روکا، یہ سچا جواب سنکر مروان چپ ہو گیا اوربہت نادم ہوا، لیکن حویطب نے اسی جواب پر بس نہیں کیا ؛بلکہ کہا تم کو بتاؤں ،تمھارے باپ نے عثمان پر اسلام کے جر م میں کیا کیا سختیاں کیں، اس اظہار حقیقت پر مروان اورزیادہ شرمسار اوررنجیدہ ہوا۔ [5]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (اسد الغابہ:2/75)
  2. (مستدرک حاکم:3/493)
  3. (ابن سعد:5/336)
  4. (اسد الغابہ:2/75)
  5. (مستدرک حاکم،جلد3:492)