حدیث سلسلۃ الذہب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حدیث سلسلۃ الذہب
فائل:حدیث سلسله الذهب.jpg
حدیث سلسلۃ الذہب کی کاشی پر خوشنویسی
حدیث کے کوائف
موضوع:توحید اور اس کے شرائط
صادر از:حدیث قدسی
اصلی راوی:پیغمبر اکرمؐ
راویان:اس روایت کے روای سب ائمہ معصومینؑ ہیں۔
اعتبارِ سند:متواتر
شیعہ مآخذ:التوحید، معانی الاخبار، عیون اخبار الرضا، روضۃ الواعظین، بشارۃ المصطفی، الامالی (شیخ صدوق)، الامالی شیخ طوسی
سنی مآخذ:ینابیع المودۃ
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب.حدیث ثقلین.حدیث کساء.مقبولہ عمر بن حنظلہ.حدیث قرب نوافل.حدیث معراج. حدیث ولایت.حدیث وصایت.حدیث جنود عقل و جہل

حدیث سِلسِلَۃ الذَّهَب توحید خداوندی اور اس کی شرائط کے بارے میں امام علی رضا سے منسوب ایک حدیث قدسی ہے جسے آپؑ نے مامون الرشید کے حکم پر مدینہ سے مرو جاتے ہوئے نیشابور کے مقام پر بیان فرمایا۔ امامؑ نے اس حدیث میں خود (امامت) کو توحید کی شرط قرار دیا ہے۔

چونکہ اس حدیث کے تمام راوی پیغمبر اکرمؐ تک معصوم‌ امام ہیں اور اس کا سلسلہ اللہ تعالی تک پہنچتا ہے اس لیے اسے "حدیث سلسلۃ الذهب" یعنی "زرّین سلسلہ" والی حدیث کہا جاتا ہے۔ بعض مورخین کے مطابق اس موقع پر 20 ہزار سے زیادہ اشخاص نے اس حدیث کو تحریر کی ہیں۔

اس حدیث کے مطابق توحید پر عقیدہ رکھنا جہنم کی آگ سے نجات کا ذریعہ ہے لیکن اس کے کچھ شرائط ہیں، امام رضاؑ نے خود کو ان شرائط میں سے ایک قرار دیا ہے۔ شیعہ علما کے مطابق اس جملے سے امام کی مراد امامت پر عقیدہ رکھنا ہے۔

حدیث کا متن اور ترجمہ[ترمیم]

اللَّه جَلَّ جَلَالُهُ یقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ حِصْنِی فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِی أَمِنَ مِنْ عَذَابِی قَالَ فَلَمَّا مَرَّتِ الرَّاحِلَةُ نَادَانَا بِشُرُوطِهَا وَ أَنَا مِنْ شُرُوطِهَا
...اللہ جل جلالہ نے فرمایا: کلمہ "لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ" میرا مظبوط قلعہ ہے، پس جو بھی میرے اس قلعہ میں داخل ہوگا وہ میری عذاب سے محفوظ رہے گا۔ جب آپ کی سواری چلنے لگی تو امام رضاؑ نے فرمایا البتہ کچھ شرائط کی ساتھ اور میں ان شرائط میں سے ہوں۔
شیخ صدوق، التوحید، 1389ق، ص25.

شیخ صدوق نے کتاب التوحید میں اسے یوں نقل کیا ہے کہ اسحاق بن راہویہ کہتا ہے: جب امام علی رضا خراسان جاتے ہوئے نیشابور کے مقام پر پہنچے اور وہاں سے مامون الرشید کی طرف کوچ کرنے کا ارادہ کیا تو نیشابور کے مُحدِّثین جمع ہوئے اور عرض کیا: یا بن رسول اللہؐ ہمیں کوئی حدیث بیان کیے بغیر ہمارے شہر سے تشریف لے جا رہے ہیں؟ محدثین کی اس فرمائش پر امام رضاؑ نے اپنا سر اونٹ کے کجاوے سے باہر نکالا اور فرمایا:

میں نے اپنے والد گرامی، موسی بن جعفرؑ سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد گرامی، جعفر بن محمّدؑ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی، محمّد بن علیؑ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی، علی بن الحسین علیہما السّلام سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی، حسین بن علیؑ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی، امیر المومنین علی بن أبی طالبؑسے سنا آپ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول خدا(ص) سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ میں نے جبرائیل سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے پروردگار عزّ و جلّ سے سنا کہ خداوند عالم فرماتے ہیں: اللَّه جَلَّ جَلَالُهُ یقُولُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ حِصْنِی فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِی أَمِنَ مِنْ عَذَابِی قَالَ فَلَمَّا مَرَّتِ الرَّاحِلَةُ نَادَانَا بِشُرُوطِهَا وَ أَنَا مِنْ شُرُوطِهَا ترجمہ:...خداوند جل جلالہ نے فرمایا: کلمہ "لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ" میرا مظبوط قلعہ ہے، پس جو بھی میرے اس قلعہ میں داخل ہوگا وہ میری عذاب سے محفوظ رہے گا۔ جب آپ کی سواری چلنے لگی تو امام رضاؑ نے فرمایا البتہ کچھ شرائط کی ساتھ اور میں ان شرائط میں سے ہوں۔[1] [2]

علت نامگذاری[ترمیم]

یہ حدیث، "حدیث سلسلۃ الذّہب" [زرّین سلسلہ] سے معروف ہے۔ یہ نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس حدیث کی سند کے اندر موجود تمام راوی معصوم ہیں یعنی امام رضاؑ نے امام موسی کاظم سے انھوں نے امام جعفر صادق سے یہاں تک کہ یہ سلسلہ ہمارے پہلے امام، امام علی تک پہنچتا ہے اور حضرت علیؑ نے اس حدیث کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اور پیغمبر اکرم(ص) نے اسے جبرئیل کے توسط سے خود خداوند عالم سے نقل کیا ہے۔ اسی لیے یہ حدیث، احادیث قدسی میں بھی شمار ہوتا ہے۔ [3]

شرح[ترمیم]

شیخ صدوق امام رضاؑ کے کلام کو اپنی کتاب توحید میں نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: امامؑ کے کلام کے معنی یہ ہے کہ کلمہ "لا إِلهَ إِلَّا اللَّهُ" کی قبولیت کی شرط میری امامت پر اقرار کرنا ہے اور یہ اقرار کرنا کہ میں خدا کی جانب سے منصوب امام ہوں جس کی اطاعت اور فرماں برداری واجب ہے۔ [4]

کتابت[ترمیم]

امام علی رضا کے نیشابور پہنچنے کے بعد ابو زرعہ رازى اور محمد بن اسلم طوسى سمیت محدثین اور راویوں کی بے شمار تعداد امامؑ کے ہاں آتے ہیں اور آپؑ سے درخواست کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کوئی حدیث نقل کریں۔ اس وقت امامؑ نے مذکورہ حدیث کا متن ان کے لیے بیان فرمایا۔ بعض تاریخی منابع کے مطابق جنھوں نے اس موقع پر اس حدیث کو لکھا ان کی تعداد 20 ہزار سے بھی زیادہ تھی۔ ایک اور قول کی بنا پر یہ تعداد 24 ہزار تک پہنچتی ہے۔[5]

اہل سنت مآخذ میں[ترمیم]

اہل سنت منابع میں بھی یہ حدیث موجود ہے اور ان میں سے اکثر منابع میں " وانا من شروطها" کا جملہ بھی موجود ہے [6] حتی اہل سنت کے بعض منابع میں میں آیا ہے کہ اس حدیث کو اگر کسی مجنون پر پڑھی جائے تو اسے جنون سے افاقہ ملے گا۔ [7] ابن صباغ مالکی ضمن اس حدیث کو بیان کرنے کے ضمن میں اس کی عظمت اور بزرگی کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔[8]

متعلقہ صفحات[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ابن بابویہ، کتاب التوحید، ص49.
  2. صدوق، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، ص21-22.
  3. صدوق، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، ص22.
  4. صدوق، التوحید، ص25.
  5. أعيان الشيعۃ، محسن الأمين ،ج2،ص:18
  6. ینابیع المودہ، ص 364، فيض القدير، ص 489،490
  7. الصواعق المحرقۃ،اص 205
  8. الفصول المہمّۃ ص253 و 254

مآخذ[ترمیم]

  • ابن حجر ہیتمی مکی، احمد (974ق)، صواعق المحرقہ، شرکہ الطباعہ الفنیہ المتحدہ فی مصر، قاهرہ، چاپ دوم، 1385ق.
  • ابن صباغ مالکی، علی بن محمد بن احمد (855ق)، الفصول المہمہ فی معرفہ احوال الائمہ علیہم السلام، موسسہ اعلمی، تہران، چاپ دوم.
  • امین، سید محسن، أعیان الشیعۃ، دار التعارف، بیروت، 1403ق.
  • صدوق، محمد بن علی، التوحید، محقق: ہاشم حسینی، قم، جامعہ مدرسین، 1398ق.
  • صدوق، محمد بن علی، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، ترجمہ علی اکبر غفاری، چ1، تہران: صدوق، [بی‌تا].
  • قندوزی حنقی، سلیمان بن إبراہیم، ینابیع المودّۃ، دار العراقیۃ ـ الکاظمیۃ، و انتشارات محمّدی، قم، چاپ ہشتم، 1385ق.
  • مناوی، عبد الرئوف، فیض القدیر فی شرح جامع الصغیر، دار الفکر، بیروت، 1391ق، چاپ دوم.